مسئلہ کشمیر…عالمی برادری کا کردار

وزیر اعظم نے واضح کیا کہ کشمیری عوام آج بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل در آمد ہونے کے منتظر ہیں...


MJ Gohar October 02, 2014

SIALKOT: وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 69 ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے علاقائی و عالمی حالات کے تناظر میں دہشت گردی، قیام امن، افغانستان اور بھارت کے ساتھ دو طرفہ تعلقات اور جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے حوالے سے عالمی رہنماؤں کو صورت حال سے آگاہ کیا، وزیر اعظم نے دیگر موضوعات پر گفتگو کے علاوہ پاک بھارت تعلقات میں بہتری لانے کے لیے مسئلہ کشمیر کے پر امن اور قابل قبول حل کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا یہ دیرینہ تنازعہ ہے جس پر اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں اور مسئلہ کشمیر حل کرانا عالمی اداروں کی ذمے داری ہے۔

وزیر اعظم نے واضح کیا کہ کشمیری عوام آج بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل در آمد ہونے کے منتظر ہیں ان کی کئی نسلیں بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں تشدد کے زیر اثر زندگی گزار رہی ہیں۔ ان کے حقوق سلب کر لیے گئے ہیں۔ تاہم پاکستان مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر حل کرنا چاہتا ہے اور ہماری حمایت و وکالت کشمیریوں کے ساتھ ہے، وزیر اعظم نے واضح طور پر یہ کہا کہ بھارت نے خارجہ سیکریٹریز کی سطح کے مذاکرات کا اچھا موقع ضایع کر دیا جس کا افسوس ہے۔

تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ دنیا کے مختلف خطوں میں بعض مخصوص علاقوں کے لوگوں نے ناگزیر وجوہات کی بنیاد پر اپنا ایک جداگانہ تشخص برقرار رکھنے کے حوالے سے ایک علیحدہ قوم ہونے کا دعویٰ کیا اور پھر مرکز اقتدار کے تسلط سے آزاد ہو کر اپنی شناخت اور پہچان کی خاطر جغرافیائی طور پر ایک الگ خطہ اراضی مخصوص کرنے کا مطالبہ کیا اور اپنے مقصد کے حصول کی خاطر تحریکیں چلائیں، قربانیاں دیں، عزت و آبرو اور مال و متاع لٹا دیا، مظالم برداشت کیے اور بعض مواقعوں پر مسلح جد وجہد کا راستہ بھی اختیار کیا۔

بعد ازاں اندرونی و بیرونی دباؤ اور حالات کے تقاضوں کے باعث جابر و ظالم حاکموں کو محکوم، مجبور، مقہور عوام کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہونا پڑا، ریفرنڈم کرائے گئے اور لوگوں سے الحاق و علیحدہ ہونے کے حوالے سے رائے مانگی گئی، نتیجتاً خطہ زمین پر نئے جغرافیائی و آزاد ملک وجود میں آنے لگے۔ انڈونیشیا سے مشرقی تیمور اور سوڈان سے جنوبی سوڈان کا وجود میں آنا تسلط سے آزادی کی تازہ مثالیں، فلپائن کے مسلم اکثریتی والے صوبے کو حکومت نے وہاں کے عوام کے مطالبے پر حد درجہ خود مختاری دے کر خانہ جنگی سے محفوظ کر دیا۔

ان مثالوں کے پس منظر میں کشمیر، فلسطین کی طرف نظر ڈالیے تو معلوم ہو گا کہ وہاں کے عوام بھی مرکز اقتدار سے علیحدہ ہونے اور اپنی جغرافیائی شناخت و پہچان کی خاطر اسرائیل و بھارت کے جبر و استبداد کے خلاف جد وجہد کر رہے ہیں، گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری آزادی کی تحریکوں کے باوجود بھارت و اسرائیل کی ہٹ دھرمی، استعماری ذہنیت اور شیطانی عزائم کے باعث آج تک مظلوم کشمیریوں و فلسطینیوں کو ان کے حقوق (حق خود ارادیت) نہیں مل سکے، اقوام متحدہ کی واضح طور پر منظور کردہ قراردادوں کے باوجود عالمی برادری مذکورہ تنازعات کو حل کرانے میں تا حال ناکام رہی ہے۔

اگر یہ کہا جائے تو شاید غلط نہ ہو گا کہ عالمی امن کے ٹھیکیدار بننے والے دنیا کی واحد سپر پاور کا دعویٰ کرنے والے امریکا نے بھی مسئلہ کشمیر و فلسطین کے حل کے ضمن میں اپنا مرکزی عالمی کردار سنجیدگی سے ادا نہیں کیا۔ بعینہ اپنے دور کی سب سے بڑی ریاست ہونے کی دعویدار سلطنت آج برطانیہ نے مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے کوئی مثبت و تعمیری کردار ادا نہیں کیا حالانکہ برصغیر کی تقسیم کے وقت برطانوی حکمرانوں کی ذمے داری تھی کہ وہ تقسیم کے فارمولے کے تحت پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا تنازعہ بھی بروقت طے کرا جاتے تو آج صورت حال مختلف ہوتی۔

قیام پاکستان سے آج تک مسئلہ کشمیر اپنی پیچیدگی و بھارت کی ہٹ دھرمی اور عالمی برادری کی بے حسی کے باعث جنوبی ایشیا میں ''فلسطین پوائنٹ'' بنا ہوا ہے، بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دے کر اس اہمیت کو اجاگر کیا اور پاکستان سے کشمیریوں کی خواہش کے مطابق الحاق کی دیرینہ خواہش کو واضح کیا کہ قائد اعظم سے زیادہ کشمیر کی حقیقت کو کون جان سکتا تھا، قائد کے بعد ذوالفقار علی بھٹو ملک کے وہ واحد رہنما تھے جو کشمیر کی اہمیت و افادیت، کشمیریوں کی خواہشات و امنگوں سے پوری طرح آگاہ تھے۔

وہ بھارت کی روایتی ہٹ دھرمیوں، شیطانی عزائم، جارحانہ مقاصد، کشمیر پر غاصبانہ تسلط برقرار رکھنے کی پالیسی اور ہندو حکمرانوں کی متعصبانہ ذہنیت کو اچھی طرح سمجھتے اور جانتے تھے یہی وجہ تھی کہ بھٹو نے مسئلہ کشمیر پر بھارت کو کسی قسم کی کوئی رعایت نہیں دی بلکہ تنازعہ کشمیر پر ٹھوس، جاندار اور بلند آہنگ موقف اختیار کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ ایک ہزار سال تک جنگ لڑنے کا منفرد نعرہ لگایا، بھٹو بھارت کی ایٹمی استعداد حاصل کرنے کی پالیسی سے بخوبی آگاہ تھے اسی لیے بھارت کو بھرپور جواب دینے کے پختہ عزم کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نے بھارتی سورماؤں کو یہ پیغام دیا تھا کہ ہم گھاس کھا لیں گے مگر ایٹم بم بنائیں گے۔

مسئلہ کشمیر پر بھٹو نے جس بے باکانہ انداز سے پاکستانی قوم اور کشمیری عوام کے جذبات کی ترجمانی اور قائد اعظم کے موقف کو تقویت بخشی بعینہ بھٹو کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی اسی دلیرانہ انداز سے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کیا جس کا اعتراف کشمیر رہنما سید علی گیلانی نے ان الفاظ میں کہا کہ مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لیے محترم بے نظیر بھٹو نے عالمی سطح پر جو کردار ادا کیا وہ آج تک کسی فوجی حکمران نے بھی نہیں کیا۔

آپ ذرا غور فرمایئے کہ آج بھٹو کا نواسہ اور بے نظیر بھٹو کا بیٹا بلاول بھٹو زرداری بھی اپنے نانا اور والدہ کے تنازعہ کشمیر کے موقف کو آگے بڑھاتے ہوئے اسی گرج دار لب و لہجے اور دلیری کے ساتھ بلند آہنگ یہ کہہ رہا ہے کہ ''لواں گے لواں گے پورا کشمیر لواں گے'' بلاول کی زبان سے کشمیریوں کے دل کی آواز بن کر نکلنے والے نعرے نے بھارتی کیمپ میں ہلچل پیدا کر دی جب کہ پاکستان میں 18 کروڑ عوام نے بلاول کے عزم صمیم کا زبردست خیر مقدم کیا اور اسے نہ صرف کشمیری بلکہ پاکستان کے ''عوام کی آواز'' قرار دیا، ملک بھر کے مبصرین و تجزیہ نگاروں نے بلاول بھٹو کے اظہار کو قومی موقف کی تائید قرار دیا جب کہ بھارتی وزارت خارجہ نے بلاول کے بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسے حقیقت کے منافی قرار دیا۔

اگر چہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران پاکستان سے مذاکرات پر مشروط آمادگی ظاہر کی تاہم یہ کہہ کر کہ متنازعہ امور اقوام متحدہ میں لانے سے حل نہیں ہوں گے پاکستان اور کشمیری عوام کو یہ پیغام بھی دے دیا کہ وہ تنازعہ کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بھول جائیں یہ بھارت کی دوغلی پالیسی کا کھلا اظہار ہے جو پاکستانی و کشمیری عوام کو ہر گز قابل قبول نہیں، پاکستانی دفتر خارجہ کو اس پر سخت رد عمل دینا چاہیے، بھارت کا تازہ موقف اقوام متحدہ کی بھی توہین کے مترادف ہے، عالمی برادری کو بھی اس کا نوٹس لینا چاہیے اور مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کا منظور کردہ قراردادوں کے مطابق حل کرنے میں اپنا موثر کردار ادا کرنا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں