پاکستان ایک نظر میں تبدیلی شاید اب بھی دور ہے

اصل بات یہی ہے کہ جناب تبدیلی اب بھی دور ہےتو لہذا اِسی نظام کو قبول کرتے رہیں کیونکہ بڑے لوگوں کی بڑی باتیں ہوتی ہیں.


فہیم پٹیل September 30, 2014
گزشتہ دنوں وی آئی پی کلچر کے خلاف جائز بغاوت کرنے والے فرد کو آج نوکری سے نکال دیا گیا۔ حکومت کیجانب سے پے در پے غلطیوں کو دیکھنے کے بعد یہ مثال بار بار ذہن میں آتی ہے کہ’’ جب گیدر کی موت آتی ہے تو وہ شہر کو ہی بھاگتا ہے!‘‘۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD: اگر آپ عزت کے ساتھ دو وقت کی روٹی کمانا اور کھانا چاہتے ہیں، اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ زندگی گزارنے کے لیے آپ کو جتنی بھی آزادی اور اختیار ملا ہے وہ آپ کے پاس برقرار رہے اور کوئی آپ کے ہنستے بستے گھر کو میلی آنکھ سے نہ دیکھے تو آپ کو ایک بہت ہی قیمتی اور نادر تجویز دینا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ آپ اپنے اوپر ہونے والے ظلم ، زیادتی، ناانصافی پر بالکل اِسی طرح خاموش رہیں جس طرح حکومت عوام کی آہ و بکا پر چپ سادھے ہوئے ہے۔

میں جانتا ہوں کہ لوگ میری اِس کمزوری اور حالات سے سمجھوتہ کرنے والی عادت پر طعنے دینگے اور کہیں کہ نہیں جناب اب کچھ ہوجائے ظلم برداشت نہیں کیا جائے گا ۔۔۔ یہ جذبہ اور حالات سے مقابلہ کرنے کا حوصلہ قابل ستائش ہے مگر جناب یہ مشورہ تو آج صبح ہونے والے واقع کے بعد دینے کی خواہش کی۔

مجھے اُمید نہیں یقین ہے کہ گزشتہ دنوں یعنی 16 ستمبر کو پی آئی اے کی فلائٹ میں وی آئی پی کلچر کے خلاف ہونے والے واقعہ تو آپ سب کو ہی یاد ہوگا۔ جب فلائٹ کو محض اِس لیے 2 گھنٹے روکا گیا کہ اُس میں پیپلزپارٹی کے رہنما سینیٹر رحمان ملک اور پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اور ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار کو سوار ہونا ہے جس پر لوگ سیخ پا ہوگئے اور غصہ اِس نہج پر پہنچا کہ دونوں شخصیات کو جہاز میں سوار نہیں ہونے دیا۔

یہ واقعہ پاکستان میں وی آئی پی کلچر کے خاتمے کا آغاز قرار دیا جارہا تھا اور یقینی طور پر یہ تھا بھی مگر پھر وہی کچھ ہوا جو ہر ترقی پذیر ملک میں ہوتا ہے۔جس فرد نے اُس جہاز میں جائز بغاوت کا آغاز کیا تھا آج صبح پرائیوٹ کورئیر کمپنی نے بغیر کوئی وجہ بتائے اُنہیں نوکری سے ہی نکال دیا۔ حکومت کی بار بار غلطیوں کو دیکھنے کے بعد یہ مثال بار بار ذہن میں آتی ہے کہ'' جب گیدر کی موت آتی ہے تو وہ شہر کو ہی بھاگتا ہے!''

اگرچہ یہ ایک نجی کمپنی کا ملازم ہے اور بظاہر حکومت کا کسی بھی نجی کمپنی کے معاملے میں کوئی کردار نہٰن ہوتا لیکن پھر سوچتا ہوں کہ سرکار تو سرکار ہوتی ہے۔۔۔ وہ صرف سرکاری ہی نہیں بلکہ نجی ملازمین کو بھی فارغ کرنے کی قوت رکھتی ہے۔ لیکن اِس قوت کے باوجود بھی میں یہ مان لیتا ہوں کہ اِس پورے واقعہ میں حکومت کا کوئی کردار نہیں یہ محض ایک اتفاق ہے۔لیکن آج کل کا دور میڈیا کا دور ہے اور وہ بھی اِس قدر خطرناک کہ دن کو رات اور رات کو دن بنانے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا ۔بس یہ اطلاع آنی تھی اور پورے میڈیا نے زمین آسمان ایک کردیا کہ دیکھیے ناظرین یہ انجام ہوتا ہے پاکستان میں وی آئی پی کلچر کو چیلنج کرنے کا۔ تو اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ حکومت اِس پورے واقعہ سے بالکل لاتعلق ہے تو خداراہ لاتعلق نہ رہے بلکہ معاملہ کی چھان بین کرے کہ اچانک ایک فرد کو بغیر وجہ بتائے نوکری سے کس طرح نکالا جاسکتا ہے اور جس کے نکالنے سے لوگ حکومت کی طرف شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں جیسے اِس پوری کہانی کے پیچھے حکومت ہے۔

ذاتی طور پر مجھے دھرنوں اور دھرنے والوں سے کچھ اختلافات ہیں لیکن اختلاف یہ ہرگز نہیں کہ حکومت کے خلاف احتجاج کیوں کیا جارہا ہےبلکہ اختلاف تو یہ ہے کہ جس طریقہ کار کو وزیراعظم کے خاتمے کے لیے اپنایا جارہا ہے وہ کچھ مناسب نہیں۔وزیراعظم کو ہٹانے کے لیے آئین میں طریقہ بتادیا گیا ہے مگر اُس طریقہ کار میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ سڑک پر بیٹھ جائیں اور ایک چھوٹے بچے کی طرح زد کی جائے کہ بس کچھ ہوجائے وزیراعظم استعفی دیں۔ لیکن جہاں دھرنے والوں کی کچھ غلطیاں ہیں وہاں حکومت کی غلطیاں چار گنا زیادہ ہیں۔اپوزیشن کا تو کام ہی حکومت کے خلاف احتجاج کرنا ہے لیکن ذمہ داری تو حکومت کی بنتی ہے کہ معاملے کو کس طرح حل کیا جائے۔اور شاید یہ سب حکومت کی غلطیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ معاملہ اب مسلسل طوالت اختیار کرتا جارہا ہے اور جہاں لوگ ایک ایسے نظام کو قبول کرچکے تھے جس میں وہ ہر ہر خرابی ہے جس کا تصور کیا جاسکتا ہے مگر اب احتجاج اور مسلسل حکومت مخالف تقاریر کے بعد لوگوں میں احساس بیداری جنم لے رہی ہے جس کا سب سے زیادہ نقصان حکومت اور اِس گلے سڑے نظام سے مستفید ہونے والی اشرافیہ کو ہوگا۔ اگرچہ یہ ایک اچھی بات ہے مگر افسوس تو اِس بات ہے کہ جو اِس گلے سڑے نظام کے خلاف بغاوت کررہے ہیں اُن کا اپنا دامن بھی صاف نہیں بس یہی وہ ایک نقطہ ہے جو مسلسل پریشان کررہا ہے۔

خیر یہ تو اِدھر اُدھر کی باتیں تھی اصل بات اب بھی یہی ہے کہ جناب تبدیلی اب بھی دور ہے تو لہذا اِسی نظام کو قبول کرتے رہیں کیونکہ بڑے لوگوں کی بڑی باتیں ہوتی ہیں ۔۔۔۔ اگر آپ نے بڑے لوگوں سے پنگا لیا تو سزا بھی بڑی ملے گی اور چونکہ نظام گلہ سڑا ہے تو زیادتی کرنے والے سے باز پرس بھی نہیں ہوگی۔


نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں