کہاں سے لاؤں انھیں
مظہر محمود شیرانی نے جن شخصیات کی رہنمائی اور ہمراہی میں علم کی شاہراہیں طے کی ہیں ...
لاہور:
مظہر محمود شیرانی کی کتاب ''کہاں سے لاؤں انھیں'' شخصیت نگاری کی بہترین مثال ہے۔ اس میں انھوں نے جس شخصیت کا ذکر کیا ہے اس کی پوری تصویر کھینچ کر رکھ دی ہے۔ زندگی کوئی گوشہ ظاہری اور باطنی تشنہ نہیں چھوڑا ہے۔ مظہر محمود چونکہ خود صاحب علم ہیں اور ایک بڑے علمی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، اس لیے ان کی منتخب شخصیات علم کی دنیا میں ایسا مقام رکھتی ہیں جن پر رشک ہی کیا جاسکتا ہے۔ مظہر حافظ محمود شیرانی کے پوتے اور اختر شیرانی کے فرزند ہیں۔ اپنے باپ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
''حافظ صاحب اپنے بیٹے کو بحرالعلوم بنانا چاہتا تھے۔ چنانچہ متعدد اساتذہ اختر کی تدریس اور تربیت کے لیے مقرر کیے گئے۔ ایک وقت میں تو ان کی تعداد سات تک پہنچ گئی۔ اردو، فارسی، دینیات اور ریاضی کے علاوہ خوش خطی، ورزش اور پیراکی کے لیے الگ الگ استاد تھے۔ ان مساعی کے نتیجے میں اختر کی علمی استعداد بہت اچھی، خط بڑا پاکیزہ اور جسم گھٹا ہوا تھا۔''
پھر ہوا یہ کہ اختر شعر گوئی کی طرف مائل ہوئے اور رسمی تعلیم کو چھوڑ کر انھوں نے شعر و ادب اور صحافت کو پیشہ بنالیا۔ ''غضب اس وقت ہوا جب حافظ صاحب کو ان کی مے نوشی کی خبر ہوئی اور اتنی تاخیر سے کہ جب یہ عادت راسخ ہوچکی تھی۔'' اب اختر کا گھر میں داخلہ بند ہوگیا۔ پھر بعد میں گھر میں رہنے کی اجازت تو مل گئی مگر اس شرط پر کہ بیٹا باپ کے سامنے نہ آئے۔ دونوں نے یہ معاہدہ مرتے دم تک پورا کیا۔
مظہر محمود شیرانی لکھتے ہیں: ''اختر صاحب بڑے وسیع مطالعہ شخص تھے۔ تحقیقی اور تنقیدی صلاحیتیں بھی ان میں بہت تھیں اور ترجمے کے فن میں تو یدطولیٰ رکھتے تھے۔'' مگر ان کی شاعر کی حیثیت سے شہرت سب سے زیادہ تھی۔''
اختر شیرانی اپنے بچپن کے شخصیت ساز زمانے میں باپ کی محبت سے محروم رہے تھے جس کا اظہار ان کی مزاجی کیفیت سے ہوتا رہتا تھا لیکن مظہر شیرانی لکھتے ہیں: ''وہ ہم بھائی بہنوں سے بے انتہا پیار کرتے تھے۔ مجھے یاد نہیں انھوں نے کبھی مجھے مارا یا جھڑکا ہو۔'' کچھ دن ایسے بھی آتے تھے جب خوش مزاجی ان پر غالب رہتی تھی۔ وہ اپنے بچوں سے ہنسی مذاق رکھتے، پھلجھڑیاں سی چھوڑتے رہتے۔
اپنے بچپن میں مظہر محمود شیرانی اپنے ایک چچا کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھنے ٹونک کی جس مسجد میں جاتے تھے وہاں مولانا سید محمد یعقوب حسنی نماز پڑھاتے تھے۔ پہلی بار انھیں دیکھا اور سنا تو ان کے گرویدہ ہوگئے ان کی صورت، ان کے سراپے کی جاذبیت نے انھیں مبہوت کردیا۔ اپنی کتاب میں ان کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ''مجھے اس نوعمری کے باوجود جمعے کے دن کا انتظار رہتا تھا۔ ظاہر ہے اس کا سبب ان بزرگ شخصیت کی مقناطیسی کشش تھی۔ میں سوچا کرتا تھا مولانا کی باتوں میں اتنا اثر کیوں ہے۔ اب یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس کا سبب ان کے ایمان کی پختگی اور نیت کا خلوص تھا۔''
مولانا سید یعقوب، سید احمد شہیدؒ کی دوسری صاحب زادی کے حقیقی پوتے تھے۔ ان کی تربیت ایسے خاندان میں ہوئی تھی جو صحیح النسب سید ہونے کے علاوہ علم و عمل اور زہد و تقویٰ میں اپنی مثال آپ تھا۔ مظہر شیرانی لکھتے ہیں کہ مولانا اپنے وعظ میں کبھی اللہ تعالیٰ کے غیظ و غضب اور جبر و قہر کا ذکر نہیں کرتے تھے۔ ہمیشہ اس کی مغفرت اور انعام و اکرام کا ذکر چھیڑتے تھے۔
ایک مرتبہ کسی وعظ کے بعد حاضرین میں سے کسی نے ان سے عرض کیا کہ آپ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت کو موضوع بناتے ہیں اس سے سامعین میں بے عملی پیدا ہوسکتی ہے، مناسب ہے کہ دوسرے پہلو کو بھی اہمیت دی جائے۔ مولانا یعقوب حسنی نے جواب میں کہا کہ بنی اسرائیل کے ایک واعظ مسلسل چالیس سال تک اپنے وعظ میں اللہ تعالیٰ کے عفووکرم کا ذکر کرتے رہے۔ پھر ایک دن ایک معقول شخص کے مشورے پر اللہ کے قہروغضب کو موضوع بنایا۔ اسی رات ان کو غیب سے صدا آئی کہ کیا میری رحمت کا ذخیرہ صرف چالیس سال کے بیان میں ختم ہوگیا؟
مظہر محمود شیرانی نے جن شخصیات کی رہنمائی اور ہمراہی میں علم کی شاہراہیں طے کی ہیں کتاب میں ان کا ذکر بڑی محبت اور عقیدت سے کیا گیا ہے۔ یہ ان کی شخصیت نگاری اور نثر نگاری کے خوبصورت نمونے ہیں۔ ان شخصیات میں ''جامع علم و اخلاق'' پروفیسر حمید احمد خاں، ''حرم میں برہمن 'وطن میں غریب'' سید وزیر الحسن عابدی، ''نباض الملک'' حکیم نیرواسطی، ''صاحب اکرام'' اکرام حسن خاں، ''ضیائے علم و دیں'' ڈاکٹر ضیا الدین دیسائی، ''اپنی نظیر چھوڑے بغیر دنیا سے رخصت ہونے والے'' ڈاکٹر غلام مصطفی خاں، رشید حسن خاں جن کی شخصیت کا عنوان ''کون گلی گیو خان'' احمد ندیم قاسمی جن کے لیے سانجھ بھئی چوولس، پروفیسر عبدالوحید قریشی جن کے خاکے کا عنوان ''کیا عمارت 'قضا' نے ڈھائی ہے'' اور مشفق خواجہ شامل ہیں جن کو ''بن ٹھن کے کہاں چلے'' کہہ کر یاد کیا گیا ہے۔
پروفیسر حمید احمد خاں اسلامیہ کالج میں مظہر شیرانی کے استاد تھے۔ انگریزی نظم پڑھاتے تھے۔ شیرانی لکھتے ہیں: ''کیا کثیر المطالعہ، وسیع الذہن، سلیم الطبع اور صحیح المذاق انسان تھے۔
مظہر محمود شیرانی تاریخ میں ایم اے کرنے کے بعد فارسی میں ایم اے کرنے کے لیے جب اورینٹل کالج میں پہنچے تو سید وزیر الحسن عابدی فارسی مضمون نویسی اور جدید فارسی بول چال کے پروفیسر تھے۔ انھیں جب یہ معلوم ہوا کہ مظہر حافظ محمود شیرانی کے پوتے ہیں تو انھوں نے انھیں گلے لگالیا اور حافظ صاحب سے ان کی عقیدت ان کے پوتے سے محبت میں بدل گئی۔ مظہر کہتے ہیں کہ عابدی صاحب اکثر فارسی زبان میں لیکچر دیتے تھے اور ان کا لہجہ اور تلفظ بالکل جدید تھا۔ لکھتے ہیں: ''میں نے ایرانیوں میں بھی شاید ہی کسی کو اتنی نفیس اور رواں فارسی بولتے سنا ہوگا۔''
مشفق خواجہ کے خاکے سے بھی بڑی گہری انسیت کا اظہار ہوتا ہے۔ مظہر محمود شیرانی اور مشفق خواجہ کے خاندانوں میں پرانے تعلقات تھے۔
مظہر شیرانی لکھتے ہیں: ''بعض ادبی شخصیات تو خواجہ صاحب کا مستقل ہدف تھیں۔ ان میں ایک نمایاں نام ساقی فاروقی کا ہے۔ جب خواجہ صاحب کی سناونی آئی تو میں دل کا اک بوجھ ہلکا کرنے کی غرض سے احمد ندیم قاسمی صاحب کی خدمت میں پہنچا۔ اثنائے گفتگو وہ کہنے لگے کہ کل انگلستان سے ساقی فاروقی صاحب کا فون آیا تھا۔ بس خواجہ صاحب کا نام لیا اور پھر ایک لفظ نہ کہہ سکے دھاڑیں مار کر رونے لگے۔''
احمد ندیم قاسمی کی شخصیت نگاری میں مظہر شیرانی نے ان کے جس پہلو کو سامنے رکھا ہے وہ ان کی دردمندی ہے۔ احمد ندیم قاسمی کی ایک اور خوبی وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ ''قول اور فعل کی ہم آہنگی ان کا خاصہ رہا۔ جس بات کو حق سمجھا اس کا کھل کر اعلان کیا۔ اسی بنا پر ان کی شخصیت اور کلام میں کوئی تضاد نظر نہیں آتا۔ ڈاکٹر عبدالوحید قریشی کے بارے میں شیرانی لکھتے ہیں: ''انھوں نے بڑی بھرپور زندگی گزاری۔ اردو، فارسی اور پنجابی تینوں شعبوں سے ان کا طویل تدریسی تعلق رہا۔ یوں براہ راست اور بیک واسطہ شاگردوں کی تعداد کے اعتبار سے اورینٹل کالج کا کوئی استاد شاید ان سے سبقت نہ لے سکے۔''
مظہر محمود شیرانی نے اپنی کتاب میں ڈاکٹر غلام مصطفی خاں اور رشید حسن خاں کی ہمہ پہلو شخصیات کا تعارف بھی اسی انداز سے کرایا ہے۔ ڈاکٹر غلام مصطفی خاں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ''ان کی ذات گرامی معقول اور منقول کی جامع تھی۔ تخصص پرستی کے اس دور میں تحقیق و تدقیق اور سلوک و معرفت کا ایسا اجتماع نادر الوجود کہا جاسکتا ہے۔''
رشید حسن خاں بھی ایک ''دانش یار اور قلم کار'' تھے۔ مظہر شیرانی لکھتے ہیں: ''میرے خاص کرم فرما تھے۔ مشفق خواجہ کی طرح ان میں بھی یہ بڑی خوبی تھی کہ اپنے مخلصین کے معمولی علمی کاموں کی تعریف و توصیف کرکے ان کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے۔ ان کے جانے سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے سر سے کسی چھتنار درخت کا سایہ ڈھل گیا ہو۔''
بارہ ممتاز شخصیات کی علمی اور فکری کاوشوں کے اس تذکرے میں خود صاحب کتاب کی شخصیت بھی بھرپور انداز میں سامنے آتی ہے کیونکہ ان کا تعلق ایسے خانوادے سے ہے جو تین نسلوں سے علم و فکر کی اس میراث کو لوح دل پر محفوظ رکھے ہوئے ہے۔
مظہر محمود شیرانی کی کتاب ''کہاں سے لاؤں انھیں'' شخصیت نگاری کی بہترین مثال ہے۔ اس میں انھوں نے جس شخصیت کا ذکر کیا ہے اس کی پوری تصویر کھینچ کر رکھ دی ہے۔ زندگی کوئی گوشہ ظاہری اور باطنی تشنہ نہیں چھوڑا ہے۔ مظہر محمود چونکہ خود صاحب علم ہیں اور ایک بڑے علمی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، اس لیے ان کی منتخب شخصیات علم کی دنیا میں ایسا مقام رکھتی ہیں جن پر رشک ہی کیا جاسکتا ہے۔ مظہر حافظ محمود شیرانی کے پوتے اور اختر شیرانی کے فرزند ہیں۔ اپنے باپ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
''حافظ صاحب اپنے بیٹے کو بحرالعلوم بنانا چاہتا تھے۔ چنانچہ متعدد اساتذہ اختر کی تدریس اور تربیت کے لیے مقرر کیے گئے۔ ایک وقت میں تو ان کی تعداد سات تک پہنچ گئی۔ اردو، فارسی، دینیات اور ریاضی کے علاوہ خوش خطی، ورزش اور پیراکی کے لیے الگ الگ استاد تھے۔ ان مساعی کے نتیجے میں اختر کی علمی استعداد بہت اچھی، خط بڑا پاکیزہ اور جسم گھٹا ہوا تھا۔''
پھر ہوا یہ کہ اختر شعر گوئی کی طرف مائل ہوئے اور رسمی تعلیم کو چھوڑ کر انھوں نے شعر و ادب اور صحافت کو پیشہ بنالیا۔ ''غضب اس وقت ہوا جب حافظ صاحب کو ان کی مے نوشی کی خبر ہوئی اور اتنی تاخیر سے کہ جب یہ عادت راسخ ہوچکی تھی۔'' اب اختر کا گھر میں داخلہ بند ہوگیا۔ پھر بعد میں گھر میں رہنے کی اجازت تو مل گئی مگر اس شرط پر کہ بیٹا باپ کے سامنے نہ آئے۔ دونوں نے یہ معاہدہ مرتے دم تک پورا کیا۔
مظہر محمود شیرانی لکھتے ہیں: ''اختر صاحب بڑے وسیع مطالعہ شخص تھے۔ تحقیقی اور تنقیدی صلاحیتیں بھی ان میں بہت تھیں اور ترجمے کے فن میں تو یدطولیٰ رکھتے تھے۔'' مگر ان کی شاعر کی حیثیت سے شہرت سب سے زیادہ تھی۔''
اختر شیرانی اپنے بچپن کے شخصیت ساز زمانے میں باپ کی محبت سے محروم رہے تھے جس کا اظہار ان کی مزاجی کیفیت سے ہوتا رہتا تھا لیکن مظہر شیرانی لکھتے ہیں: ''وہ ہم بھائی بہنوں سے بے انتہا پیار کرتے تھے۔ مجھے یاد نہیں انھوں نے کبھی مجھے مارا یا جھڑکا ہو۔'' کچھ دن ایسے بھی آتے تھے جب خوش مزاجی ان پر غالب رہتی تھی۔ وہ اپنے بچوں سے ہنسی مذاق رکھتے، پھلجھڑیاں سی چھوڑتے رہتے۔
اپنے بچپن میں مظہر محمود شیرانی اپنے ایک چچا کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھنے ٹونک کی جس مسجد میں جاتے تھے وہاں مولانا سید محمد یعقوب حسنی نماز پڑھاتے تھے۔ پہلی بار انھیں دیکھا اور سنا تو ان کے گرویدہ ہوگئے ان کی صورت، ان کے سراپے کی جاذبیت نے انھیں مبہوت کردیا۔ اپنی کتاب میں ان کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ''مجھے اس نوعمری کے باوجود جمعے کے دن کا انتظار رہتا تھا۔ ظاہر ہے اس کا سبب ان بزرگ شخصیت کی مقناطیسی کشش تھی۔ میں سوچا کرتا تھا مولانا کی باتوں میں اتنا اثر کیوں ہے۔ اب یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس کا سبب ان کے ایمان کی پختگی اور نیت کا خلوص تھا۔''
مولانا سید یعقوب، سید احمد شہیدؒ کی دوسری صاحب زادی کے حقیقی پوتے تھے۔ ان کی تربیت ایسے خاندان میں ہوئی تھی جو صحیح النسب سید ہونے کے علاوہ علم و عمل اور زہد و تقویٰ میں اپنی مثال آپ تھا۔ مظہر شیرانی لکھتے ہیں کہ مولانا اپنے وعظ میں کبھی اللہ تعالیٰ کے غیظ و غضب اور جبر و قہر کا ذکر نہیں کرتے تھے۔ ہمیشہ اس کی مغفرت اور انعام و اکرام کا ذکر چھیڑتے تھے۔
ایک مرتبہ کسی وعظ کے بعد حاضرین میں سے کسی نے ان سے عرض کیا کہ آپ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت کو موضوع بناتے ہیں اس سے سامعین میں بے عملی پیدا ہوسکتی ہے، مناسب ہے کہ دوسرے پہلو کو بھی اہمیت دی جائے۔ مولانا یعقوب حسنی نے جواب میں کہا کہ بنی اسرائیل کے ایک واعظ مسلسل چالیس سال تک اپنے وعظ میں اللہ تعالیٰ کے عفووکرم کا ذکر کرتے رہے۔ پھر ایک دن ایک معقول شخص کے مشورے پر اللہ کے قہروغضب کو موضوع بنایا۔ اسی رات ان کو غیب سے صدا آئی کہ کیا میری رحمت کا ذخیرہ صرف چالیس سال کے بیان میں ختم ہوگیا؟
مظہر محمود شیرانی نے جن شخصیات کی رہنمائی اور ہمراہی میں علم کی شاہراہیں طے کی ہیں کتاب میں ان کا ذکر بڑی محبت اور عقیدت سے کیا گیا ہے۔ یہ ان کی شخصیت نگاری اور نثر نگاری کے خوبصورت نمونے ہیں۔ ان شخصیات میں ''جامع علم و اخلاق'' پروفیسر حمید احمد خاں، ''حرم میں برہمن 'وطن میں غریب'' سید وزیر الحسن عابدی، ''نباض الملک'' حکیم نیرواسطی، ''صاحب اکرام'' اکرام حسن خاں، ''ضیائے علم و دیں'' ڈاکٹر ضیا الدین دیسائی، ''اپنی نظیر چھوڑے بغیر دنیا سے رخصت ہونے والے'' ڈاکٹر غلام مصطفی خاں، رشید حسن خاں جن کی شخصیت کا عنوان ''کون گلی گیو خان'' احمد ندیم قاسمی جن کے لیے سانجھ بھئی چوولس، پروفیسر عبدالوحید قریشی جن کے خاکے کا عنوان ''کیا عمارت 'قضا' نے ڈھائی ہے'' اور مشفق خواجہ شامل ہیں جن کو ''بن ٹھن کے کہاں چلے'' کہہ کر یاد کیا گیا ہے۔
پروفیسر حمید احمد خاں اسلامیہ کالج میں مظہر شیرانی کے استاد تھے۔ انگریزی نظم پڑھاتے تھے۔ شیرانی لکھتے ہیں: ''کیا کثیر المطالعہ، وسیع الذہن، سلیم الطبع اور صحیح المذاق انسان تھے۔
مظہر محمود شیرانی تاریخ میں ایم اے کرنے کے بعد فارسی میں ایم اے کرنے کے لیے جب اورینٹل کالج میں پہنچے تو سید وزیر الحسن عابدی فارسی مضمون نویسی اور جدید فارسی بول چال کے پروفیسر تھے۔ انھیں جب یہ معلوم ہوا کہ مظہر حافظ محمود شیرانی کے پوتے ہیں تو انھوں نے انھیں گلے لگالیا اور حافظ صاحب سے ان کی عقیدت ان کے پوتے سے محبت میں بدل گئی۔ مظہر کہتے ہیں کہ عابدی صاحب اکثر فارسی زبان میں لیکچر دیتے تھے اور ان کا لہجہ اور تلفظ بالکل جدید تھا۔ لکھتے ہیں: ''میں نے ایرانیوں میں بھی شاید ہی کسی کو اتنی نفیس اور رواں فارسی بولتے سنا ہوگا۔''
مشفق خواجہ کے خاکے سے بھی بڑی گہری انسیت کا اظہار ہوتا ہے۔ مظہر محمود شیرانی اور مشفق خواجہ کے خاندانوں میں پرانے تعلقات تھے۔
مظہر شیرانی لکھتے ہیں: ''بعض ادبی شخصیات تو خواجہ صاحب کا مستقل ہدف تھیں۔ ان میں ایک نمایاں نام ساقی فاروقی کا ہے۔ جب خواجہ صاحب کی سناونی آئی تو میں دل کا اک بوجھ ہلکا کرنے کی غرض سے احمد ندیم قاسمی صاحب کی خدمت میں پہنچا۔ اثنائے گفتگو وہ کہنے لگے کہ کل انگلستان سے ساقی فاروقی صاحب کا فون آیا تھا۔ بس خواجہ صاحب کا نام لیا اور پھر ایک لفظ نہ کہہ سکے دھاڑیں مار کر رونے لگے۔''
احمد ندیم قاسمی کی شخصیت نگاری میں مظہر شیرانی نے ان کے جس پہلو کو سامنے رکھا ہے وہ ان کی دردمندی ہے۔ احمد ندیم قاسمی کی ایک اور خوبی وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ ''قول اور فعل کی ہم آہنگی ان کا خاصہ رہا۔ جس بات کو حق سمجھا اس کا کھل کر اعلان کیا۔ اسی بنا پر ان کی شخصیت اور کلام میں کوئی تضاد نظر نہیں آتا۔ ڈاکٹر عبدالوحید قریشی کے بارے میں شیرانی لکھتے ہیں: ''انھوں نے بڑی بھرپور زندگی گزاری۔ اردو، فارسی اور پنجابی تینوں شعبوں سے ان کا طویل تدریسی تعلق رہا۔ یوں براہ راست اور بیک واسطہ شاگردوں کی تعداد کے اعتبار سے اورینٹل کالج کا کوئی استاد شاید ان سے سبقت نہ لے سکے۔''
مظہر محمود شیرانی نے اپنی کتاب میں ڈاکٹر غلام مصطفی خاں اور رشید حسن خاں کی ہمہ پہلو شخصیات کا تعارف بھی اسی انداز سے کرایا ہے۔ ڈاکٹر غلام مصطفی خاں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ''ان کی ذات گرامی معقول اور منقول کی جامع تھی۔ تخصص پرستی کے اس دور میں تحقیق و تدقیق اور سلوک و معرفت کا ایسا اجتماع نادر الوجود کہا جاسکتا ہے۔''
رشید حسن خاں بھی ایک ''دانش یار اور قلم کار'' تھے۔ مظہر شیرانی لکھتے ہیں: ''میرے خاص کرم فرما تھے۔ مشفق خواجہ کی طرح ان میں بھی یہ بڑی خوبی تھی کہ اپنے مخلصین کے معمولی علمی کاموں کی تعریف و توصیف کرکے ان کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے۔ ان کے جانے سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے سر سے کسی چھتنار درخت کا سایہ ڈھل گیا ہو۔''
بارہ ممتاز شخصیات کی علمی اور فکری کاوشوں کے اس تذکرے میں خود صاحب کتاب کی شخصیت بھی بھرپور انداز میں سامنے آتی ہے کیونکہ ان کا تعلق ایسے خانوادے سے ہے جو تین نسلوں سے علم و فکر کی اس میراث کو لوح دل پر محفوظ رکھے ہوئے ہے۔