بات کچھ اِدھر اُدھر کی جذبے کی ضرورت ہے

پرُامن اور بہتر معاشرے کے قیام کے لئے چند ایسے مخلص انسان ہی کافی ہیں جو انسانیت اور بنیادی قدروں سے محبت کرتے ہوں۔


ضمیر آفاقی October 01, 2014
پرُامن اور بہتر معاشرے کے قیام کے لئے چند ایسے مخلص انسان ہی کافی ہیں جو انسانیت اور بنیادی قدروں سے محبت کرتے ہوں۔ فوٹو فائل

ہم اگر چاہیں تو اپنے معاشرے کو رہنے کے لئے دنیا کی بہترین جگہ بنا سکتے ہیں صرف زاویہ نگاہ اور سوچ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ عام طور پردیکھا گیا ہے کہ ہمارے جیسے معاشروں میں خواتین کے ساتھ ناروا سلوک ،انہیں حراساں کرنا عام اور معمولی واقعات ہیں، بس اسٹاپ پر اوباش قسم کے لڑکے بس کے انتطار میں بیٹھی خواتین کو نازیبا الفاظ کے ساتھ ان کی موبائل سے تصویریں بنانے سے بھی باز نہیں آتے جبکہ دفاتر اور مارکیٹوں میں بھی ایسے ہی منظر دکھائی دیتے ہیں ۔ لیکن اگر خواتین کو تنگ کرنے والوں کو احسن طریقے سے سمجھایا جائے یا روکا جائے تو خواتین کے ساتھ رونما ہونے والے مختلف واقعات میں کمی آسکتی ہے۔

اسی طرح ہر معاشرے میں اچھے اور برے دونوں طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ برے لوگ تو ہر قدم پر باآسانی آپ کو مل جائیں گے، لیکن اچھے لوگوں کو تلاش کرنا بے حد مشکل ہے جن کا کردار روک ٹوک یا بیان بازی نہیں بلکہ عملاً کچھ نہ کچھ اچھا کرنا ہے ، ایک دفعہ میں اپنے بچوں کے ساتھ پارک گیا، میں نے لوگوں کی اکثریت کو کھانے پینے کے بعد بچا ہوا گند وہیں پھینکتے دیکھا، جسے دیکھ کر بہت تکلیف ہوتی ہے، لہذامیں ان لوگوں کے سامنے شاپر پکڑ کر گند کو اس میں ڈال کر ڈسٹ بن میں ڈال دیا، میرے عمل کا مقصد کسی کو شرمندہ کرنا نہیں بلکہ لوگوں کے مردہ ضمیر کو جھنجھوڑنے اور ان کی اور اپنے بچوں کی اصلاح اور تربیت ہے ، ہوسکتا ہے ایک اچھا عمل کرنے سے کئی لوگ آئندہ کبھی پارکوں یا سڑکوں پر کچرا نہ پھینکیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہر شخص اس ملک کو اپنا ملک سمجھ کر بجائے ہیرو ڈھونڈنے یا انتظار کرنے کے خود اسے سنوارنے کے لئے نکل پڑے تو ہمیں کسی حکمران یا حکومت کی طرف دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی۔ اب یہی دیکھ لیں کہ یہ جو ہر محلے کی نکڑ ،چوک چوراہوں پر نوجوان لڑکوں کا ہجوم ہوتا ہے کیا کبھی کسی نے غور کیا کہ ہماری نوجوان نسل بیکار ہوتی جارہی ہے، نہ ان کے پاس کام کاج ہے اور نہ ہی یہ خود کچھ کرنا چاہتے ہیں۔

یقیناًان میں سے بیشتر نوجوانوں کا تعلق پڑے لکھے گھرانوں سے ہوگا ، تو کیا یہ نوجوان اپنے ارد گرد ،گلی محلوں ،بازاروں میں ان بچوں کو تعلیم کے زیورسے آراستہ نہیں کر سکتے جو وسائل کی کمی اور غربت کی بنا پر تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں۔ اگر یہ نکڑ گروپ اپنے ''قیمتی'' وقت میں سے تھوڑا سا فضول وقت ان بچوں کو تعلیم دلانے میں خرچ کر سکیں تو یقین کیجیے جہالت اس ملک سے دم دبا کر بھاگ جائے گی اور مثبت انقلاب کی راہ ہموار ہو گی، پھر ہمیں کسی بھرے پیٹ والے کے انقلاب یا تبدیلی کی ضروت ہی نہیں رہے گی ۔ کیونکہ ایک پرُامن اور بہتر معاشرے کے قیام کے لئے چند ایسے مخلص انسان ہی کافی ہیں جو انسانیت اور بنیادی قدروں سے محبت کرتے ہوں۔

ہمیں ایسے گروپوں اور گروہوں کی ضرورت ہے جو اپنے علاقے کے چھوٹے چھوٹے مسائل خود حل کرنے کے لیے اپنا تھوڑا سا وقت نکال سکیں۔ کسی علاقے میں اگر مین ہول پر ڈھکن نہیں ہے، بجلی کی تاریں ٹوٹی ہوئی ہیں،کوئی سڑک خراب ہے، کہیں پانی کھڑے ہونے کی بناپر تعفن پھیل رہا ہے، گلیاں گندی اور کوڑئے سے اٹی پڑیں ہیں، تو ان کاموں کو کرنے کے لئے ہمیں کسی کی اجازت اور واعظ و نصیحت کی ضرورت نہیں۔ بس انقلاب اور تبدیلی کے جذبے کی ضرورت ہے ، ہم خود یہ تمام کام کر کے انقلاب کی مظبوط بنیاد رکھ سکتے ہیں۔ بات صرف انسانی بھلائی کے کاموں میں خود کو شامل کرنے کی ہے ،ہم ہر کام حکومت پر چھوڑ دیتے ہیں، ہم اپنے گھر کا کوڑا حکومت کی جانب سے جگہ جگہ رکھے گئے کوڑئے دانوں میں نہیں ڈالتے اور بات کرتے ہیں تبدیلی اور انقلاب کی، انقلاب سوچ میں تبدیلی سے آتا ہے جسے ہم تبدیل کرنے کے لئے تیار نہیں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں