یہی نقطہ آج ہم بھلا بیٹھے ہیں
ہمارے معاشرے میں اکثر ایسے غلط فہم افراد دیکھنے میں آتے ہیں کہ جو متعدد بار حج کرنے کی بدولت الحاج ۔۔۔۔
مرزا صاحب متعدد حج کرچکے ہیں، گزشتہ دنوں جب ان سے سامنا ہوا تو میں نے حاجی صاحب کہہ کر انھیں مخاطب کیا، میرا خیال تھا کہ اس عزت افزائی پر مرزا صاحب مسرت کا اظہار کریں گے لیکن خلاف توقع ان کے ماتھے پر بل، چہرے پر خفگی اور لہجے میں ترشی نمودار ہوگئی، موصوف بڑے کرخت لب و لہجے کے ساتھ برس پڑے ''ارے میاں! الحاج کہیے الحاج! ہم نے ایک حج تھوڑا ہی کیا ہے، متعدد بار باکثرت حج کیے ہیں اور یہ کوئی معمولی بات نہیں!'' باکثرت حج اور اس پر اتنا فخر۔ میری سمجھ سے تو بالاتر۔
لیکن کیوں؟ وجہ صاف ظاہر ہے اور قابل غور بھی، نیز اس میں باحکمت دعوت فکر پوشیدہ ہے، پس دین کی درست فہم و ادراک اور شعور و آگہی کی ضرورت ہے، آپ بھی ملاحظہ فرمائیے اور ذرا سوچیے کیونکہ غوروفکر ہی اسلام کا خاصہ ہے اور اسلام کا مقصد عبادت ایثار و محبت، ہمدردی و خیر خواہی ہے۔
حج دین اسلام کا پانچواں رکن ہے، قرآن و سنت میں حج کا مقام اور عظمت و اہمیت پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے، حج بندوں پر خدا کا حق ہے اور جو لوگ استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتے وہ ''ظالم'' خدا کا حق مارتے ہیں، استطاعت کے باوجود حج نہ کرنا کافرانہ روش ہے، ہر صاحب حیثیت جو سفر حج کے جملہ اخراجات اور اہل خانہ کے نان و نفقے پر قدرت رکھتا ہو لازم ہے کہ زندگی میں ایک بار فریضہ حج کی سعادت حاصل کرے۔ حج کی اہمیت کے پیش نظر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے طرح طرح سے اس کی ترغیب دی اور غیر معمولی فضیلت بیان فرمائی۔ فرمایا: ''مجھ سے حج کا طریقہ سیکھ لو'' مزید فرمایا: ''حج اور عمرہ کرنے والے اللہ کے مہمان ہیں۔''
حج تمام عبادات میں جامع ترین عبادت ہے اور یہ گویا تمام اسلامی عبادات کا مجموعہ ہے اسی لیے حج کو انتہائی افضل مقام حاصل ہے، حج کے موقع پر دنیا بھر کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے مسلمان ایک مرکز ''مکہ مکرمہ'' میں جمع ہوتے اور عالمگیر اخوت کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں لہٰذا حج بنیادی طور پر عالمگیر اثرات کی حامل عبادت کا نام بھی ہے جس کی بدولت مسلمان پوری دنیا میں عالمگیر اثرات مرتب کرتے نظر آتے ہیں۔
حدیث شریف کے مطابق حج میں خرچ کرنا ایسا ہے جیسے جہاد میں خرچ کرنا اور جہاد میں ایک درہم خرچ کرنے کا ثواب سات درہم خرچ کرنے کے برابر ہے۔اسلام چونکہ دین فطرت ہے لہٰذا اس عظیم دین کا ہر اصول اور ہر ایک رکن اپنے دامن میں ہمہ گیر خصوصیات، خوبیاں اور اثرات رکھتا ہے، ہر ایک کا اپنا اپنا درجہ و مقام ہے اسی طرح سے یہ بات بھی غور طلب ہے کہ ہم رضائے الٰہی کے حصول کی خاطر جتنے بھی اعمال انجام دیتے ہیں وہ بھی مختلف درجات کے حامل ہوتے ہیں اور تمام اعمال درجات کے اعتبار سے برابر نہیں ہوتے۔
اسی طرح سے یہ اہم بات بھی سمجھ لیجیے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق جو فرائض ہم پر لاگو ہوتے ہیں وہ دراصل دو حصوں میں تقسیم ہیں ایک حقوق اللہ اور دوسرے حقوق العباد اور اسلام کی رو سے حقوق العباد کا معاملہ حقوق اللہ سے بھی شدید تر ہے۔ عموماً دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ اکثر لوگ حقوق اللہ کا تو خیال رکھتے ہیں لیکن حقوق العباد کو قطعی نظر انداز کردیتے ہیں حالانکہ حقوق العباد کی پامالی وہ گناہ ہے جسے اللہ بھی اس وقت تک معاف نہیں فرماتا کہ جب تک وہ مظلوم انسان خود ظالم کو معاف نہ کردے۔
ہمارے معاشرے میں اکثر ایسے غلط فہم افراد دیکھنے میں آتے ہیں کہ جو متعدد بار حج کرنے کی بدولت الحاج کا درجہ رکھتے ہیں اور ان کا یہ عمل بظاہر تو اللہ کی رضا اور اپنے گناہوں کی بخشش کے لیے ہوتا ہے تاہم وہ حقوق العباد کی پامالی کے سبب اس کے حصول میں ناکام رہتے ہیں اور اس بات کا ان کو احساس اور اندازہ بھی نہیں ہوتا، حالانکہ انسانیت کی خدمت ان کے متعدد بار حج سے افضل ہے پس بصیرت کی ضرورت ہے۔چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ ''آخری زمانے میں لوگ بلاوجہ کثرت سے حج کریں گے۔ ان کے لیے سفر انتہائی آسان ہوگا اور مال و دولت کی فراوانی ہوگی۔
ان میں سے ایک شخص ریگستان اور بے آب و گیاہ زمین میں اپنا اونٹ دوڑائے گا اور حج کا سفر کرے گا، حالانکہ اس کا پڑوسی بدحال ہوگا اور وہ اس کی غم خواری نہ کرے گا۔''لہٰذا علما فرماتے ہیں کہ ''اللہ رب العزت فرض کی ادائیگی سے قبل نوافل کو قبول نہیں کرتا اور جو شخص فرض کی ادائیگی کے بعد نفل کی فرصت نہ پائے تو وہ معذور ہے، لیکن جس شخص کی نفل میں مشغولیت اسے فرض سے محروم کردے وہ مغرور ہے'' یہی نقطہ آج ہم بھلا بیٹھے ہیں۔
سیرت نبویؐ کے مطالعے سے بھی ہمیں آپؐ کی پوری حیات طیبہؐ میں ایک حج کی ادائیگی کی شہادت ملتی ہے باقی تمام حیات طیبہؐ انسانیت کی خدمت سے عبارت ہے۔ دراصل اسلام ترجیحات کے تعین کی حکمت سے بھرپور تعلیمات سے مالا مال دین ہے پس آج ہمیں صحیح اسلامی بصیرت اور دین کی درست معرفت کی اشد ضرورت ہے۔