پاکستان ایک ںظر میں گوشت والی عید
عید قرباں کا اصل مقصد سمجھنا ہوگا کہ ہمیں اللہ کے لیے اپنی سب سے اہم چیز کو قربان کرنے سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔
مسٹر بشیر صاحب کو جب نیا فریج گھر میں لاتے دیکھا تو ماتھا ٹھنک گیا۔ لیکن پوچھ ہی بیٹھے ،'' جناب کیا فریج خراب ہوگیا ہے جو نیا لے لیا ہے۔''
ایک ادائے خاص سے ہماری طرف ترچھی نگاہوں سے دیکھا۔ پان کی پچکاری ماری اور کہنے لگے: ''ارے اعظم میاں! وہ فریج بہت چھوٹا ہے۔ قربانی کا گوشت نہیں سماتا ناں! پچھلی بار بھی آس پڑوس کے گھروں میں گوشت رکھوانا پڑا تھا۔''
وہ ٹھیک ہی کہہ رہے تھے جب وہ ڈیڑھ لاکھ کا بیل خرید سکتے تھے تو پچاس ہزار کا فریج خریدنا چنداں کون سا مشکل کام ہے۔ لیکن ان کا جواب کچھ ایسا عجیب وغریب اور دھک کرنے والا تھا کہ ہم اپنا سا منہ لیکر رہ گئے اور پھر اسی منہ کو لیکر جب اس مسئلے پر مختلف افراد سے گفت وشنید کی تو یہی منہ مزید لیکر رہ گئے۔ جیسا جواب ہم چاہتے تھے ویسا مسجد کے امام کے پاس بھی شاید نہیں تھا۔
ایک صاحب کے پاس جانے کا اتفاق ہوا۔ موصوف فریج وغیرہ ٹھیک کرنے کا کام کرتے ہیں۔ بڑی عید سے ایک ماہ پہلے ہی ان کے پاس کام ایسا بڑھ جاتا ہے جیسے چھوٹی عید میں درزی کے پاس بکنگ بند ہوجاتی ہے۔ میٹھی عید کے دنوں میں کپڑا بیچنے والے اور سینے والے اسٹیک ہولڈرز ہوتے ہیں اور عید قرباں میں جانور بیچنے والے، کاٹنے والے اور فریج ٹھیک کرنے والے اس مسند پر براجمان ہوتے ہیں۔ کسی کا ڈیپ فریزر کولنگ صحیح نہیں کرتا اور کسی کے فریج میں پانی جمع ہوتا ہے اسے وہ ٹھیک کروانا ہوتا ہے۔ غرض یہ کہ ٹھنڈا کرنے والی تمام مشینیں ''اوکے'' کی رپورٹ دیں۔ تاکہ عین وقت پر کسی قسم کی کوفت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ویسے بھی رنگ میں بھنگ کون برداشت کرتا ہے۔ عید اور خصوصاً بڑی عید کا جو تصور ہمارے درمیان موجود تھا وہ بالکل ناپَید ہوگیا ہے۔ اب تو حال یہ ہوچکا ہے کہ گوشت کی تقسیم تین حصوں میں ہونے کے بجاے صرف ایک حصے میں ہوجاتی ہے اور وہ حصہ اپنا حصہ ہوتا ہے۔ رشتہ داروں سے ہماری بنتی نہیں ہے۔ اس لیے ان کے ہاں گوشت بھجوانے کا مطلب ناک کٹوانا ہے۔ جبکہ غریب تو ہمیں اپنے محلے میں ملتا ہی نہیں ہے۔ اس لیے گوشت ایک غیر تحریر شدہ منصوبے کے تحت ہمارے فریج میں منتقل ہوجاتا ہے۔
حضرت اسماعیل علیہ السلام کا قربان ہونے کے لیے تیار ہوجانا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اللہ کے حکم کے آگے تسلیم ورضا کا پیکر بن جاناہمارے اندر اب خطبوں اور تحریروں کے ذریعے بھی احساس جاگزیں پیدا نہیں کرتا۔
ہمارے دل تنگ ہو کر سکڑ چکے ہیں۔ دلوں کی وسعت اب فریج میں چلی گئی ہے۔ ہماری ساری کوشش اپنی ناک کو اونچا کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ ڈیڑھ لاکھ کا بکرا اور تین چار لاکھ کی گائے خرید کر پڑوسیوں کے سامنے اِترانا اب معمولی بات سمجھی جاتی ہے۔ عید کا اصل مقصد ہم کُند چھری کے ساتھ اتنی بے رحمی کے ساتھ ذبح کرنے لگے ہیں جس کا ہمیں احسا س تک نہیں۔ رشتہ داروں کے ساتھ ہمارے معاملات ٹھیک ہونے میں نہیں آتے۔۔۔ ہمارے معاملات خراب سے خراب ہوتے جارہے ہیں۔ انسا ن سے ستر فیصد معاملات کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ وہ لوگوں کے ساتھ کیسے تھے۔ اس لیے ہمیں اپنے معاملات کو ٹھیک کرنے ہوں گے۔ عید قرباں کا اصل مقصد سمجھنا ہوگا کہ ہمیں اللہ کے لیے اپنی سب سے اہم چیز کو قربان کرنے سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔۔۔ یہی مقصد ہے گوشت والی عید کا۔۔۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ایک ادائے خاص سے ہماری طرف ترچھی نگاہوں سے دیکھا۔ پان کی پچکاری ماری اور کہنے لگے: ''ارے اعظم میاں! وہ فریج بہت چھوٹا ہے۔ قربانی کا گوشت نہیں سماتا ناں! پچھلی بار بھی آس پڑوس کے گھروں میں گوشت رکھوانا پڑا تھا۔''
وہ ٹھیک ہی کہہ رہے تھے جب وہ ڈیڑھ لاکھ کا بیل خرید سکتے تھے تو پچاس ہزار کا فریج خریدنا چنداں کون سا مشکل کام ہے۔ لیکن ان کا جواب کچھ ایسا عجیب وغریب اور دھک کرنے والا تھا کہ ہم اپنا سا منہ لیکر رہ گئے اور پھر اسی منہ کو لیکر جب اس مسئلے پر مختلف افراد سے گفت وشنید کی تو یہی منہ مزید لیکر رہ گئے۔ جیسا جواب ہم چاہتے تھے ویسا مسجد کے امام کے پاس بھی شاید نہیں تھا۔
ایک صاحب کے پاس جانے کا اتفاق ہوا۔ موصوف فریج وغیرہ ٹھیک کرنے کا کام کرتے ہیں۔ بڑی عید سے ایک ماہ پہلے ہی ان کے پاس کام ایسا بڑھ جاتا ہے جیسے چھوٹی عید میں درزی کے پاس بکنگ بند ہوجاتی ہے۔ میٹھی عید کے دنوں میں کپڑا بیچنے والے اور سینے والے اسٹیک ہولڈرز ہوتے ہیں اور عید قرباں میں جانور بیچنے والے، کاٹنے والے اور فریج ٹھیک کرنے والے اس مسند پر براجمان ہوتے ہیں۔ کسی کا ڈیپ فریزر کولنگ صحیح نہیں کرتا اور کسی کے فریج میں پانی جمع ہوتا ہے اسے وہ ٹھیک کروانا ہوتا ہے۔ غرض یہ کہ ٹھنڈا کرنے والی تمام مشینیں ''اوکے'' کی رپورٹ دیں۔ تاکہ عین وقت پر کسی قسم کی کوفت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ویسے بھی رنگ میں بھنگ کون برداشت کرتا ہے۔ عید اور خصوصاً بڑی عید کا جو تصور ہمارے درمیان موجود تھا وہ بالکل ناپَید ہوگیا ہے۔ اب تو حال یہ ہوچکا ہے کہ گوشت کی تقسیم تین حصوں میں ہونے کے بجاے صرف ایک حصے میں ہوجاتی ہے اور وہ حصہ اپنا حصہ ہوتا ہے۔ رشتہ داروں سے ہماری بنتی نہیں ہے۔ اس لیے ان کے ہاں گوشت بھجوانے کا مطلب ناک کٹوانا ہے۔ جبکہ غریب تو ہمیں اپنے محلے میں ملتا ہی نہیں ہے۔ اس لیے گوشت ایک غیر تحریر شدہ منصوبے کے تحت ہمارے فریج میں منتقل ہوجاتا ہے۔
حضرت اسماعیل علیہ السلام کا قربان ہونے کے لیے تیار ہوجانا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اللہ کے حکم کے آگے تسلیم ورضا کا پیکر بن جاناہمارے اندر اب خطبوں اور تحریروں کے ذریعے بھی احساس جاگزیں پیدا نہیں کرتا۔
ہمارے دل تنگ ہو کر سکڑ چکے ہیں۔ دلوں کی وسعت اب فریج میں چلی گئی ہے۔ ہماری ساری کوشش اپنی ناک کو اونچا کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ ڈیڑھ لاکھ کا بکرا اور تین چار لاکھ کی گائے خرید کر پڑوسیوں کے سامنے اِترانا اب معمولی بات سمجھی جاتی ہے۔ عید کا اصل مقصد ہم کُند چھری کے ساتھ اتنی بے رحمی کے ساتھ ذبح کرنے لگے ہیں جس کا ہمیں احسا س تک نہیں۔ رشتہ داروں کے ساتھ ہمارے معاملات ٹھیک ہونے میں نہیں آتے۔۔۔ ہمارے معاملات خراب سے خراب ہوتے جارہے ہیں۔ انسا ن سے ستر فیصد معاملات کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ وہ لوگوں کے ساتھ کیسے تھے۔ اس لیے ہمیں اپنے معاملات کو ٹھیک کرنے ہوں گے۔ عید قرباں کا اصل مقصد سمجھنا ہوگا کہ ہمیں اللہ کے لیے اپنی سب سے اہم چیز کو قربان کرنے سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔۔۔ یہی مقصد ہے گوشت والی عید کا۔۔۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔