دھرنا سیاست سے حکومت کو معاشی چیلنجز کا سامنا

یہ درست ہے کہ احتجاج سب کا حق ہے مگر اپنے معاملات واختلافات کو اگراپنی سرحدوں اورحدود میں رکھا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا

یہ درست ہے کہ احتجاج سب کا حق ہے مگر اپنے معاملات واختلافات کو اگراپنی سرحدوں اورحدود میں رکھا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ فوٹو: فائل

ملک میں جاری دھرنا سیاست کے اثرات ملکی سرحدوں سے نکل کر برطانیہ اور امریکا تک پھیلنا شروع ہوگئے ہیں جس کا عملی مظاہرہ وزیراعظم میاں نواز شریف کے حالیہ غیر ملکی دورے میں دیکھنے کو ملا ہے۔

جب وزیراعظم میاں نواز شریف کے لندن پہنچنے پر انہیں تحریک انصاف کے احتجاجیوں کے احتجاج کا سامنا کرنا پڑا اور پھر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیلئے پہنچنے پر باہر پاکستان تحریک انصاف کے احتجاجی مظاہرین نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔ وہ حقیقی معنوں میں جمہوری اور مہذب احتجاج تھا جہاں نہ تو نعروں میں دھمکیاں تھیں اور نہ ہی جنگی ترانے گونج رہے تھے اور نہ ہی کسی احتجاجی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی پردھاوا بولا اور نہ کسی ریاستی ادارے پر پتھراؤ کرکے قبضہ کیا ہے اور نہ ایسا ممکن تھا۔

یہ درست ہے کہ احتجاج سب کا حق ہے مگر اپنے معاملات و اختلافات کو اگر اپنی سرحدوں اور حدود میں رکھا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا کیونکہ ایٹمی طاقت کے حامل ملک کی جس طرح دنیا میں جگ ہنسائی کی جا رہی ہے یا ہو رہی ہے وہ کسی طور پر ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہے۔ اسی جگ ہنسائی کی وجہ سے تین اہم ٹرانزیکشن کی تکمیل میں تاخیر کے باعث پاکستان کو دو ارب چالیس کروڑ ڈالر کے ریونیو کا نقصان ہوا ہے اور چین کے ساتھ چونتیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے تاخیر کا شکار ہوئے ہیں۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار اپنی اقتصادی ٹیم کے ہمراہ گیارہ اکتوبرکو امریکا روانہ ہو رہے ہیں جہاں وہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے سالانہ اجلاسوں میں شرکت کے علاوہ آئی ایم ایف، عالمی بینک اور امریکی حکام سے سائیڈ لائن میٹنگز کریں گے ۔ آئی ایم ایف سے اگلی قسط کیلئے چوتھااقتصادی جائزہ مکمل کرنے کی کوشش کریں گے جس میں بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کی شرط سے عارضی چھوٹ لینے کی بھی کوشش کی جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکا سے اتحادی سپورٹ فنڈ کے بقایات جات کی قسط حاصل کرنے کیلئے بھی بات چیت ہوگی۔

اس سے بڑھ کر یہ توقع ہے کہ دیا میر بھاشا ڈیم کے حوالے سے بھی کانفرنس منعقد ہوگی اور توانائی کے دیگر منصوبوں کیلئے فنانسنگ کے بارے میں بھی عالمی ڈونر اداروں و ممالک سے بات چیت ہوگی۔ یہ سب وہ کوششیں ہیں جو دھرنا سیاست کی وجہ سے اضافی طور پر حکومت کو کرنا پڑ رہی ہیں۔ ورنہ یہ توانائی مزید بامقصد مواقع کیلئے بروئے کار لائی جاسکتی تھی۔ یہی وجہ کہ دھرنا سیاست کے ناقدین پاکستان تحریک انصاف اور عوامی تحریک کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ان کا خیال ہے کہ محض اپنے اقتدار کے حصول کی خواہش کو دوام بخشنے کی خاطر ایسے اقدام اٹھانا مناسب نہیں ہے۔

احتجاج اور دھرنا سیاست اپنی جگہ وزیراعظم نوازشریف کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 69 ویں اجلاس سے خطاب کو ملکی و غیر ملکی مبصرین کی طرف سے سراہا جارہا ہے اور اس میں دو رائے نہیں ہے کہ اپنے خطاب میں وزیراعظم پاکستان نے عالمی رہنماؤں کے سامنے کشمیر کے بارے میں پاکستان کا تاریخی اور اصولی موقف پیش کیا۔ وزیراعظم نے کشمیر، افغانستان، فلسطین سمیت دیگر مسائل کا اپنے خطاب میں بھرپور احاطہ کیا ہے اور عالمی برادری پر واضح کیا ہے کہ کشمیر خطے کا بنیادی مسئلہ ہے اور خطے میں پائیدارامن و خوشحالی کیلئے یہ بنیادی مسئلہ حل ہونا چاہیے جبکہ کشمیری عوام کو ان کی خواہشات کے مطابق حق خودارادیت دیا جانا چاہیے۔

اسکاٹ لینڈ یارڈ کے مسئلہ پر ریفرنڈم کے بعد تو وزیراعظم کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے کئے جانیوالے خطاب میں اپنائے جانے والے موقف کو مزید تقویت ملی ہے۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کشمیر کے مسئلہ پر عالمی برادری کو اپنے وعدے یاد دلائے اور بتایا کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کوعالمی برادری کی طرف سے کئے جانیوالے وعدے کی تکمیل کا انتظار ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ پر زور دیا کہ وہ بھارت پر اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے مقبوضہ وادی میں رائے شماری کیلئے دباؤ ڈالے۔


وزیراعظم محمد نوازشریف نے کہا کہ قومی سلامتی کو دوبارہ فعال بنانا ہے اورتنازعات کا حل ہماری ترجیحات میں شامل ہے۔ انہوں نے صدر جنرل اسمبلی کو پاکستان کے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ اس کے علاوہ وزیراعظم نے اپنے اس بیرونی دورے کے دوران امریکا کے نائب صدر جوبائیڈن سمیت دیگر عالمی رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کی ہیں اور عالمی و علاقائی مسائل پرگفتگو کے ساتھ ساتھ دوطرفہ امور پر تبادلہ خیال کیا۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی طرف سے پاکستان اور بھارت کے درمیان خارجہ سیکرٹریوں کی سطح کے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی آمادگی بھی وزیراعظم نوازشریف کے خطاب کا ہی فوری اثر ہے۔ وزیراعظم میاں نوازشریف کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے بعد وطن واپسی پر ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے خصوصاً کشمیری رہنماؤں نے وزیراعظم کا پُرتپاک استقبال کیا ہے اور عالمی برادری کے سامنے جراتمندانہ انداز میں موقف پیش کرنے پرسراہا ہے۔

اس کے ساتھ ہی ملک کا سیاسی درجہ حرارت بھی بڑھنا شروع ہوگیا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اب وزیراعظم کابینہ میں ردوبدل کریں گے۔ حکومت کے اقدامات اس بات کا تعین کریں گے کہ دھرنا سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھنے جا رہا ہے بہر حال یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے یہ تو وقت بتائے مگرمعاشرے میں اس دھرنے کے اثرات نمودار ہونا شروع ہوگئے ہیں۔

اس کی جھلک گزشتہ ہفتے وفاقی دارالحکومت کے پوش علاقے کی مارکیٹ میں واقع ایک دکان خالی کروانے کیلئے جانیوالے عدالتی بیلف کے ساتھ ہونے والے جھگڑے اور مقامی تاجر رہنما کے خلاف درج ہونے والی ایف آئی آر کے بعد پیدا ہونے والی وہ صورت ہے جس میں اسلام آباد کے ایک سو کے قریب تاجروں نے مقامی تھانے کا گھیراؤ کرلیا بلکہ دُکان کے مالک کے خلاف کراس ایف آئی آردرج کروانے سمیت دیگر مطالبات منظور کرواکر گھیراؤ ختم کیا گیا۔

اب اسے حسن اتفاق کہہ لیجئے یا کوئی سازش کہ جس مقامی تاجر کے خلاف بیلف اور پولیس کے ساتھ جھگڑا کرنے پر ایف آئی آر درج ہوئی اس مقامی تاجر کا تعلق مسلم لیگ(ن) سے ہے۔ تحریک انصاف نے اپنے دھرنے کے ساتھ ساتھ ملک کے بڑے شہروں میں بڑے بڑے جلسوں کے ذریعے سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنا شروع کردیا ہے تو وہیں پیپلز پارٹی نے بھی اٹھارہ اکتوبر کو کراچی میں بھرپور سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنے کا اعلان کردیا ہے۔

اس سے بڑھ کر یہ کہ بلاول بھٹو زرداری نے کارکنوں اور ہمدردوں سے ماضی کی غلطیوں پر معافی مانگی ہے جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ پیپلز پارٹی کو بھی ناراض لوگوں کے پارٹی چھوڑنے کا خطرہ ہے۔ یہی نہیں اس طرح کی باتیں ن لیگ کے اندر سے بھی اٹھ رہی ہیں اور کچھ لوگ ناراض دکھائی دے رہے ہیں، لگ یوں رہا ہے کہ نواز شریف حکومت گرانے میں ناکامی کے بعد اب دھرنا کے پس پُشت قوتوں نے مڈ ٹرم الیکشن کا ماحول بنانے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔

وہ ایسے حالات پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ جس سے ان کے مقاصد کی تکمیل آسان ہو جائے ان میں سے بعض قوتیں ابھی بھی پُرامید ہیں کہ جو حالات پیدا ہو رہے ہیں اس کی بنیاد پر عدالتوں کے ذریعے نظام کی بساط لپیٹنے میں مدد ملے گی لیکن قانونی ماہرین اس نکتہ نظر سے قطعی طور پر اتفاق نہیں کرتے اور ان کا کہنا ہے کہ عدالتیں کسی طور پر کسی بھی قسم کے ماورائے آئین اقدام کی اجازت نہیں دیں گی اور آئین کی بالادستی پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گی۔
Load Next Story