نواز شریف کی چھک چھک گاڑی

نااہل افسران اور سیاسی بوجھ میں اضافہ کرنے والے وزراء سے جان چھڑانے کے لیے کیا ملک میں ہنگامے کروانا ضروری ہے


Syed Talat Hussain October 01, 2014
www.facebook.com/syedtalathussain.official twitter.com/talathussain12

میاں محمد نواز شریف کی حکومت ایک قدیم ریل گاڑی کی طرح سست روی سے چھک چھک کرتی ہوئی آہستہ آہستہ پٹری پر چل رہی ہے۔ مشکل حالات اس چڑھائی کی مانند ہیں جو بوڑھے انجن کی قوت حرکت سے کہیں زیادہ توانائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس کے آتے ہی ریل گاڑی کا سانس پھول جاتا ہے یا تو وہ رک جاتی ہے، اور یا پھر چیونٹی کی طرح رینگنے لگتی ہے۔ کبھی کبھی تو یہ احساس ہوتا ہے کہ جیسے پیچھے کی طرف جارہی ہے۔ مگر کسی بھی حالت میں چھک چھک نہیں چھوڑتی۔

اور حالات؟ حالات سر کش گھوڑے کی طرح سر پٹ بھاگ رہے ہیں، ان کو کسی نے ایڑھی لگائی ہے یا خود ہی یہ تیزی دکھا رہے ہیں۔ اس پر بحث کرنا ابھی بے معنی ہے۔ دھرنوں کو کامیاب بنانے کے لیے عمران خان نے جو جتن کیے، انھوں نے غیر متوقع طور پر فریاد کی اس تار کو چھیڑ دیا جو اس ملک کے ہر اوسط درجے کے شہری کے دل میں آہستہ آہستہ بج رہی تھی۔ حالات اتنے خراب ہو چکے تھے کہ ان تاروں کو عمران خان کی جگہ کوئی اور بھی چھیڑتا تو آواز یہی نکلنی تھی۔ اس لحاظ سے عمران خان اور طاہر القادری کی ذات بگڑے ہوئے منظر نامے کے حوالے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ معاملہ یہ نہیں ہے کہ کون کہہ رہا ہے۔ اصل میں یہ دیکھنا ہے کہ کیا کہا جا رہا ہے۔

جو کہا جا رہا ہے اس کا خلاصہ کچھ ایسا ہے ''موجودہ حکومت کو جلد از جلد ایسی تدابیر کرنی ہوں گی کہ برسوں سے غیر مطمئن اور ناامید ذہن یہ سمجھ لیں کہ ملک میں بہتری کا عمل شروع ہو گیا ہے''۔ یہ جملہ لکھنا آسان ہے مگر حکومت کی ادائیں دیکھتے ہوئے اس پر عمل در آمد ہوتے ہوئے دیکھنا ایک دیوانے کے خواب جیسا لگتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ مسلم لیگ نواز کی قیادت کے طور طریقے ہیں، شریف خاندان نے سیاست میں دو قسم کے تجربات حاصل کیے۔

ایک تجربہ آرام دہ سیاست کا تھا جب تمام ریاستی ادارے مل جل کر نظام کو جیسے تیسے چلانے کی کوشش میں مدد گار کردار ادا کر رہے تھے۔ تب سیاسی مخالفین کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت کبھی محسوس نہیں کی گئی تھی۔ سیاسی زندگی سکون سے چل رہی تھی۔ دوسرا تجربہ پہلے کے بالکل بر عکس تھا۔ اسٹیبلشمنٹ نے دھکا دیکر طاقت سے نکالا۔ سیاست سے در بدر کرنے کی کوشش کی اور مخالفین کے ذریعے ایک محاذ کھڑا کیا تا کہ ان کی واپسی کا راستہ بند کر دیا جائے۔ کچھ عرصے کے لیے دوسرے تجربے کے تحت سیاسی زندگی تکلیف دہ رہی۔

دونوں تجربات میں بہر حال ایک قدر مشترک ہے اور وہ یہ کہ سیاسی طاقت کا حصول اس کے استعمال اور نتائج کے مقابلے میں کہیں زیادہ اہم ہے۔ جب طاقت ہے تو اس میں خوش رہیں کہ ہم طاقت میں ہیں۔ اور جب طاقت ہاتھ سے پھسل جائے تو اس کو حاصل کرنے کی کوشش کریں تا کہ حصول کے بعد خوش رہیں کہ ہم طاقت میں ہیں۔ اختیار کو بہترین انداز سے حکومت چلانے کا ذریعہ بنانا، نواز لیگ کی قیادت نے نہیں سیکھا۔ لہٰذا آج بھی میاں محمد نواز شریف اپنے خلاف ہونے والی سازشوں کی ناکامی کا ذکر کرتے ہوئے روشن چہرہ ہو جاتے۔ اس پر مطمئن ہیں کہ پارلیمان ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ یہ جان کر راضی ہیں کہ انھوں نے عمران خان کی پارٹی کے مقابلے میں دوگنے ووٹ لیے ہیں۔

یہ دیکھ کر سکون میں آجاتے ہیں کہ پنجاب، مرکز کے علاوہ بلوچستان میں ایک دوست حکومت موجود ہے۔ آصف علی زرداری کے ساتھ ہاتھ ملا کر خود کو تسلی دیتے ہیں کہ بڑی قوتیں اور سیاسی دھڑے اپنے مفادات کے حصول کے لیے ان کو اڑنگی نہیں دیں گے۔ میاں صاحب کے لیے یہ بڑی تشفی ہے کہ عسکری قیادت میں امن کے ساتھ نئی تعیناتیاں ہو گئی ہیں۔ جن جگہوں پر ان کو اپنے سیاسی بند میں دراڑیں پڑتی ہوئی نظر آ رہی تھی، اب ان کی نظر میں وہ شگاف تقریبا بھر دیے گئے ہیں۔

اسلام آباد میں دھرنے کی حالت زار کو دیکھ کر ان کی آنکھوں کو سکون ملتا ہو گا۔ وہاں پر نہ تو روس کے زار کے خلاف اٹھنے والی تحریک کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں اور نہ تخت اچھالنے کے لیے بے تاب جنونی جتھے اپنے ہتھیار تیز کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ عدالتیں، سول سو سائٹی، وکلاء برادری، بڑی حد تک مقامی ذرایع ابلاغ اور کافی حد تک بیرونی قوتیں غیر آئینی تبدیلی کے خلاف اپنا موقف واضح کر چکے ہیں۔ میاں محمد نواز شریف کے تصور میں سیاسی طور پر موافق اور تسلی بخش تصویر کے تمام رنگ موجود ہیں۔ لہٰذا وہ اپنی پٹڑی پر ویسے ہی چل رہے ہیں جیسے پہلے چھک چھک، چھک چھک۔

چونکہ ریل گاڑی سیدھی چلتی ہے اور اس کا انجن گردن موڑ کر دائیں بائیں نہیں دیکھ سکتا۔ لہٰذا اس کے اطراف میں بننے والی صورت حال سے یہ ہمیشہ نا آشنا رہتا ہے۔ مگر اس وقت پاکستان میں یہ صورت حال جانے بغیر سیاسی سفر جاری رکھنا اور 2018 کے انتخابات تک کی منزل کو پانا مشکل نظر آتا ہے۔ میاں نواز شریف اس سفر کو آسان بنانے کے لیے بہت سے اقدامات کر سکتے تھے۔ نئی حکومتوں کو روایتی طور پر نوے دن کا ہنی مون پیریڈ دیا جاتا ہے جس میں وہ اپنی بھرپور صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام کے دلوں میں گھر کرنے کے لیے درجنوں اقدامات کا اجراء کرتے ہیں۔

دو تین بڑے فلاحی منصوبوں کو سامنے لا کر اچھے دنوں کی افزائش کا بندوبست کرنے میں یعنی طاقت کی مزید پھیلی ہوئی قدرتی پھسلن کی نفی کرتے ہوئے خود کو متوازن حالت میں لانے میں دھرنوں کو 45 دن ہو گئے۔ جو نئی حکومت کے ہنی مون کے نصف مدت کے برابر ہیں۔ چلیں 15 دن افرا تفری، غیر یقینی اور خوف کی اس کیفیت کو نکال دیں جس میں یہ حکومت ڈوب گئی تھی۔ ہنی مون کی مدت کے ایک تہائی دن پھر بھی بچتے ہیں۔ یعنی تقریبا ایک ماہ۔ اس ایک ماہ میں حکومت نے کیا ایک کام بھی ایسا کیا جس کو سیاسی طور پر نیا کہا جا سکتا ہو۔ اگر تیس دنوں میں تیس عوامی فلاح کے منصوبے شروع کیے جاتے تو آج عوام کو بتانے کے لیے حکومت کے پاس تیس منصوبے ہوتے۔ کیا آپ کسی ایک تبدیلی کو بطور مثال بیان کر سکتے ہیں جو حالات کی نزاکت کے پیش نظر مفید کہی جا سکتی ہو۔ مجھے تو چھک چھک کے سوا نہ کچھ دکھائی دیا اور نہ سنائی۔ حکومت کے وزراء (جو بھی دو چار ہیں) دھاندلی کے الزامات کو رد کرنے پر تحقیقی پرچے لکھ رہے ہیں۔

کچھ وزیر اعظم ہاؤس میں عمران خان کی طرف سے کی جانے والی سیاسی گالم گلوچ کا جواب تراش کر شیخیاں مارنے پر خوش ہیں۔ فضول کام ایک ہزار سے زائد جو کرنے کا ہے اس کو کل پر اٹھا رکھا ہے وہ کل جو کبھی نہیں آتی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تحریک انصاف کے استعفے کے علاوہ تمام مطالبات کو جرگوں کی نذر کرنے کے بجائے پارلیمان میں حقیقی اتفاق رائے بنا کر قانون سازی کے لیے پیش کر دیا جاتا۔

آئینی اور انتخابی اصلاحات کے لیے کیا ان اسمبلیوں کو پاکستان تحریک انصاف یا عوامی تحریک کی طرف سے حملے کا منتظر ہونا چاہیے؟ کیا منتخب ایوان یہ سکت نہیں رکھتا کہ دھاندلی کی تحقیقات سے لے کر مستقبل میں انتخابات کروانے کے تمام نظام کو بہترین انداز میں چلانے کے لیے خود سے قانون سازی کر لیں۔ احتجاج کرنے والوں کے ساتھ معاہدے کی صورت میں ہونے والی اصلاحات میں عزت ہے یا اپنے ہاتھ سے یہ کام کرنے میں۔ یہ کیسے غیر دانشمند نمایندگان ہیں جو اصلاحات کا کریڈٹ اپنے سیاسی مخالفین کو دینا چاہتے ہیں اس طرح کابینہ کی تکمیل اور کلیدی اداروں کی تشکیل کے لیے کیا کسی سائنسی تحقیق کی ضرورت ہے کہ وہ جلدی نہیں کیے جاسکتے۔ نااہل افسران اور سیاسی بوجھ میں اضافہ کرنے والے وزراء سے جان چھڑانے کے لیے کیا ملک میں ہنگامے کروانا ضروری ہے۔

کیا تھانہ، کچہری، اسپتال اور تعلیم کے نظام پر واضح توجہ دینا صرف خون خرابے کے نتیجے میں ممکن ہے۔ کیا اپنے اثاثوں کی وضاحت دینا اخلاقی اور آئینی فرائض میں شامل نہیں ہے کیا وزیر اعظم نواز شریف جم کر وزیر اعظم ہاؤس میں بیٹھے ہوئے مسلسل فیصلے کرنے کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتے کیا اپنی جماعت کے اندر ابلتا ہوا لاوا ان کو نظر نہیں آتا۔ کیا اپنے خاندان، دوستوں اور رشتے داروں کے علاوہ ان کو اہم عہدوں پر باصلاحیت افراد متعین کرنا بار گراں لگتا ہے وہ یہ سب کچھ کر سکتے تھے شاید کرنا چاہتے بھی ہوں میرے علم میں نہیں ہے۔ فی ا لحال جو منظر ہمارے سامنے ہے اسی میں ایک بوجھل ٹرین چھک چھک چھک کرتی چلی جا رہی ہے۔ سامنے ایک لمبی چڑھائی ہے اور ارد گرد ہاتھوں میں پتھر تھامے ستائے ہوئے عوام کا برق رفتار ہجوم، اس طرح کا سفر مشکل سے ہی ممکن ہوتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں