سرجوڑ کر بیٹھیں…
انگریز سامراج اور ہندوئوں کی ریشہ دوانیوں کے ساتھ ساتھ کچھ نام نہاد مسلمان لیڈروں سے نبرد آزماہوتے ہوئے ۔۔۔۔
JEDDAH:
طویل محنت اور مستقل مزاجی سے کام کرتے ہوئے برصغیر کے مسلمانوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کی راہنمائی میں 14 اگست 1947 کو بے شمار قربانیوں کے بعد پاکستان حاصل کیا جسے آج 67 برس گزر چکے ہیں۔ یوں قائد اعظم نے پاک و ہند میں بسنے والے مسلمانوں کے حقوق کے لیے جس سیاسی جد وجہد کا آغاز کیا تھا بالآخر وہ اپنے منطقی انجام کو پہنچی۔
انگریز سامراج اور ہندوئوں کی ریشہ دوانیوں کے ساتھ ساتھ کچھ نام نہاد مسلمان لیڈروں سے نبرد آزماہوتے ہوئے انھوں نے قوم کو آزادی کا ایسا تحفہ دیا جس کا اس وقت صرف تصور ہی کیا جاسکتا ہے۔ لیکن افسوس کہ ہم نے تاریخ سے کیا سیکھا، برصغیر میں مسلمانوں کی کم و بیش ہزار سال تک حکومت رہی لیکن برطانوی تسلط کے بعد مسلمان سیاسی، سماجی اور تعلیمی میدان میں استحصال کا شکار رہے، باوجود اس کے قائد اعظم کی قیادت نے اس خلاء کو نہ صرف پر کیا بلکہ اسی قیادت نے دنیائے عالم میں ایک تاریخ رقم کی جس کی تصویر پاکستان کی صورت میں دنیا نے دیکھی۔
المیہ یہ ہے کہ آج پاکستان میں ہمیں کوئی ایسی مناسب سیاسی قیادت نظر نہیں آرہی جو ہماری مناسب راہنمائی کرسکے۔ رہی سہی کسر بار بار کی آمرانہ مداخلت نے پوری کردی جس کی وجہ سے قوم مایوسی کا شکار ہوچکی ہے۔ اس پر ایک ستم اور یہ کہ فرقہ واریت، لسانیت، دہشت گردی اور صوبائی منافرت نے اپنے پنجے مضبوطی سے گاڑھ لیے۔ اس کے علاوہ وڈیرہ ازم، چوہدراہٹ اور سرداری نظام جو صرف اپنے اپنے حلقوں تک محدود رہا۔ آج پورے ملک کو اپنی ذاتی جاگیر اور ریاست میں بسنے والے عوام کو اپنی رعایا سمجھ بیٹھا ہے۔
حقیقت حال یہ ہے کہ ملک میں الیکشن کے ذریعے منتخب ہونے والی حکومت کو عوامی حکومت کا اعزاز ہونا چاہیے مگر آج وہ صرف اور صرف پارلیمنٹ تک ہی محدود ہوچکی ہے، پارلیمنٹ جسے اس بات پر غور کیا جانا چاہیے تھا کہ ہماری کمزوریاں کیا ہیں؟ یہ نوبت آئی اور کیوں آئی؟ لیکن وہ صرف جمہوریت بچائو، اقتدار بچائو، حکومت بچائو تقاریر ہوئیں، ایک دوسرے پر الزام تراشیاں ہوئیں، جوائنٹ سیشن یہ غور نہیں کرسکا کہ کمزوری کی اصل وجہ کیا ہے؟ جولائی سے لے کر تا حال اگر سیاسی قیادت صرف اور صرف عوامی طاقت کے ذریعے پارلیمنٹ میں موجود ہوتی تو شاید اس مسئلے کا حل نکالنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔
اگر ہم دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ جتنا نقصان اس ملک کو آمریت نے پہنچایا ہے اتنا ہی سیاسی قیادت نے بھی۔ یوں فریقین کا حصہ برابر کا ہے۔ کیوں کہ اگر سیاسی قیادتیں ایک دفعہ کڑوا گھونٹ پی کر بلدیاتی نظام قائم کردیتیں اور ان میں جائز اور عوامی فلاحی کاموں کو جاری رکھا جاتا تو ہمیں آج کسی انقلابی مارچ، آزادی مارچ اور لانگ مارچ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بے ایمان اور کرپٹ لوگ خود ہی کونسلر کی سطح سے آگے نہیں بڑھ پاتے۔ یہ سب جانتے ہوئے اس مسئلے کو سنجیدگی سے کیوں نہیں لیا گیا۔
اس کی بڑی وجہ سب کو معلوم ہے کہ وڈیرہ شاہی و افسر شاہی نے اس ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے میں کوئی کسر روا نہیں رکھی، یہی وجہ ہے کہ شاید عوام انقلاب یا آزادی مارچ کے ساتھ امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ایک نیا بیان، پھر اس پر تبصرے، تجزیے اب روز کا معمول بن چکے ہیں جب کہ حل صفر ہی نکلتا ہے۔ کیا ہماری ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہے؟ آخر کب تک یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔؟ اسی لیے ہمیں اب واپس اسی راستے کی جانب لوٹنا پڑے گا جسے بانی پاکستان نے 11 ستمبر 1948 کو چھوڑا تھا یعنی عوامی قیادت جس میں ایمانداری، خلوص اور جذبہ شامل ہو۔ ہمیں پھر سے تاریخ کے بند دریچے کھولنے ہوں گے۔
پھر وہیں سے اپنے سفر کا آغاز کرنا ہوگا۔ یہاں پر مجھے ہیلری کلنٹن کا وہ جملہ یاد آتا ہے جس میں اس نے کہا تھا کہ سیاست دان اگلے الیکشن کا سوچتے ہیں اور لیڈر آنے والی قوم کا۔ آج اس نظام کو بدلنے کے لیے جس طرح کی تحریکیں چل رہی ہیں ان کو دیکھ کر یہ اندازہ کرنا بہت آسان ہے کہ یہ سب اگلے الیکشن کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ کیوں کہ سب کو ہی جمہوریت عزیز ہے، اس کو ڈی ریل نہیں کرنا چاہتے چاہے ریل کا بھٹہ بیٹھ جائے یا ملک ہی ڈی ریل ہو لیکن افسوس یہ نام نہاد جمہوریت ڈی ریل نہ ہو۔
اس ملک کے تمام کلب ممبران جس میں اعلیٰ ادارے، وکلا اور دیگر کلب ممبران شامل ہیں وہ دیکھ رہے ہیں کہ قوم دو ماہ سے ایک کرب میں مبتلا ہے، معیشت کا پہیہ رک کر چل رہا ہے، ہمارے پڑوس میں ترقی ہو رہی ہے، نئے نئے معاہدے ہو رہے ہیں جب کہ ہم تنہائی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔
اس وقت ملک کے تمام کلبز ممبران کو اس مسئلے کے لیے سنجیدگی سے سوچنا ہوگا اور ایسا پائیدار حل نکالنا ہوگا جس میں انصاف پر مبنی معاشرہ تشکیل پاسکے تاکہ عوام کو انصاف مل سکے ورنہ اگر سب یہی سوچتے رہے کہ یہ سیاست دانوں کا مسئلہ ہے تو اس پوزیشن میں کوئی سیاست دان نظر نہیں آتا کہ وہ اس مسئلے کو حل کرسکے۔ ملک کو ڈی ریل ہونے سے پہلے ہی ترقی کی ریل پر گامزن کرسکیں اور اس کا ریورس گیئر نکال دیں۔ آئین کی تمام شقوں کا اطلاق لازمی قرار دیاجائے۔جب تک ملک کے اعلیٰ حکام سر جوڑ کر نہیں بیٹھیںگے اور اپنی 66 سالہ تاریخ پر غور نہیں کریںگے اس وقت تک نہ انقلاب آئے گا اور نہ ہی نیا پاکستان بنے گا۔