ماہر تعلیم انیتا غلام علی کی کہانی… گوہر تاج پہلاحصہ

خاص اس لیے کہ یہ میری ان سے آخری یادگار ملاقات تھی ...


گوہر تاج October 02, 2014

یہ پچھلے برس 2013ء کی بات ہے، جولائی کا مہینہ دوپہرکا وقت، میں سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے دفتر میں ایک ایسی شخصیت کے سامنے بیٹھی ہوں جو ہمیشہ ہی مجھے اپنے دل کے قریب محسوس ہوئی ہیں۔ جن سے میری قربت کا رشتہ پل دو پل کی بات نہیں بلکہ تین دہائیوں سے بھی زیادہ طویل عرصے پر محیط ہے۔ ملک میں تعلیم کے شعبے کے حوالے سے ان کا کام فقید المثال ہے۔ اپنی کتاب ''سب میرے لعل وگوہر'' (2012) ان کے نام منسوب کی تھی۔

ادھر کئی برسوں سے میں امریکا میں سکونت پذیر ہوں لیکن جب بھی پاکستان جانا ہوا، ہم دونوں ہی کی کوشش رہی کہ ملاقات کئی بار رہے۔ اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود جتنی بار بھی ممکن ہوا انھوں نے کبھی اپنے گھر اورکبھی (SEF) کے آفس بلا کر حتی المقدور ''لاڈ'' اٹھانے کی کوشش کی۔ اب یہ بات اور ہے کہ ان کا لاڈ اور پیار روایتی اظہار محبت سے ماورا ہے۔ آج میں انیتا آپا سے ہونے والی ایک ''خاص ملاقات'' کا ذکر کر رہی ہوں۔

خاص اس لیے کہ یہ میری ان سے آخری یادگار ملاقات تھی۔ اس دن میں نے ان کے ساتھ تین چار گھنٹے گزارے۔ ادھر انھوں نے بیتے لمحوں کو دہرانا شروع کیا ادھر ہم نے کاغذ اور قلم سنبھال کر یادوں کے موتیوں کو اپنی تحریر کی مالا میں پرونا شروع کردیا۔ افسوس کہ ان کی زندگی میں اس تحریرکو باقاعدہ شکل میں چھپوانے کی نوبت نہ آ سکی۔اس سال آٹھ اگست 2014ء کو انیتا آپا نے ایک بھرپور زندگی گزارنے کے بعد دنیا سے رخصت لی، انیتا غلام علی نے دو اکتوبر 1934ء میں کراچی میں پاکستان کے مشہور چیف جسٹس فیروز علی نانا اور سماجی کارکن شیریں نانا کے گھر آنکھ کھولی۔ والد اور والدہ کا تعلق سندھ کے علمی اور ادبی گھرانوں سے تھا۔

والدہ کے دادا سندھ کے مشہور عالم شمس العلما مرزا قلیچ بیگ تھے تو نانا مرزا جعفر قلی علی بیگ جو برطانیہ سے فارغ التحصیل مشہور سرجن تھے۔ انیتا آپا کے والد سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور سندھ کی قانون ساز اسمبلی کے پہلے سیکریٹری تھے۔ خود انیتا غلام علی مائیکرو بیالوجی کی پروفیسر رہی تھیں بعد میں دو بار سندھ میں تعلیم کی وزارت کا عہدہ بھی سنبھالا۔ صدارتی تمغہ حسن کارکردگی، تمغہ امتیاز کے علاوہ کئی ایوارڈز حاصل کیے۔

انیتا کی کہانی خود ان کی زبانی:

''ہماری دادی پارسی تھیں ان کا نام دین بانو تھا۔ دادا مسلمان تھے۔ لہٰذا یہ سوچنا مشکل تھا کہ ایک مسلمان کی پارسی سے شادی کیسے ہو۔ دادا کم عمر، انیس(19) برس کے تھے اس وقت لیکن اپنے فیصلے کی استقامت اور چاہت کی وجہ سے یہ مشکل کام انجام پہ پہنچا ''یہ شادی علامہ آئی آئی قاضی (جو ان کے دوست تھے اور حیدرآباد میں رہتے تھے) کے گھر ہوئی۔ اس شادی میں کل اٹھارہ روپے اور بارہ پیسے خرچ ہوئے۔ جس میں ہماری دادی نے سفید سوتی ساڑھی اور بلاؤز پہنا اور کچھ پیسے مٹھائی پہ خرچ ہوئے۔ ہماری دادی نے شیعہ مذہب کو اپنایا۔''

''ہمارے والد نے علی گڑھ یونیورسٹی سے پڑھا جہاں سے انھوں نے لا (قانون) کی ڈگری لی۔ ان کے زمانے میں آل احمد سرور طلبا یونین کے صدر اور والد جنرل سیکریٹری تھے۔ اس کے علاوہ نواب چھتیاری (راحت اور فرحت چھتاری کے والد) بھی ان کے زمانے میں ہوتے تھے۔''

پھر انھوں نے اپنے بچپن کا ذکر کیا:

ہم گارڈن ایسٹ (کراچی) میں پیدا ہوئے۔ پانچ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ ہمارا بچپن بہت ایکٹیو (فعال) طلسماتی تخیلاتی اور شرارتوں سے بھرپور تھا۔ ہمارے گھر میں قسم قسم کے جانور تھے۔ گائے، بھینسیں، مرغیاں، شتر مرغ، بکری، بلی، کتا وغیرہ کے علاوہ اود بلاؤ (Otter) کی بھی جوڑی تھی جنھیں ہم پیار سے ٹومی اور لومی پکارتے تھے جو ایک بڑے سے تالاب میں رہتے تھے۔

ہم سب کی موجودگی میں دن کے وقت تو وہ خوب آوازیں نکالتے اور خوش رہتے لیکن جب رات کے وقت اکیلے ہوتے تو بچوں کی طرح چیختے لہٰذا ان کو زولوجیکل گارڈن دے دیا گیا۔ جہاں انھیں دوسرے اود بلاؤں کے ساتھ چھوڑ دیا گیا۔ اس کے بعد جب بھی ہم زولوجیکل گارڈن جاتے تو وہاں بھی جاتے اور ہمیشہ یہ ظاہر کرتے کہ جیسے ہم اپنے اود بلاؤں کو پہچان بھی رہے ہیں۔ ہمارے پاس وکٹوریہ بگھی اور گھوڑا گاڑی بھی تھی۔ ان جانوروں کے رہنے کے لیے بڑے بڑے کیچ یا پینPan بھی تھے۔''

یہ جھلک تو انیتا آپا کے دن کی تھی جو کھیلوں میں مصروف گزرتا تھا لیکن رات بھی کچھ کم دلچسپ نہ ہوتی تھی۔ ''ہماری اماں رات کو ہم پانچوں بہن بھائیوں کو لے کر بیٹھتی تھیں اور آسکر وائلڈ اور لیو ٹالسٹائی وغیرہ کی کہانیاں پڑھ کر سناتیں۔ پڑھنے کے دوران وہ رک کر سوال پوچھتی جاتیں ان کا کہانی پڑھنے کا انداز بہت اچھا تھا۔ صاف ستھرا اور واضح لہجہ۔ پھر دوسرے دن توقع ہوتی کہ بچے سوال کریں۔'' واضح ہو کہ انیتا آپا کی امی شیریں نانا کو سندھی، انگریزی، فارسی، لاطینی، ہسپانوی زبانوں کے علاوہ بھی کئی زبانوں پر قدرت حاصل تھی۔ انھوں نے دو کتابیں ''لیٹرز ٹو ایملی گلیمس فرام ان سائیڈ اینڈ آؤٹ سائیڈ دی حویلی'' اور ''سندھ ایمبرائیڈری اینڈ بلاکس'' بھی لکھی ہیں۔

اس زمانے میں ہم سینٹ لارنس (سولجر بازار) میں پڑھتے تھے۔ لنچ کے وقت تو ہم بڑے صبر اور شرافت کے ساتھ کھاتے لیکن لنچ ختم ہونے کے بعد جب نوکر ہمیں اسکول کی Nuns ننز کے حوالے کر کے چلے جاتے تو تھوڑی دیر تو ہم انتظار کرتے پھر سب کے چلے جانے کے بعد اپنی ڈیسک میں اسکول کا بیگ پھینک کر اپنے دوست آسٹن مارٹن کے ساتھ اس میدان میں بھاگ جاتے جہاں گدھے ہوتے تھے۔ دراصل اس میدان میں گدھا گاڑی والے اپنے گدھے چرنے کے لیے چھوڑ دیتے تھے۔ ہم ان پر خوب رائیڈنگ کرتے اور سب مزے کرنے کے بعد ساڑھے تین بجے اسکول (چھٹی سے پہلے) واپس آ جاتے۔

اس وقت ہماری عمر آٹھ نو سال کی ہو گی۔ تو یہ طریقہ (اسکول سے بھاگنے کا) ایک یا دو ماہ جاری رہا۔ مگر یہ سلسلہ زیادہ عرصہ جاری نہ رہ سکا۔ ہماری آئرش ننز (Nuns) تھیں۔ انتہائی سخت قسم کی۔ انھوں نے ایک دن دیکھا تو تشویش ہوئی پھر ہماری انکوائری کی گئی اس کے بعد ہماری اماں کو بلوایا انھیں بھی پتہ چلا کہ کیسے ہم غائب رہتے ہیں ۔ ہماری اماں دبلی پتلی تو بہت تھیں مگر ان کے ہاتھ بہت مضبوط تھے۔ ہماری ایک ٹیچر مدر انتھونی تھیں۔ انھوں نے اماں کو سمجھایا۔ اماں اس وقت تو چپ چاپ سنتی رہیں مگر پھر گھر جا کر خوب مرمت ہوئی ہماری۔

ہماری ایک ٹیچر مسز ڈی سوزا ہوتی تھیں جن کو ستانے میں ہمیں بہت مزہ آتا تھا۔ وہ بارہ بجے سے ایک بجے دن تک پنشمنٹ Punishment (سزا ملنے والے بچوں کی نگرانی) سپروائزری بھی کرتی تھیں۔ انھوں نے بالآخر کہہ دیا کہ ''اس کا (انیتا) کوئی علاج نہیں۔''

انیتا آپا نے کچھ رک کے بات جاری رکھی۔

''اس طرح ہماری شرارتوں سے تنگ آ کر امی نے ہمیں نانی کے پاس پنج گنی (مہاراشٹر، انڈیا) جو ایک ہل اسٹیشن ہے، بھیجنے کا فیصلہ کر لیا۔ ہماری نانی کا بہت خوب صورت گھر تھا جس میں کئی ایکڑ پہ پھیلے باغات تھے۔ نائی ہاف برٹش تھیں اور سخت نظم و نسق والی۔ اماں نے سوچا کہ ان کا اثر ہم پر اچھا پڑے گا۔ ہماری تو یہ عادت تھی کہ جوتا بھی اچھال کر اتارتے تھے۔ وہاں جانے کے لیے ہم نے آیا اور نوکر کے ساتھ دو راتیں اور تین دن ٹرین میں گزارے۔ ہمارے ماموں بھی وہیں ایک بورڈنگ اسکول میں پڑھتے تھے۔ ہمارا داخلہ بھی سینٹ جوزف اسکول میں کیا گیا۔ اسکول تو بہت اچھا تھا لیکن ہم کو تو کبھی تعلیم سے دلچسپی تھی ہی نہیں۔ ہم گھر سے اسکول پونی پر جاتے تھے شروع میں (تین ماہ) تک تو ہمیں بارش میں رین کوٹ پہن کر جانا پڑا۔

نانی کے گھر دو سال رہے۔ دو سال بعد جب گھر واپس گئے تو اس دوران ایک بھائی بھی پیدا ہوا تھا۔

ہمارے دادا ہمیں بہت چاہتے تھے ان کی طرف سے ہمارے لیے پانچ روپے کا منی آرڈر ہر ماہ آتا تھا۔ اس دوران ہم بہت رسالوں کے ممبر بھی بن گئے تھے۔ دادا کے لاڈ کی وجہ سے سب کہتے دادا ہیں جو ہم کو خراب کر رہے ہیں۔''

یہ تو اسکول کے زمانے کی جھلک ہے۔ کالج کا زمانہ بھی انیتا آپا کا کوئی کم دلچسپ نہیں تھا جس کے متعلق وہ بتاتی ہیں۔

''کالج میں ہم کبھی باٹنی کی کلاس نہیں لیا کرتے تھے۔ یہ کلاس دوپہر میں تین بجے ہوتی تھی۔ وہی وقت جب طلبا کے لیے پیراڈائز سینما میں میٹنی شو ہوتا تھا۔ ہماری بوٹنی کی یہ ٹیچر سامان (تجربہ میں استعمال ہونے والا) اور پنسل وغیرہ کے بارے میں بہت سخت ہوتی تھیں۔ لہٰذا ہم کوئی ایسی شرارت کرتے کہ سزا ملے۔ مثلاً اپنی پنسل کو شارپ کرنے کا ریزر نہیں لاتے بس یہی چھوٹی سی بات کافی ہوتی تھی وہ ہمیں کلاس سے نکل جانے کو کہتیں اور یہی بہترین موقع ہوتا کہ ہم کم داموں پر فلم شو دیکھتے۔''

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں