مودی نے امریکا سے کیا پایا
یہ مقصد جن ذرائع سے بھی ممکن ہو سکے وہ حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔
وزیر اعظم مودی کا دورہ امریکا کئی اعتبار سے کامیاب رہا ہے۔ ممکن ہے وہ اپنے ساتھ امریکا سے کوئی ٹھوس چیز نہ لائے ہوں لیکن انھوں نے وہاں اعتماد کی ایک فضا ضرور قائم کر دی ہے جو ہمیشہ بھارت کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھتا رہا ہے اورمودی وہ شخص ہیں جنھیں امریکا نے ویزا دینے سے انکار کر دیا تھا ۔مودی نے صدر بارک اوباما کے ساتھ بیٹھ کر مشترکہ اعلامیہ تشکیل کروایا یہ ایک ایسی کامیابی تھی جو ان کا کوئی بھی پیشرو کبھی حاصل نہ کر پایا تھا۔ یہ ایک بہت صحت مند روایت ہے جس کی بھارتی میڈیا کو بھی تقلید کرنی چاہیے۔بہر حال اس دوران مودی نے جواہر لعل نہرو کے ناوابستگی کے نظریے کو خاصا گہرا دفن کر دیا ہے۔
یہ درست ہے کہ ناوابستہ تحریک دم توڑ چکی ہے اور سوویت یونین کے انہدام کے بعد کمیونسٹ شکست کھا چکے ہیں۔ پھر بھی اس تحریک نے اس خیال کو تقویت دی کہ چھوٹی قوموں کو بڑی طاقتوں کے حجم اور ان کی قوت سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے۔ مودی سرمایہ دار دنیا کے پروردہ ہیں۔ ان کو نہ نہرو کے دور کے سوشلزم کی کوئی کشش کھینچتی ہے اور نہ ہی وہ مہاتما گاندھی کے خود انحصاری کے فلسفے سے متاثر ہیں۔ مودی ملک کی تعمیر و ترقی چاہتے ہیں۔
یہ مقصد جن ذرائع سے بھی ممکن ہو سکے وہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس عمل میں ملک کی معیشت کتنی زیادہ سے زیادہ ترقی کرے اور امیروں اور غریبوں کے مابین فرق کتنا ہی کیوں نہ بڑھ جائے انھیں اس کی پرواہ نہیں۔میں چونکہ ایسے دور سے تعلق رکھتا ہوں جب آزادی کا مطلب نچلے طبقے کی اقتصادی بہتری کو سمجھا جا تا تھا۔ لہٰذا مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ ایک غریب ملک کس طرح ترقی کر سکتا ہے یا بائیں بازو کے نظریے پر عمل کیے بغیر بے وسیلہ افراد سے کس طرح انصاف کر سکتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جس سوشلسٹ نظریے کو ہم نے اختیار کیا تھا وہ درست راستہ تھا اور ہمیں واپس اسی راستے پر چلنا چاہیے۔ لیکن مودی کی تقریروں میں بہت خوبصورت الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے جن کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ سب کے لیے سب کچھ ملے گا۔ یہ باتیں سننے میں کانوں کو بہت اچھی لگتی ہیں وہ یقیناً بہت پر جوش مقرر ہیں لیکن اصل اہمیت اس کی ہے ان کی باتیں زمینی حقائق پر یہ کس طرح پوری اتریں گی۔
آپ منصوبہ بندی کمیشن کی مثال لیجیے جو کہ ایک متوازی حکومت بن چکا ہے اور یہ بات سچ ہے لیکن ہمیں افسر شاہی کے تنازعات کو دور کرنا پڑے گا۔ ہمارے جیسے ملک کی منصوبہ بندی کے لیے یہ بات لازم ہے کہ تمام وسائل کو اکٹھا کر کے انھیں ریاستوں میں مساویانہ طور پر تقسیم کیا جائے۔ منصوبہ بندی کمیشن کو دوبارہ پٹڑی پر چڑھانا ہو گا کیونکہ اسے ایک طرف دھکیلنا درست نہیں ہے جیسا کہ مودی نے کیا ہے۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں بائیں بازو کے نظریے نے اتنی ترقی نہیں کی کہ اس کا اثر و رسوخ قائم ہو جاتا۔ لیکن اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کمیونسٹوں کو بھارتی عوام کے مزاج کی سمجھ نہیں آئی۔ بیشک کارل مارکس کا فلسفہ بہت اہم ہے لیکن گاندھی کے فلسفے کی اہمیت بھی کم نہیں۔ مگر کمیونسٹوں کے پولٹ بیورو میں آپ مارکس اور اینگلز کی تصاویر تو دیکھ سکتے ہیں لیکن گاندھی اور نہرو کی نہیں جنھوں نے ہماری آزادی کی جدوجہد کی قیادت کی اور قربانیاں دیں۔ مودی منصوبہ بندی کمیشن کو سرمایہ دارانہ نظام کے لیے استعمال کر سکتے ہیں ۔
جس کی وہ تبلیغ کرتے ہیں اور جس پر وہ عمل کرتے ہیں۔ لیکن منصوبہ بندی کمیشن کو سرے سے کالعدم قرار دے دینا بے معنی بات ہے۔ہمارے ملک میں بہت سے لوگوں نے مودی کی اس بات کو سراہا ہے کہ انھوں نے کشمیر کا ذکر نہیں کیا جب کہ پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے اپنی تقریر میں اس موضوع پر پورے 19 جملے استعمال کیے حالانکہ اس سے قبل کسی پاکستانی نے کشمیر پر اتنی لمبی بات نہیں کی تھی۔ مودی نے اپنی تقریر میں کشمیر کا کوئی ذکر نہیں کیا جس کا ملک میں بہت اچھا پیغام پہنچا۔ لیکن اگر کسی مسئلے کو نظر انداز کر دیا جائے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ مسئلہ ختم ہو گیا۔ بھارت کو اس مسئلے پر پُرامن طور پر بات کرنی چاہیے کیونکہ ہمیں جلد یا بدیر میز پر بیٹھنا ہی پڑے گا۔ اگرچہ پاکستان گوناگوں مشکلات میں گھرا ہوا ہے لیکن کشمیر کے مسئلے پر ملک میں اس کی مکمل حمایت موجود ہے۔حریت کانفرنس جو کشمیر کی نمائندگی کی دعویدار ہے وہ اب بنیاد پرستی کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔
اس لیے بھارت میں اس کی حمایت کم ہو رہی ہے۔ یہی حال مغرب کے جمہوری ممالک میں بھی ہے۔ اگر حریت کانفرنس علی گیلانی سے نجات حاصل کر لے جنھوں نے کہ اجتماعیت کی راہ ترک کر کے تنگ نظری اختیار کر لی ہے تو زیادہ بہتر ہو گا۔ مجھے سرحد پار سے آنے والے اس ردعمل سے مکمل اتفاق ہے کہ جب ہم نے پاکستان کے ہائی کمشنر کی طرف سے حریت کانفرنس کے لیڈروں کو دعوت دینے پر ضرورت سے زیادہ سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے دونوں ملکوں کے طے شدہ مذاکرات منسوخ کر دیے ایسے مذاکرات پہلے بھی ہوتے رہے ہیں اور اس وقت بھی ہوئے جب حریت کانفرنس نے برملا علیحدگی کی بات کی تھی۔ لیکن ہماری وزیر خارجہ سشما سوراج نے بڑے دو ٹوک الفاظ میں اعلان کر دیا کہ خارجہ سیکریٹریوں کی سطح پر مذاکرات نہیں ہوں گے۔
انھوں نے وضاحت کی کہ حکومت تبدیل ہو چکی ہے اور نئی حکومت کی پالیسی مختلف ہے۔میں' مودی اور سشما سوراج کے لیے ماضی کے بعض واقعات کی مثال دینا چاہتا ہوں تا کہ ہماری پالیسی میں کچھ تسلسل قائم رہے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے کچھ سال قبل آنجہانی اندر کمار گجرال کے ساتھ اپنی بات چیت ان الفاظ پر ختم کی ''آپ کشمیر دے نہیں سکتے اور ہم آپ سے لے نہیں سکتے''۔ نواز شریف نے نہ صرف اسٹیبلشمنٹ سے اختلاف کیا اور بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر پر مدت معینہ کے لیے ایک معاہدہ کرنے کی کوشش کی۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کا تختہ الٹ کر اقتدار فوج نے سنبھال لیا اور نواز شریف کو کئی ماہ کے لیے پابند سلاسل بھی ہونا پڑا۔آخر اسی نواز شریف نے اقوام متحدہ میں کشمیر پر 19 جملے کیوں بولے جو کہ قبل ازیں کسی پاکستانی لیڈر نے نہیں کہے تھے۔
بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وزارت عظمیٰ کے منصب کے ساتھ مخصوص مفادات وابستہ ہو گئے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ میں بھارت دشمنی کے جذبات راسخ ہیں جو نئی دہلی کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں چاہتیں کیونکہ یہ تنازعہ ہی پاکستان میں ان کی طاقت کی اساس ہے۔ نواز شریف کا انتخاب اسٹیبلشمنٹ اور دائیں بازو کے عناصر کی حمایت سے عمل میں آیا ہے اور وہ خود سیکولر ازم سے وابستہ ہیں۔ وہ یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ اسلام جمہوریت اور سیکولر ازم کے خلاف نہیں بلکہ وہ اجتماعیت پر بھی یقین رکھتے ہیں۔
آخر ان میں یہ تبدیلی کیسے آئی؟ یا وہ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کس جانب رہنے سے انھیں زیادہ فائدہ ہو گا۔ وہ کبھی مفاہمت نہیں کرتے لیکن میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ انھیں ان کی دشت نوردی نے سبق سکھا دیا ہے۔امریکا میں مودی نے ایسا ماحول تخلیق کر دیا جس میں بی جے پی کی اہمیت پیدا ہو گئی۔ سارک ممالک کے لیے ان کی ترجیح نے حکومت کے ایجنڈے کو واضح کر دیا۔ یہ اچھی بات ہے کہ انھوں نے پاکستان کے خلاف عداوت ترک کر دی ہے لہٰذا دونوں ملکوں کے لیے یہ اچھا وقت ہے کہ تعلق کو وہیں سے جوڑنے کی کوشش کریں جہاں من موہن سنگھ نے اسے چھوڑا تھا۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)