مصیبت کی گھڑی اور شاہانہ اخراجات
انجلیناجولی نے جب وزیراعظم ہاؤس کی شاہ خرچیاں دیکھیں کہ جس قوم پر برا وقت آیا ہو وہاں ...
2005 کی بات ہے بالاکوٹ ،اورگردونواح میں شدید زلزلہ آچکا تھا، امدادی سرگرمیاں جاری تھیں تباہی اس قدر شدید تھی کہ ملک میں رہنے والوں کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک کے لوگ بھی انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر امدادی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے، ان میں سے ایک انجلینا جولی بھی تھیں جنھوں نے دس لاکھ ڈالر عطیہ بھی دیا تھا ۔ انجلینا جولی ایک مشہور فلم اسٹار اور اقوام متحدہ کی دنیا بھر میں خیرسگالی کی سفیر ہیں ۔
وہ زلزلہ متاثرین کی مدد کے لیے اور تباہی کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے پاکستان تشریف لائیں ان کا مقصد ساتھ ساتھ یہ بھی تھا کہ وہ متاثرین کے ساتھ اظہار یکجہتی بھی کریں اور تباہی کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرکے مزید امدادی رقم کا بندوبست بھی کریں تاکہ متاثرین کی بحالی کا کام تیز رفتاری سے ہوسکے مگر اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز نے اپنا خصوصی جہاز بھیج کر انھیں ناشتے پر بلوایا۔
انجلیناجولی نے جب وزیراعظم ہاؤس کی شاہ خرچیاں دیکھیں کہ جس قوم پر برا وقت آیا ہو وہاں کے وزیر اعظم کا شاہانہ رہن سہن دیکھ کر وہ حیران رہ گئیں۔ یہاں سے واپس جانے کے بعد انھوں نے اپنی رپورٹ میں واضح کردیا کہ پاکستان کو کسی بیرونی امداد کی ضرورت نہیں ہے اگر یہاں کے حکمراں اپنی شاہ خرچیاں بند کردیں تو پاکستان کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کا محتاج نہ ہو۔
وقت گزر گیا اس وقت کیا کیا بدعنوانیاں نہیں ہوئیں سب کے علم میں ہے لوگوں کی جانب سے دی جانے والی امداد حقداروں تک نہ پہنچ سکی اگر پہنچی بھی تو اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے مگر اس کی آڑ میں لوگوں کے جو مزے ہوئے وہ ایک الگ داستان ہے ، لکھ پتی سے کروڑ پتی اور کروڑ پتی سے ارب پتی کی تعداد میں جس تیزی سے اضافہ ہوا ہے وہ سب کے سامنے اظہرمن الشمس ہے۔
اسی دوران نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کا قیام عمل میں آیا تھا کیونکہ ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے پاکستان میں کوئی باقاعدہ ادارہ موجود نہیں تھا۔ اب تو صوبائی سطح پر بھیPDMA موجود ہیں مگر جب ہم ان کی کارکردگی پر نظر ڈالتے ہیں تو وہی صورتحال نظر آتی ہے۔ 2005 کے بعد ملک 2010-11 میں بھی بدترین سیلاب اور غیر متوقع بارشوں کی وجہ سے بہت متاثر ہوا سندھ تو تقریباً پورے کا پورا ہی متاثر ہوا مگر وہی صورتحال بتدریج اتم موجود ہے نہ ہی ہمیں کوئی پلاننگ نظر آتی ہے اور نہ ہی ہنگامی صورتحال میں نمٹنے کے لیے صلاحیتیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں اس قسم کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے جو ادارے کام کرتے ہیں وہ وقت سے پہلے تیاری مکمل کرکے رکھتے ہیں اور آیندہ پیش آنے والی صورتحال کی مکمل تصویر کشی بھی کرکے نقصانات اور اس کے سدباب کے طریقے وضع کرلیتے ہیں جس کی وجہ سے بہت کم جانی اور مالی نقصانات ہوتے ہیں۔
جاپان میں آنے والے حالیہ سونامی کی مثال سب کے سامنے ہے کہ انھوں نے کسی بھی ملک سے امداد کی اپیل کرنے کی بجائے اپنے وسائل اور ہنگامی حالات میں نمٹنے والے اداروں کا سہارا لیتے ہوئے اپنے ملک کو مشکل صورتحال سے نکالا وہاں نہ امداد کو لوٹا گیا نہ متاثرین نے بلوہ کیا اور نہ ہی حکمرانوں نے بلندوبانگ دعوے کیے بلکہ معمول کی کارروائی سمجھتے ہوئے تمام کام جاری و ساری ہوئے اور ملک ہنگامی صورت سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا کیوں کہ وہاں حکومت ادارے اور حکمران پرو ایکٹو ہوتے ہیں اور عوام کے لیے کام کرنے والے اداروں پر کڑی نظر بھی رکھتے ہیں مگر ہمارے ہاں صورتحال کچھ برعکس ہے ہم نے تو بہت ساری تباہیوں کے باوجود کوئی سبق نہیں سیکھا۔
وزیر اعظم کوئی بھی ہو ان سب کے مائنڈ ایک ہی دائرے میں گھومتے نظر آتے ہیں ۔ پاکستان کے لوگ موجودہ سیلاب کے بعد امداد کے منتظر ہیں فصلیں تباہ ہوگئیں، مویشی مر گئے مکانات بہہ گئے ہمارے حکمران اس جانب توجہ دیں۔ قوم کے درد میں ڈوبے ہمارے حکمران اتنے غریب پرور ہیں کہ ان کی نیندیں عوام کے غم میں حرام ہوچکی ہیں۔ اسی لیے اسی ہوٹل میں قیام کریں گے جس میں امریکا کے صدر بارک اوباما قیام کریں گے آخر ہمیں امریکا کے ساتھ ہمسری کا دعویٰ جو ہے۔
ہمارے حکمران کسی سے کم ہیں کیا بلکہ جائیداد کے معاملے میں امریکی صدر ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے (ہمارے خیال میں) اس کے علاوہ شوق ملاقات بھی تو ہے کہ شاید کہیں کسی موڑ پر کسی جگہ کسی کھڑکی کی اوٹ سے دیدار اوباما ہو جائے تو سمجھو قسمت سنور گئی مگر اس شوق ملاقات اور شاہانہ انداز فکر نے قوم کو سخت مایوس کیا ہے۔
اس کے علاوہ اس طرح کا طرز عمل ان فنڈز کرنے والے ممالک پر بھی برا اثر ڈالے گا جو پاکستان کے عوام کی بھلائی کے لیے مختلف پروجیکٹ پر کام کر رہے ہیں کیوں جس ملک میں کروڑوں عوام غربت کی لکیر کے نیچے کام کر رہے ہوتے ہوں اور مختلف دنیاوی آفتوں میں مبتلا ہوکر اپنا سب کچھ ختم کر بیٹھے ہوں وہاں کے حکمران ان کو بے یارومددگار چھوڑ کر ایسے دوروں پر چلے جائیں جن کا حاصل حصول کچھ نہ ہو اور ایسے ہوٹلوں میں قیام پذیر ہوں جن کا ایک دن کا خرچ لاکھوں میں تو ایسے ملک کے لیے کون ہے جو ہمدردی کے جذبات کو پروان چڑھائے گا۔
ہمارے حکمرانوں کا یہ وتیرہ ہونا چاہیے تھا کہ وہ بیرون ملک دورے منسوخ کر دیں کہ میرے ملک اور میرے اٹھارہ کروڑ ووٹروں کو میری ضرورت ہے کیونکہ میرے عوام اس وقت جس آزمائش میں مبتلا ہیں اس وقت مجھے اپنے عوام کے ساتھ رہنا چاہیے اور اس دورے پر اٹھنے والی رقم کو اگر بحالی کے کاموں میں صرف کیا جائے تو کوئی بھی دھرنا یا انقلاب کامیاب نہیں ہوسکتا مگر ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات کچھ اور ہیں اس کی وجہ سے وہ عوام سے کچھ لینا دینا نہیں رکھتے ماسوائے بیانات کے کیونکہ بیانات کے ذریعے ہی عوام کو بے وقوف بنایا جاسکتا ہے مگر اب ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ میڈیا نے رتی رتی کی خبر دے کر حقائق کا روشن چہرہ عوام کو دکھا دیا ہے جس کی وجہ سے اب ان بیانات سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔
وہ زلزلہ متاثرین کی مدد کے لیے اور تباہی کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے پاکستان تشریف لائیں ان کا مقصد ساتھ ساتھ یہ بھی تھا کہ وہ متاثرین کے ساتھ اظہار یکجہتی بھی کریں اور تباہی کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرکے مزید امدادی رقم کا بندوبست بھی کریں تاکہ متاثرین کی بحالی کا کام تیز رفتاری سے ہوسکے مگر اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز نے اپنا خصوصی جہاز بھیج کر انھیں ناشتے پر بلوایا۔
انجلیناجولی نے جب وزیراعظم ہاؤس کی شاہ خرچیاں دیکھیں کہ جس قوم پر برا وقت آیا ہو وہاں کے وزیر اعظم کا شاہانہ رہن سہن دیکھ کر وہ حیران رہ گئیں۔ یہاں سے واپس جانے کے بعد انھوں نے اپنی رپورٹ میں واضح کردیا کہ پاکستان کو کسی بیرونی امداد کی ضرورت نہیں ہے اگر یہاں کے حکمراں اپنی شاہ خرچیاں بند کردیں تو پاکستان کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کا محتاج نہ ہو۔
وقت گزر گیا اس وقت کیا کیا بدعنوانیاں نہیں ہوئیں سب کے علم میں ہے لوگوں کی جانب سے دی جانے والی امداد حقداروں تک نہ پہنچ سکی اگر پہنچی بھی تو اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے مگر اس کی آڑ میں لوگوں کے جو مزے ہوئے وہ ایک الگ داستان ہے ، لکھ پتی سے کروڑ پتی اور کروڑ پتی سے ارب پتی کی تعداد میں جس تیزی سے اضافہ ہوا ہے وہ سب کے سامنے اظہرمن الشمس ہے۔
اسی دوران نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کا قیام عمل میں آیا تھا کیونکہ ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے پاکستان میں کوئی باقاعدہ ادارہ موجود نہیں تھا۔ اب تو صوبائی سطح پر بھیPDMA موجود ہیں مگر جب ہم ان کی کارکردگی پر نظر ڈالتے ہیں تو وہی صورتحال نظر آتی ہے۔ 2005 کے بعد ملک 2010-11 میں بھی بدترین سیلاب اور غیر متوقع بارشوں کی وجہ سے بہت متاثر ہوا سندھ تو تقریباً پورے کا پورا ہی متاثر ہوا مگر وہی صورتحال بتدریج اتم موجود ہے نہ ہی ہمیں کوئی پلاننگ نظر آتی ہے اور نہ ہی ہنگامی صورتحال میں نمٹنے کے لیے صلاحیتیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں اس قسم کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے جو ادارے کام کرتے ہیں وہ وقت سے پہلے تیاری مکمل کرکے رکھتے ہیں اور آیندہ پیش آنے والی صورتحال کی مکمل تصویر کشی بھی کرکے نقصانات اور اس کے سدباب کے طریقے وضع کرلیتے ہیں جس کی وجہ سے بہت کم جانی اور مالی نقصانات ہوتے ہیں۔
جاپان میں آنے والے حالیہ سونامی کی مثال سب کے سامنے ہے کہ انھوں نے کسی بھی ملک سے امداد کی اپیل کرنے کی بجائے اپنے وسائل اور ہنگامی حالات میں نمٹنے والے اداروں کا سہارا لیتے ہوئے اپنے ملک کو مشکل صورتحال سے نکالا وہاں نہ امداد کو لوٹا گیا نہ متاثرین نے بلوہ کیا اور نہ ہی حکمرانوں نے بلندوبانگ دعوے کیے بلکہ معمول کی کارروائی سمجھتے ہوئے تمام کام جاری و ساری ہوئے اور ملک ہنگامی صورت سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا کیوں کہ وہاں حکومت ادارے اور حکمران پرو ایکٹو ہوتے ہیں اور عوام کے لیے کام کرنے والے اداروں پر کڑی نظر بھی رکھتے ہیں مگر ہمارے ہاں صورتحال کچھ برعکس ہے ہم نے تو بہت ساری تباہیوں کے باوجود کوئی سبق نہیں سیکھا۔
وزیر اعظم کوئی بھی ہو ان سب کے مائنڈ ایک ہی دائرے میں گھومتے نظر آتے ہیں ۔ پاکستان کے لوگ موجودہ سیلاب کے بعد امداد کے منتظر ہیں فصلیں تباہ ہوگئیں، مویشی مر گئے مکانات بہہ گئے ہمارے حکمران اس جانب توجہ دیں۔ قوم کے درد میں ڈوبے ہمارے حکمران اتنے غریب پرور ہیں کہ ان کی نیندیں عوام کے غم میں حرام ہوچکی ہیں۔ اسی لیے اسی ہوٹل میں قیام کریں گے جس میں امریکا کے صدر بارک اوباما قیام کریں گے آخر ہمیں امریکا کے ساتھ ہمسری کا دعویٰ جو ہے۔
ہمارے حکمران کسی سے کم ہیں کیا بلکہ جائیداد کے معاملے میں امریکی صدر ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے (ہمارے خیال میں) اس کے علاوہ شوق ملاقات بھی تو ہے کہ شاید کہیں کسی موڑ پر کسی جگہ کسی کھڑکی کی اوٹ سے دیدار اوباما ہو جائے تو سمجھو قسمت سنور گئی مگر اس شوق ملاقات اور شاہانہ انداز فکر نے قوم کو سخت مایوس کیا ہے۔
اس کے علاوہ اس طرح کا طرز عمل ان فنڈز کرنے والے ممالک پر بھی برا اثر ڈالے گا جو پاکستان کے عوام کی بھلائی کے لیے مختلف پروجیکٹ پر کام کر رہے ہیں کیوں جس ملک میں کروڑوں عوام غربت کی لکیر کے نیچے کام کر رہے ہوتے ہوں اور مختلف دنیاوی آفتوں میں مبتلا ہوکر اپنا سب کچھ ختم کر بیٹھے ہوں وہاں کے حکمران ان کو بے یارومددگار چھوڑ کر ایسے دوروں پر چلے جائیں جن کا حاصل حصول کچھ نہ ہو اور ایسے ہوٹلوں میں قیام پذیر ہوں جن کا ایک دن کا خرچ لاکھوں میں تو ایسے ملک کے لیے کون ہے جو ہمدردی کے جذبات کو پروان چڑھائے گا۔
ہمارے حکمرانوں کا یہ وتیرہ ہونا چاہیے تھا کہ وہ بیرون ملک دورے منسوخ کر دیں کہ میرے ملک اور میرے اٹھارہ کروڑ ووٹروں کو میری ضرورت ہے کیونکہ میرے عوام اس وقت جس آزمائش میں مبتلا ہیں اس وقت مجھے اپنے عوام کے ساتھ رہنا چاہیے اور اس دورے پر اٹھنے والی رقم کو اگر بحالی کے کاموں میں صرف کیا جائے تو کوئی بھی دھرنا یا انقلاب کامیاب نہیں ہوسکتا مگر ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات کچھ اور ہیں اس کی وجہ سے وہ عوام سے کچھ لینا دینا نہیں رکھتے ماسوائے بیانات کے کیونکہ بیانات کے ذریعے ہی عوام کو بے وقوف بنایا جاسکتا ہے مگر اب ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ میڈیا نے رتی رتی کی خبر دے کر حقائق کا روشن چہرہ عوام کو دکھا دیا ہے جس کی وجہ سے اب ان بیانات سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔