اقتدار کے لیے جوڑ توڑ
جب تک کانگریس کو واضح اکثریت حاصل نہیں ہو جاتی اس وقت تک کئی چھوٹے موٹے اتحاد منظر عام پر آتے رہیں گے۔
سیاست جوڑ توڑ سے مختلف چیز ہے۔ سیاست حکومت چلانے کے فن کا نام ہے جب کہ جوڑ توڑ محض ووٹ بینک بڑھانے کی کاریگری ہے۔
اس وقت بھارت میں جو ہو رہا ہے وہ یہی جوڑ توڑ ہے۔ یعنی کس طرح اتنی تعداد میں ووٹ حاصل کر لیے جائیں جن کے ذریعے کانگریس کی قیادت میں بنائے جانے والے یو پی اے (یونائیٹڈ پروگریس الائنس) کی کمر توڑی جا سکے۔
ممتا بینر جی کی پارٹی ترینمول کانگریس کی طرف سے حکمران اتحاد کی حمایت واپس لینے نے جوڑ توڑ کی سیاست کے لیے راہ ہموار کر دی ہے۔
اس کے 19 ووٹوں نے لوک سبھا میں کانگریس کی نشستوں کی تعداد 273 سے گھٹا کر 254 کر دی ہے۔ جب کہ 273 ایوان زیریں میں سادہ اکثریت کے لیے ایک جادوئی تعداد تھی اور چونکہ حکومت نے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کی اجازت دینے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے جس کے تحت بیرونی سرمایہ کار ملٹی برانڈ اشیا پرچون میں فروخت کر سکیں گے لہذا اب اقتصادی اصلاحات کا معاملہ مذاکرات کے مدار سے ہی خارج ہو گیا ہے۔
یہ بات بھی ظاہر ہے کہ کانگریس اصلاحات کے سوال پر اکثریت کی حمایت حاصل کر سکتی تھی اس کا مطلب ہے کہ اگر ملائم سنگھ یادیو کی سماج وادی پارٹی اپنے 22 اراکین سمیت اپنی حمایت واپس لے لے تو مایا وتی کی بہوجن سماج پارٹی اپنے 21 ووٹوں کے ساتھ یا چھوٹی پارٹیاں اس سے بھی کم ووٹوں کے ساتھ منموہن سنگھ حکومت کو بچانے کے لیے اس کا ساتھ دینے پر بخوشی آمادہ ہو جائیں گی۔
بی جے پی کی پر جوش اپوزیشن قابل فہم ہے لیکن حزب اختلاف کی کئی دیگر جماعتیں، جن میں ملائم سنگھ کی پارٹی بھی شامل ہے، وہ اپوزیشن کے کسی ایسے اتحاد میں شامل نہیں ہونا چاہتیں جس میں بی جے پی بھی موجود ہو۔
بی جے پی نے ایف ڈی آئی پر خود اپنا موقف ترک کر دیا ہے جو کہ پہلے چاہتی تھی کہ اس معاملے پر پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس طلب کر کے حکومت کو یاد دلایا جائے کہ اس وقت کے وزیر خزانہ پرناب مکھرجی نے ایوان کو یقین دہانی کرائی تھی کہ اس معاملے پر پارلیمنٹ سے ضرور مشورہ کیا جائے گا۔حقیقت یہ ہے کہ پرناب مکھرجی کا کردار' جو کہ اب بھارت کے صدر ہیں' بے حد اہمیت اختیار کرنے والا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے کانگریس کو اس قسم کی گمبھیر صورتحال کا پہلے سے ہی اندازہ ہو گیا تھا۔
اسی وجہ سے انھیں اس فیصلہ کن منصب پر فائز کیا گیا۔ کانگریس اگر لوک سبھا میں شکست کھا گئی تو آیندہ حکومت بنانے کے لیے کسی پارٹی کو دعوت دینے کا فیصلہ وہی کریں گے۔کانگریس کی فی الوقت پارلیمنٹ میں 205 نشستیں ہیں۔
اس کے بعد بی جے پی کا نمبر آتا ہے جس کی 114 نشستیں ہیں۔ لہٰذا یہ بات مشکل ہے کہ صدر بی جے پی کو حکومت بنانے کا کہیں۔ ان دونوں بڑی پارٹیوں کے علاوہ ملائم سنگھ یا دیو' چندرا بابو نائیڈو اور بائیں بازو کی چھوٹی پارٹیوں نے مل کر ایک تیسرا محاذ بنا لیا ہے جو مناسب موقع پر میدان میں اترے گا۔یہ درست ہے کہ بی جے پی کی قیادت میں نیشنل ڈیمو کریٹک الائنس (این ڈی اے) کے اراکین کی تعداد 154 ہے مگر ملائم سنگھ اتحاد بھی کئی دیگر پارٹیوں کی حمایت حاصل ہونے کا دعویٰ کر رہا ہے۔
جب تک کانگریس کو واضح اکثریت حاصل نہیں ہو جاتی اس وقت تک کئی چھوٹے موٹے اتحاد منظر عام پر آتے رہیں گے۔ صدر مملکت کو جس صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا وہ یہ آیا وہ پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس تک کانگریس کے ساتھ رہیں یا پھر ابھی سے اس کے جانشین کی تلاش شروع کر دیں۔
اپوزیشن ساری کی ساری متحد نہیں ہے اور نہ ہی صدر کی طرف سے دعوت ملنے کی صورت میں اکثریتی اراکین کی فہرست فراہم کر سکتی ہے۔ ''بھارت بندھ'' ایک لاحاصل مشق ہو گی جس کی قوم کو 18,000 کروڑ روپے کی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔
اس سے یہ ظاہر ہو گا کہ ایک گروپ جنتر منتر پر اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافے اور ایف ڈی آئی کے خلاف احتجاج کر رہا ہے جب کہ دوسرا گروپ پارلیمنٹ اسٹریٹ پر دھرنا دیئے بیٹھا ہے۔ کانگریس کے لیے 273 نشستوں کی اکثریت حاصل کرنا غالباً مشکل ہو گا جیسا کہ ممتا بینرجی کے واک آئوٹ سے پہلے اس کے پاس تھی لیکن منموہن سنگھ حکومت، جو اب اقتصادی میدان میں اپنی اہمیت ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہے اس کو چیلنج کرنے والا کوئی دوسرا اتحاد بھی فی الوقت موجود نہیں ہے۔
وسط مدتی انتخابات پر بحث بھی قابل فہم ہے کیونکہ اقلیتی حکومت مناسب طریقے سے کام نہیں کر سکتی بالخصوص جب اپوزیشن میں سب بندوقیں تانے بیٹھے ہوں۔ اگر سیاسی افہام و تفہیم کی کوئی صورت نہیں نکلتی تو ملک کوئی ترقی نہیں کر سکے گا بالخصوص ان حالات میں جب کہ حکومت کے اتحادی بھی پورے طور پر اس کے ساتھ نہیں تھے جیسا کہ ''بھارت بندھ'' کے دوران دیکھا گیا ہے۔
بی جے پی کے رویے سے صاف نظر آتا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو موسم سرما کے اجلاس میں یا اس کے بعد بھی کام نہیں کرنے دے گی۔ بالفاظ دیگر کانگریس کے پاس صرف ایک ہی راستہ ہے کہ یا تو عوامی حمایت کے بغیر ہی اقتدار پر برقرار رہے یا پھر واپس عوام کے پاس جا کر نیا مینڈیٹ حاصل کرے۔ان حالات میں اپوزیشن خواہ کتنی ہی بدقسمت کیوں نہ ہو اس کا وجود منطقی بن جاتا ہے۔ بہار کی مثال دیکھئے۔
یہ ایک انوکھی ریاست ہے جو اپنے عوام کی پسماندگی دور کرنے کے لیے کوئی کوشش نہیں کرتی لیکن وزیراعلیٰ نتیش کمار گلا پھاڑ کر کہتے ہیں کہ 543 رکنی لوک سبھا میں ان کی صرف 40 نشستیں ریاست کو یہ طاقت دیتی ہیں کہ اس کے تمام مطالبات پورے کیے جائیں۔ نتیش کمار مقابلتاً ایک معقول آدمی ہیں لیکن اس کے باوجود اپنی یا اپنی ریاست کی امنگوں کو قابو میں نہیں رکھ سکتے۔
اس بحران زدہ سیاست میں جہاں لوک سبھا کے ہر ایک رکن کی اہمیت ہے نتیش نے اس بات پر یقین کرنا شروع کر دیا ہے کہ بہار کی نشستیں پارلیمنٹ کے مستقبل پر اور سیاسی پارٹیوں پر بھرپور طور پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔اس مخصوص صورت حال میں یہ درست بھی ہو سکتا ہے اور اس سے قطع نظر بھی 40 اراکین کا وزن اتنا بھاری ہے کہ اس سے بہ آسانی صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔
میری تنقید اس مطالبے پر ہے جو نتیش کمار نے کیا ہے۔ اس نے واضع کیا ہے کہ بہار صرف اس پارٹی یا گروپ کو ووٹ دے گا جو اس ریاست کو خصوص درجہ دینے کا اعلان کرے۔ آئین میں چند ایسی شقیں شامل ہیں جن کے تحت کسی ریاست کو خصوصی درجہ دیا جا سکتا ہے۔
جموں کشمیر اور شمال مشرق کی بعض دیگر ریاستوں کو یہ استحقاق حاصل ہے۔ لیکن مجھے بڑی حیرت ہو گی اگر بہار کو بھی اس خاص درجے میں شامل کر لیا جائے۔حقیقت تو یہ ہے کہ تمام ریاستوں کو خصوصی حیثیت کی ضرورت ہے۔
مرکز کے پاس صرف تین چار محکمے رہنے چاہئیں دفاع' خارجہ امور' مواصلات اور کرنسی۔ باقی تمام معاملات ریاستوں کے سپرد کر دیے جانے چاہئیں تا کہ وہ صحیح معنوں میں اپنے عوام کی امنگوں اور آرزوئوں کو پورا کر سکیں۔
آزادی کے بعد سے تقریباً 70 سال کی حکمرانی نے ریاستوں پر یہ ثابت کر دیا ہے کہ انھیں ہر اہم کام کے لیے نئی دہلی کی طرف بھاگنا پڑتا ہے۔ اور اس مقصد کی خاطر انھوں نے دارالحکومت میں اپنے چھوٹے چھوٹے دفاتر قائم کر رکھے ہیں جہاں ان کے ریذیڈنٹ کمشنر متعین ہیں جو سب سینئر آئی اے ایس افسر ہیں تاکہ وفاقی دارالحکومت میں وہ اپنی ریاستوں کے کام نکلوا سکیں۔
حکمرانی کی خرابیوں کے خلاف عوام کی احتجاجی تحریک مدد گار ثابت ہو سکتی ہے۔ ایک لوک پال مسودہ قانون کا پاس ہونا اس وقت کے لیے سب سے اہم اقدام ہے۔ لیکن جب مقصد صرف اقتدار حاصل کرنا ہو تو اس صورت میں عوام کو ایک آلہ کار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ جو کہ مختلف پارٹیاں کر بھی رہی ہیں۔ یہ ایک افسوسناک صورتحال ہے۔ لیکن بھارت کو اسے قبول کرنا ہو گا، تاآنکہ وہ ان عناصر سے چھٹکارا حاصل نہیں کر لیتا جن کو قومی مفاد سے کوئی دلچسپی نہیں سوائے مسند اقتدار پر براجمان ہونے کے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)