اکتوبر کا مہینہ

پاکستان کے موجودہ منظر نامے میں یقینی اور اتفاقی دونوں طرح کے واقعے پیش آ سکتے ہیں۔

کوئی خوش گوار یا ناپسندیدہ واقعہ کسی خصوصی تاریخ یا دن پر دو چار بار پیش آ جائے تو کمزور ارادوں کے لوگ وہم میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ سمجھنے لگتے ہیں کہ ایسے دن، تاریخ یا سال کے اندر کچھ لوگوں کے لیے پیش آنا کوئی غیبی عمل ہے۔

ذرا دلچسپی لیں تو کہانیوں اور قصوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جائے گا جس میں بڑی تعداد کے ساتھ لوگ اپنے یا دوسروں کے تجربات کو سناتے ہوئے محیرالعقول واقعات گنانا شروع کر دیں گے جسے سن کر یقین آنے لگا ہے کہ کوئی غیبی سلسلہ موجود ہے جو نحوست یا برکت کو کسی فرد، مقام یا ماحول سے وابستہ کر دیتا ہے جس سے جو نتیجے نکلتے ہیں وہ وہی شخص کے عقیدے کو اور مستحکم کر دیتے ہیں جب کہ دوسرے گروہ کے لوگ اسے محض حسن اتفاق سمجھتے ہیں حقیقت کچھ بھی ہو لیکن ڈاکٹر فرائڈ نے جو علم نجوم کے بارے میں کہا تھا وہی بات یہاں بھی صادق آتی ہے۔

کسی نے فرائڈ سے پوچھا کہ علم نجوم کی بابت آپ کی کیا رائے ہے۔ یہ سچا علم ہے یا محض ڈھکوسلا ہے تو فرائڈ نے جواب دیا کہ علم نجوم کی بہت سی باتیں سچ نکلتی ہیں مگر میں اسے علم اس لیے نہیں مانتا کہ اس کے علم ہونے کا کوئی ثبوت یا جواز نہیں ہے۔ تردید اس لیے نہیں کرتا کہ پیشین گویوں کے حقائق موجود ہیں۔

ایسا ہی کچھ معاملہ یہاں بھی پیش آتا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں ماہ اکتوبر کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور اب اکتوبر شروع ہو رہا ہے۔ حالات کچھ ایسے دگرگوں ہیں کہ اگر کوئی سیاسی واقعہ پیش آ جائے تو پھر یہ وہم پختہ ہو جائے گا کہ اکتوبر پاکستان کے لیے تبدیلی کا پیش خیمہ بن جاتا ہے۔ ذرا اکتوبر کی اہمیت دیکھیے کہ 16 اکتوبر 1951ء کو پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خاں راولپنڈی کے جلسے میں شہید کر دیے گئے جس نے نوزائیدہ پاکستان کی تاریخ کا دھارا ہی بدل دیا۔ یہ بدلا ہوا دھارا 17 اکتوبر 1958ء کو ایک نئے راستے پر چل نکلا یعنی مارشل لا لگا اور پھر بنیادی جمہوریت اور صدارتی نظام متعارف ہوا جس کے سیاسی اور معاشرتی اثرات میں منفی اور مثبت دونوں نکتے موجود ہیں۔


پھر 12 اکتوبر 1999ء کا حادثہ جس نے پاکستان میں تفریق ایک نئے طرز کی پیدا کر دی کہ جمہوری منتخب شدہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کو ہتھکڑی لگا کر مقدمہ چلایا گیا اور پھر جلاوطن کر دیا گیا۔ یہ وہ بڑے بڑے واقعات ہیں جسے محض اس لیے گنا دیا کہ اکتوبر میں اگر کچھ پیش آجائے تو کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہو گی کیونکہ اس مہینے میں اور بھی بہت سے واقعات ہیں جس میں غم اور خوشیاں دونوں نظر آتی ہیں۔ بہرحال ان کا شمار کرنا بات کو بہت دور تک پھیلا دے گا۔ ہم تو 2014ء کے اس اکتوبر تک محدود رہنا چاہتے ہیں کیا کوئی ایسا سیاسی یا معاشرتی واقعہ پیش آ سکتا ہے جس سے پاکستان کا رخ ایک بار پھر بدل جائے اور ان منزلوں کی طرف چل نکلے کہ بقول شاعر:

جس طرف دیکھا نہ تھا اب تک ادھر دیکھا تو ہے

کچھ نہیں تو کم سے کم خواب سحر دیکھا تو ہے

پاکستان کے موجودہ منظر نامے میں یقینی اور اتفاقی دونوں طرح کے واقعے پیش آ سکتے ہیں۔ اسلام آباد میں آزادی اور انقلابی مارچ کے دھرنوں نے ایسی فضا قائم کر دی ہے کہ بڑی تبدیلی کے بغیر صورت حال کنٹرول میں نہیں آئے گی۔ قیاس کہتا ہے کہ میاں نواز شریف قومی مفاد میں ایک ماہ کے لیے وزارت عظمیٰ سے علیحدگی اختیار کر سکتے ہیں تا کہ قومی یکجہتی قائم رہے اور جو وقار و دبدبہ ملیا میٹ ہو گیا ہے وہ بحال ہو سکے ورنہ گورننس ایک مذاق بن جائے گی جس سے موقع پرست لوگ مذاق کی آڑ میں وہ الٹے سیدھے کام شروع کر دیں گے۔ صرف ملک کے لیے نہیں بلکہ میاں نواز شریف اور ان کے متعلقین کے لیے بھی ہولناک نتیجے نکلیں گے۔

دانائی اور فراست اسی میں ہے کہ میاں صاحب بڑا پن دکھاتے ہوئے ایک مہینے کے لیے علیحدہ ہو جائیں تا کہ جو غم و غصہ بھڑکایا گیا ہے وہ ٹھنڈا پڑ جائے گا میاں صاحب اگر ضد کر لیں گے کہ انھیں مقابلہ کرنا ہے تو انارکی کی راہ ہموار ہوتی جائے گی اور شہری محاذ پر تصادم شروع ہوں گے پھر حکومت سے حالات سنبھل نہیں پائیں گے تو تیسری طاقت، امن و امان کی بحالی کے لیے کوئی نہ کوئی قدم اٹھانے پر مجبور ہو گی۔ ضروری نہیں کہ مارشل لا ہی لگے ماورائے دستور بھی کوئی طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔ جسے بعد میں پارلیمنٹ سے منظور کرا لیا جائے۔ خود عدالت بھی اس صورتحال میں اہم کردار انجام دے سکتی ہے۔ عدالت عالیہ کوئی قابل عمل حل پیش کرے جس سے سیاسی اختلافات دشمنی کے بجائے معقولیت اختیار کر لیں موجودہ حالات کے منظر نامے کو دیکھتے ہوئے یہ وہم پیدا ہونا فطری امر ہے کہ حالات کس کروٹ بیٹھنے والے ہیں اتفاق سے مہینہ اکتوبر کا شروع ہو گیا ہے۔
Load Next Story