اسکاٹش ریفرنڈم آخری حصہ

اسی بنیاد پر تو پوسٹ ماڈرن ازم نے تھیوریٹکل سطح پر مغرب کی تیسری دنیا میں مداخلت، ...


Shabana Yousuf October 02, 2014
[email protected]

ریفرنڈم کی کمپین میں علیحدگی پسند پارٹی کا یہی موقف تھا کہ اسکاٹش ذخائر اور وسائل کے ذریعے اسکاٹ لینڈ کو خود انحصار بنایا جا سکتا ہے، مگر اسکاٹش شناخت کا سوال براہ راست نہیں اُٹھایا گیا کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وسائل کی قوت سے شناخت کا استحکام ممکن ہے، اس لیے رنگ و نسل کے فرق پر اتنا زور نہیں دیا گیا جب کہ ترقی پذیر ممالک میں رنگ و نسل کے فرق کو بنیاد بنایا جاتا ہے اور مغربی تھیوریوں کا یہ ''افتراق'' تو پوسٹ ماڈرن ازم میں اقلیتی گروہوں کی تقسیم کو بھر پور جواز دیتا آیا ہے۔

اسی بنیاد پر تو پوسٹ ماڈرن ازم نے تھیوریٹکل سطح پر مغرب کی تیسری دنیا میں مداخلت، توڑ پھوڑ اور تقسیم در تقسیم کی من مانیوں کو مضبوطی فراہم کر رکھی تھی، مگر برطانیہ میں جب یہ ''افتراق'' عمل آراء ہوا ہے تو اس نے حیرت انگیز طور پر تقسیم کی راہ روکتے ہوئے مخالف قوتوں کو اتحاد میں تبدیل کر دیا ہے۔ وہ فرق یا ''افتراق ''جو ''دوسرے'' کمزور کی یا اقلیت کی شناخت کے لیے ضروری یا کارگر تھا وہی افتراق آج ''دوسرے'' (اس سے مراد استحصال زدہ یا کمزور طبقہ ہے) کی شناخت کو ''پہلے'' میں ضم کرنے میں مدد فراہم کر رہا ہے۔

یہ وہ فرق یا تخالف تھا جو ہیگل کے فلسفیانہ تصور کے مطابق ''پہلا'' ( جو کل کی نمایندگی کرتا ہے، غالب ہے، طاقتور ہے) خود اپنے اندر پیدا کرتا ہے، اپنی شناخت کے لیے اور پھر خود کو مضبوط کرنے کے لیے بوقتِ ضرورت اسے تصورِ ''مفاہمت'' کے تحت خود میں جذب کر لیتا ہے۔ اسکاٹش ریفرنڈم ایسا تخالف تھا جسے 'پہلے' طاقتور نے (یعنی انگلینڈ) خود پیدا کیا۔ پوری دنیا کے سامنے اپنی لبرل جمہوری ریاست کی شناخت قائم کرنے کے لیے، ریفرنڈم کے عمل کی اجازت دے کر اور پھر میڈیا، انٹیلی جنشیا اور سیاسی ماہرین کی تجزیاتی تحاریر کا بھر پور استعمال کرتے ہوئے عوامی رائے کو انگلینڈ نے اپنے حق میں ہموار کیا۔

برطانوی سیاست میں، انٹیلی جنشیا، میڈیا اور اخبارات کا کسی فیصلے میں اہم کردار ہوتا ہے، لہذا ریفرنڈم کا یہ نتیجہ کسی ماورائے حواس عمل کا اثر نہیں ہے، بلکہ، برطانوی اتحادی ریاست کی کلیت کی ساخت میں جو 'شگاف' ریفرنڈم کی صورت ریاستی ''پہلے'' نے اپنی مثبت لبرل جمہوری شناخت قومی و بین الاقوامی سیاست میں قائم کرنے کے لیے خود پیدا کیا تھا اسے یہ شناخت مستحکم کرنے کے بعد پھر خود میں ضم کر لیا ہے۔ اس کے بعد برطانوی ریاست زیادہ طاقت ور ریاست کے طور پر، ماضی کی غاصب ریاست کی منفی شناخت کی بجائے ایک منصف اور لبرل جمہوری ریاست کی مثبت شناخت کے ساتھ ابھری ہے۔

یعنی اسکاٹش آبادی کی اکثریت 55 فی صد نے انگلینڈ کے ساتھ منسلک رہنے کو ترجیح دی ہے۔ بہت سے مفکر جو پوسٹ ماڈرن ازم میں دریدا کی ڈی کنسٹرکشن کی نظریاتی ساخت 'افتراق' کو حقیقی سمجھ کر رنگ و نسل اور علاقائی بنیادوں پر مغرب اور امریکا کی مدد سے اپنے مفادات کے لیے کی جانے والی تیسری دنیا میں گروہی تنظیم سازی کو تحسین کی نظر سے دیکھ رہے تھے اور جن کا خیال تھا کہ ہیگل کے فلسفے کی کلیت کی جبری ساخت میں دریدا کے 'افتراق' نے شگاف پیدا کر دیا ہے وہ اسکاٹش ریفرنڈم کے نتائج دیکھ کر حیرت سے کہ رہے ہیں کہ کیا پوسٹ ماڈرن ازم کے نظریات صرف جھوٹ ہی تھے؟ 'قاری کی آسانی کے لیے وضاحت کر دوں کہ 'افتراق' سے مراد وہ فرق یا فاصلہ ہے جو دو لفظوں کے مابین خالی جگہ کی صورت وقت کی مبہم ساخت پر مشتمل ہے یہ فاصلہ ایک لفظ کو جس طرح دوسرے سے جدا رکھتا ہے۔

اسی طرح یہ فاصلہ دو لوگوں، طبقات، سماج یا ثقافتوں کے درمیان بھی انقسام کا باعث رہتا ہے یہاں تک کہ اس فاصلے کو 'پہلا' اپنی کسی نہ کسی طاقت کے ذریعے پرُ کر کے 'دوسرے' پر غلبہ نہ پالے، یعنی وہ خالی جگہ جو دو لفظوں کی شناخت کا باعث ہوتی ہے (یوں سمجھ لیں کہ یہ خالی جگہ دونوں کی مشترک ملکیت ہوتی ہے) یا دو طبقات کی پہچان کا باعث ہوتی ہے اسے ایک طبقہ جائز و ناجائز طاقت کے استعمال سے پُر کر کے دوسرے پر غلبہ پا کر خود میں جذب کر کے کلیت کی ساخت میں ڈھال دے، جو جبر ہی کا نتیجہ ہو گی۔

لہذا مغربی سیاست میں اس جبر کو برا سمجھتے ہوئے تیسری دنیا کی تقسیم کو پسے ہوئے طبقات کی حمایت قرار دے کر دوسری ریاستوں میں در اندازی کو ایک خوبی کے طور پر شرح کی جانے لگی، جیسے امریکا نے بلوچستان پر ریزولیشن پاس کیا، مگر اسکاٹ لینڈ یا آئر لینڈ کے حوالے سے امریکا ایسا نہیں کرتا، کیونکہ بلوچستان کی تقسیم عالمی سرمایہ داروں کے مفاد میں ہے جو مقامی سرمایہ داروں بلوچی برسرِ اقتدار طبقات کے اشتراک سے ممکن بنانا چاہتے ہیں مگر انگلینڈ یا مغربی ریاستیں پہلے ہی یورپی یونین کے تحت سرمایہ داروں کے ماتحت موجود ہیں، اس لیے اسکاٹش سرمایہ داروں کے لیے جن کی اپنی بھی جڑیں سرمائے کے حوالے سے انگلینڈ میں مضبوط ہیں، انگلینڈ سے الگ ہو کر کچھ زیادہ منافع بخش صورتحال دکھائی نہیں دی۔

اس لیے تھیوریوں اور نظریات کے ذریعے جہاں تقسیم فائدہ دیتی ہے وہاں تقسیم کی جاتی ہے جہاں کلیت کی طاقت کام آتی ہے وہاں اس کو برقرار رکھا جاتا ہے۔ تیسری دنیا ٹکڑوں میں بٹی رہے تو مغربی کلیت کو فائدہ ہے، اس لیے مغرب نے اپنے لیے الگ اصول رکھے ہیں۔

جس کے نتیجے میں انگلینڈ کا جبر اسکاٹ لینڈ پر برقرار رہا ہے۔ پوسٹ ماڈرن ازم کی بنیاد پر تیسری دنیا میں گروہی تقسیم کی حمایت کرنے والے مفکر خصوصاََ تیسری دنیا کے مفکروں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس نظریے کا پرچار کرنے والوں کی اپنی مغربی ثقافتوں اور سماجوں میں جب تک کوئی نظریہ مادی سرگرمی میں عمل آراء ہو کر خود کو منوا نہ لے، تب تک وہ نظریہ خیالِ محض کے سوا کچھ نہیں ہوتا جو دوسروں کو فریب دینے کے کام آتا ہے۔ عملی سطح پر ترقی یافتہ ریاستیں جو پہلے کے مقام پر فائز ہیں ان کی سالمیت کو دریدا کا 'افتراق' کوئی نقصان نہیں دے سکتا، کیونکہ ان نظریات کا احیاء بھی 'پہلے' کی آغوش میں ہوا ہے، جو اپنی طاقت کے کئی ذرایع استعمال کرتے ہوئے خود کو مستحکم رکھتا ہے۔

درحقیقت پوسٹ ماڈرن ازم میں ساختیاتی تھیوریوں اور ڈی کنسٹرکشن کے وہ تصورات جو چھوٹے اور بڑے کی فوقیتی ترتیب کو چیلنج کر کے کمزور طبقات کو نمایندگی کا جواز فراہم کرتے تھے ان کا ہمیشہ کی طرح مغرب نے غلط استعمال کرتے ہوئے تیسری دنیا کی ریاستوں کی تقسیم کو تو جواز بخشا، مگر جیسے ہی ان کی اپنی ریاستی کلیت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا یا کسی چیلنج کا سامنا کرنا پڑا تو مغربی ریاستوں نے ہیگل کے کلیت کے فلسفے کے تصورِ مفاہمت (جسے لبرل جمہوریت میں reconciliation کہتے ہیں) کو بروئے کار لاتے ہوئے اس تنقید اور چیلنج کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |