870 سال کی نیند

لوگوں کی بہت بڑی تعداد اب اتنی باشعور ہو چکی ہے کہ وہ صحیح اور غلط کے فرق کو جان سکے ...


راؤ منظر حیات September 30, 2014
[email protected]

KARACHI: قدرت کے قوانین اٹل ہیں! یہ قوانین خدا کے برگزیدہ ترین ہستیوں کے لیے بھی تبدیل نہیں ہوئے۔ ہم جیسے گناہ گار اور خطا کار کس حیثیت کے مالک ہیں۔

حکومت کے معاملات نازک ترین مرحلہ میں ہیں۔ بال برابر بھی غلطی کی گنجائش نہیں۔ لیکن حکمرانوں سے کوتاہیاں اور غلطیاں ہوتیں نہیں، کرائی جاتیں ہیں۔ فصل پک چکی ہے اور فصل بھی انسانوں کے سروں کی! کٹائی کا وقت کتنا نزدیک ہے! غیب کا علم صرف خدا کے پاس ہے۔ تکبر اور دولت کے بت،''لات و منات'' کی طرح گرتے جا رہے ہیں۔ بلکہ اگر میں یہ عرض کروں کہ خلق خدا ان بتوں کو توڑتی جا رہی ہے تو بے جا نہ ہو گا۔پاکستان جیسے ملک میں حکومت کرنا اب آسان کام نہیں ہے۔

لوگوں کی بہت بڑی تعداد اب اتنی باشعور ہو چکی ہے کہ وہ صحیح اور غلط کے فرق کو جان سکے۔ یہ ایک غیر معمولی صورتحال ہے۔ اس کا ادراک مکمل طور پر سرکاری اور مقتدر طبقہ ابھی تک نہیں کر پایا۔ میں نے اپنی تیس سالہ نوکری کے دورانیہ میں اتنی گروہ بندی اور پرخاش کبھی سینئر درجے کے سرکاری ملازمین میں نہیں دیکھی جو میں اب دیکھ رہا ہوں۔ بیوروکریسی کے بالائی اور درمیانہ درجے کے افسران مکمل طور پر سیاسی گروہ بندی کی نذر ہو چکے ہیں۔ چند دن پہلے صوبائی سطح کے سیاستدان سے، جنکا تعلق حکومت سے ہے، ملاقات ہوئی۔ انھوں نے گلہ کیا، کہ بحران کا بہت بڑا حصہ سرکاری افسروں کی ذاتی جنگ سے شروع ہوا ہے۔

یہ گلہ میری دانست میں بالکل ٹھیک ہے۔ میں آپکو صرف یہ عرض کرنا چاہونگا کہ ہمارے سیاسی نظام کو مفلوج کرنے میں چند سرکاری بابوؤں کا کلیدی کردار ہے۔ دوسری حقیقت یہ بھی ہے کہ اب وہ اتنے امیر ہو چکے ہیں کہ وہ ایک یا دو گھنٹے میں پاکستان سے باہر کسی بھی ملک میں ہجرت کر سکتے ہیں۔ مگر ہمارے حکمران حقیقت کو دیکھنے سے قاصر ہیں۔ وہ آج بھی افسروں کی تعیناتی یا ترقی کے وقت پوچھتے ہیں، کہ''افسر کس کا آدمی ہے''۔ ہمارے بااثر سیاست دان اپنی کچھ کمزوریوں کی بدولت ان بابوؤں کے سامنے بالکل بے بس نظر آتے ہیں۔ خدا کرے کہ میں غلط سوچ رہا ہوں؟

ہمارے عام آدمی کی زندگی پستی کے اس درجہ پر پہنچ چکی ہے کہ شاید یورپ کے جانور بھی بہتر زندگی گزار رہے ہوں۔ ہمارے نظام نے عوام کو انسانی سطح سے گرا کر حیوانی سطح پر سانس لینے پر مجبور کر دیا ہے۔ آپ ہمارے کسی بھی صوبہ کے گاؤں میں تشریف لے جائیں آپکو غلاظت، گندگی کے ڈھیر، جوہڑ اور سہولتوں کی عدم موجودگی کا احساس شدت سے ہو گا۔ اگر آپ اندرون سندھ تشریف لے جائیں تو آپکو حکومتی صلاحیت کھل کر سامنے نظر آتی ہے؟ مجھے چند ماہ قبل اندرون سندھ دو تین دن گزارنے کا موقعہ ملا۔ یقین فرمائیے! جس بے دردی سے ترقیاتی وسائل کو وہاں لوٹا گیا ہے، شاید کوئی اور صوبہ اس کا مقابلہ نہ کرسکے! ٹوٹی پھوٹھی سڑکیں،غیرفعال اسپتال،پینے کا گندا پانی اور ہر وہ قباحت موجود نظر آتی تھی جسکا وجود آپ سوچ سکتے ہیں۔ تمام صوبوں کے حالات میں انیس بیس کا فرق ہے۔ باقی سب سیاسی وعدے اور ملمع سازی ہے!

اسٹاف کالج کی بدولت مجھے دس بارہ افسران سمیت لاہور کے دو اسپتالوں کا تعلیمی دورہ کرنے کا موقعہ ملا۔ میو اسپتال اور انسٹیٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ جسے عرف عام میں پاگل خانہ کہا جاتا ہے۔ شادمان میں واقع "انسٹیٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ" معاشرے کو پرکھنے کی ایک نایاب جھلک تھی۔ پہلی بات تو یہ آج تک ہمارے پاس کوئی مستند اعداد و شمار ہی نہیں ہے کہ پاکستان کی کتنی آبادی ذہنی امراض کا شکار ہے۔ ڈاکٹر صاحبان کی بریفنگ سن کر شدت سے احساس ہوتا ہے کہ ذہنی امراض متعدی بیماریوں کی مانند ہمارے پورے معاشرے کو گرفت میں لے چکے ہیں۔

ایک اندازہ کے مطابق ڈیڑھ کروڑ پاکستانی مختلف ذہنی امراض کا شکار ہیں۔ مگر ماہرین کے مطابق ان کی تعداد تین سے چار کروڑ ہو سکتی ہے۔ ڈپریشن کے مریضوں کی تعداد تو خیر اس سے بھی بہت زیادہ ہے۔ آپ لوگوں کی بے سکونی اور گھبراہٹ کا صرف اس بات سے اندازہ لگا لیجیے کہ نیند آور گولیوں اور ذہنی سکون بخشنے والی دوائیوں کے استعمال کی شرح ہمارے ملک میں دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ کیا قیامت ہے کہ ہم اول بھی ہیں تو بے سکونی میں!

ایک نکتہ جسکی جانب ڈاکٹر صاحبان نے واضح اشارہ کیا کہ ہمارے معاشرے میں اگر خاندان کا فرد کسی بھی ذہنی مشکل کا شکار ہو جاتا ہے تو اس کے مرض کو چھپایا جاتا ہے۔ مریض کو ماہر نفسیات یا ماہر ڈاکٹر کے پاس لیجانے کے بجائے پیروں، فقیروں اور تعویز گنڈوں کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ اس مظلوم مریض کا مرض جو ابتدائی علاج سے ٹھیک ہو سکتا تھا، بگڑ کر لاعلاج ہو جاتا ہے۔ ہمارے سماج میں کسی عزیز کو ذہنی امراض کے ڈاکٹر کے پاس لیجانے کو ایک جرم سا بنا دیا گیا ہے۔ اکثر اوقات تو مریض کو گھر والے مکمل طور پر عدم توجہ کا شکار بنا ڈالتے ہیں۔ خاندان میں ایسا رویہ رکھا جاتا ہے کہ شاید یہ ذہنی مریض موجود ہی نہیں ہے۔ اس عدم توجہ کے کئی بار بہت بھیانک نتائج بھی نکلتے ہیں۔

اس اسپتال میں کئی ایسے مریض بھی ہیں جو بیس پچیس سال سے مستقل یہیں پر مقیم ہیں۔ ان کے خاندان کا کوئی فرد انھیں ملنے نہیں آتا۔ کئی بدقسمت لوگ تو ایسے ہیں کہ وہ مکمل طور پر ٹھیک ہو چکے ہیں مگر ان کے خاندان انکو گھر پر رکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ بدقسمت صحت یاب ہونے کے باوجود بھی اسپتال میں رہنے پر مجبور ہیں۔ ہمارے سماجی رویّے اب مشکل سے مشکل تر ہو چکے ہیں۔ مگر صاحبان زیست! کیسا گلہ، جو ملک اپنے صحت یاب شہریوں کی فلاح و بہبود کرنے سے قاصر ہے، وہاں ان بے زبان اور بے نوا لوگوں کی بات کون سنے گا!

اسپتال میں ہم تمام لوگوں کو مختلف مریضوں سے بات کرنے کا موقع بھی فراہم کیا گیا۔ اسپتال کی ایمرجینسی میں کئی ایسے مریض موجود تھے جو مشتعل ہو کر اہل خانہ پر تشدد کرتے رہتے تھے۔ ایمرجینسی کے کمرے کا ہر دروازہ لوہے کی سلاخوں کا بنا ہوا تھا۔ آپ بڑے آرام سے دیکھ سکتے تھے کہ اندر مریض کس حال میں ہے اور کیا کر رہا ہے! ان انتہائی مشکل طرز کے مریضوں کے لیے ان کے اہل خانہ بے چارگی اور بے بسی کی مکمل تصویر بنے ہوئے نظر آ رہے تھے۔ ایک خاتون نے روتے ہوئے بتایا کہ وہ اپنے خاوند کو آج ہی یہاں لے کر آئی ہے۔ وہ گھر پر چاقو یا چھری سے گھر والوں کو ہر دم نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔

وہ نوجوان حد تیس سال کا ہو گا۔ میں نے اسکو دیکھا تو مجھے دو تین غیر معمولی عوامل نظر آئے۔ ایک تو وہ اپنے پورے جسم کو مسلسل حرکت دے رہا تھا۔ اس کے علاوہ وہ کسی نظر نہ آنے والی شخصیت سے ہم کلام تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک سفید رنگ کی تسبیح تھی جسکے دانوں کو وہ ہلاتا رہتا تھا۔ المیہ یہ بھی ہے کہ وہاں موجود ڈاکٹروں کے پاس اہل خانہ کے لیے کوئی جواب نہیں تھا کہ یہ نوجوان کتنے عرصے میں صحت یاب ہو جائیگا! وہ ایک سال یہاں رہیگا یا ہمیشہ کے لیے یہ اسپتال اس کا مسکن بن جائیگا۔ اس طرح کے درجنوں مریض ہر طرف موجود تھے۔

ڈاکٹر عمران افضل نے ہمیں ایک انتہائی شائستہ بزرگ آدمی سے ملایا۔ وہ ایک کمرے میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے سب سے پہلے اپنا تعارف کروایا کہ میرا نام فیلڈ مارشل نجیب ہے اور میں پہلی جنگ عظیم لڑ چکا ہوں۔ میرے خیال میں اس کی عمر ساٹھ سال کے قریب ہو گی۔ اس نے ہم تمام لوگوں کو بڑے اطمینان سے بتایا کہ وہ صرف870 سال سوتا رہا ہے اور آج صبح ہی جاگا ہے۔ وہ ابھی اپنے کمرے سے تیار ہو گا اور کپڑے پہن کر صدر سے ملنے جائیگا کیونکہ صدر پاکستان اس کا شدت سے انتظار کر رہے ہیں۔ پھر کہنے لگا کہ اس اسپتال میں کئی ڈاکٹر ایسے بھی ہیں جو صرف اسکو نظر آتے ہیں۔ وہ کسی اور کو دکھائی نہیں دیتے۔

اصل میں وہی نظر نہ آنے والے ڈاکٹر اس کا علاج کر رہے ہیں اور اب وہ بالکل ٹھیک ہو چکا ہے۔ آپ یقین فرمائیے، مینٹل اسپتال میں جتنے مریض تھے، اتنی ہی المناک اور تکلیف دہ سچی کہانیاں موجود تھیں۔ مگر جس خلوص سے ڈاکٹر عمران افضل ان بے زبان لوگوں کی خدمت کر رہا ہے، وہ جذبہ انتہائی قابل قدر اور قابل تحسین ہے۔ صرف خدا ہی اس کا اجر دے سکتا ہے!

آپ اپنے اردگرد لوگوں کو غور سے دیکھئے! کسی کو بجلی کے مہنگے بلوں نے دیوانہ بنا دیا ہے! کسی کو مہنگائی کے جن نے اپنے قبضے میں کر ڈالا ہے! کوئی بے روزگاری کے آسیب میں گرفتار ہے! کوئی اولاد کے ہاتھوں کرب میں ہے! حکمران طبقہ، اس ذہنی مرض میں مبتلا ہے کہ زیادہ سے زیادہ دولت کیسے کمائی جائے! اپنے دور اقتدار کو دوام کیسے بخشا جائے! خوشی سے عاری اس معاشرے میں کون سا شخص ذہنی مریض ہے اور کون نہیں ہے! میری دانست میں دنیا کا بہترین ڈاکٹر بھی اس کی تشخیص نہیں کر سکتا! یہاں تو ہمارے حکمرانوں نے ہر شخص کو فیلڈ مارشل نجیب کی طرح صرف 870 سال مسلسل سونے پر مجبور کر دیا ہے؟ کون علاج کرے گا! صاحب، کون! اور پھر سوال اٹھتا ہے کہ کیوں صحت یاب کرے گا؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں