قانون کی حکمرانی

آکسفورڈ ڈکشنری کے لیے حال ہی میں سید شمیم اعظم نے‘ جو کہ لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک ماہر لسانیات ہیں...


اکرام سہگل October 02, 2014

ماڈل ٹاؤن لاہور میں 17 جون کو منہاج القرآن سیکریٹریٹ میں کھڑی آدھی درجن سے زاید گاڑیوں کو پنجاب پولیس کی سرپرستی میں ڈنڈے مار مار کر ان کے شیشے توڑنے والے شخص کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ احسن رانا کے بلاگ میں کہا گیا ہے کہ اسے 10 ہزار سے زیادہ لائیکس ملے ہیں اور امکان غالب ہے کہ لفظ گلو کو آکسفورڈ ڈکشنری میں ایسے معنوں میں شامل کر لیا جائے گا جس میں کوئی شخص حکمرانوں یا معاشرے کے طاقتور عناصر کی پشت پناہی کی بنا پر خرابی پیدا کرنے والا کردار ادا کرتا ہے۔ اب برسرعام تشدد کا مظاہرہ کرنے والوں کو گلو کے نام سے پکارا جانے لگا ہے۔

آکسفورڈ ڈکشنری کے لیے حال ہی میں سید شمیم اعظم نے' جو کہ لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک ماہر لسانیات ہیں' درخواست کی ہے کہ لفظ گلو کو پاکستان اور بھارت کے لیے شایع کیے جانے والے ڈکشنری کے آیندہ ایڈیشن میں شامل کر لیا جائے۔ گلو کی خصوصیات کے حامل لوگوں کو ہم کافی عرصے سے اپنے ارد گرد دیکھ رہے ہیں لیکن یہ پہلی بار ہوا ہے کہ انھیں ڈکشنری میں جگہ دی جا رہی ہے۔ آکسفورڈ ڈکشنری کے ناشرین نے تصدیق کی ہے کہ اگر کسی نئے لفظ کو اتنے تھوڑے عرصے میں اس قدر تشہیر حاصل ہو سکتی ہے تو اس لفظ کو ڈکشنری میں شامل کیا جا سکتا ہے۔

گلو بٹ کے وکیل صفائی نے ہائی کورٹ لاہور میں موقف اختیار کیا کہ ایک ڈویژن بنچ نے قبل ازیں اسے ضمانت پر رہا کر دیا تھا لیکن حکومت نے اسے دوبارہ حراست میں لے لیا۔ سیکریٹری داخلہ کی نمایندگی کرنے والے ایک افسر قانون نے کہا کہ بٹ کو ٹیلی ویژن پر لائیو دکھایا گیا جب وہ 17 جون کو لوگوں کی گاڑیوں کو نقصان پہنچا رہا تھا اس وجہ سے وہ امن و قانون کے لیے ایک خطرہ ہے۔ جسٹس محمد قاسم خان نے ویڈیو پر چلنے والی فوٹیج کی شہادت کو تسلیم نہیں کیا اور گلو بٹ کی حراست غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسے ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ پاکستان میں قانون کی حکمرانی مخصوص معنوں میں لاگو کی جاتی ہے اور بسا اوقات ''قانون شہادت'' کی لفاظی کے سامنے خود کو بے اختیار محسوس کیا جاتا ہے جب کہ اس سے انصاف کی روح متاثر ہوتی ہے۔

جمہوریت کی اقدار کی بالادستی برقرار رکھنا بنیادی طور پر سیاستدانوں کی ذمے داری ہے لیکن ان کی لاپرواہی کی بنا پر سارا بوجھ اعلیٰ عدالتوں پر منتقل ہو جاتا ہے۔ جج حضرات بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں اور وہ بھی عام انسانوں کی مانند ہی ہوتے ہیں۔ بعض قوانین نے اختیارات کے استعمال کو اس قدر پیچیدہ بنا دیا ہے کہ صحیح معنوں میں انصاف کی فراہمی مشکل ہو گئی جب ہم گلو بٹ کے معاملے میں قانون کو موثر انداز سے استعمال نہ کر سکے تو پھر اور کیا کیا جائے۔ کیا اس سے نظام کی بے بساعتی اور ناکامی کا اظہار ہوتا ہے۔

23 جنوری 1999ء کو میں نے جو مضمون لکھا تھا اس میں کہا گیا تھا کہ امریکی سپریم کورٹ کے جج اولیور وینڈل ہولمز کے فیصلوں کا بہت زیادہ حوالہ دیا جاتا ہے بالخصوص تقریر کی آزادی کے حوالے سے۔ مثال کے طور پر سینما گھر میں فلم دیکھتے ہوئے ایک شخص اگر آگ، آگ کا شور مچا دے تو سینما ہال میں بھگدڑ مچ جائے گی۔ بہت سے لوگ پیروں کے نیچے آ کر کچلے جا سکتے ہیں اور کئی لوگوں کی موت بھی واقعہ ہو سکتی ہیں۔ تو کیا اس شخص کو سزا دینا ''آزادیٔ تقریر'' کی اجازت کے منافی اقدام ہو گا جب کہ اس قسم کی آزادی تقریر دوسروں کے لیے بے حد مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔ اس معاملے میں انصاف کے منطقی تقاضے کیا ہونے چاہئیں؟ جسٹس ہولمز نے کہا ہے کہ جب کوئی فرد آزادی تقریر کا غلط استعمال کرتا ہے جس سے کہ دوسروں کے لیے نقصان اور خطرے کا احتمال ہو تو انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اس شخص کو ایسا کرنے سے روک دیا جائے۔ حکومتوں کی ایسی آزادی بھی شخصی آزادیوں سے یکسر مختلف نہیں ہے۔

وکی پیڈیا کے مطابق ''خود حفاظتی'' شہریوں کا استحقاق ہوتی ہے اگر وہ کسی متشدد صورت حال میں گرفتار ہو جائیں۔ اس صورت میں ایک مناسب حفاظتی طاقت کی ضرورت پیش آتی ہے تا کہ لوگوں کی جانیں بچائی جا سکیں۔ ''یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس'' کے آرٹیکل 12 میں کہا گیا ہے کہ کسی کی پرائیویسی میں یا فیملی میں یا گھر میں یکطرفہ طور پر مداخلت نہیں کی جانی چاہیے اور نہ ہی اس کی عزت یا ساکھ پر کوئی حملہ کیا جانا چاہیے۔

ہر شخص کو اس قسم کے حملوں کے خلاف تحفظ اور حفاظت کا حق حاصل ہے۔ لیکن انصاف کی عدم موجودگی میں گلو بٹ جیسا کوئی شہری قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے تو کیا اس صورت میں اسے اجتماعی انصاف کا مظاہرہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ نیو یارک پینل کورٹ کے آرٹیکل 35 میں بعض مخصوص حالات میں طاقت کے استعمال کی اجازت دی گئی ہے۔ مگر طاقت کے مجرمانہ استعمال کو کسی صورت میں قانونی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ لیکن اگر طاقت کے استعمال کو جائز قرار دیا جائے تو پھر اسے غیر قانونی قرار نہیں دیا جا سکتا۔

جب انصاف کے نام پر مجرمانہ کارروائی کی جائے جیسا کہ گلو بٹ نے کی تو اس صورت میں انصاف خود ایک جرم بن جاتا ہے اور عوام کی طرف سے ردعمل امن و امان کے لیے ایک وجودی خطرہ بن جاتا ہے۔ عدلیہ کو جس کے ارکان بھی اس ملک کے شہری ہوتے ہیں ایسے حالات سے مکمل آگاہی ہونی چاہیے کیونکہ اگر بدانتظامی کو پھیلنے کی اجازت دی جائے تو انصاف کا استعمال مشکل ہو جائے گا۔کورٹ کی اجازت کے ساتھ یا اس کے بغیر ریاست کو واضح اور موجود خطرے کی صورت میں ایک ''ڈاکٹراین'' کی ضرورت ناگزیر بن جاتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں