پاکستان ایک نظر میں خان صاحب خیبرپختونخواہ میں یہ کیا ہورہا ہے
خان صاحب اگر ترقی یافتہ ممالک میں میڑوبس اور میڑوٹرین جیسے منصوبے چل رہے ہیں تو کیا وہ سب بھی غلط ہیں؟
میڑو بس کیوں بن رہی ہے،کیسے بن رہی ہے،کتنے خرچ آ رہا ہے،اور کون بنا رہا ہے۔ یہ سب باتیں اب نہیں ،پہلے ہو رہی تھیں جب میڑو بس سروس لاہور میں پنجاب حکومت بنا رہی تھی اور شاید ہی کوئی ایک تنقید ہو جو اِس منصوبے پر تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے نہیں کی گئی ہو۔ گویا ہر بات کا آغاز اور اختتام صرف میڑو بس پر تنقید پر ہو ہوتا تھا ۔
اِس جوش وخطابت میں شاید یہ بھی نہیں سوچا گیا کہ حکومت کی جانب سے جاری منصوبہ عوام کے مفاد میں ہے بھی یا نہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ عمران خان سے ایک پروگرام میں پوچھا گیا کہ اگر وفاقی حکومت خیبر پختونخواہ میں میٹرو بس کے پروجیکٹ کا آغاز کرے گی تو کیا آپ اُس کی حمایت کرینگے تو اُس کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم حمایت نہیں بلکہ ہم تو بھرپور احتجاج کرینگے کہ سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ ہمارے ہاں یہ ایک روایت بن چکی ہے کہ ہم اپنی سیاست کو چمکانے کے لئے ہمیشہ حکومت پر خود تنقید کرتے ہیں،اور اس تنقید سے ہی عوام کو اپنی جانب راغب کیا جاتا ہے۔پنجاب حکومت تو میڑوبس منصوبہ لاہور میں بنا چکی اور دوسرا منصوبہ اسلام آباد میں جاری ہے۔
مگر جناب اب کیا کہیے کہ جس منصوبے پر خیبر پختوانخوہ میں حکمراں جماعت کی قیادت صبح شام تنقید کرتی تھی اب اُسی خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلی اِس منصوبے کو شروع کرنے کا ارادہ کر بیٹھے ہیں۔ شاید وہاں کی حکومت کو بھی اب یاد آ گیا کہ پشاور میں عوام کو سفری سہولت دے دینی چائیےاو رپشاورکی عوام کو لوکل بسوں،رکشوں،سے آزادی ملنی چائیے۔اور یہ بالکل وہ ہی اساس ہے جو ایک ڈیڑھ،دو سال پہلے پنجاب حکومت کے وزیراعلی شہباز شریف کو ہو ا تھا۔ پشاور میں جس میڑو بس منصوبے کا آغاز کیا جا رہا ہے اس پر چودہ ارب کی لاگت کا بتا یا جا رہا ہے۔اور یہ میڑو بس ناصرپور سے حیات آباد تک26کلو میڑ پر مختص سفر پر چلے گی۔اس منصوبے کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا جس میں پہلا حصہ چھ ماہ کی مدت میں مکمل کیا جا ئے گااور دوسرا نوماہ کی مدت میں اور اس پورے منصوبے کو کے پی کے حکومت ایک سال میں مدت میں مکمل کرنے کی خواہش رکھتی ہے۔ جس سے پشاور کے ہزاروں شہریوں کو بہترین سفری سہولت میسر ہو گی۔
یہ سب باتیں تو اپنی جگہ مگر میں تو پریشان ہوں کہ کیا پرویز خٹک جاوید ہاشمی کے بعد اپنی پارٹی کے دوسرے باغی بن گئے ہیں یا پھر وہ یہ کام اپنی پارٹی کے سربراہ کی اجازت سے ہی کررہے ہیں۔اور یہ دونوں باتیں ہی پریشان کن ہیں۔ اگر تو وہ باغی بن گئے ہیں تو ہمیں پی ٹی آئی سے ہمدردی کا اظہار کرنا چاہیے لیکن اگر وہ یہ کام اجازت سے کررہے ہیں تو پھر ہمیں عمران خان کی جانب سے لیے گئے ایک اور یو ٹرن پر افسوس کا اظہار کرنا چاہیے کہ اگر ابھی یو ٹرن کی تعداد روزانہ کی بنیادی پر بڑھ رہی ہے تو اگر کل کو حکومت مل گئی تو جنابِ عمران خان عوام سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرینگے بھی یا نہیں۔
مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ 2013ء کے الیکشن مہم کے دوران تقریروں میں بھی عمران خان صاحب نے میڑوبس لاہور منصوبے کو جنگلہ بس سروس قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس منصوبے سے لاہوریوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔اس پر جتنا پیسہ خرچ کیا گیاوہ صرف پنجاب حکومت کے اپنے مفاد کے لئے ہے۔تو پھر یہ کیا ہو گیا؟ کیا ہم خیبر پختوانخواہ کے لیے بھی یہی کچھ کہہ سکتے ہیں؟
لیکن میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ میڑوبس جیسے منصوبے ملک کی عوام کی اس وقت ایک ضرورت ہیں کیونکہ جو تکالیف شہریوں کو شہروں کے اندر سفر کے دوران اٹھانی پڑتی ہیں وہ صرف وہی محسوس کرسکتا ہے جو اُن مسائل کا سامنا کرتا ہے۔
مجھے صرف عمران خان صاحب سے گزارش کرنی ہے کہ آپ ایسے منصوبوں پر یقین رکھیں،یہ عوام کی بنیادی ضروریات میں شامل ہیں۔ یوں جنگلہ بس سروس وغیرہ کے نام دے کر اس کی اہمیت کی حقیقت سے انکار مت کریں۔اگر ترقی یافتہ ممالک میں میڑو بس،میڑو ٹرین جیسے منصوبے چل رہے ہیں تو کیا وہ سب بھی غلط ہیں،ترکی میں چلنے والی میڑوبس کا بھی نام بھی جنگلہ بس سروس رکھ دیں؟۔آپ اور آپ کی پارٹی کو شہباز سریف کے اس منصوبے پر تنقید کی بجائے تعریف کے ساتھ کے پی کے میں حکومت قائم ہوتے ہی ایسے منصوبے کا بہت پہلے آغاز کر دینا چائیے تھا۔ آج جب آپ کی پارٹی لاہور میں جلسہ کرتی ہے توآپ کے کارکن میڑوبس کے روٹ پر بھی قبضہ جما لیتے ہیں،اور میڑو بس کے روٹ کو ہی احتجاج کا حصہ بنایا گیا۔ کیا اب جب پشاور میں میڑوبس چلے گی تو آپ کے پشاور جلسے کے دوران میڑوبس بند ہو گی؟کیا اس کے روٹ پر آپ جلسہ کریں گے؟میرا نہیں خیال کہ آپ اور آپ کے کارکن ایسا کچھ کریں گےکیوں کہ وہ تو آپ کا تیار کیا ہو منصوبہ ہو گا۔ اِس لیے آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ لوگوں کے اچھے کام میں اُن کی تعریف اور بُرے کام میں مخالفت ٹھیک ہے مگر کسی کو ناپسندیدگی کی بنیاد پر بے جا تنقید کوئی اچھا کام نہیں کل کو آپ بھی اِس کا شکار ہوسکتے ہیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اِس جوش وخطابت میں شاید یہ بھی نہیں سوچا گیا کہ حکومت کی جانب سے جاری منصوبہ عوام کے مفاد میں ہے بھی یا نہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ عمران خان سے ایک پروگرام میں پوچھا گیا کہ اگر وفاقی حکومت خیبر پختونخواہ میں میٹرو بس کے پروجیکٹ کا آغاز کرے گی تو کیا آپ اُس کی حمایت کرینگے تو اُس کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم حمایت نہیں بلکہ ہم تو بھرپور احتجاج کرینگے کہ سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ ہمارے ہاں یہ ایک روایت بن چکی ہے کہ ہم اپنی سیاست کو چمکانے کے لئے ہمیشہ حکومت پر خود تنقید کرتے ہیں،اور اس تنقید سے ہی عوام کو اپنی جانب راغب کیا جاتا ہے۔پنجاب حکومت تو میڑوبس منصوبہ لاہور میں بنا چکی اور دوسرا منصوبہ اسلام آباد میں جاری ہے۔
مگر جناب اب کیا کہیے کہ جس منصوبے پر خیبر پختوانخوہ میں حکمراں جماعت کی قیادت صبح شام تنقید کرتی تھی اب اُسی خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلی اِس منصوبے کو شروع کرنے کا ارادہ کر بیٹھے ہیں۔ شاید وہاں کی حکومت کو بھی اب یاد آ گیا کہ پشاور میں عوام کو سفری سہولت دے دینی چائیےاو رپشاورکی عوام کو لوکل بسوں،رکشوں،سے آزادی ملنی چائیے۔اور یہ بالکل وہ ہی اساس ہے جو ایک ڈیڑھ،دو سال پہلے پنجاب حکومت کے وزیراعلی شہباز شریف کو ہو ا تھا۔ پشاور میں جس میڑو بس منصوبے کا آغاز کیا جا رہا ہے اس پر چودہ ارب کی لاگت کا بتا یا جا رہا ہے۔اور یہ میڑو بس ناصرپور سے حیات آباد تک26کلو میڑ پر مختص سفر پر چلے گی۔اس منصوبے کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا جس میں پہلا حصہ چھ ماہ کی مدت میں مکمل کیا جا ئے گااور دوسرا نوماہ کی مدت میں اور اس پورے منصوبے کو کے پی کے حکومت ایک سال میں مدت میں مکمل کرنے کی خواہش رکھتی ہے۔ جس سے پشاور کے ہزاروں شہریوں کو بہترین سفری سہولت میسر ہو گی۔
یہ سب باتیں تو اپنی جگہ مگر میں تو پریشان ہوں کہ کیا پرویز خٹک جاوید ہاشمی کے بعد اپنی پارٹی کے دوسرے باغی بن گئے ہیں یا پھر وہ یہ کام اپنی پارٹی کے سربراہ کی اجازت سے ہی کررہے ہیں۔اور یہ دونوں باتیں ہی پریشان کن ہیں۔ اگر تو وہ باغی بن گئے ہیں تو ہمیں پی ٹی آئی سے ہمدردی کا اظہار کرنا چاہیے لیکن اگر وہ یہ کام اجازت سے کررہے ہیں تو پھر ہمیں عمران خان کی جانب سے لیے گئے ایک اور یو ٹرن پر افسوس کا اظہار کرنا چاہیے کہ اگر ابھی یو ٹرن کی تعداد روزانہ کی بنیادی پر بڑھ رہی ہے تو اگر کل کو حکومت مل گئی تو جنابِ عمران خان عوام سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرینگے بھی یا نہیں۔
مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ 2013ء کے الیکشن مہم کے دوران تقریروں میں بھی عمران خان صاحب نے میڑوبس لاہور منصوبے کو جنگلہ بس سروس قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس منصوبے سے لاہوریوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔اس پر جتنا پیسہ خرچ کیا گیاوہ صرف پنجاب حکومت کے اپنے مفاد کے لئے ہے۔تو پھر یہ کیا ہو گیا؟ کیا ہم خیبر پختوانخواہ کے لیے بھی یہی کچھ کہہ سکتے ہیں؟
لیکن میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ میڑوبس جیسے منصوبے ملک کی عوام کی اس وقت ایک ضرورت ہیں کیونکہ جو تکالیف شہریوں کو شہروں کے اندر سفر کے دوران اٹھانی پڑتی ہیں وہ صرف وہی محسوس کرسکتا ہے جو اُن مسائل کا سامنا کرتا ہے۔
مجھے صرف عمران خان صاحب سے گزارش کرنی ہے کہ آپ ایسے منصوبوں پر یقین رکھیں،یہ عوام کی بنیادی ضروریات میں شامل ہیں۔ یوں جنگلہ بس سروس وغیرہ کے نام دے کر اس کی اہمیت کی حقیقت سے انکار مت کریں۔اگر ترقی یافتہ ممالک میں میڑو بس،میڑو ٹرین جیسے منصوبے چل رہے ہیں تو کیا وہ سب بھی غلط ہیں،ترکی میں چلنے والی میڑوبس کا بھی نام بھی جنگلہ بس سروس رکھ دیں؟۔آپ اور آپ کی پارٹی کو شہباز سریف کے اس منصوبے پر تنقید کی بجائے تعریف کے ساتھ کے پی کے میں حکومت قائم ہوتے ہی ایسے منصوبے کا بہت پہلے آغاز کر دینا چائیے تھا۔ آج جب آپ کی پارٹی لاہور میں جلسہ کرتی ہے توآپ کے کارکن میڑوبس کے روٹ پر بھی قبضہ جما لیتے ہیں،اور میڑو بس کے روٹ کو ہی احتجاج کا حصہ بنایا گیا۔ کیا اب جب پشاور میں میڑوبس چلے گی تو آپ کے پشاور جلسے کے دوران میڑوبس بند ہو گی؟کیا اس کے روٹ پر آپ جلسہ کریں گے؟میرا نہیں خیال کہ آپ اور آپ کے کارکن ایسا کچھ کریں گےکیوں کہ وہ تو آپ کا تیار کیا ہو منصوبہ ہو گا۔ اِس لیے آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ لوگوں کے اچھے کام میں اُن کی تعریف اور بُرے کام میں مخالفت ٹھیک ہے مگر کسی کو ناپسندیدگی کی بنیاد پر بے جا تنقید کوئی اچھا کام نہیں کل کو آپ بھی اِس کا شکار ہوسکتے ہیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔