ایک خواب جو شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا
دھرنے رفتہ رفتہ دم توڑ رہے ہیں مگر اقتدار پر منڈلاتے خطرات کے بادل ہنوز اپنی شدت قائم رکھے ہوئے ہیں۔
اسلام آباد میں ڈیڑھ دو ماہ سے جاری احتجاجی دھرنوں میں اب وہ آب و تاب اور چمک دمک باقی نہیں رہی جو اُس کے ابتدائی دنوں میں دیکھی جا رہی تھی۔ تبدیلی اور انقلاب کے داعیوں کے پاس اب اِسے قائم اور دائم رکھنے کے لیے کچھ رہا بھی نہیں۔ جن توقعات اور اُمیدوں سے یہ دھرنا شروع کیا گیا تھا وہ حسرتیں دل ہی دل میں رہ گئیں۔
نہ کسی نیوٹرل امپائر نے اپنی اُنگلی اُٹھائی اور نہ کسی کی غیر جانبداری متزلزل ہوئی۔ حکومت نے جو غلطی ماڈل ٹاؤن میں کی تھی اُس نے اُسے اسلام آباد میں دُہرانے سے قطعاً اجتناب کیا۔ اِسی میں اُس کی عافیت اور بچت بھی ہو گئی۔ ورنہ اگر حکومت وہی غلطی یہاں بھی دہراتی تو وہ اب تک شاید جوں کی توں قائم نہ رہتی۔ اُس کا دھڑن تختہ یقینا ہو چکا ہوتا۔ البتہ پارلیمنٹ کے سامنے لگاتار دھرنے کا ایک ریکارڈ ضرور قائم ہو گیا۔ جو ہماری ملکی تاریخ کا بہر حال ایسا منفرد کارنامہ ہے جسے آیندہ شاید ہی کوئی حاصل کر پائے۔ اِن دھرنوں میں اُسکے قائدین کا مسلسل روزانہ دن میں دو بار خطاب بھی ایک ایسا ناقابلِ شکست ریکارڈ ہے جسے توڑنا اب کسی کے بس کی بات نہیں۔
اسٹیل کے بنے کنٹینر میں مسلسل غیر معینہ مدت تک رہنا جہاں صفائی ستھرائی کا بھی کوئی خاص انتظام نہ ہو کوئی آسان کام نہیں ہے۔ عمران خان تو بہرحال کبھی کبھار موقعہ نکال کر بنی گالا جاتے رہے اور اب وہ دیگر شہروں میں بھی جلسوں کی نئی اسٹریٹجی کے تحت نکل پڑے ہیں لیکن داد دیجیے جناب ڈاکٹر طاہر القادر ی کو جنکے عزم اور ارادوں میں کہیں بھی دراڑ یا رخنہ نہیں آیا وہ متواتر اِسی کنٹینر میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہیں سوتے اور جاگتے ہیں، یہیں کھاتے اور پیتے ہیں اور یہیں نہاتے اور عبادت کرتے ہیں۔ شام کو اپنے مریدوں اور دھرنے کے شرکاء سے پُرجوش خطاب بھی کرتے ہیں۔ بیمار پڑ گئے لیکن علاج کے بہانے بھی کسی اسپتال میں داخل نہیں ہوئے۔
اِس کے برعکس عمران خان کا اسٹائل ہی دوسرا ہے۔ وہ پہلے روز سے ہی کنٹینر سے غائب ہوتے رہے ہیں میڈیا کی نشاندہی پر مجبوراً کنٹینر میں کچھ دن قیام کیا مگر اب پھر سے وہی روز کا معمول ہے۔ دوپہر کو نہا دھو کر، نئے کپڑے زیب تن کر کے، خوبصورت مفلر گلے میں ڈال کر کنٹینر کی چھت پر سو ڈیڑھ سو چکر ایسے لگاتے ہیں جیسے کوئی پہلوان کُشتی شروع ہونے سے پہلے تماشائیوں پر یا اپنے مخالف پہلوان پر رعب جماتا ہو۔ دونوں ہاتھ اُٹھا اُٹھا کر اور وکٹری کا نشان بنا بنا کر سامنے رکھی خالی کُرسیوں کو خوب مرعوب کر تے رہتے ہیں۔ دوپہر کو تقریباً ایک دو بجے جب اُن کے سارے حامی اُن کے طرح اپنے اپنے گھروں میں آرام فرما رہے ہوتے ہیں وہ اکیلے ہی شام کے خطاب کی زبر دست ریہرسل کر رہے ہوتے ہیں۔
قطع نظر اِس کے کہ عمران خان اور جناب طاہرالقادری اپنے مطلوبہ ہدف ابھی تک حاصل نہیں کر پائے ہیں لیکن البتہ اتنا ضرور ہوا ہے کہ میاں صاحب کو چھٹی کا دودھ ضرور یاد آ گیا ہے اور وہ جو اسمبلی میں آنا اپنی توہین سمجھتے تھے بلاناغہ روزانہ تشریف لانے لگے۔ اب سے چند ماہ پہلے اُن کے وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ عمران خان اور طاہر القادری اُن کے لیے اِتنی بڑی مشکل بن جائیں گے۔
ستم بالائے ستم یہ کہ جناب اعتزاز احسن نے بھی اپنے پارلیمانی خطاب میں احسان جتانے کے ساتھ ساتھ دل کھول کر اپنے اندر کی بھڑاس بھی نکال لی اور میاں صاحب خاموشی سے سنتے رہے۔ نون لیگ میں سے کسی نے بھی جناب اعتزاز احسن کو اُن کے اِس ہتک آمیز خطاب کا کوئی جواب نہیں دیا۔ جناب وزیرِ داخلہ بھی چار و ناچار حالات کے مارے اپنی مقررہ پریس کانفرنس میں وہ جوابی حملے نہ کر پائے جن کا خدشہ مسلم لیگ کے کئی چاہنے والوں کو تھا۔
دھرنے رفتہ رفتہ دم توڑ رہے ہیں مگر اقتدار پر منڈلاتے خطرات کے بادل ہنوز اپنی شدت قائم رکھے ہوئے ہیں۔ کئی تجزیہ نگاروں کے خیال میں میاں صاحب کا جانا وقتی طور پر ٹھہر گیا ہے لیکن اُنہیں اب سکون و اطمینان سے حکمرانی کرنے کا موقعہ شاید ہی مل پائے۔ ایک کے بعد ایک خطرہ اُن کے سر پر ہمیشہ سایہ فگن رہے گا اور وہ اپنی ساری توجہ حکومت بچانے کی فکر میں لگائے رکھیں گے۔
عمران خان اور طاہر القادری آج تنہا ہی تبدیلی لانے کی فکر میں سرگرداں ہیں لیکن اگر وہ ناکام ہوئے تو کوئی دوسرا فریق حکومت کی مخالفت میں سینہ تان کے کھڑا ہو جائے گا۔ پاکستان پیپلز پارٹی آج جمہوریت بچانے کی خاطر میاں صاحب کی حمایت میں کھڑی دکھائی دے رہی ہے مگر اُسے وہ دن بھی بہت اچھی طرح یاد ہیں جب میاں صاحب اُن کی حکومت کے خلاف خوب آتش فشانی اور شعلہ بیانی کیا کرتے تھے اور میموگیٹ اسکینڈل میں وہ کالا کوٹ پہن کر اپنے تئیں عدالت پہنچ گئے تھے۔ جناب قمر زمان کائرہ تو آج بھی جب موقعہ ملتا ہے اپنے زخم کھول کھول کر دکھا تے رہتے ہیں۔ لہذا میاں صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے۔ تحریکِ انصاف کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی بھی خم ٹھونک کر میدان میں اُترنے کا پروگرام بنا چکی ہے بس مناسب وقت کا انتظار ہے۔
اُدھر ایم کیو ایم بھی اپنے تیور بدل رہی ہے۔ کراچی میں اگر نقصِ امن ہوا تو نقصان صرف سندھ حکومت کا ہی نہیں ہو گا وفاقی حکومت کے لیے بھی مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔ ترقی و خوشحالی کے تمام منصوبے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کو جو پہلے ہی برائے نام ہے مزید دھچکا لگے گا اور حکومت کے نامہ اعمال میں صرف ناکامیاں ہی ناکامیاں درج ہوتی جائیں گی۔ ویسے بھی بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا ابھی تک کوئی موثر علاج دریافت نہیں ہو پایا ہے، مہنگائی اور بیروزگاری روزانہ کی بنیاد پر بڑھتی جا رہی ہے۔ کاشغر سے گوادر تک راہداری کا منصوبہ بھی چین کے صدر کے دورے کی منسوخی کے ساتھ ساتھ ہواؤں میں تحلیل ہوتا دِکھائی دے رہا ہے۔ نجانے اب یہ خواب کب شرمندۂ تعبیر ہو گا۔ نہ دھرنے والے ڈی چوک خالی کریں گے نہ چینی صدر یہاں تشریف لائیں گے۔ عمران خان نے تو ساری زندگی دھرنے میں گزارنے کا تہیہ کر لیا ہے۔ حکومت کو اب اِس مقام کا کوئی متبادل تلاش کرنا ہو گا۔
چینی صدر کے استقبال کے لیے کسی اور شہر کا انتخاب کر لیا جائے تو بہتر ہے۔ اگر یہ منصوبہ ناکام ہوا تو اِس کا خمیازہ ساری قوم کو بھگتنا پڑے گا۔ اِس منصوبے کا ایک خوبصورت ترین پہلو یہ ہے کہ اِسکی سب نے حمایت کی ہے۔ کوئی فریق یا کوئی گروہ بھی اِس منصوبے کا مخالف نہیں ہے۔ میٹرو بس، موٹر وے اور کالاباغ ڈیم کی طرح کسی کو بھی اِس کے خلاف تحفظات نہیں ہیں۔ سب چاہتے ہیں کہ یہ منصوبہ جلد از جلد پایہ تکمیل کو پہنچے۔ اگر کوئی اِس کا مخالف ہے تو اُسے ہم سب خوب جانتے ہیں۔
وہی جو ہماری تعمیر و ترقی اور خوشحالی کے منصوبوں کا سخت مخالف ہے اور جس نے ایران سے گیس کی لائین بچھانے کی راہ میں بھی روڑے اٹکا کر اُسے بالآخر منسوخ کروا ڈالا۔ حکومت کو اب اپنی ساری توجہ اِس اہم منصوبے کی تکمیل کے لیے صرف کرنا ہو گی۔ عمران خان اور طاہر القادری صاحب کو بھی ملک و قوم کی خاطر چند دنوں کے لیے اسلام آباد سے دھرنوں کو معطل کر کے چینی صدر کی آمد کے لیے راہ ہموار کرنا ہو گی۔ اِسی میں ہم سب کا مفاد ہے اور اِسی میں ہماری خوشحالی پنہاں ہے۔
سیاست اور دھرنوں کے لیے ہمارے پاس بہت وقت پڑا ہے۔ یہ کا م ہم بعد میں بھی سرانجام دے سکتے ہیں لیکن راہداری بنانے کا یہ منصوبہ موخر یا منسوخ ہو گیا تو ہمارے ملک و قوم کے ساتھ یہ بہت بڑی زیادتی ہو گی۔ سیاست اور سیاسی مخالفت ایک طرف مگر قومی اہمیت کے منصوبوں کو ہماری اِس روش سے زک نہیں پہنچنی چاہیے۔
نہ کسی نیوٹرل امپائر نے اپنی اُنگلی اُٹھائی اور نہ کسی کی غیر جانبداری متزلزل ہوئی۔ حکومت نے جو غلطی ماڈل ٹاؤن میں کی تھی اُس نے اُسے اسلام آباد میں دُہرانے سے قطعاً اجتناب کیا۔ اِسی میں اُس کی عافیت اور بچت بھی ہو گئی۔ ورنہ اگر حکومت وہی غلطی یہاں بھی دہراتی تو وہ اب تک شاید جوں کی توں قائم نہ رہتی۔ اُس کا دھڑن تختہ یقینا ہو چکا ہوتا۔ البتہ پارلیمنٹ کے سامنے لگاتار دھرنے کا ایک ریکارڈ ضرور قائم ہو گیا۔ جو ہماری ملکی تاریخ کا بہر حال ایسا منفرد کارنامہ ہے جسے آیندہ شاید ہی کوئی حاصل کر پائے۔ اِن دھرنوں میں اُسکے قائدین کا مسلسل روزانہ دن میں دو بار خطاب بھی ایک ایسا ناقابلِ شکست ریکارڈ ہے جسے توڑنا اب کسی کے بس کی بات نہیں۔
اسٹیل کے بنے کنٹینر میں مسلسل غیر معینہ مدت تک رہنا جہاں صفائی ستھرائی کا بھی کوئی خاص انتظام نہ ہو کوئی آسان کام نہیں ہے۔ عمران خان تو بہرحال کبھی کبھار موقعہ نکال کر بنی گالا جاتے رہے اور اب وہ دیگر شہروں میں بھی جلسوں کی نئی اسٹریٹجی کے تحت نکل پڑے ہیں لیکن داد دیجیے جناب ڈاکٹر طاہر القادر ی کو جنکے عزم اور ارادوں میں کہیں بھی دراڑ یا رخنہ نہیں آیا وہ متواتر اِسی کنٹینر میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہیں سوتے اور جاگتے ہیں، یہیں کھاتے اور پیتے ہیں اور یہیں نہاتے اور عبادت کرتے ہیں۔ شام کو اپنے مریدوں اور دھرنے کے شرکاء سے پُرجوش خطاب بھی کرتے ہیں۔ بیمار پڑ گئے لیکن علاج کے بہانے بھی کسی اسپتال میں داخل نہیں ہوئے۔
اِس کے برعکس عمران خان کا اسٹائل ہی دوسرا ہے۔ وہ پہلے روز سے ہی کنٹینر سے غائب ہوتے رہے ہیں میڈیا کی نشاندہی پر مجبوراً کنٹینر میں کچھ دن قیام کیا مگر اب پھر سے وہی روز کا معمول ہے۔ دوپہر کو نہا دھو کر، نئے کپڑے زیب تن کر کے، خوبصورت مفلر گلے میں ڈال کر کنٹینر کی چھت پر سو ڈیڑھ سو چکر ایسے لگاتے ہیں جیسے کوئی پہلوان کُشتی شروع ہونے سے پہلے تماشائیوں پر یا اپنے مخالف پہلوان پر رعب جماتا ہو۔ دونوں ہاتھ اُٹھا اُٹھا کر اور وکٹری کا نشان بنا بنا کر سامنے رکھی خالی کُرسیوں کو خوب مرعوب کر تے رہتے ہیں۔ دوپہر کو تقریباً ایک دو بجے جب اُن کے سارے حامی اُن کے طرح اپنے اپنے گھروں میں آرام فرما رہے ہوتے ہیں وہ اکیلے ہی شام کے خطاب کی زبر دست ریہرسل کر رہے ہوتے ہیں۔
قطع نظر اِس کے کہ عمران خان اور جناب طاہرالقادری اپنے مطلوبہ ہدف ابھی تک حاصل نہیں کر پائے ہیں لیکن البتہ اتنا ضرور ہوا ہے کہ میاں صاحب کو چھٹی کا دودھ ضرور یاد آ گیا ہے اور وہ جو اسمبلی میں آنا اپنی توہین سمجھتے تھے بلاناغہ روزانہ تشریف لانے لگے۔ اب سے چند ماہ پہلے اُن کے وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ عمران خان اور طاہر القادری اُن کے لیے اِتنی بڑی مشکل بن جائیں گے۔
ستم بالائے ستم یہ کہ جناب اعتزاز احسن نے بھی اپنے پارلیمانی خطاب میں احسان جتانے کے ساتھ ساتھ دل کھول کر اپنے اندر کی بھڑاس بھی نکال لی اور میاں صاحب خاموشی سے سنتے رہے۔ نون لیگ میں سے کسی نے بھی جناب اعتزاز احسن کو اُن کے اِس ہتک آمیز خطاب کا کوئی جواب نہیں دیا۔ جناب وزیرِ داخلہ بھی چار و ناچار حالات کے مارے اپنی مقررہ پریس کانفرنس میں وہ جوابی حملے نہ کر پائے جن کا خدشہ مسلم لیگ کے کئی چاہنے والوں کو تھا۔
دھرنے رفتہ رفتہ دم توڑ رہے ہیں مگر اقتدار پر منڈلاتے خطرات کے بادل ہنوز اپنی شدت قائم رکھے ہوئے ہیں۔ کئی تجزیہ نگاروں کے خیال میں میاں صاحب کا جانا وقتی طور پر ٹھہر گیا ہے لیکن اُنہیں اب سکون و اطمینان سے حکمرانی کرنے کا موقعہ شاید ہی مل پائے۔ ایک کے بعد ایک خطرہ اُن کے سر پر ہمیشہ سایہ فگن رہے گا اور وہ اپنی ساری توجہ حکومت بچانے کی فکر میں لگائے رکھیں گے۔
عمران خان اور طاہر القادری آج تنہا ہی تبدیلی لانے کی فکر میں سرگرداں ہیں لیکن اگر وہ ناکام ہوئے تو کوئی دوسرا فریق حکومت کی مخالفت میں سینہ تان کے کھڑا ہو جائے گا۔ پاکستان پیپلز پارٹی آج جمہوریت بچانے کی خاطر میاں صاحب کی حمایت میں کھڑی دکھائی دے رہی ہے مگر اُسے وہ دن بھی بہت اچھی طرح یاد ہیں جب میاں صاحب اُن کی حکومت کے خلاف خوب آتش فشانی اور شعلہ بیانی کیا کرتے تھے اور میموگیٹ اسکینڈل میں وہ کالا کوٹ پہن کر اپنے تئیں عدالت پہنچ گئے تھے۔ جناب قمر زمان کائرہ تو آج بھی جب موقعہ ملتا ہے اپنے زخم کھول کھول کر دکھا تے رہتے ہیں۔ لہذا میاں صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے۔ تحریکِ انصاف کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی بھی خم ٹھونک کر میدان میں اُترنے کا پروگرام بنا چکی ہے بس مناسب وقت کا انتظار ہے۔
اُدھر ایم کیو ایم بھی اپنے تیور بدل رہی ہے۔ کراچی میں اگر نقصِ امن ہوا تو نقصان صرف سندھ حکومت کا ہی نہیں ہو گا وفاقی حکومت کے لیے بھی مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔ ترقی و خوشحالی کے تمام منصوبے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کو جو پہلے ہی برائے نام ہے مزید دھچکا لگے گا اور حکومت کے نامہ اعمال میں صرف ناکامیاں ہی ناکامیاں درج ہوتی جائیں گی۔ ویسے بھی بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا ابھی تک کوئی موثر علاج دریافت نہیں ہو پایا ہے، مہنگائی اور بیروزگاری روزانہ کی بنیاد پر بڑھتی جا رہی ہے۔ کاشغر سے گوادر تک راہداری کا منصوبہ بھی چین کے صدر کے دورے کی منسوخی کے ساتھ ساتھ ہواؤں میں تحلیل ہوتا دِکھائی دے رہا ہے۔ نجانے اب یہ خواب کب شرمندۂ تعبیر ہو گا۔ نہ دھرنے والے ڈی چوک خالی کریں گے نہ چینی صدر یہاں تشریف لائیں گے۔ عمران خان نے تو ساری زندگی دھرنے میں گزارنے کا تہیہ کر لیا ہے۔ حکومت کو اب اِس مقام کا کوئی متبادل تلاش کرنا ہو گا۔
چینی صدر کے استقبال کے لیے کسی اور شہر کا انتخاب کر لیا جائے تو بہتر ہے۔ اگر یہ منصوبہ ناکام ہوا تو اِس کا خمیازہ ساری قوم کو بھگتنا پڑے گا۔ اِس منصوبے کا ایک خوبصورت ترین پہلو یہ ہے کہ اِسکی سب نے حمایت کی ہے۔ کوئی فریق یا کوئی گروہ بھی اِس منصوبے کا مخالف نہیں ہے۔ میٹرو بس، موٹر وے اور کالاباغ ڈیم کی طرح کسی کو بھی اِس کے خلاف تحفظات نہیں ہیں۔ سب چاہتے ہیں کہ یہ منصوبہ جلد از جلد پایہ تکمیل کو پہنچے۔ اگر کوئی اِس کا مخالف ہے تو اُسے ہم سب خوب جانتے ہیں۔
وہی جو ہماری تعمیر و ترقی اور خوشحالی کے منصوبوں کا سخت مخالف ہے اور جس نے ایران سے گیس کی لائین بچھانے کی راہ میں بھی روڑے اٹکا کر اُسے بالآخر منسوخ کروا ڈالا۔ حکومت کو اب اپنی ساری توجہ اِس اہم منصوبے کی تکمیل کے لیے صرف کرنا ہو گی۔ عمران خان اور طاہر القادری صاحب کو بھی ملک و قوم کی خاطر چند دنوں کے لیے اسلام آباد سے دھرنوں کو معطل کر کے چینی صدر کی آمد کے لیے راہ ہموار کرنا ہو گی۔ اِسی میں ہم سب کا مفاد ہے اور اِسی میں ہماری خوشحالی پنہاں ہے۔
سیاست اور دھرنوں کے لیے ہمارے پاس بہت وقت پڑا ہے۔ یہ کا م ہم بعد میں بھی سرانجام دے سکتے ہیں لیکن راہداری بنانے کا یہ منصوبہ موخر یا منسوخ ہو گیا تو ہمارے ملک و قوم کے ساتھ یہ بہت بڑی زیادتی ہو گی۔ سیاست اور سیاسی مخالفت ایک طرف مگر قومی اہمیت کے منصوبوں کو ہماری اِس روش سے زک نہیں پہنچنی چاہیے۔