چوری شدہ مینڈیٹ سے بنی حکومت کی قانونی حیثیت کیا ہے عوامی تحریک کا سپریم کورٹ سے سوال
کیاحکومت نے بلدیاتی انتخابات نہ کرواکرسپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی نہیں کی؟ ، پی اے ٹی کا سوال
HYDERABAD:
پاکستان عوامی تحریک نے ممکنہ ماورائے اقدام کیس میں جمع کرائے گئے جواب سپریم کورٹ کے روبرو 14 سوالات رکھ دیئے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ چوری شدہ مینڈیٹ سے بننے والی حکومت کی قانونی حیثیت کیا ہے اور کیا موجودہ حکومت عدالتی احکامات کی خلاف ورزی نہیں کررہی۔
پاکستان عوامی تحریک کی جانب سے بیرسٹر علی ظفر سپریم کورٹ میں زیر سماعت ماورائے آئین اقدام کیس کے سلسلے میں نیا جواب داخل کرایا ہے جس میں عدالت عظمٰی کے سامنے 14 سوالات رکھے گئے ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ موجودہ حکومت چوری شدہ مینڈیٹ کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے اس کی قانونی حیثیت کیا ہے، کیا سیاسی جماعتوں میں احتساب کو کوئی نظام ہے؟ ، کیا جمہوری حکومتوں نے عوام سے کئے گئے وعدے پورے کئے؟، ملک میں بلدیاتی انتخابات اور اہم اداروں کے سربراہان کی تقرری کے سلسلے عدالتی حکم کی خلاف ورزی نہیں ہورہی، کیا عوام کے اثاثوں کو نجکاری کے نام پر فروخت نہیں کیا جارہا، آئین میں بنیادی حقوق کے حوالے سےعوام سے کئے گئے وعدوں کی خلاف ورزی نہیں کی جارہی۔ ارکان اسمبلی کا کام ترقیاتی کام کروانا ہے یا قانون سازی کرنا، کیا ارکان اسمبلی کو ملنے والے ترقیاتی فنڈز میں کرپشن نہیں ہوتی۔
واضح رہے کہ چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سپہریم کورٹ کا 5 رکنی بینچ ممکنہ غیر آئینی اقدام کیس کی سماعت کررہا ہے اور اس کی آئندہ شماعت 2 اکتوبر کو ہوگی ۔
پاکستان عوامی تحریک نے ممکنہ ماورائے اقدام کیس میں جمع کرائے گئے جواب سپریم کورٹ کے روبرو 14 سوالات رکھ دیئے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ چوری شدہ مینڈیٹ سے بننے والی حکومت کی قانونی حیثیت کیا ہے اور کیا موجودہ حکومت عدالتی احکامات کی خلاف ورزی نہیں کررہی۔
پاکستان عوامی تحریک کی جانب سے بیرسٹر علی ظفر سپریم کورٹ میں زیر سماعت ماورائے آئین اقدام کیس کے سلسلے میں نیا جواب داخل کرایا ہے جس میں عدالت عظمٰی کے سامنے 14 سوالات رکھے گئے ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ موجودہ حکومت چوری شدہ مینڈیٹ کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے اس کی قانونی حیثیت کیا ہے، کیا سیاسی جماعتوں میں احتساب کو کوئی نظام ہے؟ ، کیا جمہوری حکومتوں نے عوام سے کئے گئے وعدے پورے کئے؟، ملک میں بلدیاتی انتخابات اور اہم اداروں کے سربراہان کی تقرری کے سلسلے عدالتی حکم کی خلاف ورزی نہیں ہورہی، کیا عوام کے اثاثوں کو نجکاری کے نام پر فروخت نہیں کیا جارہا، آئین میں بنیادی حقوق کے حوالے سےعوام سے کئے گئے وعدوں کی خلاف ورزی نہیں کی جارہی۔ ارکان اسمبلی کا کام ترقیاتی کام کروانا ہے یا قانون سازی کرنا، کیا ارکان اسمبلی کو ملنے والے ترقیاتی فنڈز میں کرپشن نہیں ہوتی۔
واضح رہے کہ چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سپہریم کورٹ کا 5 رکنی بینچ ممکنہ غیر آئینی اقدام کیس کی سماعت کررہا ہے اور اس کی آئندہ شماعت 2 اکتوبر کو ہوگی ۔