والدین کے حقوق

’’اﷲ تعالیٰ کی رضا مندی والدین کی رضا مندی میں ہے اور اﷲ تعالیٰ کی ناراضی والدین کی ناراضی میں ہے۔‘‘


Maulana Mushtaq Ahmed Shakir September 28, 2012
’’اﷲ تعالیٰ کی رضا مندی والدین کی رضا مندی میں ہے اور اﷲ تعالیٰ کی ناراضی والدین کی ناراضی میں ہے۔‘‘ فوٹو: رائٹرز

KARACHI: اولاد پر والدین کو جو فضیلت حاصل ہے، وہ مسلمہ حقیقت ہے، کیوں کہ والدین ہی اولاد کے وجود میں آنے کا ذریعہ ہیں۔

والدین اپنی اولاد کے لیے لاکھوں دکھ جھیلتے اور ہزاروں پریشانیاں اٹھاتے ہیں، تب جاکر اولاد جوانی کی عمر کو پہنچتی ہے۔

اپنی اولاد کی پرورش اور انہیں اچھی تعلیم و تربیت دیتے ہوئے والدین خود بڑھاپے کو پہنچ کر کمزور ہوجاتے ہیں، اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے والدین کے حق کا ذکر اپنے حقوق کے بعد کیا ہے۔

ارشاد ہوتا ہے:''آپ کا رب صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ اگر تمہاری موجودگی میں ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اُف تک نہ کہو، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرو، بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرو اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھو اور دعا کرتے رہو کہ اے میرے رب، ان پر ویسا ہی رحم فرمائیے جیسا کہ انہوں نے میرے بچپن میں مجھ پر رحم کیا (میری پرورش کی) ہے۔'' (سورۂ بنی اسرائیل: آیات 23 تا 24)

دوسرے مقام پر فرمان الٰہی ہے:''اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے متعلق نصیحت کی، اس کی ماں نے اسے (پیٹ میں) کمزوری پر کمزوری کے باوجود اٹھائے رکھا اور دو سال کے دوران اس نے (ماں کا) دودھ پینا چھوڑا۔

ہم نے اسے (انسان کو) حکم دیا کہ میرا شکر بھی ادا کرو اور اپنے والدین کا بھی (یاد رکھو) سب کو میرے پاس ہی لوٹ کر آنا ہے۔'' (سورۂ لقمان: آیت 14)
والدین کے حقوق کے حوالے سے احادیث مبارکہ بھی ذیل میں پیش کی جاتی ہیں:

''اﷲ تعالیٰ کی رضا مندی والدین کی رضا مندی میں ہے اور اﷲ تعالیٰ کی ناراضی والدین کی ناراضی میں ہے۔''

''جس مسلمان کے والدین زندہ ہوں، وہ ان دونوں کی خدمت کر کے اﷲ تعالیٰ سے اجر کا طلب گار رہے تو اﷲ تعالیٰ اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھول دیتے ہیں، اگر ان میں سے ایک زندہ ہے تو ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔

اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک اس سے ناراض ہو جائے تو اﷲ تعالیٰ اس آدمی سے اس وقت تک راضی نہیں ہوتے جب تک کہ وہ (جو ناراض ہے) اس سے راضی نہ ہوجائے۔''
اس موقع پر اﷲ کے رسولﷺ سے پوچھا گیا کہ اگر والدین اس کے ساتھ ظلم کریں تب بھی کیا ایسا ہی ہوگا؟

آپؐ نے ارشاد فرمایا:''ہاں، اگرچہ وہ اس پر ظلم ہی کیوں نہ کریں۔''
حضرت ابو ہریرہؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک صحابی نے رسول اکرمﷺکی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر عرض کیا:''اے اﷲ کے رسول، کون سی ہستی میرے حسن سلوک کی سب سے زیادہ مستحق ہے؟''
آپؐ نے فرمایا:''تمہاری ماں۔''

صحابی نے اس کے بعد دو بار مزید پوچھاتو اﷲ کے رسول نے ماں کا نام ارشاد فرمایا، مگر چوتھی بار پوچھنے پر نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:''تمہارا باپ۔''

اولاد کے ساتھ والدین کا جسمانی تعلق تو ان کی وفات کے ساتھ ہی ختم ہو جاتا ہے، لیکن روحانی تعلق کبھی ختم نہیں ہوتا۔ اولاد کی جانب سے کیے ہوئے صدقہ جاریہ، حج ، قربانی اور دعائوں کا ثواب مسلسل پہنچتا ہی رہتا ہے اور ان کے درجات بلند ہوتے رہتے ہیں۔

حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:''جب انسان وفات پاجاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے، مگر تین اعمال ایسے ہیں جن کا ثواب ان کے انتقال کے بعد بھی ملتا رہتا ہے: اپنے پیچھے کوئی ہمیشہ جاری رہنے والا صدقہ چھوڑ گیا ہو۔ مثلاً کوئی مسجد بنوائی ہو تو جب تک لوگ اس میں نماز پڑھتے رہیں گے، اسے ثواب ملتا رہے گا۔

کوئی ایسا علم چھوڑا ہو جس سے اﷲ تعالیٰ کے بندے مستفید ہو رہے ہوں۔ یعنی کوئی دینی کتا ب لکھی ہو یا اپنے شاگردوں کو بہترین تعلیم سے سرفراز کیا ہو۔ ایسی نیک اولاد چھوڑی ہو جو اس کے حق میں دعائے خیر کرتی ہو۔'' (مسلم)

حضرت سعد بن عبادہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا:''سب سے بہترین صدقہ پانی پلانا ہے۔''

انہوں نے خدمت نبوی میں عرض کیا:''اے اﷲ کے رسولؐ، میری والدہ وفات پا گئیں، ان کی جانب سے کون سا صدقہ افضل ہے؟''
نبی کریمﷺ نے فرمایا :''پانی پلانا۔''

چناں چہ سعد بن عبادہ نے ایک کنواں کھدوایا اور اسے عام لوگوں کے لیے وقف کردیا۔

حضرت عبد اﷲ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ حجۃ الوداع کے موقع پر قبیلہ خثعم کی ایک عورت نے رسول پاکؐ کی خدمت میں عرض کیا:''اے اﷲ کے رسول، اﷲ تعالیٰ کا فریضۂ حج اس کے بندوں پر لازم ہے، لیکن میرے والد انتہائی بوڑھے ہیں، سواری پر بیٹھ نہیں سکتے۔ کیا میں ان کی جانب سے حج (بدل) کرسکتی ہوں؟''

رسول مکرمﷺ نے فرمایا:''ہاں، کرسکتی ہو۔''
حضرت عبد اﷲ بن عباس سے مروی ہے کہ ایک صحابی نے آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا:''اے اﷲ کے رسول، میرے والد وفات پاچکے ہیں اور وہ حج ( فرض ہو جانے کے باوجود) نہیں کرسکے۔ کیا میں ان کی طرف سے حج کرسکتا ہوں؟''

آپؐ نے فرمایا: ''یہ بتاؤ اگر تمہارے والد پر کوئی قرض ہوتا تو تم اسے ادا کرتے؟''
صحابی نے جواب دیا:''جی ہاں، ضرور۔''

اس پر نبی کریمﷺ نے فرمایا:''اﷲ زیادہ حق دار ہے کہ اس کا حق ادا کیا جائے۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں