ڈاکٹرمالک سے ایک مکالمہ
آج جو لوگ یا گروپس بلوچستان کے حقوق کے نام پر جدوجہد کررہے ہیں ، ان کی وہ وسیع البنیادی حیثیت نہیں ہے ...
ویسے تو ملک کے کسی بھی حصے میں امن وامان کی صورتحال نہ صرف تسلی بخش نہیں ہے بلکہ خاصی حد تک مخدوش بھی ہے ۔لیکن بلوچستان پاکستان کا سب سے زیادہ شورش زدہ صوبہ ہے جہاںایک طرف قوم پرستوں کی متشدد کارروائیاں جاری ہیں ، جب کہ دوسری طرف فرقہ واریت کے نتیجے میں ایک مخصوص کمیونٹی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ ان کی بستیوں پر مسلح حملے ہورہے ہیں ، زائرین کی بسوں پر بم حملے اورٹارگٹ کلنگ جیسے واقعات روز کا معمول بن چکے ہیں۔
اس کے علاوہ اساتذہ، وکلاء اور دیگر پروفیشنلزکے علاوہ عام آدمی کی ٹارگٹ کلنگ نے صورتحال کو خاصا سنگین بنا دیا ہے ۔ حالات کی ابتری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صحافیوں کی ٹارگٹ کلنگ کے بعدخضدار ، مستونگ اور پنجگور سمیت کئی شہروں کے پریس کلب کافی عرصہ ہوا بند ہو چکے ہیں ۔ اس صورتحال نے عام آدمی کی زندگی کو خاصامشکل بنا دیا ہے ۔
دوسری طرف ذرایع ابلاغ کا رویہ بھی خاصی حد تک جانبدارانہ ہے ۔ وفاقی دارالحکومت میں لگے دھرنے کی تو کئی کئی گھنٹے تک براہ راست کوریج ہو رہی ہے ۔ لیکن بلوچستان کے معاملات پر کبھی کبھار اگرکوئی پروگرام نشر کیا جاتا ہے، تواس میںبلوچ صحافیوں اور دانشوروں کا نقطہ نظر پیش کرنے کے بجائے اسلام آباد میں موجو چند جغادری قسم کے تجزیہ نگاروں کو مدعو کر لیا جاتا ہے، جو بزعم خود بلوچستان کے ماہر بنے بیٹھے ہیں ۔اس طرح عام پاکستانی کے سامنے وہ حقائق نہیں آرہے، جواس صوبے کی اصل تلخ حقیقت ہیں ۔ ماضی کی طرح 2013 کے انتخابات میں بھی بلوچستان سے منقسم مینڈیٹ آیا ۔
چنانچہ نیشنل پارٹی کے ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ نے جب مخلوط حکومت کے وزیر اعلیٰ کے طور پر حلف اٹھایا توکسی کو بھی یقین نہیں تھا کہ ان کی حکومت انتہائی بگڑے ہوئے حالات پر قابو پا سکے گی ۔ مگر گزشتہ 14ماہ کے دوران گو کہ امن وامان کی صورتحال مثالی تو نہیں ہوئی ہے، مگر اس میں تبدیلی کے آثاربہر حال نمایاں ضرور ہوئے ہیں ۔اس کے علاوہ بلوچستان وہ واحد صوبہ ہے، جہاں امن وامان کی ابتر صورت حال کے باوجود بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہوا ۔ لہٰذا ملک بھر کے صحافیوں اور تجزیہ نگاروںکی یہ خواہش رہی ہے کہ ڈاکٹر مالک کے ساتھ ملاقات کا خصوصی موقع مل پائے تاکہ ان سے بلوچستان کی صورتحال پر کھل کر گفتگو ہو سکے ۔
ڈاکٹر مالک سے ملاقات کا یہ موقع گزشتہ سنیچر کو مدیران اخبارات و رسائل کی تنظیمCPNEکی وساطت سے مل سکا جس کے جنرل سیکریٹری آج کل ہمارے دوست ڈاکٹر جبار خٹک اور حسبِ معمول عامر محمود خاصے فعال رکن ہیں ۔ تقریب کا شہر کے مقامی ہوٹل میں اہتمام کیا گیا، جس میں مدیران کے علاوہ سینئر کالم نگاروں نے بھی شرکت کی ۔ تقریب کی صدارت ایکسپریس کے سینئر ایڈیٹر اور CPNE کے نائب صدر ایازخان نے کی، جو خاص طور پر لاہور سے تشریف لائے تھے ۔ڈاکٹر مالک نے پہلے مختصراً14ماہ کی کارکردگی پیش کی اس کے بعد مدیران اور تجزیہ نگاروں کے سوالات کے جوابات دیے ۔
ان کا کہنا تھا کہ قدرتی معدنیات سے مالامال بلوچستان غربت وافلاس کی اس لیے تصویر بناہوا ہے کیونکہ حکمران آج بھی اسے نوآبادیاتی انداز میں چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے ذہن میں بیٹھا ہوا ہے کہ عوام جتنے پسماندہ ہوں گے انھیں قابو میں رکھنا اتناہی آسان ہوتا ہے ۔ یہ کلیہ بلوچستان کے کمشنرکیپٹن سنڈیمن نے بلوچ عوام کو کنٹرول کرنے کے لیے دیا تھا، جسے ہماری اسٹبلشمنٹ آج بھی استعمال کرتی ہے ۔
اسی ذہنی کیفیت(Mindset)، سابقہ حکومتوں کی غلط پالیسیوں اور قبائلی سرداروں کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دینے کی وجہ سے آج 30 اضلاع خط افلاس سے نیچے ہیں ۔33ہزار سے زائد گریجویٹس بے روزگار ہیں ۔حالانکہ نوشکی اور چاغی سے ایران کی سرحد تک 500کلومیٹر کے رقبے میں 44 مختلف قسم کی معدنیات پائی جاتی ہیں، جو بلوچستان کی معاشی اور سماجی ترقی میں نمایاں کردار ادا کرسکتی ہیں ۔ مگر غلط پالیسیوں پر اصرار کی وجہ سے معاشی ترقی کے اہداف کا حصول خاصا مشکل مرحلہ ہے ۔
اس سوال کے جواب میں کہ آج کی قوم پرستی کی تحریک اور1974کی تحریک میں کیا فرق ہے، ان کا کہنا تھا کہ 1970 کے عشرے میں چلنے والی تحریک قومی جمہوری تحریک تھی ، جس میں بلوچوں کے علاوہ پختونوں، پنجابیوں اور سندھیوں نے حصہ لیا تھا ۔ جس میں لسانی بنیادوں پر کسی کو قتل نہیں کیا گیا تھا ۔ جب کہ اب لسانی پہلو زیادہ نمایاں ہے، جس کی وجہ سے بلوچ معاشرہ تقسیم کا شکار ہے ۔ یہ تقسیم صرف لسانی بنیادوں پر نہیں ہے، بلکہ اس میں متشدد فرقہ واریت بھی شامل ہوگئی ہے ۔
جو کبھی بلوچ معاشرے کا خاصہ نہیں رہی ہے ۔ لہٰذا آج جو لوگ یا گروپس بلوچستان کے حقوق کے نام پر جدوجہد کررہے ہیں ، ان کی وہ وسیع البنیادی حیثیت نہیں ہے، جو ماضی میں چلنے والی تحاریک کی رہی ہے ۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آج کا بلوچ نوجوان اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبورہو رہا ہے کہ میر غوث بخش بزنجو کا قوم پرستی کا تصور درست تھا اور اس کے ذریعے ہی بہتر انداز میںحقوق حاصل کیے جاسکتے ہیں ۔ جوں جوں یہ تصور مزید پھیلے گا ، نیشنل پارٹی کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا ۔
جب کہ اس حوالے سے میراکہناہے آج پاکستان میںایک ایسی سیاسی جماعت کی اشد ضرورت ہے جو ماضی کی نیشنل عوامی پارٹی (NAP)کی طرز پر متوسط اور محنت کش طبقات کو مجتمع کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو، لیکن ساتھ ہی آج کے عالمی حالات کے تناظر میں سرد جنگ کی ذہنی کیفیت سے آزاد ہو۔ اس تشریح کے ساتھ ان سے سوال کیا نیشنل پارٹی اس تصور پر پورا اترسکے گی ؟ ڈاکٹر مالک کاجواب تھا کہ ان جماعت کی پوری کوشش ہے کہ نیشنل پارٹی اس تصور پر پورا اترے ۔ ان کا کہنا تھاکہ ہمیں پنجاب میں خاصی پذیرائی ملی ہے ، جب کہ سندھ اور خیبر پختونخوا میں بھی ہماری سیاسی سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں ۔
ڈاکٹرمالک کا دعویٰ اپنی جگہ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ نیشنل پارٹی کے علاوہ عوامی ورکرز پارٹی بھی میر غوث بخش بزنجو مرحوم کی سیاسی وراثت کی دعویدار ہے ۔ مگر ان دونوں جماعتوں کے درمیان موجود غیر منطقی خلیج کی وجہ سے وہ فکری رجحان جس کی بنیاد میر صاحب مرحوم نے رکھی تھی، آج کی نسل اس سے واقف نہیں ہے ۔ حالانکہ اس وقت پاکستان جن حالات سے دوچار ہے اس میں میر صاحب مرحوم کی سیاسی فکر کے لیے بہت زیادہ گنجائش موجود ہے ۔ لہٰذا معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ ایک وسیع البنیاد ترقی پسند جماعت کی تشکیل نہ ہونے کی ذمے داری ان دونوں جماعتوں کی قیادت پر عائد ہوتی ہے، جو وسیع تر سیاسی مقاصد پر ذاتی حیثیت قربان کرنے پر آمادہ نہیں ہیں ۔اگر یہ دونوں جماعتیں ذمے داری کا ثبوت دیتے ہوئے مل کر کام کریں تو NAPیا میر صاحب مرحوم کی PNP دوبارہ زندہ ہو سکتی ہے ۔
آخر میں ڈاکٹر مالک نے CPNEکو 20 لاکھ کا عطیہ پیش کیا ، جوکسی بھی طور20کروڑ سے کم نہیں ، کیونکہ بلوچستان جیسے مسائل میں گھرے صوبے کی جانب سے پیش کردہ یہ رقم بہت زیادہ اہمیت اور قدر وقیمت کی حامل ہے ۔ ایاز خان نے مہمانِ خصوصی کا شکریہ ادا کیا ، یوں یہ تقریب اختتام پذیر ہوئی۔اگلے روز یعنی اتوار کو ڈاکٹر مالک سے پائلر سینٹرمیں ملاقات ہوئی ، جہاں وہ سہ روزہ سندھ لیبر کانفرنس کے آخری سیشن میں بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے تھے ۔ اس کانفرنس میں انھوں نے اعلان کیا کہ اکتوبر کے آخری ہفتے میں بلوچستان حکومت سہ فریقی لیبر کانفرنس کی میزبانی کرے گی ۔
یہ کانفرنس ILOکے کنونشن کے مطابق ہر سال منعقد ہونا چاہیے ، جو پاکستان میں آخری بار2001ء میں منعقد ہوئی تھی۔ پہلے یہ وفاقی حکومت کی ذمے داری ہوا کرتی تھی، لیکن 18ویں ترمیم کے بعد یہ صوبوں کی ذمے داری ہوگئی ہے۔ لہٰذا اس کانفرنس کے انعقاد میں اگر بلوچستان پہل کرتا ہے، تو دوسرے صوبوں کو بھی ترغیب ملے گی اور وہ بھی محنت کشوں کے مسائل کے حل کے لیے اپنے اپنے صوبوں میں سہ فریقی لیبر کانفرنس کرنے کی جانب راغب ہوں گے ۔جس سے محنت کشوں کے دیرینہ مسائل کے حل کی جانب کسی حد تک پیش رفت ہوسکے گی ۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر مالک کا بلوچستان کا وزیر اعلیٰ بننا دراصل متوسط طبقے اور ترقی پسند قوتوں کی کامیابی ہے، جو عوامی مسائل کو سائنسی بنیادوں پر حل کیے جانے کے متمنی ہیں۔ اس لیے ہماری خواہش ہے کہ نہ صرف اپنی موجودہ مدت پوری کریں بلکہ اگلی مدت میں بھی وزیر اعلیٰ منتخب ہوکر بلوچستان کی معاشی ، سماجی اور سیاسی حالات کو مستحکم کرنے میں اپنی توانائیاں صرف کریں ۔ ہماری یہ بھی دعا ہے کہ ان جیسی متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی بے داغ شخصیات دیگر صوبوں کے منتظم کے طور پر بھی ابھر کر سامنے آئیں ، تاکہ ان صوبوں میں بھی عوام دوست سرگرمیاں زور پکڑ سکیں ۔