بلوچوں کے قبرستان عدم توجہی کے شکار
ہاشم جوکھیو گوٹھ جو تین چار سو گھرانوں پر مشتمل ہے۔ ...
BAHAWALPUR:
یہ امر قابل اطمینان ہے کہ کمشنر کراچی شعیب احمد صدیقی کی زیرنگرانی چوکھنڈی قبرستان سمیت دیگر تاریخی اور قدیم مقامات کو یونیسکو کی جانب سے عالمی ورثے کی فہرست میں شامل کرانے کے لیے معیاری اور ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
جن میں قبرستان کے گرد حفاظتی دیوار اور پولیس چوکیوں کی تعمیر، ریتی بجری اور ٹرک اور ٹینکر سمیت دیگر قابضین سے زمین کی واگزاری، ہر قسم کی تجاوزات کا خاتمہ اور بلااجازت تیزی سے مقامی افراد کی تدفین کے حوالے سے بھی اقدامات شامل ہیں۔ خیال رہے ان دنوں چوکھنڈی قبرستان اپنی شناخت کھو رہا ہے، 90 ایکڑ سرکاری اراضی پر ریتی بجری ٹرک اور ٹینکرز مافیا نے قبضہ کر لیا ہے، قبرستان میں تجاوزات کی بھرمار ہے، مقامی افراد ایک عرصے سے اپنے مردوں کو یہیں دفن کر رہے ہیں جو کہ غیر قانونی عمل ہے۔
محمد عثمان دموی کی کتاب ''کراچی تاریخ کے آئینے میں'' میں درج ہے کہ ''یہ ایک پرانا قبرستان ہے جو کراچی سے 16 میل کے فاصلے پر نیشنل ہائی وے کے بائیں جانب واقع ہے۔ اس قبرستان کو 1917ء میں ٹھٹھہ کے اسسٹنٹ کلکٹر نے دریافت کیا تھا۔ اس قبرستان میں سات سو سے زائد قبریں پکی اور ہزاروں کی تعداد میں کچی ہیں۔ پکی قبریں اپنے دور کے فن تعمیر کا بے مثال نمونہ ہیں۔ یہ قبریں جنگ شاہی کے پتھر سے تعمیر ہوئی ہیں، ان قبروں پر خوب صورت پھول پتیاں اور اقلیدسی اشکال بنی ہوئی ہیں۔ اکثر قبروں کی تعمیر اہرامی طرز پر ہے۔ ہر قبر پر مدفون شخص کا نام کنندہ ہے۔ ان قبروں کو اگر دور سے دیکھا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے سپاہی ایک قطار میں کھڑے پریڈ کر رہے ہوں۔ دراصل ان قبروں کو جیومیٹریکل طریقے سے یکساں تعمیر کیا گیا ہے جو ہر اعتبار سے ایک لائن میں معلوم ہوتی ہیں۔
ان قبروں کو ان پر بنے نقش و نگار سے بآسانی پہچانا جا سکتا ہے کہ کون سی قبر مرد کی ہے اور کون سی عورت کی۔ عورتوں کی قبروں پر زیورات کے اور بچوں کی قبروں پر پالنے کے نقوش بنے ہوئے ہیں۔ سرداروں کی قبروں پر تاج کے نشان کندہ ہیں جب کہ سپاہیوں کی قبروں پر جنگی ہتھیاروں کی تصاویر بنی ہوئی ہیں۔ بعض قبروں پر میناکاری کا کام کیا ہوا ہے اور بعض پر قرآنی آیات کندہ ہیں۔ ان میں سے بعض قبریں ایسی ہیں جن پر گھوڑے، مچھلیاں، اونٹ، ترکش اور مختلف جانوروں کے نقش بنے ہوئے ہیں۔ بعض قبریں محراب نما ہیں جہاں سے دیکھا جائے تو پورے قبرستان کا منظر نظر آتا ہے۔
ان قبروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ سات سو سال پرانی ہیں۔ جس طرح اس قبرستان کے نام کے بارے میں محققین مختلف آرا رکھتے ہیں اسی طرح محققین یہاں مدفون لوگوں کے بارے میں بھی مختلف آرا کا اظہار کرتے ہیں۔ مشہور محقق بینرجی جو 1920ء میں اس قبرستان پر تحقیق کرنے آیا تھا اس کا کہنا ہے کہ یہاں جوکھیو قبیلے کے لوگ مدفون ہیں۔ کوزنز نے چوکنڈی کی قبروں کو بلوچوں کی قبریں قرار دیا ہے۔
ایم اے غفور اور ممتاز حسن نے بھی یہاں مدفون لوگوں کو بلوچ قرار دیا ہے۔ شیخ خورشید حسن نے چوکنڈی کی قبروں کو جوکھیہ اور نمیوی قبیلوں کی قبریں قرار دیا ہے۔ کیپٹن پریڈی نے 1847ء میں جوکھیو قبیلے کے متعلق اس بات کی تصدیق کی تھی کہ یہ لوگ کوئی ڈیڑھ سو سال قبل شاہ بلاول کے شمال میں واقع ضلع کنگورہ سے حب ندی کی وادی میں آئے اور جب ان کی تعداد بڑھی تو یہ لوگ آہستہ آہستہ حب اور ملیر ندیوں کے درمیان واقع تمام علاقے پر قابض ہو گئے۔
جمعرات8 جولائی 2010ء کو کراچی کے ایک موقر اخبار میں رپورٹ شایع ہوئی کہ کراچی ملیر کے علاقے میمن گوٹھ اور ہاشم جوکھیو گوٹھ کے درمیانی علاقے میں ''بلوچوں کے مقبرے'' کے عنوان سے 45 ایکڑ پر پھیلا قبرستان ایک عرصے سے محکمہ آثار قدیمہ حکومت پاکستان کی عدم توجہی کا شکار ہے۔ اس دوران 16 ویں اور 17 ویں صدی کے قدیم بلوچ گھرانوں کی قبروں پر آویزاں نادر نقش و نگار کے قیمتی پتھر چرائے گئے قبریں مسمار کی گئیں۔
ہاشم جوکھیو گوٹھ جو تین چار سو گھرانوں پر مشتمل ہے۔ یہ قبرستان جو چوکنڈی قبرستان کے عہد سے قریب تر ہونے کے سبب تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ ساڑھے چار سوسال قدیم قبرستان پر تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ مختلف ادوار میں بلوچ قبائل اس طرف آتے رہے ہیں۔14 ویں صدی میں اسی طرح بلوچ قبائل طرف آئے۔ یہ سلسلہ جو ٹھٹھہ تک پھیل گیا ان لوگوں کے ساتھ اپنا تہذیبی رنگ، مال مویشی اور مختلف پیشے بھی یہاں آئے۔ انھوں نے 15 ویں صدی میں اپنے مردے یہاں دفن کرنا شروع کیے اور 17 ویں صدی تک کرتے رہے۔ کراچی کے مضافات میں ملیر کے اطراف میں بہت سے گوٹھ یہاں آباد ہوئے۔
بلوچوں کی ایک برانچ کل مت سے ہجرت کر کے یہاں آئی اور کل متی کہلائی۔ کل متی بلوچ کا ایک قدیم قبرستان یہاں وجود میں آیا۔ یہ بلوچ جب اس علاقے میں داخلے ہوئے تو حب گڈاپ، کراچی اور کوہستانی علاقوں میں آئے۔ یہاں پہلے سے آباد دوسرے قبائل سے ان کا تصادم ہوا۔ بعض سے دوستیاں بھی ہوئیں، اسی دوران 17 ویں صدی میں کل متی قبیلے کے علاقے میں اچانک چیچک کا مرض پھوٹ نکلا جس سے بڑی تعداد میں اموات ہوئیں اور کل متی قبیلہ کمزور ہو گیا۔ اس وقت تک علاقے میں بربت کھوکھیو اور کل متی بلوچ قبائل چھا گئے تھے۔ کل متی بلوچ یہاں سے ساکرو منتقل ہوئے جہاں ان کی جاگیریں تھیں۔
ہاشم جوکھیو گوٹھ میں واقع ''بلوچوں کے مقبرے'' کے عنوان سے یہ قبرستان محکمہ آثار قدیمہ حکومت پاکستان کے زیر انتظام تھا مگر اس پورے علاقے میں کوئی ایک دفتر یا سیاحوں کی رہنمائی اور انھیں اس سے متعلق خبروں، معلومات فراہم کرنے کے لیے کوئی ایک گائیڈ تک نہ تھا۔ سرکاری عدم توجہی کے سبب یہ قبرستان ناگفتہ بہ حالت کا شکار ہو گیا۔ اس قبرستان میں بعض سرداروں کی قبریں وسیع و عریض اور کئی منزلہ تھیں جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئیں، اب ایک طویل عرصے کے بعد حکومت پاکستان نے اس کی دیکھ بھال شروع کی ہے۔
یہ امر قابل اطمینان ہے کہ کمشنر کراچی شعیب احمد صدیقی کی زیرنگرانی چوکھنڈی قبرستان سمیت دیگر تاریخی اور قدیم مقامات کو یونیسکو کی جانب سے عالمی ورثے کی فہرست میں شامل کرانے کے لیے معیاری اور ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
جن میں قبرستان کے گرد حفاظتی دیوار اور پولیس چوکیوں کی تعمیر، ریتی بجری اور ٹرک اور ٹینکر سمیت دیگر قابضین سے زمین کی واگزاری، ہر قسم کی تجاوزات کا خاتمہ اور بلااجازت تیزی سے مقامی افراد کی تدفین کے حوالے سے بھی اقدامات شامل ہیں۔ خیال رہے ان دنوں چوکھنڈی قبرستان اپنی شناخت کھو رہا ہے، 90 ایکڑ سرکاری اراضی پر ریتی بجری ٹرک اور ٹینکرز مافیا نے قبضہ کر لیا ہے، قبرستان میں تجاوزات کی بھرمار ہے، مقامی افراد ایک عرصے سے اپنے مردوں کو یہیں دفن کر رہے ہیں جو کہ غیر قانونی عمل ہے۔
محمد عثمان دموی کی کتاب ''کراچی تاریخ کے آئینے میں'' میں درج ہے کہ ''یہ ایک پرانا قبرستان ہے جو کراچی سے 16 میل کے فاصلے پر نیشنل ہائی وے کے بائیں جانب واقع ہے۔ اس قبرستان کو 1917ء میں ٹھٹھہ کے اسسٹنٹ کلکٹر نے دریافت کیا تھا۔ اس قبرستان میں سات سو سے زائد قبریں پکی اور ہزاروں کی تعداد میں کچی ہیں۔ پکی قبریں اپنے دور کے فن تعمیر کا بے مثال نمونہ ہیں۔ یہ قبریں جنگ شاہی کے پتھر سے تعمیر ہوئی ہیں، ان قبروں پر خوب صورت پھول پتیاں اور اقلیدسی اشکال بنی ہوئی ہیں۔ اکثر قبروں کی تعمیر اہرامی طرز پر ہے۔ ہر قبر پر مدفون شخص کا نام کنندہ ہے۔ ان قبروں کو اگر دور سے دیکھا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے سپاہی ایک قطار میں کھڑے پریڈ کر رہے ہوں۔ دراصل ان قبروں کو جیومیٹریکل طریقے سے یکساں تعمیر کیا گیا ہے جو ہر اعتبار سے ایک لائن میں معلوم ہوتی ہیں۔
ان قبروں کو ان پر بنے نقش و نگار سے بآسانی پہچانا جا سکتا ہے کہ کون سی قبر مرد کی ہے اور کون سی عورت کی۔ عورتوں کی قبروں پر زیورات کے اور بچوں کی قبروں پر پالنے کے نقوش بنے ہوئے ہیں۔ سرداروں کی قبروں پر تاج کے نشان کندہ ہیں جب کہ سپاہیوں کی قبروں پر جنگی ہتھیاروں کی تصاویر بنی ہوئی ہیں۔ بعض قبروں پر میناکاری کا کام کیا ہوا ہے اور بعض پر قرآنی آیات کندہ ہیں۔ ان میں سے بعض قبریں ایسی ہیں جن پر گھوڑے، مچھلیاں، اونٹ، ترکش اور مختلف جانوروں کے نقش بنے ہوئے ہیں۔ بعض قبریں محراب نما ہیں جہاں سے دیکھا جائے تو پورے قبرستان کا منظر نظر آتا ہے۔
ان قبروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ سات سو سال پرانی ہیں۔ جس طرح اس قبرستان کے نام کے بارے میں محققین مختلف آرا رکھتے ہیں اسی طرح محققین یہاں مدفون لوگوں کے بارے میں بھی مختلف آرا کا اظہار کرتے ہیں۔ مشہور محقق بینرجی جو 1920ء میں اس قبرستان پر تحقیق کرنے آیا تھا اس کا کہنا ہے کہ یہاں جوکھیو قبیلے کے لوگ مدفون ہیں۔ کوزنز نے چوکنڈی کی قبروں کو بلوچوں کی قبریں قرار دیا ہے۔
ایم اے غفور اور ممتاز حسن نے بھی یہاں مدفون لوگوں کو بلوچ قرار دیا ہے۔ شیخ خورشید حسن نے چوکنڈی کی قبروں کو جوکھیہ اور نمیوی قبیلوں کی قبریں قرار دیا ہے۔ کیپٹن پریڈی نے 1847ء میں جوکھیو قبیلے کے متعلق اس بات کی تصدیق کی تھی کہ یہ لوگ کوئی ڈیڑھ سو سال قبل شاہ بلاول کے شمال میں واقع ضلع کنگورہ سے حب ندی کی وادی میں آئے اور جب ان کی تعداد بڑھی تو یہ لوگ آہستہ آہستہ حب اور ملیر ندیوں کے درمیان واقع تمام علاقے پر قابض ہو گئے۔
جمعرات8 جولائی 2010ء کو کراچی کے ایک موقر اخبار میں رپورٹ شایع ہوئی کہ کراچی ملیر کے علاقے میمن گوٹھ اور ہاشم جوکھیو گوٹھ کے درمیانی علاقے میں ''بلوچوں کے مقبرے'' کے عنوان سے 45 ایکڑ پر پھیلا قبرستان ایک عرصے سے محکمہ آثار قدیمہ حکومت پاکستان کی عدم توجہی کا شکار ہے۔ اس دوران 16 ویں اور 17 ویں صدی کے قدیم بلوچ گھرانوں کی قبروں پر آویزاں نادر نقش و نگار کے قیمتی پتھر چرائے گئے قبریں مسمار کی گئیں۔
ہاشم جوکھیو گوٹھ جو تین چار سو گھرانوں پر مشتمل ہے۔ یہ قبرستان جو چوکنڈی قبرستان کے عہد سے قریب تر ہونے کے سبب تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ ساڑھے چار سوسال قدیم قبرستان پر تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ مختلف ادوار میں بلوچ قبائل اس طرف آتے رہے ہیں۔14 ویں صدی میں اسی طرح بلوچ قبائل طرف آئے۔ یہ سلسلہ جو ٹھٹھہ تک پھیل گیا ان لوگوں کے ساتھ اپنا تہذیبی رنگ، مال مویشی اور مختلف پیشے بھی یہاں آئے۔ انھوں نے 15 ویں صدی میں اپنے مردے یہاں دفن کرنا شروع کیے اور 17 ویں صدی تک کرتے رہے۔ کراچی کے مضافات میں ملیر کے اطراف میں بہت سے گوٹھ یہاں آباد ہوئے۔
بلوچوں کی ایک برانچ کل مت سے ہجرت کر کے یہاں آئی اور کل متی کہلائی۔ کل متی بلوچ کا ایک قدیم قبرستان یہاں وجود میں آیا۔ یہ بلوچ جب اس علاقے میں داخلے ہوئے تو حب گڈاپ، کراچی اور کوہستانی علاقوں میں آئے۔ یہاں پہلے سے آباد دوسرے قبائل سے ان کا تصادم ہوا۔ بعض سے دوستیاں بھی ہوئیں، اسی دوران 17 ویں صدی میں کل متی قبیلے کے علاقے میں اچانک چیچک کا مرض پھوٹ نکلا جس سے بڑی تعداد میں اموات ہوئیں اور کل متی قبیلہ کمزور ہو گیا۔ اس وقت تک علاقے میں بربت کھوکھیو اور کل متی بلوچ قبائل چھا گئے تھے۔ کل متی بلوچ یہاں سے ساکرو منتقل ہوئے جہاں ان کی جاگیریں تھیں۔
ہاشم جوکھیو گوٹھ میں واقع ''بلوچوں کے مقبرے'' کے عنوان سے یہ قبرستان محکمہ آثار قدیمہ حکومت پاکستان کے زیر انتظام تھا مگر اس پورے علاقے میں کوئی ایک دفتر یا سیاحوں کی رہنمائی اور انھیں اس سے متعلق خبروں، معلومات فراہم کرنے کے لیے کوئی ایک گائیڈ تک نہ تھا۔ سرکاری عدم توجہی کے سبب یہ قبرستان ناگفتہ بہ حالت کا شکار ہو گیا۔ اس قبرستان میں بعض سرداروں کی قبریں وسیع و عریض اور کئی منزلہ تھیں جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئیں، اب ایک طویل عرصے کے بعد حکومت پاکستان نے اس کی دیکھ بھال شروع کی ہے۔