بات کچھ اِدھر اُدھر کی خبردار تمباکو نوشی صحت کیلئے مضر ہے
سگریٹ سکون نہیں دیتا، بس یہ تسلی دیتا ہے کہ دنیا میں جلنے اور سلگنے والے صرف اکیلے ہم نہیں ہیں۔
تمباکو نوشی دل کے لئے انتہائی مضر ہے، لہٰذا اس سے گریز کیا جائے۔ہم تو چار و ناچار گریز کرنا چاہتے ہیں مگر کیا کریں حضور! جب آپ کا ادیب سگریٹ کو محبوبہ پرترجیح دیتا ہو تو پھر سگریٹ سے دوری کیسے اختیار کی جائے ۔ اجی ہمارا تو اب عقیدہ ہی یہ ہے کہ؛
سگریٹ کا اصل فلسفہ تو ''عمیرہ احمد''نے بیان کیا ہے کہ؛
جب دل جل رہا ہو تو اس کا ساتھ نبھانے کیلئے کسی کو تو ساتھ سلگنا چاہئے۔اگر سگریٹ دل کے روگ کو جنم دیتا ہے تو دل کے روگ میں تشفی بھی یہی دیتا ہے۔سگریٹ تو دل کے امراض کو دفع کرتا ہے۔ سوچ کے دریچوں کو کھولتا ہے، ذہن کشادہ کرتا ہے۔آپ نامور اور عظیم لوگوں کی فہرست اٹھا کر دیکھ لیں اور ہمیں بتائیے کہ کون کون تمباکو نوشی نہیں کرتا تھا؟ نہر و سے اقبال و قائد تک سب حقہ، سگار اور سگریٹ وغیرہ پیتے تھے۔بھٹو، بگٹی، مشرف اور شیخ رشید سب سگار کے بہت بڑے رسیا تھے۔ شیخ رشید کا تو دھرنے میں جانے کیلئے کل سامان ہی دو ڈبیاں سگار تھا۔امریکی صدراوباما تو اب تک سگریٹ سے اپنی جان نہیں چھڑا سکے۔ ادیبوں میں دیکھیں تو جالبؔ ،منٹو، فیضؔ ، فرازؔ سبھی نے اپنی اپنی محبوباؤں کا غم اسی سے غلط کیا اور ساغرؔ صدیقی کا تو خیر ذکر ہی کیا۔ کہتے ہیں کہ ساغرؔ صدیقی نے تو اپنا شہرہ آفاق شعر
بھی سگریٹ کی ڈبی پر ہی لکھ کر دیا تھا۔اکثر لوگوں کو ساغر صاحب سگریٹ کے عوض شعر لکھ دیا کرتے تھے۔ اس دور میں تو اکثر شعرا نے سگریٹ کے چند ڈبیوں کے عوض اپنا اپنا دیوان بھی مکمل کرلیا تھا لیکن خیر چھوڑیے ہم کہاں ادبی سرقہ کے قصے لے بیٹھے ، بات تو سگریٹ کی ہو رہی تھی۔آپ ڈھونڈنا شروع کیجئے ہر گھر میں آپ کو کوئی نہ کوئی سگریٹ کا دلدادہ مل جائے گا۔اس کی وجہ بھی شاید یہ ہے کہ ہم بچپن سے ہی سگریٹ کو اپنی زندگیوں میں شامل دیکھتے ہیں۔اب تو سگریٹ کے دھویں کی اس قدر عادت ہو چکی ہے کہ کسی پُر فضا مقام پر جا کر سانس گھٹنے لگتا ہے۔
ہمارے بچپن میں تو ٹی وی پر بھی سگریٹ کا اشتہار چلا کرتا تھا اوراس اشتہار میں ہمیشہ ایک ہی بات دکھائی جاتی تھی کہ سگریٹ پینے والے ہی جان جوکھوں والا کام کیا کرتے ہیں۔مگر پھر سرکار کو نجانے کیا سوجھی کہ سگریٹ کے اشتہار پر پابندی لگا دی۔ مجھے حیرانی اشتہار پر پابندی لگنے کی نہیں ہے بلکہ اس بات پرہے کہ اگر سگریٹ درآمد کرنے پر کوئی پابندی نہیں تو پھر اشتہارکیوں ممنوع ہے؟ کسی دور میں تمباکو نوشی اور نشے کے خلاف ''انکار'' ڈرامہ بنایا گیا تھا مگر اس ڈرامے میں سگریٹ پینے کے انداز کو اس قدر ''فیسی نیٹ'' کر کے پیش کیا گیا کہ بیشتر نوجوانوں نے اس ڈرامے کو دیکھنے کے بعد سگریٹ نوشی شروع کر دی۔ چند سال قبل بھارت نے بھی ''نو سموکنگ '' کے نام سے ایک فلم بنائی تھی مگر اس نے بھی سگریٹ کی شان میں ہی اضافہ کیا۔
جب ''سگرہٹ کے دھویں کا چھلا بنا کر۔۔۔ کالر کو تھوڑا سا اوپر چڑھا کر '' جیسے گانوں میں سگریٹ کی قصیدہ خوانی کی جائے گی تو نوجوان نسل تو سگریٹ کی جانب مائل ہو گی ہی۔ اب تو سگرٹ نوشی نوجوان نسل کی ضرورت بن چکی ہے اگر آپ کو انہیں سگریٹ سے دور رکھنا ہے تو حضور والا! پہلے دل جلے حضرات کیلئے کوئی بندوبست کیجئے پھر سگریٹ کی مذمت کیجئے گا۔ اجی اور کچھ نہیں تو بے وفائی پر ہی کوئی تعزیر مقرر کر دیں، کچھ تو افاقہ ہو گا۔
سگریٹ نوشی کا ہماری زندگیوں میں اس قدر اثر ورسوخ ہونے کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ ہم اپنے بچوں کو بھی شروع سے ہی بالواسطہ طور پر اس چیز کی ترغیب دیتے ہیں۔ ان کے سامنے بیٹھ کر سگریٹ سلگاتے ہیں ، جسے وہ بعد میں کاپی کرنا چاہتے ہیں پھر ہم ان کے ذہن میں ایک یہ بات بھی بٹھا دیتے ہیں کہ سگریٹ ''بڑوں'' کے پینے کی چیز ہے اسی لئے اکثر بچے صرف بڑے ہونے کے شوق میں اس لت کا شکار ہو جاتے ہیں۔
فلموں ، ڈراموں حتیٰ کہ کارٹونز میں بھی سگریٹ نوشی عام ہے اور بچے انہی چیزوں سے اثرلیتے ہیں۔''پوپائے'' کا مشہور زمانہ سگارکسے یاد نہیں۔ اب بچے اگر بہادر پوپائے کی نقل نہیں کریں گے تو پھر کس کی کریں گے؟ اور صرف پوپائے ہی کیوں؟ آپ انٹرنیٹ پر سرچ کیجئے ، آپ کو ٹام اینڈ جیری ، پناکو، جم کروسمیت دو درجن کے قریب کارٹون کریکٹرز تمباکو نوشی کرتے نظر آئیں گے۔جب آپ بچوں کے کارٹونز میں بھی سگریٹ اور سگار دکھائیں گے تو پھرآپ نے یہ کیسے مان لیا کہ محض سگریٹ کی ڈبی پر یہ لکھوا دینے سے کہ'' خبردار! تمباکو نوشی صحت کے لئے مضر ہے'' آپ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو گئے ہیں؟
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
''سگریٹ اور محبوبہ میں سے ایک چیز کو چننا پڑے تو بلا تامل سگریٹ کا انتخاب کرنا،کم از کم آخر تک ساتھ تو نبھاتا ہے''۔
سگریٹ کا اصل فلسفہ تو ''عمیرہ احمد''نے بیان کیا ہے کہ؛
''سگریٹ سکون نہیں دیتا، بس یہ تسلی دیتا ہے کہ دنیا میں جلنے اور سلگنے والے صرف اکیلے ہم نہیں ہیں۔(دربارِدل)''۔
جب دل جل رہا ہو تو اس کا ساتھ نبھانے کیلئے کسی کو تو ساتھ سلگنا چاہئے۔اگر سگریٹ دل کے روگ کو جنم دیتا ہے تو دل کے روگ میں تشفی بھی یہی دیتا ہے۔سگریٹ تو دل کے امراض کو دفع کرتا ہے۔ سوچ کے دریچوں کو کھولتا ہے، ذہن کشادہ کرتا ہے۔آپ نامور اور عظیم لوگوں کی فہرست اٹھا کر دیکھ لیں اور ہمیں بتائیے کہ کون کون تمباکو نوشی نہیں کرتا تھا؟ نہر و سے اقبال و قائد تک سب حقہ، سگار اور سگریٹ وغیرہ پیتے تھے۔بھٹو، بگٹی، مشرف اور شیخ رشید سب سگار کے بہت بڑے رسیا تھے۔ شیخ رشید کا تو دھرنے میں جانے کیلئے کل سامان ہی دو ڈبیاں سگار تھا۔امریکی صدراوباما تو اب تک سگریٹ سے اپنی جان نہیں چھڑا سکے۔ ادیبوں میں دیکھیں تو جالبؔ ،منٹو، فیضؔ ، فرازؔ سبھی نے اپنی اپنی محبوباؤں کا غم اسی سے غلط کیا اور ساغرؔ صدیقی کا تو خیر ذکر ہی کیا۔ کہتے ہیں کہ ساغرؔ صدیقی نے تو اپنا شہرہ آفاق شعر
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس دور کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے
بھی سگریٹ کی ڈبی پر ہی لکھ کر دیا تھا۔اکثر لوگوں کو ساغر صاحب سگریٹ کے عوض شعر لکھ دیا کرتے تھے۔ اس دور میں تو اکثر شعرا نے سگریٹ کے چند ڈبیوں کے عوض اپنا اپنا دیوان بھی مکمل کرلیا تھا لیکن خیر چھوڑیے ہم کہاں ادبی سرقہ کے قصے لے بیٹھے ، بات تو سگریٹ کی ہو رہی تھی۔آپ ڈھونڈنا شروع کیجئے ہر گھر میں آپ کو کوئی نہ کوئی سگریٹ کا دلدادہ مل جائے گا۔اس کی وجہ بھی شاید یہ ہے کہ ہم بچپن سے ہی سگریٹ کو اپنی زندگیوں میں شامل دیکھتے ہیں۔اب تو سگریٹ کے دھویں کی اس قدر عادت ہو چکی ہے کہ کسی پُر فضا مقام پر جا کر سانس گھٹنے لگتا ہے۔
ہمارے بچپن میں تو ٹی وی پر بھی سگریٹ کا اشتہار چلا کرتا تھا اوراس اشتہار میں ہمیشہ ایک ہی بات دکھائی جاتی تھی کہ سگریٹ پینے والے ہی جان جوکھوں والا کام کیا کرتے ہیں۔مگر پھر سرکار کو نجانے کیا سوجھی کہ سگریٹ کے اشتہار پر پابندی لگا دی۔ مجھے حیرانی اشتہار پر پابندی لگنے کی نہیں ہے بلکہ اس بات پرہے کہ اگر سگریٹ درآمد کرنے پر کوئی پابندی نہیں تو پھر اشتہارکیوں ممنوع ہے؟ کسی دور میں تمباکو نوشی اور نشے کے خلاف ''انکار'' ڈرامہ بنایا گیا تھا مگر اس ڈرامے میں سگریٹ پینے کے انداز کو اس قدر ''فیسی نیٹ'' کر کے پیش کیا گیا کہ بیشتر نوجوانوں نے اس ڈرامے کو دیکھنے کے بعد سگریٹ نوشی شروع کر دی۔ چند سال قبل بھارت نے بھی ''نو سموکنگ '' کے نام سے ایک فلم بنائی تھی مگر اس نے بھی سگریٹ کی شان میں ہی اضافہ کیا۔
جب ''سگرہٹ کے دھویں کا چھلا بنا کر۔۔۔ کالر کو تھوڑا سا اوپر چڑھا کر '' جیسے گانوں میں سگریٹ کی قصیدہ خوانی کی جائے گی تو نوجوان نسل تو سگریٹ کی جانب مائل ہو گی ہی۔ اب تو سگرٹ نوشی نوجوان نسل کی ضرورت بن چکی ہے اگر آپ کو انہیں سگریٹ سے دور رکھنا ہے تو حضور والا! پہلے دل جلے حضرات کیلئے کوئی بندوبست کیجئے پھر سگریٹ کی مذمت کیجئے گا۔ اجی اور کچھ نہیں تو بے وفائی پر ہی کوئی تعزیر مقرر کر دیں، کچھ تو افاقہ ہو گا۔
سگریٹ نوشی کا ہماری زندگیوں میں اس قدر اثر ورسوخ ہونے کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ ہم اپنے بچوں کو بھی شروع سے ہی بالواسطہ طور پر اس چیز کی ترغیب دیتے ہیں۔ ان کے سامنے بیٹھ کر سگریٹ سلگاتے ہیں ، جسے وہ بعد میں کاپی کرنا چاہتے ہیں پھر ہم ان کے ذہن میں ایک یہ بات بھی بٹھا دیتے ہیں کہ سگریٹ ''بڑوں'' کے پینے کی چیز ہے اسی لئے اکثر بچے صرف بڑے ہونے کے شوق میں اس لت کا شکار ہو جاتے ہیں۔
فلموں ، ڈراموں حتیٰ کہ کارٹونز میں بھی سگریٹ نوشی عام ہے اور بچے انہی چیزوں سے اثرلیتے ہیں۔''پوپائے'' کا مشہور زمانہ سگارکسے یاد نہیں۔ اب بچے اگر بہادر پوپائے کی نقل نہیں کریں گے تو پھر کس کی کریں گے؟ اور صرف پوپائے ہی کیوں؟ آپ انٹرنیٹ پر سرچ کیجئے ، آپ کو ٹام اینڈ جیری ، پناکو، جم کروسمیت دو درجن کے قریب کارٹون کریکٹرز تمباکو نوشی کرتے نظر آئیں گے۔جب آپ بچوں کے کارٹونز میں بھی سگریٹ اور سگار دکھائیں گے تو پھرآپ نے یہ کیسے مان لیا کہ محض سگریٹ کی ڈبی پر یہ لکھوا دینے سے کہ'' خبردار! تمباکو نوشی صحت کے لئے مضر ہے'' آپ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو گئے ہیں؟
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔