پیپلز پارٹی کا احیا
ذاتی طورپر مجھے پاکستان پیپلز پارٹی کے بھرپور احیاء کے بارے میں کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ ....
ایک بار پھر پیپلز پارٹی کے سرکردہ لوگ یہ دعویٰ کرنا شروع ہوگئے ہیں کہ پاکستان کے ہر بڑے شہر میں اس جماعت سے ''نظریاتی وابستگی'' رکھنے والے بے شمار لوگ اب بھی موجود ہیں۔ یہ ''نظریاتی'' نواز شریف اور عمران خان دونوں کو ''دائیں بازو'' کے نمایندے سمجھتے ہیں۔ بدقسمتی سے گزشتہ چند برسوں سے پیپلز پارٹی اپنی ''بائیں بازو'' والی شناخت برقرار نہ رکھ پائی۔ بلاول بھٹو زرداری اگر کسی صورت اس شناخت کا احیاء کردیں تو ایک بار پھر پورے ملک میں ''بھٹو دے نعرے وجن گے'' والی فضاء پیدا ہوجائے گی۔
ذاتی طورپر مجھے پاکستان پیپلز پارٹی کے بھرپور احیاء کے بارے میں کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ میں اپنے اسکول کے اختتامی مہینوں میں سڑکوں پر جاکر ایوب خان کے خلاف مظاہروں میں حصہ لیتا رہا ہوں۔ ہمارے کالج کے دنوں میں بال بڑھا کر مارکس، لینن اور ماؤ کی تحریروں کا حوالہ دینا آپ کو اپنے ہم جماعتوں اور ہمعصر نوجوانوں میں کافی مقبول بنادیا کرتا تھا۔ میں ان کی تحریروں کو ذرا زیادہ سنجیدگی سے پڑھ کر خود کو ''انقلابی'' بنانے کی عادت میں مبتلا ہوگیا۔ اس عادت کی بدولت اپنے حصے کے دُکھ بھی جھیلے۔ انقلاب کے خواب مگر آپ کا پیٹ نہیں بھرتے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد روزگار کی تلاش میرے جیسے لوگوں کی مجبوری ہوتی ہے۔
تھک ہار کر کل وقتی صحافت میں چلا گیا۔ اس پیشے میں نوکری بچائے رکھنا جنرل ضیاء کے دنوں میں کافی مشکل ہوا کرتا تھا۔ لہذا بے روزگاری کے بہت عذاب بھی سہے۔ 1985ء میں جو انتخابات ہوئے ان کی بدولت پاکستان نے البتہ جمہوریت کی طرف ذرا ثابت قدمی سے اپنا سفر شروع کیا۔ اس کی بدولت مجھے اپنے پیشے میں کچھ استحکام اور راحت نصیب ہوئی۔ اپنی نوجوانی کے دنوں سے لیکن دل ودماغ میں جو ''انقلابی خیالات'' بیٹھ گئے تھے ان سے اب تک نجات حاصل نہیں کرپایا۔
اپنی اس فطری مجبوری کے باوجود تحریک انصاف کے انٹرنیٹ انقلابیوں کے ذریعے مگر دریافت اب میں نے یہ کیا ہے کہ آخری عمر میں پہنچ کر میں Status Quoکا حامی بن گیا ہوں۔ اکثر ''لفافہ صحافیوں'' کی فہرست میں بھی خود کو موجود پاتا ہوں۔ کاش میں ساری عمر صحافت کی نذر کرنے کے بجائے اس پیشے کی بدولت بنائے تعلقات سے فائدہ اٹھا کر پراپرٹی وغیرہ کے کام پر توجہ دیتا۔
مناسب جائیداد کا مالک بن کر اسے Collateralکے طور پر کسی بینک میں رہن رکھ کر اپنی جائیداد کی اصل وقعت سے کہیں زیادہ قرضہ لے کر چینی وغیرہ پیدا کرنے کا کوئی کارخانہ لگاتا۔ کارخانے کے لیے حاصل کردہ قرض سے بجائے جدید مشینری خریدنے کے اپنے لیے کوئی بڑی کار باہر سے منگواتا۔ بینک جب قرض کی ادائیگی کے لیے دباؤ ڈالتا تو صحافیانہ اثرورسوخ استعمال کرکے اسے معاف کروا لیتا۔ انقلابی روایات سے اپنے مسلسل انحراف کا کفارہ ادا کرنے کا سنہری موقعہ ان دنوں میری دسترس میں ہے۔ بس عمران خان کے کنٹینر پر پہنچ کر Go Nawaz Goکا نعرہ ہی تو بلند کرنا ہے۔ مگر فراز کو اگر محبتیں کرنا نہ آئیں تو نصرت تم کو نہ آئیں ''انقلابیاں'' کرنیں۔
بہرحال ذکر تو کرنا ہے پیپلز پارٹی کی ''نظریاتی پہچان'' کا۔ کہتے ہیں یہ پہچان ''بائیں بازو'' والی ہونی چاہیے۔ اب بایاں بازو کیا ہوتا ہے یہ کوئی مجھے سمجھائے ہم سمجھائیں کیا۔ ''بائیں بازو''کا ذکر چلے تو ایک اور اصطلاح یاد آتی ہے۔ اسے ''لبرل ازم'' کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں المیہ یہ بھی رہا کہ گزشتہ کئی برسوں سے یہاں ان دونوں کو ایک ہی شے سمجھا جاتا ہے۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ یہ دونوں قطعاً متضاد رویے ہیں۔ میرے پر یقین نہ آئے تو فٹ پاتھوں پر بکتی پرانی کتابوں کے کسی ٹھیلے پر چلے جائیں۔ شاید وہاں کہیں آپ کو لینن نام کے ایک مصنف کی چند کتابیں مل جائیں۔ ان کتابوں میں ایک مضمون ''کچھ لبرل ازم کے بارے میں'' عنوان کے ساتھ بھی مل سکتا ہے۔ اسے غور سے پڑھ لیجیے اور مجھے دُعا دیجیے۔
''لبرل ازم'' کو بائیں بازو سے گڈمڈ کرنے کا اصل ڈھونگ ہمارے ہاں ایک Enlightened Moderateکے راج کے دوران رچایا گیا۔ ہمارے اس بادشاہ نے 12اکتوبر 1999ء کی رات اس ملک پر قبضہ کرنے کے بعد جو پہلی تصویر باقاعدہ عوام کے سامنے آشکار کی اس میں ان کی گود میں Dotاور Buddyنام کے دو کتے تھے۔ خود کو انھوں نے اتاترک کا پیروکار بھی کہا۔ ''سب سے پہلے پاکستان'' کا نعرہ بلند کیا اور ملک کو Bad Talibanسے پاک کرنے پر تل گئے۔ ہمارے لبرل لوگ ان کے ظہور پر خوش ہوگئے۔ عمر اصغر خان مرحوم جیسے خوش خلق نوجوان اس ''اتاترک'' کے وزیر بن گئے۔
جنرل (ریٹائرڈ) نقوی صاحب کے ذریعے اقتدار کو نچلی سطح تک منتقل کروانے کے بعد ''حقیقی جمہوریت'' کے قیام کی تیاریاں بھی شروع ہوئیںاور بالآخر انگریزی استعمار کے متعارف کردہ افسر شاہی نظام سے چھٹکارا پاکر عوام کے منتخب کردہ ضلعی ناظم ہمارا مقدر بنے۔ اس سب کے باوجود 2002ء میں انتخابات ہوئے تو پیپلز پارٹی قومی اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت بن کر اُبھری۔ اسے مگر حکومت بنانے کی دعوت ہی نہ دی گئی۔ پیپلز پارٹی سے Patriots خوب چھان پھٹک کر علیحدہ کیے گئے۔ ان کی حمایت کے باوجود کئی برسوں سے ہماری سیاست کے جانے پہچانے جمالی خاندان کے میر ظفر اللہ کو وزیر اعظم بنانے کے لیے ایک ووٹ کم پڑگیا۔ یہ کمی مولانا اعظم طارق نے پوری کی جو ان دنوں اس جماعت کے نمایندہ تھے جسے ان دنوں کالعدم کہا جاتا ہے۔ ہمارے ''لبرلز'' کو مگر کچھ فرق نہ پڑا۔
وہ چوہدری شجاعت حسین کی سرپرستی میں ''صوفی ازم'' کے احیاء میں مصروف ہوگئے۔ آج کل اس زمانے کے صوفی ہوئے حضرات کی کثیر تعداد تحریک انصاف کے جلسوں کی رونق بڑھاتی ہے۔ مخدوم شاہ محمود قریشی کی صورت ان کے پاس پاکستان ہی نہیں جنوبی ایشیاء کی ایک بہت بڑی ''گدی'' کے سجادہ نشین بھی موجود ہیں۔ جہانگیر ترین صاحب فی الوقت تو اپنے ''انقلابی طیارے'' کی وجہ سے حاسدوں کے نشانے پر رہتے ہیں۔ چونکہ وہ ''موروثی سیاست'' کے خلاف بغاوت کرچکے ہیں اس لیے خلقِ خدا کو بہاولپور کے مخدومین سے اپنا تعلق بتانے سے کتراتے ہیں۔ میرے دوست خورشید احمد قصوری سے مگر ایک ''صوفی'' برآمد کرنا بہت مشکل ہے۔اپنے والد اور دادا کے ورثے کو ٹھکرا نہیں سکتے۔ پیپلز پارٹی کی ''نظریاتی پہچان'' کے احیاء کو بے چین قیادت خدا جانے کیوں نہیں سمجھ رہی کہ آج کل تحریک انصاف کے جلسوں اور جلوسوں میں جو نوجوان بہت متحرک نظر آتے ہیں ان کے والدین کسی زمانے میں ان کی جماعت کے ''پکے ووٹر'' شمار ہوا کرتے تھے۔
اپنے والدین سے انھوں نے بھٹو کی کہانیاں ضرور سنی ہیں۔ مگر گزشتہ چند برسوں میں ہمارے مستعد میڈیا کے بلندآہنگ پارساؤں نے انھیں پیپلز پارٹی کے بارے میں صرف ''کرپشن کہانیاں'' ہی سنائی ہیں۔ ان کہانیوں اور افتخار چوہدری کی انصاف سے بے پناہ محبت کے باعث قوم کی ساری توجہ اسلام آباد میں بیٹھی حکومت پر مرکوز رہی۔ شہباز شریف اس کے مقابلے میں ''گڈگورننس'' کی بھرپور علامت نظر آئے۔ آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی کی اسلام آبادسے روانگی کے بعد اب ساری توجہ شریف برادران کی طرف منتقل ہوچکی ہے اور ان کو ''اوئے'' کہہ کر للکار رہا ہے تو فقط عمران خان۔ ان کے دھرنوں اور جلسوں میں انقلاب بھی ہے اور لبرل ازم کا بھرپور اظہار بھی۔ پیپلز پارٹی اپنے ''نظریاتی ٹھیلے'' پر کیا سودا سجائے گی؟ بس اس سوال کا جواب عنایت فرما دیں۔ باقی باتیں بعد میں ہوں گی۔