جھومتی ہوئی جمہوریت
میں نہیں جانتا کہ کنٹینر میں بیٹھ کر عمران خان جو احتجاجی سفر کریں گے ...
میں نہیں جانتا کہ عمران خان کی تحریک مڈٹرم انتخابات کا مقصد حاصل کرپائے گی یا نہیں؟ مگر شاہ محمود قریشی کی طرف سے دیا جانے والا یہ بیان کہ ''کنٹینر کو پہیے لگنے والے ہیں'' صاف بتا رہا ہے کہ کپتان نے اب ڈی چوک سے کوچ کرنے کا ارادہ کرلیا ہے ۔
مگر وہ اس کنٹینر کا رخ بنی گالا کی طرف نہیں ہوگا۔ یہ کنٹینر پورے ملک کا سفر کرے گا۔ کچھ دن لاہور میں ٹھہرے گا اور کچھ دن فیصل آباد میں! کچھ روز پشاور میں اور کچھ دن کراچی میں۔ کوئٹہ کے مخصوص حالات اور وہاں تحریک انصاف کا مضبوط نیٹ ورک نہ ہونے کے باعث یہ کنٹینر شاید بلوچستان کی سیر نہ کر پائے مگر اس پنجاب کے ہر شہر میں جائے گا جو موجودہ حکومت کی بنیاد ہے۔
میں نہیں جانتا کہ کنٹینر میں بیٹھ کر عمران خان جو احتجاجی سفر کریں گے اس سفر کے مقدر میں اقتدار کی منزل ہوگی یا نہیں مگر یہ بات طے ہے کہ عمران خان موجودہ حکومت کی جان نہیں چھوڑے گا ۔ عمران خان کے اس احتجاجی سفر پر ان کے مخالفین کون سے زبانی اور تحریری حملے کریں گے؟ ہمیں اس حقیقت کا تھوڑا سے اندازہ تو ہے۔ اس سچائی سے پھر بھی انکار بہت مشکل ہوگا کہ تاریخ کا مورخ عمران خان کو یہ اعزاز ضرور دے گا کہ اس نے ملک کی سیاست میں نیا ٹرینڈ متعارف کرایا۔
یہ ملک جو دہشت گرد حملوں کے باعث غیر عوامی سیاست کا منظر پیش کر رہا تھا۔ جس میں میں کسی لیڈر کے لیے عوامی جلسے سے خطاب کرنا ناممکن بن گیا تھا۔ اگر کسی کو مجبوری درپیش آتی تھی تو اپنے سامنے بلٹ پروف اسکرین رکھ کر گھبرائے ہوئے انداز میں خیالات کا اظہار کیا کرتا تھا۔ ملکی سیاست میں خوف کے اس ماحول کو ختم کرنے کا اعزاز عمران خان کو حاصل ہے ۔ جس نے پینتالیس دنوں تک پبلک میں موجودگی کا عالمی ریکارڈ تو بنایا ہی بنایا مگر اس تاثر کو تباہ کردیا کہ عوامی سیاست کا دور ختم ہوچکا ہے۔
اس کا وہ جلسہ جو اسلام آبادکی ہر شام کو نئے گیتوں سے سجاتا ہے۔ جس میں مہکتے اور چہکتے ہوئے چہرے تحریک انصاف کے پرچم لہراتے آتے ہیں اور وہ ملک کے معروف گلوکاروں کے ساتھ مل کر گیت گاتے ہیں۔ اس کلچر نے جس طرح ملک میں موجود خوف کی فضا کو ماضی کا قصہ بنا ڈالا ہے ان کا یہ کارنامہ ہر کوئی مانے گا۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ تاریخ کو تحریر کرنے والا ہاتھ عمران خان کے حوالے سے یہ بھی تسلیم کرے گا کہ پاکستان میں نئے سیاسی کلچر کی بنیاد عمران خان نے رکھی۔
عمران خان نے اپنے سیاسی سفر میں تین اہم کارنامے سرانجام دیے ہیں۔ ایک تو اس نے عوامی کلچر والی سیاست کا آغازکیا۔ دوسرا اس نے سیاست میں اس کلاس کی شمولیت کو ممکن کر دکھایا جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ''یہ کلاس ملکی حالات سے لاتعق ہے'' وہ کلاس جس کو عرف عام میں ''برگر کلاس'' کہا جاتا ہے۔ جس کلاس سے تعلق رکھنے والے گھر سے کار میں بھی نکلتے ہیں تو چہرے پر سورج کے شعاؤں سے بچنے والی کریم لگا کر نکلتے ہیں۔
اس کلاس کی لڑکیوں اور لڑکوں نے اسلام آباد اورکراچی کی موسم گرما میں جس طرح سڑکوں پر بیٹھ کر دھرنے دیے اور اس کلاس نے جس طرح پولیس کی لاٹھیاں کھائیں اور جس طرح منرل واٹرکی گرم بوتل کے ساتھ چنے چباتے ہوئے رات گئے تک بھوک برداشت کی اور جن نوجوانوں کی گاڑیاں کا کبھی چالان تک نہیں ہوا تھا جب انھیں تھانوں میں راتیں بسر کرنا پڑیں تو یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ یہ بہت بڑی کامیابی تھی۔ یہ کامیابی بھی اس کپتان نے حاصل کی جس کے بارے میں مورخ تیسری اہم بات یہ تحریر کرے گا کہ اس نے خواتین کو سیاست میں سرگرم کیا۔
خواتین عمران سے قبل سیاست میں علامتی کردار کے ساتھ جلوہ افروز ہوا کرتی تھیں اور جو خواتین سیاست کو مکمل وقت دیا کرتی تھیں وہ جسمانی طور پر تو خواتین ہوا کرتی تھیں مگر نفسیاتی طور پر ان کی ذہنی ساخت مردوں جیسی ہوا کرتی تھی۔ اس حقیقت کو سب تسلیم کیا کرتے تھے کہ پاکستان کی سیاست خواتین کے بس کی بات نہیں۔ اگر اس سیاست میں کسی خاتون کو حصہ لینے کا شوق ہے کہ اسے مرد بننا پڑے گا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی میں بہت ساری خواتین نے مردانہ وار کردار ادا کیا اور انھوں نے اپنی جدوجہد سے ایک قابل فخر تاریخ بھی رقم کی۔ مگر یہ اعزاز پھر بھی عمران کی طرف جاتا ہے کہ اس نے خواتین کو مرد بنائے بغیر ملکی سیاست کا خوشنما حصہ بنایا۔ یہی سبب کہ ہمیں عمران خان کی جلسوں میں ابرار کے گیتوں پر لڑکیاں جھومتے ہوئے نظر آئیں۔
پاکستانی معاشرے میں یہ ایک اہم پیش رفت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب بھی ایک نیا کام شروع ہوتا ہے اس میں کچھ مسائل پیدا ہوتے ہیں اور کچھ ایسے واقعات جنم لیتے ہیں جن کو بنیاد بنا کر تنقید بھی کی جاتی ہے اور عمران خان کے جلسوں میں شریک ہونے والی خواتین کے حوالے سے ہم نے میڈیا میں تلخ تبصرے بھی پڑھے اور ہم نے مخالفین کے منہ سے ایسی نازیبا باتیں بھی سنیں جو ٹھیک نہیں تھیں۔ اور جو سیاستدان دیکھ رہے تھے کہ عمران خان نوجوان نسل کے ساتھ ناچتے اور گاتے ہوئے انھیں ماضی کا باب بنانے کی طرف چل پڑا ہے ۔ وہ پارلیمنٹ کے فلور پر چیخے اور چلائے بھی۔ انھوں نے اس انداز سیاست کو بے ہودگی قرار دیا۔
مگر ہم جانتے ہیں کہ جب بنجارے نکلتے ہیں تو ان پر گلیوں میں پھرنے والے جانور شور مچاتے ہیں مگر ان کی آوازیں اس سفر کا راستہ نہیں روک پاتیں۔ وہ چلتے رہتے ہیں۔ کبھی اس نگر کبھی اس نگر!! اس حوالے سے عمران خان کا سیاسی قافلہ مجھے ان بنجاروں کا قافلہ محسوس ہوتا ہے جو جہاں رکتا ہے وہاں جنگل میں منگل سج جاتا ہے۔
یہ ایک نئی سیاست ہے۔ یہ سیاست عمران خان کو وزیر اعظم بنائے یا نہیں مگر وہ نیا پاکستان ضرور بنائے گی جس میں عورتوں کو پردوں میں قید کرنے کا کلچر نہیں ہوگا۔ جس میں عورت کو یہ حق ہوگا کہ وہ مرد بنے بغیر اپنی مکمل نسوانیت سے ملکی سیاست میں وہ کردار اد اکرے جو کردار معاشرے کو خوبصورتی سے آراستہ کرتا ہے۔ وہ لوگ جو احساس محرومی کے باعث عمران خان کی نئی سیاست پر چیختے انھیں اس بات کا پتہ ہونا چاہیے کہ ایک نئی دنیا تعمیر کے مراحل طے کر رہی ہے اس دنیا کو تکمیل سے کوئی نہیں روک سکتا۔ یہ بنجاروں جیسی سیاست اپنے خوبصورت کلچر کے ساتھ اس ملک کے ہر حصے میں نئے دور کی بنیاد ڈالتی جائے گی اور اس قافلے میں شامل افراد اپنے مخالفین کے دل جلاتے اور قدم بڑھاتے اور یہ گیت گاتے رہیں گے کہ:
''ہم بنجارے دل والے ہیں
اور پیٹھ پہ ڈیرے ڈالے ہیں
تم دھوکہ دینے والی ہو
ہم دھوکہ کھانے والے ہیں
اس میں تو نہیں شرماؤ گی
کیا دھوکہ دینے آؤ گی''
اور نہ معلوم کون کس کو دھوکہ دینے آئے گی اور دھوکہ دے کر جائے گی؟ لیکن یہ بات اپنے آپ کو منوا کر رہے گی کہ زندگی سے بھرا ہوا یہ کلچر نہ صرف قائم رہے گا بلکہ پھلتا اور پھولتا رہے گا۔ اس کلچر میں سیاست ایک بوریت سے بھرا ہوا معاملہ نہیں بلکہ بہت ساری خوبصورتیوں کا مجموعہ ہوگا۔ اس کلچر میں صرف جھوٹی تقاریر اور غلط دعوے نہیں بلکہ گیت اور سنگیت کا وہ رس ہوگا جو ہمیں حوصلہ دے گا۔ جب ہم تھک جائیں گے تب ہماری ہمت بڑھائے گا۔ یہ کلچر ہمیں بتا رہا ہے کہ سیاست صرف خشک لوگوں کی دنیا نہیں بلکہ اس میں شازیہ کے گیتوں کی گونج بھی شامل ہونی چاہیے۔
اس میں صرف ڈرائنگ روموں میں ہونے والی سازشیں ہی نہیں بلکہ راستوں پر ہونے والے رقص بھی ہیں۔ دنیا کے جن ممالک میں جمہوریت مضبوط ہے اور انسانی حقوق کی پائمالی کا تصور تک نہیں وہاں سیاسی احتجاج کرنے والے گلو بٹ والے ڈنڈے نہیں بلکہ گٹار لے کر آتے ہیں اور ایک بہتر معاشرے کی تعمیر کے گیت گاتے ہیں۔ کیا یہ پاکستان کا حق نہیں کہ بین الاقوامی میڈیا اپنے جریدے کی کور اسٹوری کرتے ہوئے ٹائٹل میں گیت اور سنگیت سے بھرے ہوئے احتجاج کی تصویر شایع کرے اور اس پر کیپشن لکھے Dance your way to democracy
جی ہاں! جمہوریت کی حسین صورت تو یہی ہے۔ وہ جمہوریت جو جھومے اورگائے اور دہشت کو دھوم مچا کر شکست دے۔ ایسی جھومتی ہوئی جمہوریت ہی سیاست میں ایک نئی روح پھونک سکتی ہے ۔