بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان
مرحوم بے شمار ذاتی خوبیوں اور اوصاف کے مالک تھے۔ ....
لاہور:
بابائے جمہوریت نواب زادہ نصراللہ خان کی گیارہویں برسی گزشتہ 26 ستمبر کو نہایت خاموشی کے ساتھ گزر گئی۔ افسوس صد افسوس کہ جمہوریت کے دعوے داروں اور علم برداروں نے اس موقعے پر نہایت سرد مہری اور لاتعلقی کا مظاہرہ کیا جو محض ان کی اپنی بے حسی یا کم ظرفی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس سے نواب صاحب کی بلند پایہ شخصیت پر ہرگز کوئی آنچ نہیں آتی۔
مرحوم بے شمار ذاتی خوبیوں اور اوصاف کے مالک تھے۔ رواداری، وضعداری اور مہمان نوازی ان کا طرہ امتیاز تھی۔ وہ کئی اعتبار سے وطن عزیز کے دیگر سیاستدانوں سے قطعی مختلف تھے۔ لالچ، طمع اور ہوس اقتدار سے بے نیاز اور بالاتر۔ پاکستان کے ہر حکمراں کی یہ خواہش رہی کہ نواب زادہ صاحب اس کی حکومت کا حصہ بنیں مگر انھوں نے اقتدار کی سیاست کو ہمیشہ اپنی ٹھوکر میں رکھا اور ہر حکمراں کا سیاسی قبلہ درست کرنے کی کوشش کی۔ اس کی پاداش میں انھیں متعدد مرتبہ جیلوں کی ہوا بھی کھانی پڑی لیکن ان کے پائے استقامت میں کبھی لرزش نہیں آئی۔ وہ چاہتے تو خوب مال کماتے اور جائیدادوں پر جائیدادیں کھڑی کرتے مگر وہ اصلی تے وڈے نواب زادے تھے اور اپنی نوابی کا بھرم انھوں نے اپنی آخری سانس تک قائم رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا نام آج بھی انتہائی عزت اور احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے۔
ایک سچی، کھری، اصلی اور مکمل جمہوری حکومت مرحوم کا خواب تھا جو شاید کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہ ہو۔ محترمہ بے نظیربھٹو اس اعتبار سے خوش قسمت سیاستداں کہی جاسکتی ہیں کیونکہ انھیں اپنے دور اقتدار میں نواب زادہ نصراللہ خان کی حمایت حاصل رہی اور ان کی خواہش پر نواب صاحب نے کشمیر کمیٹی کی سربراہی قبول کرلی۔ مگر سچ پوچھیے تو انھوں نے اس کمیٹی کا سربراہ بن کر حق ادا کردیا کیونکہ انھوں نے جس انداز میں اس مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر اٹھایا اور اجاگر کیا اس کی کوئی اور مثال نہیں ملتی۔ ہمیں یقین ہے کہ انھوں نے کشمیر کمیٹی کا سربراہ بننے کا فیصلہ اس مسئلے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اقوام متحدہ کی منظور کی ہوئی قراردادوں کے مطابق حل کرانے کے لیے ہی کیا ہوگا۔
وہ حکومت کا حصہ بننے کے بجائے ہمیشہ اپوزیشن کا جھنڈا بلند کرتے ہوئے دکھائی دیے۔ اپنے اس رویے کے باعث انھیں اس کی بھاری قیمت بھی ادا کرنا پڑی۔ فوجی حکمرانوں کے خلاف انھوں نے نت نئے حربے استعمال کیے اور ایسی ایسی زبردست تحریکوں کی قیادت کی کہ بڑے بڑے آمر حیران و پریشان ہوکر رہ گئے۔ اس کی پاداش میں انھیں متعدد مرتبہ قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ملک کی شاید ہی کوئی ایسی جیل ہو جس کی ہوا نواب زادہ صاحب نے نہ کھائی ہو۔ہمارے اکثر سیاست دان صرف جیل جانے کے خوف سے فوجی حکمرانوں کے ساتھ صلح و سمجھوتہ کرلیتے ہیں مگر نواب زادہ ان کے برعکس جیل جانے کے لیے ہر وقت کمربستہ و تیار رہتے تھے۔ فوجی حکمرانوں کے مقابلے میں جمہوریت کا پرچم بلند کرنا ان کا سب سے بڑا وصف تھا ۔
جس کی بنا پر انھیں سپہ سالار جمہوریت کہنا بالکل بجا اور درست ہوگا۔ مرحوم نے اپنے ہاتھوں سے جمہوریت کی جو شمع روشن کی ہے اسے بجھانے کی شاید اب کسی بھی فوجی آمر کو جرأت اور ہمت نہ ہوگی ماسوائے اس کے کہ ہمارے سیاستدانوں کی ذاتی رقابتوں اور رنجشوں کے نتیجے میں خدانخواستہ ایسا برا وقت آجائے۔نواب زادہ نصراللہ خان عزم و عمل اور جہد مسلسل کا پیکر تھے۔ نہ بیماری ان کی راہ میں حائل ہوئی اور نہ پیرانہ سالی نے کبھی ان کا راستہ روکا یا ان کی رفتار کو سست کیا۔ لفظ ''مایوسی'' ان کی لغت سے تادم آخر خارج ہی رہا۔ وہ دل کے غنی اور درویش صفت انسان تھے۔ مال و دولت اور ثروت سے وہ ہمیشہ بے نیاز ہی رہے۔
سیاست انھوں نے اپنے خاندانی اثاثے فروخت کرکے چلائی۔ 1956 میں جب پاکستان کا پہلا دستور بنا تو اگرچہ نصراللہ خان دستور ساز اسمبلی کا حصہ تو نہیں تھے تاہم اس کا تحفظ کرنے والوں میں وہ پیش پیش تھے۔ اس کے بعد 1958 میں جب جنرل ایوب خان نے فوجی حکمرانی کا آغاز کیا تو نواب صاحب انتہائی سرگرم عمل ہوگئے اور حسین شہید سہروردی کی سربراہی میں قائم سیاسی جماعت عوامی لیگ میں شمولیت اختیار کرلی۔ پھر 1962 کے الیکشن میں وہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ اس کے علاوہ انھوں نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ فاطمہ جناح کی حمایت میں حزب اختلاف کو ایک الگ پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے میں بھی نہایت اہم کردار ادا کیا۔
سیاسی اتحاد بنانے میں انھیں غیر معمولی ملکہ حاصل تھا جس میں NDF کے بعد DAC اور PDP انتہائی قابل ذکر ہیں۔ پی این اے اور ایم آر ڈی کی تحریکوں میں بھی ان کے سرگرم کردار کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ آل پارٹیز کانفرنس میں اے آر ڈی اور ایم ایم اے کو یکجا کرنا بھی ان ہی کا سیاسی کمال تھا۔وطن عزیز میں انھیں جمہوریت کے قافلہ سالار کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان کا سیاست کے میدان میں سرگرم عمل رہنے کا عرصہ تقریباً پون صدی پر محیط ہے جس کے حوالے سے بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ:
یہ پون صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں
وہ ایک وسیع المطالعہ شخص تھے اور حالات حاضرہ کی نبض پر ان کی انگلیاں ہمہ وقت موجود رہتی تھیں۔
نواب زادہ نصراللہ اپنی ذات میں ایک مکمل انجمن تھے اور نہایت اعلیٰ و عمدہ شعری ذوق کے حامل تھے۔ اس کے علاوہ وہ خود بھی ایک اچھے شاعر تھے۔ ان کا حافظہ بڑا قوی تھا جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انھیں پاکستان کے سیاسی اور جمہوری اتحادوں کی پوری تاریخ یاد تھی۔ ان کی رحلت سے وطن عزیز کی سیاست اور جمہوری جدوجہد کا سنہری اور سب سے تاب ناک باب بند ہوگیا۔ پاکستان اس وقت جس سنگین دور سے گزر رہا ہے اس میں نواب زادہ نصراللہ خان کی کمی بڑی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی بشری خامیوں اور لغزشوں سے درگزر فرمائے اور انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے( آمین۔)
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا