مینار پاکستان بھی کیا یاد کرے گا
عمران خان کے گزشتہ جلسے کی حاضری بھی زیر بحث ہے جو بڑی آسانی کے ساتھ شمار کی جا سکتی ہے ...
BLACKBURN:
میں نے اپنی لاہوری زندگی میں شاید ہی کوئی سیاسی جلسہ نہ دیکھا ہو۔ جلسے لفظ بہ لفظ دیکھے اور رپورٹ کیے یہ جلسے باغ بیرون موچی دروازہ میں ہوا کرتے تھے۔ آج کی جلسہ گاہوں کے مقابلے میں ایک چھوٹی سی جلسہ گاہ جس میں اسٹیج کی مستقل تعمیر کی سعادت گورنر ملک غلام مصطفے کھر کے حصے میں آئی۔ یہ جلسہ گاہ اگر بھر جاتی تھی تو ایسی بھری پری جلسہ گاہ کو مولانا ظفر علی خان نے 'ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر' قرار دیا تھا۔
ایک بار مولانا کے اپنے مختصر سے جلسے کی رپورٹ کرتے ہوئے ان کے اخبار زمیندار نے اسے ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر کہہ دیا تو مولانا شرم کے مارے دوسرے دن دفتر میں نہ آئے اور اپنے اس تاریخی جملے یا محاورے کو اپنی سیاسی لغت سے نکال دیا۔ موچی دروازے میں جلسوں کی حاضری دوسرے جلسوں کی طرح ہمیشہ زیر بحث رہی چنانچہ لاہور میں امریکی محکمہ اطلاعات کے چند پاکستانی افسروں نے تفریحاً اپنے اسٹاف کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ موچی دروازے کی اس جلسہ گاہ کو ناپ کر لے آئیں اسے فیتوں کی مدد سے ناپا گیا اور فی شخص چار فٹ زمین پر تقسیم کر کے حاضری نکالی گئی بعد میں کھڑے ہوئے حاضرین کا ایک اندازہ لگا کر یہاں کی حاضری کوئی پندرہ ہزار افراد سے ذرا زیادہ نکلی مولانا کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر بس اتنا ہی تھا۔
عمران خان کے گزشتہ جلسے کی حاضری بھی زیر بحث ہے جو بڑی آسانی کے ساتھ شمار کی جا سکتی ہے لیکن عمران خان کے جلسے ہماری روایتی سیاست کے جلسے نہیں ہوتے۔ ہماری روایتی پرانی دھیمی سیاست اب ختم ہو گئی اور اس کے ساتھ ہی اس مزاج کے لیڈر بھی۔ آج کے سیاسی جلسے ماضی میں نا ممکن تھے۔ ع نیا راگ ہے ساز بدلے گئے۔ میں نے ٹی وی پر عمران خان کا جلسہ دیکھا اور یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ حاضرین میں خواتین زیادہ ہیں یا حضرات۔ جو خواتین ٹی وی کی اسکرین پر دکھائی دیں وہ کسی سیاسی جلسے میں نہیں کسی ثقافتی میلے میں آئی تھیں۔ موقع محل کے حساب سے میک اپ جس میں رخساروں پر پارٹی کے رنگین نقش۔ ٹی وی نے ان خواتین کو متوالیوں کا نام دیا۔ جو رقص کناں عمران خان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب تھیں۔ یہ سب میرے وطن عزیز کی مائیں بیٹیاں بہنیں اور وہیل چیئر پر بیٹھی بزرگ تھیں جنھیں ان کی بیٹیاں کھینچ کر لا رہی تھیں۔ گو نواز گو کے نعرے لگانے کے لیے۔ مجھے لگتا ہے نواز شریف عمران خان کے ذاتی اسٹاف کا کوئی آدمی ہے جسے وہ نکال رہا ہے اور چلے جانے کا حکم دے رہا ہے۔ یہ یہی کہہ رہا تھا کہ سیاست اب بہت بدل گئی ہے اور ناقابل فہم بھی ہو گئی ہے۔
ہمارے ہاں کئی حکومتیں آئیں اور چلی گئیں۔ کوئی الیکشن کی مار کھا گئی اور کوئی فوج کی لیکن ایسی بودی حکومت کوئی بھی نہ تھا جو مخالفانہ نعروں کی مار کھا جاتی۔ درست کہ میاں صاحب کی حکومت میں وہ تمام خرابیاں جماندرو ہیں۔ عمران خان کی تقریر کے دوران ایک دوست نے کہا کہ کوئی نئی بات نہیں کہہ رہا میں نے جواب میں عرض کیا کہ اس کی تقریر حکومت نے لکھی ہے یعنی حکومت نے عوام کے ساتھ جو مسلسل زیادتیاں کی ہیں وہی اس کی تقریر میں بیان کی جا رہی ہیں۔ جب کوئی نئی زیادتی سامنے آتی ہے تو تقریر بھی تھوڑی سی بدل جاتی ہے۔
ہماری یہ پہلی حکومت ہے جس نے عوام سے ان کے ووٹوں کی مہربانی کا انتقام لینے کا فیصلہ کر لیا ہے حکومت میں آنے کے بعد پہلے تو وہ سال بھر خاموش رہے اور کرکٹ وغیرہ کھیلتے رہے پھر بجلی وغیرہ کے بل خودکشیوں کی حد تک پہنچ گئے تو انھوں نے جھرجھری لی اور پتہ چلا کہ کوئی حکومت بھی ہے جو کسی وقت تھک کر پہلو بدل لیتی ہے۔ خدا کا کرنا کیا ہوا کہ سیلاب آ گیا اور سیلاب زدگان کی مدد کے لیے سرکاری خزانوں کے منہ کھل گئے مگر حکمرانوں کے ذاتی خزانوں میں سے ایک کوڑی بھی باہر نہ نکلی اور لاکھوں سیلاب زدگان کو مردہ حالت میں چھوڑکر سیلاب نشیب یعنی سندھ کی طرف چلا گیا۔ کہا گیا کہ پنجاب نے اب سیلاب بھی بھیج دیا ہے۔
سندھ کے ساتھ پنجاب کا پرانا تعلق ہے مثلاً سندھ نے تو بھٹو کو ہرا دیا مگر پنجاب نے کچھ زیادہ ہی جتوا دیا اور وزیراعظم بنا دیا جس سے سندھ سے ہونے والی شکست کا بدلہ بھی اتر گیا۔ ہماری حکومت اب عوام سے وصولی کی جدوجہد میں دن رات مصروف ہے اور ٹیکسوں کی صورت میں عوام سے امداد لے رہی ہے اور اس امداد سے جو مسائل پیدا ہوتے ہیں وہ عمران کی تقریروں کا پیٹ بھرتے ہیں ورنہ عمران تو ابھی تک ایک ریٹائر کرکٹر ہیں مگر دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ گزشتہ اٹھارہ برسوں سے عوام کو جگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ خدا نے ان کی دعا اب منظور کی ہے اور عوام جاگ گئے ہیں۔ لاہور میں عوام کے جاگنے کا منظر یاد رہے گا اس پر عمران کو مبارک کہ سیاست اور تقریر دونوں حکومت سے لینے کے باوجود وہ کامیاب جا رہے ہیں۔
ابھی ذکر کیا ہے کہ حکومت عوام پر ٹیکس بڑی فراخدلی کے ساتھ لگا رہی ہے کیونکہ اس کے اخراجات بہت ہیں۔ وزیراعظم نے امریکا کا ایک بے معنی اور بے مقصد دورہ کیا جو اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں ایک روایت بنا ہوا ہے۔ کہا تھا کہ سیلاب کا عذر رکھ کر وہ نہ جائیں اور اپنا نام بنا لیں لیکن ان کے دورے کے اخراجات دیکھ کر ہمیں گھر بیٹھے لطف آ گیا۔ ایک اخبار کے میرے قابل اعتماد کالم نگار نے لکھا ہے کہ (دل تھام کے پڑھیے) دس لاکھ روپے فی گھنٹہ کرائے پر گلف اسٹریم سے پرائیویٹ جہاز کرائے پر لیا گیا۔ آنے جانے کی کل لاگت تین کروڑ ساٹھ لاکھ روپے آئی۔ جس ہوٹل میں وزیراعظم نے قیام کیا۔ اس کے عام کمرے کا کرایہ آٹھ لاکھ روپے یومیہ ہے اگرچہ امریکی صدر نے بھی اس ہوٹل میں ایک کمرہ لیا لیکن ہمارے لیے ایک خاص سوویٹ لیا گیا جس کا کرایہ مبینہ طور پر بارہ ہزار ڈالر یومیہ ہے۔
تیس کمرے اس کے علاوہ بھی بک کیے گئے جن کا کرایہ دو کروڑ چالیس لاکھ روپے بنا۔ شنید ہے کہ لاہور کے ایک ریستوران سے کھانا بھی منگوایا گیا۔ اس پر پانچ سو ڈالر خرچ ہوئے۔ ایک غریب سیلاب زدہ ملک کے وزیراعظم اگر اس طرح بے دریغ خرچ کرتے ہیں اور ان اخراجات کا ایک اندازہ ہی سامنے آتا ہے تفصیلات معلوم نہیں تو عمران خان جیسے اناڑی اور نو آموز اپوزیشن سیاستدان سیاسی عیش نہ کریں تو کیا کریں۔
یوں تو اکثر حکومتیں اپنے مخالفوں کے لیے راہیں خود ہی آسان کرتی ہیں لیکن ہماری اس حکومت نے تو میرے جیسے مداحوں کو بھی بے بس کر دیا ہے۔ ہماری سیاست بدلی ضرور ہے وقت نے اسے نیا رنگ اور نئے انداز دیے ہیں لیکن کیا یہ نئے رنگ پسند کیے جا سکتے ہیں سوائے عمران خان کے جلسوں اور دھرنوں کی ان حاضرین کی حد تک جنھیں دیکھ کر کبھی تو وطن عزیز پر رونا بھی آتا ہے اور کبھی یاد آتا ہے کہ قریب ہی مینار پاکستان اس جگہ ایستادہ ہے جہاں کبھی برصغیر کے مسلمانوں نے اللہ و رسولؐ کے نام پر ایک نیا ملک بنانے کا عزم کیا تھا۔ اورنگ زیب کی شاہی مسجد کے مینار اور مغلوں کے نسل در نسل تعمیر کیے جانے والے قلعے کی فصلیں یہ سب دیکھ کر نہ جانے کیا کہتی ہوں گی اور خوش قسمت راوی تو پہلے ہی خشک ہو چکا ہے جس کے بارے میں پطرس نے اقوام متحدہ سے اپنے لاہوری دوست کے نام ایک خط میں پوچھا تھا کہ کیا راوی اب بھی مغلوں کی یاد میں آہیں بھرتا ہے۔
میں نے اپنی لاہوری زندگی میں شاید ہی کوئی سیاسی جلسہ نہ دیکھا ہو۔ جلسے لفظ بہ لفظ دیکھے اور رپورٹ کیے یہ جلسے باغ بیرون موچی دروازہ میں ہوا کرتے تھے۔ آج کی جلسہ گاہوں کے مقابلے میں ایک چھوٹی سی جلسہ گاہ جس میں اسٹیج کی مستقل تعمیر کی سعادت گورنر ملک غلام مصطفے کھر کے حصے میں آئی۔ یہ جلسہ گاہ اگر بھر جاتی تھی تو ایسی بھری پری جلسہ گاہ کو مولانا ظفر علی خان نے 'ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر' قرار دیا تھا۔
ایک بار مولانا کے اپنے مختصر سے جلسے کی رپورٹ کرتے ہوئے ان کے اخبار زمیندار نے اسے ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر کہہ دیا تو مولانا شرم کے مارے دوسرے دن دفتر میں نہ آئے اور اپنے اس تاریخی جملے یا محاورے کو اپنی سیاسی لغت سے نکال دیا۔ موچی دروازے میں جلسوں کی حاضری دوسرے جلسوں کی طرح ہمیشہ زیر بحث رہی چنانچہ لاہور میں امریکی محکمہ اطلاعات کے چند پاکستانی افسروں نے تفریحاً اپنے اسٹاف کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ موچی دروازے کی اس جلسہ گاہ کو ناپ کر لے آئیں اسے فیتوں کی مدد سے ناپا گیا اور فی شخص چار فٹ زمین پر تقسیم کر کے حاضری نکالی گئی بعد میں کھڑے ہوئے حاضرین کا ایک اندازہ لگا کر یہاں کی حاضری کوئی پندرہ ہزار افراد سے ذرا زیادہ نکلی مولانا کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر بس اتنا ہی تھا۔
عمران خان کے گزشتہ جلسے کی حاضری بھی زیر بحث ہے جو بڑی آسانی کے ساتھ شمار کی جا سکتی ہے لیکن عمران خان کے جلسے ہماری روایتی سیاست کے جلسے نہیں ہوتے۔ ہماری روایتی پرانی دھیمی سیاست اب ختم ہو گئی اور اس کے ساتھ ہی اس مزاج کے لیڈر بھی۔ آج کے سیاسی جلسے ماضی میں نا ممکن تھے۔ ع نیا راگ ہے ساز بدلے گئے۔ میں نے ٹی وی پر عمران خان کا جلسہ دیکھا اور یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ حاضرین میں خواتین زیادہ ہیں یا حضرات۔ جو خواتین ٹی وی کی اسکرین پر دکھائی دیں وہ کسی سیاسی جلسے میں نہیں کسی ثقافتی میلے میں آئی تھیں۔ موقع محل کے حساب سے میک اپ جس میں رخساروں پر پارٹی کے رنگین نقش۔ ٹی وی نے ان خواتین کو متوالیوں کا نام دیا۔ جو رقص کناں عمران خان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب تھیں۔ یہ سب میرے وطن عزیز کی مائیں بیٹیاں بہنیں اور وہیل چیئر پر بیٹھی بزرگ تھیں جنھیں ان کی بیٹیاں کھینچ کر لا رہی تھیں۔ گو نواز گو کے نعرے لگانے کے لیے۔ مجھے لگتا ہے نواز شریف عمران خان کے ذاتی اسٹاف کا کوئی آدمی ہے جسے وہ نکال رہا ہے اور چلے جانے کا حکم دے رہا ہے۔ یہ یہی کہہ رہا تھا کہ سیاست اب بہت بدل گئی ہے اور ناقابل فہم بھی ہو گئی ہے۔
ہمارے ہاں کئی حکومتیں آئیں اور چلی گئیں۔ کوئی الیکشن کی مار کھا گئی اور کوئی فوج کی لیکن ایسی بودی حکومت کوئی بھی نہ تھا جو مخالفانہ نعروں کی مار کھا جاتی۔ درست کہ میاں صاحب کی حکومت میں وہ تمام خرابیاں جماندرو ہیں۔ عمران خان کی تقریر کے دوران ایک دوست نے کہا کہ کوئی نئی بات نہیں کہہ رہا میں نے جواب میں عرض کیا کہ اس کی تقریر حکومت نے لکھی ہے یعنی حکومت نے عوام کے ساتھ جو مسلسل زیادتیاں کی ہیں وہی اس کی تقریر میں بیان کی جا رہی ہیں۔ جب کوئی نئی زیادتی سامنے آتی ہے تو تقریر بھی تھوڑی سی بدل جاتی ہے۔
ہماری یہ پہلی حکومت ہے جس نے عوام سے ان کے ووٹوں کی مہربانی کا انتقام لینے کا فیصلہ کر لیا ہے حکومت میں آنے کے بعد پہلے تو وہ سال بھر خاموش رہے اور کرکٹ وغیرہ کھیلتے رہے پھر بجلی وغیرہ کے بل خودکشیوں کی حد تک پہنچ گئے تو انھوں نے جھرجھری لی اور پتہ چلا کہ کوئی حکومت بھی ہے جو کسی وقت تھک کر پہلو بدل لیتی ہے۔ خدا کا کرنا کیا ہوا کہ سیلاب آ گیا اور سیلاب زدگان کی مدد کے لیے سرکاری خزانوں کے منہ کھل گئے مگر حکمرانوں کے ذاتی خزانوں میں سے ایک کوڑی بھی باہر نہ نکلی اور لاکھوں سیلاب زدگان کو مردہ حالت میں چھوڑکر سیلاب نشیب یعنی سندھ کی طرف چلا گیا۔ کہا گیا کہ پنجاب نے اب سیلاب بھی بھیج دیا ہے۔
سندھ کے ساتھ پنجاب کا پرانا تعلق ہے مثلاً سندھ نے تو بھٹو کو ہرا دیا مگر پنجاب نے کچھ زیادہ ہی جتوا دیا اور وزیراعظم بنا دیا جس سے سندھ سے ہونے والی شکست کا بدلہ بھی اتر گیا۔ ہماری حکومت اب عوام سے وصولی کی جدوجہد میں دن رات مصروف ہے اور ٹیکسوں کی صورت میں عوام سے امداد لے رہی ہے اور اس امداد سے جو مسائل پیدا ہوتے ہیں وہ عمران کی تقریروں کا پیٹ بھرتے ہیں ورنہ عمران تو ابھی تک ایک ریٹائر کرکٹر ہیں مگر دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ گزشتہ اٹھارہ برسوں سے عوام کو جگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ خدا نے ان کی دعا اب منظور کی ہے اور عوام جاگ گئے ہیں۔ لاہور میں عوام کے جاگنے کا منظر یاد رہے گا اس پر عمران کو مبارک کہ سیاست اور تقریر دونوں حکومت سے لینے کے باوجود وہ کامیاب جا رہے ہیں۔
ابھی ذکر کیا ہے کہ حکومت عوام پر ٹیکس بڑی فراخدلی کے ساتھ لگا رہی ہے کیونکہ اس کے اخراجات بہت ہیں۔ وزیراعظم نے امریکا کا ایک بے معنی اور بے مقصد دورہ کیا جو اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں ایک روایت بنا ہوا ہے۔ کہا تھا کہ سیلاب کا عذر رکھ کر وہ نہ جائیں اور اپنا نام بنا لیں لیکن ان کے دورے کے اخراجات دیکھ کر ہمیں گھر بیٹھے لطف آ گیا۔ ایک اخبار کے میرے قابل اعتماد کالم نگار نے لکھا ہے کہ (دل تھام کے پڑھیے) دس لاکھ روپے فی گھنٹہ کرائے پر گلف اسٹریم سے پرائیویٹ جہاز کرائے پر لیا گیا۔ آنے جانے کی کل لاگت تین کروڑ ساٹھ لاکھ روپے آئی۔ جس ہوٹل میں وزیراعظم نے قیام کیا۔ اس کے عام کمرے کا کرایہ آٹھ لاکھ روپے یومیہ ہے اگرچہ امریکی صدر نے بھی اس ہوٹل میں ایک کمرہ لیا لیکن ہمارے لیے ایک خاص سوویٹ لیا گیا جس کا کرایہ مبینہ طور پر بارہ ہزار ڈالر یومیہ ہے۔
تیس کمرے اس کے علاوہ بھی بک کیے گئے جن کا کرایہ دو کروڑ چالیس لاکھ روپے بنا۔ شنید ہے کہ لاہور کے ایک ریستوران سے کھانا بھی منگوایا گیا۔ اس پر پانچ سو ڈالر خرچ ہوئے۔ ایک غریب سیلاب زدہ ملک کے وزیراعظم اگر اس طرح بے دریغ خرچ کرتے ہیں اور ان اخراجات کا ایک اندازہ ہی سامنے آتا ہے تفصیلات معلوم نہیں تو عمران خان جیسے اناڑی اور نو آموز اپوزیشن سیاستدان سیاسی عیش نہ کریں تو کیا کریں۔
یوں تو اکثر حکومتیں اپنے مخالفوں کے لیے راہیں خود ہی آسان کرتی ہیں لیکن ہماری اس حکومت نے تو میرے جیسے مداحوں کو بھی بے بس کر دیا ہے۔ ہماری سیاست بدلی ضرور ہے وقت نے اسے نیا رنگ اور نئے انداز دیے ہیں لیکن کیا یہ نئے رنگ پسند کیے جا سکتے ہیں سوائے عمران خان کے جلسوں اور دھرنوں کی ان حاضرین کی حد تک جنھیں دیکھ کر کبھی تو وطن عزیز پر رونا بھی آتا ہے اور کبھی یاد آتا ہے کہ قریب ہی مینار پاکستان اس جگہ ایستادہ ہے جہاں کبھی برصغیر کے مسلمانوں نے اللہ و رسولؐ کے نام پر ایک نیا ملک بنانے کا عزم کیا تھا۔ اورنگ زیب کی شاہی مسجد کے مینار اور مغلوں کے نسل در نسل تعمیر کیے جانے والے قلعے کی فصلیں یہ سب دیکھ کر نہ جانے کیا کہتی ہوں گی اور خوش قسمت راوی تو پہلے ہی خشک ہو چکا ہے جس کے بارے میں پطرس نے اقوام متحدہ سے اپنے لاہوری دوست کے نام ایک خط میں پوچھا تھا کہ کیا راوی اب بھی مغلوں کی یاد میں آہیں بھرتا ہے۔