اپنے علاقے نظرانداز کرنے والے سیاست دان
ذوالفقار علی بھٹو اور میاں نواز شریف کے لیے مشہور ہے کہ انھوں نے اپنے آبائی شہروں ...
سیاست دانوں کے لیے عام تاثر یہ ہے کہ وہ اپنے آبائی علاقوں میں زیادہ نہیں رہتے اور خاص طور پر منتخب ہو جانے کے بعد آیندہ انتخابات تک وہ اپنے آبائی حلقوں کو بھول ہی جاتے ہیں اور انھیں اپنے حلقے عید، بقر عید، عاشورہ، کسی افتتاحی تقریب یا وی وی آئی پی کے اپنے حلقے میں آنے کی اطلاع پر یاد آتے ہیں۔ اگر کوئی سیاست دان قومی رہنما یا اپنی پارٹی کا سربراہ بھی ہو تو وہ بھی اپنے آبائی حلقے میں کسی خاص وجہ کے آنا پسند نہیں کرتا۔
ذوالفقار علی بھٹو اور میاں نواز شریف کے لیے مشہور ہے کہ انھوں نے اپنے آبائی شہروں لاڑکانہ اور لاہور کو اپنی حکومتوں میں اہمیت دی اور اپنے شہروں میں تعمیری و ترقیاتی کام کرا کے ان کا حلیہ بدل دیا۔ اب بھی الزام لگتا ہے کہ پنجاب کا زیادہ بجٹ شریف برادران لاہور پر خرچ کرتے آئے ہیں جس کی وجہ سے لاہور آج ملک کا خوب صورت شہر بن چکا ہے۔
سابق صدر جنرل پرویز مشرف اور آصف علی زرداری کا تعلق کراچی سے تھا مگر جنرل پرویز کی طرح آصف علی زرداری نے کراچی کو اپنا نہیں سمجھا جب کہ وہ خود اور ان کی اولاد ہی نہیں بلکہ ان کی اہلیہ بے نظیر بھٹو بھی کراچی میں پیدا ہوئی تھیں مگر آصف علی زرداری اور بے نظیر بٹو نے دو بار اقتدار میں آ کر لاڑکانہ کو وہ اہمیت نہیں دی جو بھٹو صاحب دیتے تھے، آصف زرداری کی صدارت میں نواب شاہ کو اہمیت ملی نہ کراچی کو، البتہ ان کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنے شہر ملتان کا حق نمک ضرور ادا کیا اور ملتان کی ترقی پر خصوصی توجہ دی جس پر ان پر تنقید بھی ہوئی مگر انھوں نے پرواہ نہیں کی۔ راجہ پرویز کو زیادہ وقت نہ ملا مگر پھر بھی انھوں نے اپنے گوجر خان پر توجہ ضرور دی۔
محمد خان جو نیجو، شوکت عزیز، ظفر اﷲ جمالی اور چوہدری شجاعت بھی وزیر اعظم رہے مگر انھوں نے بھی اپنے آبائی علاقوں پر توجہ نہیں دی، شوکت عزیز کا تو کوئی اپنا آبائی علاقہ نہیں تھا اور انھیں اٹک سے منتخب کروا دیا گیا تھا مگر انھوں نے اٹک کا بھی حق نمک ادا نہیں کیا اور صرف بیرون ملک ہی مال بنایا جہاں وہ سات سال سے رہ رہے ہیں۔
حکمرانوں کا یہ حق تو ضرور بنتا ہے کہ وہ اپنے آبائی حلقوں کی تعمیر و ترقی پر توجہ دیں اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو ان پر تنقید ہوتی ہے کہ انھوں نے اپنے شہر ہی کے لیے کچھ نہیں کیا تو یہ ملک کے لیے کیا کریں گے۔ حکمرانوں کو یوسف رضا گیلانی کی طرح بھی نہیں کرنا چاہیے کہ توجہ صرف ملتان پر ہی دی اور بدلہ یہ ملا کہ ملتان سے ان کے سب بیٹے ہار گئے۔
شکار پور کے سومرو خاندان کے لیے مشہور تھا کہ انھوں نے اپنے آبائی شہر شکار پور پر کوئی توجہ نہیں دی جس کے نتیجے میں عوام نے بھی انھیں ووٹ دینا چھوڑ دیے اور وہ جیکب آباد جہاں اب وہ پی پی امیدواروں سے ہارتے آ رہے ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ سب بڑے سیاست دان وفاقی اور صوبائی دارالحکومتوں میں رہنا ہی پسند کرتے ہیں اور ان کے دوسرے گھر بھی وہیں ہوتے ہیں ان کی اولاد وہیں رہتی اور پڑھتی ہے مگر پھر بھی وہ اپنے رہائشی شہروں کے لیے کچھ نہیں کرتے۔
راقم کو جھنگ سے اسحاق قادری کا خط ملا ہے جس میں انھوں نے غریبوں کے مسیحا ڈاکٹر طاہر القادری کے متعلق لکھا ہے کہ وہ جھنگ کے درکھان غریب گھرانے میں پیدا ہوئے تھے مگر دولت مند ہو جانے کے بعد اپنی دھرتی ماں کو بھول چکے ہیں، گزشتہ دنوں جھنگ میں خوفناک سیلاب آیا مگر طاہر القادری نے وہاں آنا تو درکنار اپنے علاقے کے لوگوں سے اظہار ہمدردی تک نہیں کیا حالانکہ انھوں نے مشرف دور میں جھنگ سے انتخاب لڑ کر 35 ہزار ووٹ لیے تھے مگر ہار گئے تھے اور ایک سال بعد ہی ان کے صاحبزادے صرف 16 ہزار ووٹ لے سکے تھے ۔
طاہر القادری کے والد ڈاکٹر فرید الدین قادری کا مقبرہ جھنگ میں ہرمل پور قبرستان میں ہے اور کئی سالوں سے علامہ جھنگ نہیں آئے اور نہ کبھی والد کے عرس میں شریک ہو رہے ہیں۔ طاہر القادری کے رشتے دار چونکہ غریب ہیں اس لیے وہ اب علامہ کی نظر میں اہم نہیں رہے اور اب انھیں برادری بھی پسند نہیں کیوں کہ اب وہ جھنگ کے عام شہری نہیں رہے ہیں۔ قیام پاکستان سے قبل سندھ کے وزیر اعلیٰ شکار پور کے اﷲ بخش سومرو تھے اور بعد میں شکار پور ہی کے سر غلام حسین ہدایت اللہ سندھ کے گورنر رہے مگر دونوں نے اپنے شہر کے لیے کچھ نہیں کیا اور شکارپور کی دو نسلیں نہیں جانتیں کہ یہ دونوں کون تھے۔
14 سال قبل شکارپور کے آفتاب میرانی وزیر اعلیٰ بنے تھے پھر وزیر دفاع رہے اور اب رکن قومی اسمبلی ہیں مگر شکار پور تباہی کا شکار ہے جو کبھی سندھ کا پیرس کہلاتا تھا۔
لاڑکانہ کے ایوب کھوڑو، ممتاز بھٹو اور مظفر حسین شاہ بھی سندھ کے وزیر اعلیٰ رہے، آج لاڑکانہ ان کی غفلت سے تباہ حال ہے خیر پور سے تعلق رکھنے والے قائم علی شاہ اور غوث علی شاہ وزیر اعلیٰ رہے غلام مصطفی جتوئی نواب شاہ، جام صادق، سانگھڑ اور عبداﷲ شاہ اور لیاقت جتوئی دادو ضلع سے وزیر اعلیٰ رہے مگر سب نے اپنے آبائی شہروں کے لیے کوئی قابل ذکر ترقی نہیں کرائی آج وزیر اعلیٰ سندھ کا اپنا شہر خیرپور بدامنی کا شکار ہے۔
اکثر حکمران یا قومی رہنما منتخب ہو کر اپنے آبائی شہر سے دور ہو جاتے ہیں تو اس کی سزا بھی بھگتتے ہیں جیسے عمران خان کے ساتھ ہوا تھا اور وہ ضمنی الیکشن میں اپنے شہر میانوالی کی اپنی چھوڑی ہوئی نشست تحریک انصاف کو نہ دلا سکے تھے۔ اکرم درانی 2008ء کے الیکشن میں اپنی 5 سالہ حکومت ختم ہونے کے بعد اپنے شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے اس لیے ہار گئے تھے کہ انھوں نے اپنے شہر کے لیے کچھ نہیں کیا تھا اور وہ بنوں سے اس لیے جیت گئے تھے کہ انھوں نے اپنی حکومت میں بنوں کو ترقی دلائی تھی جس کی وجہ سے کامیاب ہو گئے تھے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ لوگ ترقی اور بڑا نام بھی نہیں دیکھتے اور کسی کی بہترین کارکردگی کے باوجود اسے ووٹ نہیں دیتے جس کی کئی مثالیں موجود ہیں، لوگ یہ ضرور چاہتے ہیں کہ ان کے منتخب نمایندے ان کے درمیان ضرور موجود رہیں تا کہ وقت پر جمشید دستی کی طرح ان کے کام تو آ سکیں۔
ذوالفقار علی بھٹو اور میاں نواز شریف کے لیے مشہور ہے کہ انھوں نے اپنے آبائی شہروں لاڑکانہ اور لاہور کو اپنی حکومتوں میں اہمیت دی اور اپنے شہروں میں تعمیری و ترقیاتی کام کرا کے ان کا حلیہ بدل دیا۔ اب بھی الزام لگتا ہے کہ پنجاب کا زیادہ بجٹ شریف برادران لاہور پر خرچ کرتے آئے ہیں جس کی وجہ سے لاہور آج ملک کا خوب صورت شہر بن چکا ہے۔
سابق صدر جنرل پرویز مشرف اور آصف علی زرداری کا تعلق کراچی سے تھا مگر جنرل پرویز کی طرح آصف علی زرداری نے کراچی کو اپنا نہیں سمجھا جب کہ وہ خود اور ان کی اولاد ہی نہیں بلکہ ان کی اہلیہ بے نظیر بھٹو بھی کراچی میں پیدا ہوئی تھیں مگر آصف علی زرداری اور بے نظیر بٹو نے دو بار اقتدار میں آ کر لاڑکانہ کو وہ اہمیت نہیں دی جو بھٹو صاحب دیتے تھے، آصف زرداری کی صدارت میں نواب شاہ کو اہمیت ملی نہ کراچی کو، البتہ ان کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنے شہر ملتان کا حق نمک ضرور ادا کیا اور ملتان کی ترقی پر خصوصی توجہ دی جس پر ان پر تنقید بھی ہوئی مگر انھوں نے پرواہ نہیں کی۔ راجہ پرویز کو زیادہ وقت نہ ملا مگر پھر بھی انھوں نے اپنے گوجر خان پر توجہ ضرور دی۔
محمد خان جو نیجو، شوکت عزیز، ظفر اﷲ جمالی اور چوہدری شجاعت بھی وزیر اعظم رہے مگر انھوں نے بھی اپنے آبائی علاقوں پر توجہ نہیں دی، شوکت عزیز کا تو کوئی اپنا آبائی علاقہ نہیں تھا اور انھیں اٹک سے منتخب کروا دیا گیا تھا مگر انھوں نے اٹک کا بھی حق نمک ادا نہیں کیا اور صرف بیرون ملک ہی مال بنایا جہاں وہ سات سال سے رہ رہے ہیں۔
حکمرانوں کا یہ حق تو ضرور بنتا ہے کہ وہ اپنے آبائی حلقوں کی تعمیر و ترقی پر توجہ دیں اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو ان پر تنقید ہوتی ہے کہ انھوں نے اپنے شہر ہی کے لیے کچھ نہیں کیا تو یہ ملک کے لیے کیا کریں گے۔ حکمرانوں کو یوسف رضا گیلانی کی طرح بھی نہیں کرنا چاہیے کہ توجہ صرف ملتان پر ہی دی اور بدلہ یہ ملا کہ ملتان سے ان کے سب بیٹے ہار گئے۔
شکار پور کے سومرو خاندان کے لیے مشہور تھا کہ انھوں نے اپنے آبائی شہر شکار پور پر کوئی توجہ نہیں دی جس کے نتیجے میں عوام نے بھی انھیں ووٹ دینا چھوڑ دیے اور وہ جیکب آباد جہاں اب وہ پی پی امیدواروں سے ہارتے آ رہے ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ سب بڑے سیاست دان وفاقی اور صوبائی دارالحکومتوں میں رہنا ہی پسند کرتے ہیں اور ان کے دوسرے گھر بھی وہیں ہوتے ہیں ان کی اولاد وہیں رہتی اور پڑھتی ہے مگر پھر بھی وہ اپنے رہائشی شہروں کے لیے کچھ نہیں کرتے۔
راقم کو جھنگ سے اسحاق قادری کا خط ملا ہے جس میں انھوں نے غریبوں کے مسیحا ڈاکٹر طاہر القادری کے متعلق لکھا ہے کہ وہ جھنگ کے درکھان غریب گھرانے میں پیدا ہوئے تھے مگر دولت مند ہو جانے کے بعد اپنی دھرتی ماں کو بھول چکے ہیں، گزشتہ دنوں جھنگ میں خوفناک سیلاب آیا مگر طاہر القادری نے وہاں آنا تو درکنار اپنے علاقے کے لوگوں سے اظہار ہمدردی تک نہیں کیا حالانکہ انھوں نے مشرف دور میں جھنگ سے انتخاب لڑ کر 35 ہزار ووٹ لیے تھے مگر ہار گئے تھے اور ایک سال بعد ہی ان کے صاحبزادے صرف 16 ہزار ووٹ لے سکے تھے ۔
طاہر القادری کے والد ڈاکٹر فرید الدین قادری کا مقبرہ جھنگ میں ہرمل پور قبرستان میں ہے اور کئی سالوں سے علامہ جھنگ نہیں آئے اور نہ کبھی والد کے عرس میں شریک ہو رہے ہیں۔ طاہر القادری کے رشتے دار چونکہ غریب ہیں اس لیے وہ اب علامہ کی نظر میں اہم نہیں رہے اور اب انھیں برادری بھی پسند نہیں کیوں کہ اب وہ جھنگ کے عام شہری نہیں رہے ہیں۔ قیام پاکستان سے قبل سندھ کے وزیر اعلیٰ شکار پور کے اﷲ بخش سومرو تھے اور بعد میں شکار پور ہی کے سر غلام حسین ہدایت اللہ سندھ کے گورنر رہے مگر دونوں نے اپنے شہر کے لیے کچھ نہیں کیا اور شکارپور کی دو نسلیں نہیں جانتیں کہ یہ دونوں کون تھے۔
14 سال قبل شکارپور کے آفتاب میرانی وزیر اعلیٰ بنے تھے پھر وزیر دفاع رہے اور اب رکن قومی اسمبلی ہیں مگر شکار پور تباہی کا شکار ہے جو کبھی سندھ کا پیرس کہلاتا تھا۔
لاڑکانہ کے ایوب کھوڑو، ممتاز بھٹو اور مظفر حسین شاہ بھی سندھ کے وزیر اعلیٰ رہے، آج لاڑکانہ ان کی غفلت سے تباہ حال ہے خیر پور سے تعلق رکھنے والے قائم علی شاہ اور غوث علی شاہ وزیر اعلیٰ رہے غلام مصطفی جتوئی نواب شاہ، جام صادق، سانگھڑ اور عبداﷲ شاہ اور لیاقت جتوئی دادو ضلع سے وزیر اعلیٰ رہے مگر سب نے اپنے آبائی شہروں کے لیے کوئی قابل ذکر ترقی نہیں کرائی آج وزیر اعلیٰ سندھ کا اپنا شہر خیرپور بدامنی کا شکار ہے۔
اکثر حکمران یا قومی رہنما منتخب ہو کر اپنے آبائی شہر سے دور ہو جاتے ہیں تو اس کی سزا بھی بھگتتے ہیں جیسے عمران خان کے ساتھ ہوا تھا اور وہ ضمنی الیکشن میں اپنے شہر میانوالی کی اپنی چھوڑی ہوئی نشست تحریک انصاف کو نہ دلا سکے تھے۔ اکرم درانی 2008ء کے الیکشن میں اپنی 5 سالہ حکومت ختم ہونے کے بعد اپنے شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے اس لیے ہار گئے تھے کہ انھوں نے اپنے شہر کے لیے کچھ نہیں کیا تھا اور وہ بنوں سے اس لیے جیت گئے تھے کہ انھوں نے اپنی حکومت میں بنوں کو ترقی دلائی تھی جس کی وجہ سے کامیاب ہو گئے تھے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ لوگ ترقی اور بڑا نام بھی نہیں دیکھتے اور کسی کی بہترین کارکردگی کے باوجود اسے ووٹ نہیں دیتے جس کی کئی مثالیں موجود ہیں، لوگ یہ ضرور چاہتے ہیں کہ ان کے منتخب نمایندے ان کے درمیان ضرور موجود رہیں تا کہ وقت پر جمشید دستی کی طرح ان کے کام تو آ سکیں۔