افغانستا ن میں انتقال اقتدار
نئی افغان حکومت کے لیے پہلا بڑا بحران طالبان سے مفاہمت کا ہوگا۔ ..
افغانستان میں پر امن انتقال اقتدار خطے کے امن اور استحکام کے ساتھ جڑا ہوا ہے ۔ ہمیں افغانستان کے معاملے کو علاقائی سیاست کے استحکام کے تناظر میں دیکھنا ہوگا ۔ 2014کے انتخابات افغانستان کے ارتقائی جمہوری عمل کے لیے اہم ہیں ۔ پہلے مرحلے میں عبداللہ عبداللہ کو برتری حاصل تھی ، لیکن دوسرے مرحلے میں ڈاکٹر اشرف غنی نے برتری حاصل کرلی ۔ عبداللہ عبداللہ ان انتخابی نتائج کو قبول کرنے کے بجائے اسے چیلنج کرکے 80لاکھ ووٹوں کا آڈٹ کا مطالبہ کیا۔
عبداللہ عبداللہ کا موقف تھا کہ دوسرے مرحلہ کے انتخابی نتائج کو سازش کے تحت تبدیل کرکے انھیں اپنے مدمقابل کے مقابلے میں سیاسی برتری سے دور رکھا گیا۔ افغانستان کے یہ انتخابات اپنی تمام تر اہمیت کے باوجود اپنی سیاسی ساکھ اور شفافیت کا نظام قائم نہیں رکھ سکے۔افغان الیکشن کمیشن، غیر ملکی مبصرین ، ملکی اور بین الااقوامی سیاسی اشرافیہ کے مختلف طبقات نے بھی ان انتخابات کی صحت کو مشکوک قرار دیا۔لیکن بہت سے لوگوں کا موقف تھا کہ کیونکہ افغان عوام جمہوریت کے ارتقائی عمل سے گزررہے ہیں ، تو ان خامیوں کو قبول کرکے آگے بڑھنا چاہیے ۔
لیکن عبداللہ عبداللہ کی مزاحمت نے افغان طاقت ور طبقات اور وہ بین الااقوامی قوتیں بشمول امریکا جنھیں افغانستان کے معاملات میں بالادستی حاصل ہے ، کو کچھ متبادل سوچنے پر مجبور کردیا ۔یہ متبادل فارمولہ سابق افغان صدر حامد کرزئی ، نئے منتخب صدر ڈاکٹر اشرف غنی، عبداللہ عبداللہ اور امریکی وزیر خارجہ سمیت دیگر بڑی طاقتوں کی مدد سے سامنے آیا ہے ۔ افغانستان میں انتقال اقتدار کے اس فارمولے کے تحت ڈاکٹر اشرف غنی ہی افغان صدر ہوں گے ، جب کہ عبداللہ عبداللہ کے لیے ایک نیا عہدہ چیف ایگزیکٹو کا نکالا گیا ہے جسے وزیر اعظم کا نام بھی دیا جاسکتا ہے ۔
اس فارمولے کے تحت صدر اور وزیر اعظم باہمی مشاورت سے کابینہ کی تشکیل کریں گے ، جس میں چیف ایگزیکٹو کے دو نمایندے بھی ہوں گے ۔یہ کابینہ اہم اور حساس نوعیت کے فیصلے کرنے کی مجاز ہوگی ۔ جب کہ روزمرہ کے معاملات کونسل آف وزرا کی مدد سے چلائے جائیں گے ، جس کی سربراہی چیف ایگزیکٹو کے پاس ہوگی ۔ نئی افغان حکومت کو چند بڑے مسائل کا سامنا ہوگا، جو ان کی سیاسی ساکھ کو بھی متاثر کرسکتا ہے ۔
اول اس نئی افغان حکومت کو افغان عوام کے سامنے جوابدہ ہونا ہوگا کہ انتخابات میں دھاندلی کے مسئلہ کو حل کرنے کے بجائے کچھ لو او رکچھ دو کی بنیاد پر مفاہمت کیوں کی گئی ۔ دوئم اس مفاہمت کے عمل میں خود افغان عوام کہاں ہیں ، اور ان کے سیاسی مینڈیٹ کو کیونکر قبول نہیں کیا گیا۔سوئم انتقال اقتدار میں امریکا کی بالادستی کو کیونکر اہمیت دی گئی اور خود سے مفاہمتی فیصلے کرنے سے کیوں گریز کیا گیا ۔
امریکا اور بڑی طاقتوں کی مداخلت کی مدد سے افغان سیاسی فریقین نے انتقال اقتدار کا مفاہمتی فارمولہ تلاش کرکے وقتی بحران کو تو ٹال دیا ہے ، لیکن اس مفاہمتی عمل کے نتیجے میں جو مسائل ابھریں گے ، ان پر کوئی بڑی سوچ بچار نظر نہیں آتی ۔اول ڈاکٹر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ میں اختیارات کی جو نئی جنگ شروع ہوگی، وہ کافی مسائل پیدا کرسکتی ہے ۔ کیونکہ ڈاکٹر اشرف غنی نے امریکی دباؤ پر اس مفاہمتی فارمولہ کو قبول تو کرلیا ، لیکن ان کی رٹ چیلنج ہوئی ہے۔ انھوں نے اس مفاہمتی انتقال اقتدار کی کڑوی گولی حالات کی مجبوری کے تحت قبول کرکے اپنے اقتدا رکو بچانے کی کوشش کی ہے ۔
کیونکہ عبداللہ عبداللہ نمائشی چیف ایگزیکٹو نہیں بنیں گے او ران کی کوشش ہوگی کہ وہ حکمرانی کے نظام میں موثر اور طاقت ور چیف ایگزیکٹو کے طو رپر کام کریں ۔نئے افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کو روزمرہ کے افغان معاملات سے دور رکھا گیا تو اس سے صدر اپنے آپ کو سیاسی طور پر تنہا سمجھیں گے ، جو انھیں قبو ل نہیں ہوگا۔
نئی افغان حکومت کے لیے پہلا بڑا بحران طالبان سے مفاہمت کا ہوگا۔ کہا جاتا تھا کہ ڈاکٹر اشرف غنی اگر صدر منتخب ہوں گے تو وہ عبداللہ عبداللہ کے مقابلے میں طالبان سے مفاہمت کا کوئی راستہ ضر ور نکالیں گے۔ اپنی انتخابی مہم میں بھی ڈاکٹر اشرف غنی نے یہ عندیہ دیا تھا کہ طالبان سے مفاہمت اور ان کو قومی سیاست کا حصہ بنانا ان کی بڑی ترجیح ہوگی ۔لیکن اس نئی افغان حکومت جو بڑی طاقتوں کی مدد سے بنی ہے کو طالبان نے یکسر طو رپر مسترد کردیا ہے ۔
ان کے بقول اس مفاہمت سے نئی افغان حکومت کی حیثیت ایک کٹھ پتلی کی ہوگی اور اصل طاقت افغانستان کے تناظر میں واشنگٹن کو ہوگی ، جو انھیں قبول نہیں ۔اس لیے اگر نئی افغان حکومت طالبان سے مفاہمت کا کوئی ایسا قابل قبول راستہ نہیں نکالتی جو دونوں فریقین کے لیے قبول ہو، افغان امن پر سوالیہ نشان ہی رہیں گے ۔
اسی طرح امریکا کی ایک بڑی اہم دلچسپی افغانستان اور امریکا کے درمیان نیا سیکیورٹی معاہدہ ہے ۔ حامد کرزئی نے بطور صدر اس سیکیورٹی معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا ۔ ان کے بقول یہ کام وہ خود نہیں کریں گے ، بلکہ اس کا اختیار نئی منتخب حکومت کو ہی ہونا چاہیے ۔
اس لیے امریکا نے آگے بڑھ کر انتقال اقتدار کے لیے جو مفاہمت کرائی ہے ، اس کے پیچھے ایک بڑا مقصد سیکیورٹی معاہدے پر دستخط ہیں ۔ طالبان بھی اس معاہدے کے خلاف ہیں ، جب کہ افغان عوام بھی سمجھتے ہیں کہ یہ معاہدہ افغان عوام کے لیے دیر پا امن قائم نہیں کرسکے گا۔اگرچہ اس معاہدے کی بنیاد پر امریکی فوجیوں کا بڑا انخلا ہوگا ، لیکن آٹھ سے دس ہزار فوجیوں کی موجودگی خود امریکی اثر نفوذ کو طاقت فراہم کرے گی ۔اس لیے اب نئی افغان حکومت کو اس سیکیورٹی معاہدے پر دستخط کرنے ہیں، جس سے ان کی داخلی سیاست میں نئے مسائل جنم لے سکتے ہیں ۔
ایک بات پیش نظر رہے کہ نئی افغان حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج معاشی صورتحال کی بحالی اور کرپشن جیسے مسائل کا سدباب کرنا ہوگا ۔ معاشی بحالی کے لیے نئی حکومت کو دنیا اور بالخصوص امریکا کی بڑی حمایت درکار ہے ۔ لیکن عالمی امداد کے ادارے افعانستان کی بری حکمرانی اور کرپشن جیسے مسائل سے بھی پریشان ہیں ۔ اس لیے معاشی بحالی کا براہ راست تعلق داخلی سلامتی کے مسائل سے ہے ۔ اگر یہ حل ہوں گے تو آپ معاشی بحالی کی طرف بڑھ سکیں گے ، وگرنہ افغان عوام کے سامنے بدامنی ، انتشار اور پرتشدد سیاست ایک بڑے چیلنج کے طور پر موجود ہوگی ، جو افغان عوام میں مایوسی کا عمل پیدا کرے گا۔ یہ عمل ان قوتوں کو تقویت دے گا جو نئی افغان حکومت اور عالمی مداخلت کو افغان عوام کے لیے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں ۔
اس لیے افغانستان میں انتقال اقتدار کا یہ معاملہ مسائل کے حل میں عارضی ہے ، دیکھنا ہوگا کہ اگلے چند ماہ میں ڈاکٹر اشرف غنی ، عبداللہ عبداللہ اور امریکا کے درمیان یہ مفاہمت کا نیا کھیل اپنے اندر کس طرح کے رنگ بکھیرتا ہے ۔یہ سمجھنا کہ افغان انتخابات او راس کے نتیجے میں امریکا کی سیاسی چھتری کے نیچے نئی افغان حکومت یہ تاثر دینے میں کامیاب ہوسکے گی ، کہ وہ ایک آزاد حکومت ہے اور جمہوریت یا جمہوری عمل کی سیاسی فتح ہوئی ہے ، تو یہ ابھی ابتدائی طور پر بہت مشکل نظر آتا ہے ۔
عبداللہ عبداللہ کا موقف تھا کہ دوسرے مرحلہ کے انتخابی نتائج کو سازش کے تحت تبدیل کرکے انھیں اپنے مدمقابل کے مقابلے میں سیاسی برتری سے دور رکھا گیا۔ افغانستان کے یہ انتخابات اپنی تمام تر اہمیت کے باوجود اپنی سیاسی ساکھ اور شفافیت کا نظام قائم نہیں رکھ سکے۔افغان الیکشن کمیشن، غیر ملکی مبصرین ، ملکی اور بین الااقوامی سیاسی اشرافیہ کے مختلف طبقات نے بھی ان انتخابات کی صحت کو مشکوک قرار دیا۔لیکن بہت سے لوگوں کا موقف تھا کہ کیونکہ افغان عوام جمہوریت کے ارتقائی عمل سے گزررہے ہیں ، تو ان خامیوں کو قبول کرکے آگے بڑھنا چاہیے ۔
لیکن عبداللہ عبداللہ کی مزاحمت نے افغان طاقت ور طبقات اور وہ بین الااقوامی قوتیں بشمول امریکا جنھیں افغانستان کے معاملات میں بالادستی حاصل ہے ، کو کچھ متبادل سوچنے پر مجبور کردیا ۔یہ متبادل فارمولہ سابق افغان صدر حامد کرزئی ، نئے منتخب صدر ڈاکٹر اشرف غنی، عبداللہ عبداللہ اور امریکی وزیر خارجہ سمیت دیگر بڑی طاقتوں کی مدد سے سامنے آیا ہے ۔ افغانستان میں انتقال اقتدار کے اس فارمولے کے تحت ڈاکٹر اشرف غنی ہی افغان صدر ہوں گے ، جب کہ عبداللہ عبداللہ کے لیے ایک نیا عہدہ چیف ایگزیکٹو کا نکالا گیا ہے جسے وزیر اعظم کا نام بھی دیا جاسکتا ہے ۔
اس فارمولے کے تحت صدر اور وزیر اعظم باہمی مشاورت سے کابینہ کی تشکیل کریں گے ، جس میں چیف ایگزیکٹو کے دو نمایندے بھی ہوں گے ۔یہ کابینہ اہم اور حساس نوعیت کے فیصلے کرنے کی مجاز ہوگی ۔ جب کہ روزمرہ کے معاملات کونسل آف وزرا کی مدد سے چلائے جائیں گے ، جس کی سربراہی چیف ایگزیکٹو کے پاس ہوگی ۔ نئی افغان حکومت کو چند بڑے مسائل کا سامنا ہوگا، جو ان کی سیاسی ساکھ کو بھی متاثر کرسکتا ہے ۔
اول اس نئی افغان حکومت کو افغان عوام کے سامنے جوابدہ ہونا ہوگا کہ انتخابات میں دھاندلی کے مسئلہ کو حل کرنے کے بجائے کچھ لو او رکچھ دو کی بنیاد پر مفاہمت کیوں کی گئی ۔ دوئم اس مفاہمت کے عمل میں خود افغان عوام کہاں ہیں ، اور ان کے سیاسی مینڈیٹ کو کیونکر قبول نہیں کیا گیا۔سوئم انتقال اقتدار میں امریکا کی بالادستی کو کیونکر اہمیت دی گئی اور خود سے مفاہمتی فیصلے کرنے سے کیوں گریز کیا گیا ۔
امریکا اور بڑی طاقتوں کی مداخلت کی مدد سے افغان سیاسی فریقین نے انتقال اقتدار کا مفاہمتی فارمولہ تلاش کرکے وقتی بحران کو تو ٹال دیا ہے ، لیکن اس مفاہمتی عمل کے نتیجے میں جو مسائل ابھریں گے ، ان پر کوئی بڑی سوچ بچار نظر نہیں آتی ۔اول ڈاکٹر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ میں اختیارات کی جو نئی جنگ شروع ہوگی، وہ کافی مسائل پیدا کرسکتی ہے ۔ کیونکہ ڈاکٹر اشرف غنی نے امریکی دباؤ پر اس مفاہمتی فارمولہ کو قبول تو کرلیا ، لیکن ان کی رٹ چیلنج ہوئی ہے۔ انھوں نے اس مفاہمتی انتقال اقتدار کی کڑوی گولی حالات کی مجبوری کے تحت قبول کرکے اپنے اقتدا رکو بچانے کی کوشش کی ہے ۔
کیونکہ عبداللہ عبداللہ نمائشی چیف ایگزیکٹو نہیں بنیں گے او ران کی کوشش ہوگی کہ وہ حکمرانی کے نظام میں موثر اور طاقت ور چیف ایگزیکٹو کے طو رپر کام کریں ۔نئے افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کو روزمرہ کے افغان معاملات سے دور رکھا گیا تو اس سے صدر اپنے آپ کو سیاسی طور پر تنہا سمجھیں گے ، جو انھیں قبو ل نہیں ہوگا۔
نئی افغان حکومت کے لیے پہلا بڑا بحران طالبان سے مفاہمت کا ہوگا۔ کہا جاتا تھا کہ ڈاکٹر اشرف غنی اگر صدر منتخب ہوں گے تو وہ عبداللہ عبداللہ کے مقابلے میں طالبان سے مفاہمت کا کوئی راستہ ضر ور نکالیں گے۔ اپنی انتخابی مہم میں بھی ڈاکٹر اشرف غنی نے یہ عندیہ دیا تھا کہ طالبان سے مفاہمت اور ان کو قومی سیاست کا حصہ بنانا ان کی بڑی ترجیح ہوگی ۔لیکن اس نئی افغان حکومت جو بڑی طاقتوں کی مدد سے بنی ہے کو طالبان نے یکسر طو رپر مسترد کردیا ہے ۔
ان کے بقول اس مفاہمت سے نئی افغان حکومت کی حیثیت ایک کٹھ پتلی کی ہوگی اور اصل طاقت افغانستان کے تناظر میں واشنگٹن کو ہوگی ، جو انھیں قبول نہیں ۔اس لیے اگر نئی افغان حکومت طالبان سے مفاہمت کا کوئی ایسا قابل قبول راستہ نہیں نکالتی جو دونوں فریقین کے لیے قبول ہو، افغان امن پر سوالیہ نشان ہی رہیں گے ۔
اسی طرح امریکا کی ایک بڑی اہم دلچسپی افغانستان اور امریکا کے درمیان نیا سیکیورٹی معاہدہ ہے ۔ حامد کرزئی نے بطور صدر اس سیکیورٹی معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا ۔ ان کے بقول یہ کام وہ خود نہیں کریں گے ، بلکہ اس کا اختیار نئی منتخب حکومت کو ہی ہونا چاہیے ۔
اس لیے امریکا نے آگے بڑھ کر انتقال اقتدار کے لیے جو مفاہمت کرائی ہے ، اس کے پیچھے ایک بڑا مقصد سیکیورٹی معاہدے پر دستخط ہیں ۔ طالبان بھی اس معاہدے کے خلاف ہیں ، جب کہ افغان عوام بھی سمجھتے ہیں کہ یہ معاہدہ افغان عوام کے لیے دیر پا امن قائم نہیں کرسکے گا۔اگرچہ اس معاہدے کی بنیاد پر امریکی فوجیوں کا بڑا انخلا ہوگا ، لیکن آٹھ سے دس ہزار فوجیوں کی موجودگی خود امریکی اثر نفوذ کو طاقت فراہم کرے گی ۔اس لیے اب نئی افغان حکومت کو اس سیکیورٹی معاہدے پر دستخط کرنے ہیں، جس سے ان کی داخلی سیاست میں نئے مسائل جنم لے سکتے ہیں ۔
ایک بات پیش نظر رہے کہ نئی افغان حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج معاشی صورتحال کی بحالی اور کرپشن جیسے مسائل کا سدباب کرنا ہوگا ۔ معاشی بحالی کے لیے نئی حکومت کو دنیا اور بالخصوص امریکا کی بڑی حمایت درکار ہے ۔ لیکن عالمی امداد کے ادارے افعانستان کی بری حکمرانی اور کرپشن جیسے مسائل سے بھی پریشان ہیں ۔ اس لیے معاشی بحالی کا براہ راست تعلق داخلی سلامتی کے مسائل سے ہے ۔ اگر یہ حل ہوں گے تو آپ معاشی بحالی کی طرف بڑھ سکیں گے ، وگرنہ افغان عوام کے سامنے بدامنی ، انتشار اور پرتشدد سیاست ایک بڑے چیلنج کے طور پر موجود ہوگی ، جو افغان عوام میں مایوسی کا عمل پیدا کرے گا۔ یہ عمل ان قوتوں کو تقویت دے گا جو نئی افغان حکومت اور عالمی مداخلت کو افغان عوام کے لیے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں ۔
اس لیے افغانستان میں انتقال اقتدار کا یہ معاملہ مسائل کے حل میں عارضی ہے ، دیکھنا ہوگا کہ اگلے چند ماہ میں ڈاکٹر اشرف غنی ، عبداللہ عبداللہ اور امریکا کے درمیان یہ مفاہمت کا نیا کھیل اپنے اندر کس طرح کے رنگ بکھیرتا ہے ۔یہ سمجھنا کہ افغان انتخابات او راس کے نتیجے میں امریکا کی سیاسی چھتری کے نیچے نئی افغان حکومت یہ تاثر دینے میں کامیاب ہوسکے گی ، کہ وہ ایک آزاد حکومت ہے اور جمہوریت یا جمہوری عمل کی سیاسی فتح ہوئی ہے ، تو یہ ابھی ابتدائی طور پر بہت مشکل نظر آتا ہے ۔