بلاول بھٹو اور پیپلز پارٹی کی نشاۃ ثانیہ
بلاول ایک سیاسی خانوادے کے چشم و چراغ ہونے کے حوالے سے ایک مضبوط تاریخی بیک گراؤنڈ رکھتے ہیں۔
آج کل پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ایکشن میں ہیں اور انھوں نے سیاست میں خصوصاً پنجاب کی سیاست میں فعال کردار ادا کرنا شروع کر دیا ہے، یوں تو بلاول بھٹو زرداری محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ہی سیاست میں ان (IN) ہیں لیکن جس طرح سے وہ آج کل سر گرم ہوئے ہیں اس حوالے سے سیاسی حلقوں میں کئی سوالات اٹھ رہے ہیں، مثلاً آیا بلاول بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی پھر بام عروج پر پہنچے گی؟ آیا پارٹی پھر سے شہید بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو والی پارٹی بن جائے گی یعنی کیا بلاول پیپلزپارٹی کا نشاط ثانیہ والا دور واپس لا سکیں گے، کچھ لوگوں کے نزدیک ان سوالوں کا جواب اثبات میں ہے اور کچھ کے نزدیک نفی میں جب کہ بعض لوگ کنفیوژن کا شکار ہیں۔
وہ لوگ جو اس بات سے انکاری ہیں کہ بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی پھر اپنی نشاۃ ثانیہ دیکھے گی وہ یا تو بہت بڑی غلط فہمی کا شکار ہیں یا بلاول بھٹو کے سیاسی پس منظر سے نظریں چرا رہے ہیں۔
بلاول ایک سیاسی خانوادے کے چشم و چراغ ہونے کے حوالے سے ایک مضبوط تاریخی بیک گراؤنڈ رکھتے ہیں۔ وہ پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین شہید ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے اور دختر پاکستان، پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم شہید جمہوریت محترمہ بے نظیر بھٹو کے صاحبزادے ہیں اور ان دونوں لیڈروں کی عوام میں مقبولیت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اور عوام آج بھی ان دونوں لیڈروں سے اسی والہانہ انداز سے محبت کرتے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری کا پنجاب کے حالیہ سیلاب زدہ علاقوں کے دورے میں جو والہانہ استقبال عوام نے کیا وہ عوام کی شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید محترمہ بے نظیر بھٹو سے والہانہ محبت کا اظہار ہی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کو اپنے درمیان پا کر متاثرین سیلاب کے چہرے خوشی سے دمک اٹھے اور خواتین نے والہانہ انداز میں بلاول کی بلائیں لیں اور انھیں پیار کیا۔ پنجاب کے لوگوں کو بلاول بھٹو میں شہید ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی جھلک نظر آ رہی تھی اور کیوں نہ نظر آتی کہ بلاول بھٹو کی سیاست کا انداز بھی اپنے نانا اور اپنی والدہ محترمہ کی طرح ہے وہ گھٹنوں گھٹنوں پانی میں بھی اترے اور عام لوگوں کے درمیان زمین پر بیٹھ کر ان کے مسائل و مصائب سنے اور ان میں گھل مل گئے، اس موقع پر بلاول بھٹو کا انداز خطابت بھی اپنے نانا اور والدہ محترمہ کے متشابہ تھا۔
پھر سابق وزیر اعظم جناب یوسف رضا گیلانی کی رہائش گاہ پر پارٹی کے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے یہ کہنا کہ ''دھرنے والے دھرنا چھوڑ کر سیلاب زدگان کی مدد کو آئیں یہ وقت احتجاج اور سیاست کا نہیں عوامی اور قومی مفاد میں کام کرنے کا ہے اور ایک قوم بننے کا ہے'' بلاول بھٹو کی تقریر کے یہ الفاظ ان کی سیاسی بلوغت کو ظاہر کرتے ہیں اور اتنی کم عمری میں اس سیاسی بلوغت کا مظاہرہ ایک عظیم تاریخی سیاسی پس منظر رکھنے والا اور سیاسی خانوادے سے تعلق رکھنے والا لیڈر ہی کر سکتا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری کی سیاسی بلوغت کا اندازہ ان کی ٹائمنگ سے بھی ہو جاتا ہے۔ انھوں نے سیاسی حوالے سے زمینی حقائق کا صحیح ادراک کرتے ہوئے پنجاب کی سیاست میں سر گرم ہونے کا درست وقت میں درست فیصلہ کیا ہے۔
پیپلز پارٹی کے قیام کے بعد سے ہی پنجاب پیپلز پارٹی کا مضبوط گڑھ رہا ہے۔ 1970ء کے عام انتخابات میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی نے پورے پنجاب میں کلین سوئپ کیا تھا۔ اس کے بعد بھی پیپلز پارٹی پنجاب میں جیتی ہوئی نشستوں کی بنیاد پر ہی مرکز میں حکومتیں بناتی رہی ہے لیکن 2013ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کو پنجاب میں جس طرح شکست ہوئی خواہ اس کے دیگر عوامل کچھ بھی ہوں لیکن ایک وجہ اس شکست کی پنجاب کی مقامی قیادت بھی تھی جنھوں نے اپنے ووٹرز اور ورکرز کو مایوس کیا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ اس شکست کے بعد سے وہاں کی مقامی قیادت میں حوصلہ ہی نہیں تھا کہ وہ پارٹی ورکرز کا سامنا کر سکیں، پھر مرکزی قیادت بھی پنجاب سے بظاہر لا تعلق سی ہو گئی تھی اور عام ورکرز کا پارٹی کی مقامی اور مرکزی قیادت سے کوئی رابطہ نہ تھا۔ ورکرز پنجاب لاوارث ہو کر رہ گئے تھے، کوئی ان کا پرسان حال نہ تھا اور ورکرز اور پارٹی کے ووٹرز بھی بد دلی اور مایوسی کا شکار تھے۔ ان کے حوصلے پست ہو چکے تھے، ایسے میں یہ محسوس کیا جا رہا تھا کہ اگر یہ صورت حال مزید کچھ اور عرصہ برقرار رہی تو پارٹی کے نظریاتی اور کمٹڈ کارکن مایوس ہو کر گھر بیٹھ جائیں گے اور پارٹی کا ووٹ بینک کسی اور پارٹی کی جھولی میں چلا جائے گا۔
ان حالات میں پیپلز پارٹی کو پنجاب بھر میں پھر سے فعال کرنے، ورکرز کا حوصلہ بڑھانے اور گراس روٹ لیول سے پارٹی کی تنظیم نو کرنے کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی تھی۔
مزید یہ کہ عمران و قادری کے جاری دھرنوں کے حوالے سے پیپلز پارٹی نے نواز لیگ کے ساتھ ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر اور انتخابی نتائج پر اپنے تحقیقات ہونے کے باوجود پارلیمنٹ کے اندر اور باہر جو مثبت پالیسی اور جمہوری رویہ اختیار کیا اس نے ثابت کیا کہ پی پی جمہوری اور روایات کی پاسداری پر یقین رکھتی ہے اور اس نے یہ پالیسی صرف اور صرف جمہوریت کو ڈی ریل ہونے سے بچانے اور جمہوری نظام کے تسلسل کی خاطر اپنائی ہے، دھرنوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالیہ بحران میں پیپلز پارٹی کی طرف سے اختیار کیے گئے اس اصولی موقف کی بناء پر پارٹی کا گراف پھر سے بلند ہوا ہے اور عوام میں اس کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی کو عوام میں مزید مقبول بنانے اور پذیرائی کے گراف کو مزید بلند کرنے کے لیے ضروری تھا کہ اس زر خیز موقع سے فائدہ اٹھایا جائے اور پنجاب میں رابطہ عوام کی مہم شروع کی جائے۔ پارٹی کی تنظیم نو کی جائے اسے گراس روٹ لیول سے منظم و مضبوط کیا جائے اور یہ انتہائی ناگزیر ہو گیا تھا کہ پارٹی کی مرکزی قیادت اس سلسلے میں فعال کردار ادا کرتے ہوئے پیش قدمی کرے۔
ان حالات میں بلاول بھٹو کا حالیہ دورہ پنجاب اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ سیاست کی نبض پر ان کی گرفت کتنی مضبوط ہے اور سیاسی لحاظ سے وہ اس کم عمری میں بھی کتنے میچیور ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری کے دورۂ پنجاب سے ورکرز کا مورال بہت بلند ہوا ہے۔ وہ پھر سے پر امید اور پرجوش ہیں وہ خوش ہیں کہ پارٹی کا چیئرمین جو شہید ذوالفقار علی بھٹو کا نواسہ اور شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کا بیٹا ہے۔ ان کے درمیان ہے، امید ہے بلاول بھٹو زرداری پارٹی ورکرز کے گلے شکوے دور کریں گے۔
پارٹی کی تنظیم نو میں ورکرز کی آرا کو بنیادی اہمیت دیں گے۔ گھر بیٹھے ہوئے پارٹی کے مخلص لوگوں کو متحرک کریں گے اور عوامی رابطے کا یہ سلسلہ جاری رکھیں گے اور اگر بلاول بھٹو زرداری یہ سب کر گزریں گے جو کہ امید کی جاتی ہے کہ ان جیسی بلند حوصلہ نوجوان لیڈر شپ کر بھی لے گی تو انشاء اﷲ پنجاب پھر سے پیپلز پارٹی کا گڑھ بنے گا اور مرکز میں آیندہ حکومت پیپلز پارٹی کی ہی ہو گی۔ بلاول بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی ہی ہو گی۔ بلاول بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی پھر ایک قومی پارٹی بن کر ابھرے گی۔ پیپلز پارٹی کا شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید محترمہ بے نظیر بھٹو والا دور واپس آئے گا اور یہ سنہرا دور بلاول بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی نشاۃ ثانیہ کا دور ہو گا۔
وہ لوگ جو اس بات سے انکاری ہیں کہ بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی پھر اپنی نشاۃ ثانیہ دیکھے گی وہ یا تو بہت بڑی غلط فہمی کا شکار ہیں یا بلاول بھٹو کے سیاسی پس منظر سے نظریں چرا رہے ہیں۔
بلاول ایک سیاسی خانوادے کے چشم و چراغ ہونے کے حوالے سے ایک مضبوط تاریخی بیک گراؤنڈ رکھتے ہیں۔ وہ پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین شہید ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے اور دختر پاکستان، پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم شہید جمہوریت محترمہ بے نظیر بھٹو کے صاحبزادے ہیں اور ان دونوں لیڈروں کی عوام میں مقبولیت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اور عوام آج بھی ان دونوں لیڈروں سے اسی والہانہ انداز سے محبت کرتے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری کا پنجاب کے حالیہ سیلاب زدہ علاقوں کے دورے میں جو والہانہ استقبال عوام نے کیا وہ عوام کی شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید محترمہ بے نظیر بھٹو سے والہانہ محبت کا اظہار ہی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کو اپنے درمیان پا کر متاثرین سیلاب کے چہرے خوشی سے دمک اٹھے اور خواتین نے والہانہ انداز میں بلاول کی بلائیں لیں اور انھیں پیار کیا۔ پنجاب کے لوگوں کو بلاول بھٹو میں شہید ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی جھلک نظر آ رہی تھی اور کیوں نہ نظر آتی کہ بلاول بھٹو کی سیاست کا انداز بھی اپنے نانا اور اپنی والدہ محترمہ کی طرح ہے وہ گھٹنوں گھٹنوں پانی میں بھی اترے اور عام لوگوں کے درمیان زمین پر بیٹھ کر ان کے مسائل و مصائب سنے اور ان میں گھل مل گئے، اس موقع پر بلاول بھٹو کا انداز خطابت بھی اپنے نانا اور والدہ محترمہ کے متشابہ تھا۔
پھر سابق وزیر اعظم جناب یوسف رضا گیلانی کی رہائش گاہ پر پارٹی کے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے یہ کہنا کہ ''دھرنے والے دھرنا چھوڑ کر سیلاب زدگان کی مدد کو آئیں یہ وقت احتجاج اور سیاست کا نہیں عوامی اور قومی مفاد میں کام کرنے کا ہے اور ایک قوم بننے کا ہے'' بلاول بھٹو کی تقریر کے یہ الفاظ ان کی سیاسی بلوغت کو ظاہر کرتے ہیں اور اتنی کم عمری میں اس سیاسی بلوغت کا مظاہرہ ایک عظیم تاریخی سیاسی پس منظر رکھنے والا اور سیاسی خانوادے سے تعلق رکھنے والا لیڈر ہی کر سکتا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری کی سیاسی بلوغت کا اندازہ ان کی ٹائمنگ سے بھی ہو جاتا ہے۔ انھوں نے سیاسی حوالے سے زمینی حقائق کا صحیح ادراک کرتے ہوئے پنجاب کی سیاست میں سر گرم ہونے کا درست وقت میں درست فیصلہ کیا ہے۔
پیپلز پارٹی کے قیام کے بعد سے ہی پنجاب پیپلز پارٹی کا مضبوط گڑھ رہا ہے۔ 1970ء کے عام انتخابات میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی نے پورے پنجاب میں کلین سوئپ کیا تھا۔ اس کے بعد بھی پیپلز پارٹی پنجاب میں جیتی ہوئی نشستوں کی بنیاد پر ہی مرکز میں حکومتیں بناتی رہی ہے لیکن 2013ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کو پنجاب میں جس طرح شکست ہوئی خواہ اس کے دیگر عوامل کچھ بھی ہوں لیکن ایک وجہ اس شکست کی پنجاب کی مقامی قیادت بھی تھی جنھوں نے اپنے ووٹرز اور ورکرز کو مایوس کیا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ اس شکست کے بعد سے وہاں کی مقامی قیادت میں حوصلہ ہی نہیں تھا کہ وہ پارٹی ورکرز کا سامنا کر سکیں، پھر مرکزی قیادت بھی پنجاب سے بظاہر لا تعلق سی ہو گئی تھی اور عام ورکرز کا پارٹی کی مقامی اور مرکزی قیادت سے کوئی رابطہ نہ تھا۔ ورکرز پنجاب لاوارث ہو کر رہ گئے تھے، کوئی ان کا پرسان حال نہ تھا اور ورکرز اور پارٹی کے ووٹرز بھی بد دلی اور مایوسی کا شکار تھے۔ ان کے حوصلے پست ہو چکے تھے، ایسے میں یہ محسوس کیا جا رہا تھا کہ اگر یہ صورت حال مزید کچھ اور عرصہ برقرار رہی تو پارٹی کے نظریاتی اور کمٹڈ کارکن مایوس ہو کر گھر بیٹھ جائیں گے اور پارٹی کا ووٹ بینک کسی اور پارٹی کی جھولی میں چلا جائے گا۔
ان حالات میں پیپلز پارٹی کو پنجاب بھر میں پھر سے فعال کرنے، ورکرز کا حوصلہ بڑھانے اور گراس روٹ لیول سے پارٹی کی تنظیم نو کرنے کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی تھی۔
مزید یہ کہ عمران و قادری کے جاری دھرنوں کے حوالے سے پیپلز پارٹی نے نواز لیگ کے ساتھ ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر اور انتخابی نتائج پر اپنے تحقیقات ہونے کے باوجود پارلیمنٹ کے اندر اور باہر جو مثبت پالیسی اور جمہوری رویہ اختیار کیا اس نے ثابت کیا کہ پی پی جمہوری اور روایات کی پاسداری پر یقین رکھتی ہے اور اس نے یہ پالیسی صرف اور صرف جمہوریت کو ڈی ریل ہونے سے بچانے اور جمہوری نظام کے تسلسل کی خاطر اپنائی ہے، دھرنوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالیہ بحران میں پیپلز پارٹی کی طرف سے اختیار کیے گئے اس اصولی موقف کی بناء پر پارٹی کا گراف پھر سے بلند ہوا ہے اور عوام میں اس کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی کو عوام میں مزید مقبول بنانے اور پذیرائی کے گراف کو مزید بلند کرنے کے لیے ضروری تھا کہ اس زر خیز موقع سے فائدہ اٹھایا جائے اور پنجاب میں رابطہ عوام کی مہم شروع کی جائے۔ پارٹی کی تنظیم نو کی جائے اسے گراس روٹ لیول سے منظم و مضبوط کیا جائے اور یہ انتہائی ناگزیر ہو گیا تھا کہ پارٹی کی مرکزی قیادت اس سلسلے میں فعال کردار ادا کرتے ہوئے پیش قدمی کرے۔
ان حالات میں بلاول بھٹو کا حالیہ دورہ پنجاب اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ سیاست کی نبض پر ان کی گرفت کتنی مضبوط ہے اور سیاسی لحاظ سے وہ اس کم عمری میں بھی کتنے میچیور ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری کے دورۂ پنجاب سے ورکرز کا مورال بہت بلند ہوا ہے۔ وہ پھر سے پر امید اور پرجوش ہیں وہ خوش ہیں کہ پارٹی کا چیئرمین جو شہید ذوالفقار علی بھٹو کا نواسہ اور شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کا بیٹا ہے۔ ان کے درمیان ہے، امید ہے بلاول بھٹو زرداری پارٹی ورکرز کے گلے شکوے دور کریں گے۔
پارٹی کی تنظیم نو میں ورکرز کی آرا کو بنیادی اہمیت دیں گے۔ گھر بیٹھے ہوئے پارٹی کے مخلص لوگوں کو متحرک کریں گے اور عوامی رابطے کا یہ سلسلہ جاری رکھیں گے اور اگر بلاول بھٹو زرداری یہ سب کر گزریں گے جو کہ امید کی جاتی ہے کہ ان جیسی بلند حوصلہ نوجوان لیڈر شپ کر بھی لے گی تو انشاء اﷲ پنجاب پھر سے پیپلز پارٹی کا گڑھ بنے گا اور مرکز میں آیندہ حکومت پیپلز پارٹی کی ہی ہو گی۔ بلاول بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی ہی ہو گی۔ بلاول بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی پھر ایک قومی پارٹی بن کر ابھرے گی۔ پیپلز پارٹی کا شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید محترمہ بے نظیر بھٹو والا دور واپس آئے گا اور یہ سنہرا دور بلاول بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی نشاۃ ثانیہ کا دور ہو گا۔