سازشی تھیوریاں۔ خوف اور میڈیا
موجودہ تاریخ کے دو مواقع ایسے ہیں جب یہ سب کے سب ناکام ہوئے۔ پہلا انقلابِ ایران تھا ۔۔۔
دنیا بھر کا میڈیا جن تین بڑی کمپنیوں میں تقسیم ہے ان میں ایک کمپنی روپرٹ مرڈوک (Rupert Murdoch) کی نیوز کارپوریشن ہے۔ اس شخص نے اپنے زیر سایہ کام کرنے والے افراد کو جو پالیسی گائڈ لائن دی ہے اس کے چار نکات ہیں۔ سب سے پہلے یہ کہ دنیا بھر میں موسیقی کو الیکٹرانک اور ہیجان انگیز کر دو۔ اس لیے کہ دھیمے سروں اور روایتی سازوں سے مرتب کی جانے والی موسیقی سکون بخشتی ہے، انسان کو ایک ایسے کیف میں لے جاتی ہے جہاں وہ زندگی کا خوبصورت پہلو دیکھتا اور اس سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ جب کہ الیکٹرانک اور تیز سروں کی موسیقی ہیجان پیدا کرتی ہے اور آدمی کے اندر چھپے غصے، انتقام، جوش اور سفلی جذبات کو بھڑ کاتی ہے۔
دوسری بات یہ کہ دنیا میں کہیں پر بھی کوئی تحریک چلے، گروہ آپس میں لڑیں، جنگ چھڑ جائے، فساد برپا ہو، ان کی رپورٹنگ کرتے ہوئے ایک سازشی تھیوری کے عنصر کو نمایاں کیا جائے۔ جسے عرف عام میں (Conspiracy) کہتے ہیں۔ اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اگر کہیں عوام کی خواہشات سے کوئی تحریک جنم لیتی اور کامیاب بھی ہو جاتی ہے تو لوگوں کے اندر یہ اعتماد کبھی بھی پیدا نہیں ہوتا کہ انھوں نے حالات کا رخ خود بدل دیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جہاں کہیں بھی فساد برپا ہوتا ہے، تو لوگ اس کو ختم کرنے کے لیے اس لیے کوشاں نہیں ہوتے کہ وہ ہمت ہار چکے ہوئے ہیں۔ انھیں سازشی عناصر کی ریشہ دوانیوں کا درس اسقدر پڑھا یا جاتا ہے کہ وہ یقین کر لیتے ہیں کہ اس میں لڑنے والوں کا تو کوئی قصور ہیں نہیں، یہ تو امریکا، برطانیہ یا ایجنسیاں پوری منصوبہ بندی سے لڑوا رہی ہیں۔
تیسری گائڈ لائن یہ ہے کہ کسی بھی ملک میں اگر کوئی ایسی قیادت ابھرے جسے لوگ پسند کرنے لگیں، اسے قبولیت کی سند حاصل ہو جائے تو اس کے کر دار کو مشکوک کر دو۔ اسے کبھی کسی بیرونی طاقت کا ایجنٹ قرار دو یا کسی لابی کا پروردہ۔ اس کی اخلاقیات کے بارے میں معمولی سی بات بھی ملے تو اچھا لو۔ اگر کوئی گروہ ایسا ہو جو عوام میں پذیرائی حاصل کر رہا ہو تو اس کے بارے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور قتل و غارت کے افسانوں کو شہرت دو۔ جب کہ چوتھی بات یہ کہ خواہ فیشن ہو یا فلم و ڈرامہ، بڑے بڑے لوگوں کی کہانیاں ہوں یا سوشل لائف کے قصے ان سب میں جنس کو نمایاں کرو۔ جنسی بھوک اور ہیجان ایسی چیز ہے جو سیاسی، معاشرتی اور اخلاقی سوچ کی جانب راغب نہیں ہونے دیتی۔
یہ چاروں اصول آپ کو دنیا کے اکثر میڈیا ہاؤسز میں پیش کیے جانے والے پروگراموں میں نظر آئیں گے۔ آج کے چوبیس گھنٹے چلنے والے الیکٹرانک اور اخبارات کے کالم نگاروں نے لوگوں کے دلوں میں یہ بات اتاری ہی نہیں بلکہ دماغوں میں ٹھونس دی ہے کہ اس ملک میں جتنی بھی تحریکیں چلتی ہیں، جتنے فساد ہوتے ہیں، جو بھی قتل و غارت ہے وہ اوّل تو عالمی سازش کا حصہ ہیں یا پھر مقامی ادارے ان میں ملوث ہوتے ہیں۔ یہ قصہ صرف میرے ملک کا نہیں دنیا میں جہاں کہیں بھی میڈیا کی گرفت میں آئے ہوئے انسان جاگنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ان کے ہاں کسی رہنما کے روپ میں امید انگڑائی لینے لگتی ہے تو عظیم دانشوروں، تجزیہ نگاروں اور سیاسی پنڈتوں کی فوج ظفر موج ایسے شاندار طریقے سے کہانی کے اسکرپٹ بیان کرتی ہے کہ یوں لگتا ہے کہ گلی میں ناراض ہو کر ٹائر جلانے والا شخص بھی براہِ راست امریکی سی آئی اے سے ہدایات لے رہا تھا۔ ایک زمانے میں کارپوریٹ دنیا کا چکا چوند چہرہ، یہی میڈیا جب کمیونسٹ دنیا کے ساتھ سرد جنگ لڑ رہا تھا تو ہر ملک میں جہاں کہیں ایسا لیڈر جنم لیتا جسے عوامی پذیرائی حاصل ہوتی تو اس کے ڈانڈے سی آئی اے اور امریکا سے ملا دیے جاتے۔ جہاں ایسی آزادی یا آمریت کے خلاف تحریکیں چل رہی ہوتیں ان کے گوریلوں کی انسانیت سوز مظالم کی داستانیں اس قدر خوفناک بنا کر پیش کی جاتیں کہ پورے مغرب کے عوام سہم کر رہ جاتے۔
لیکن ان کے مقابلے میں ریاستی مظالم پر پردہ ڈالا جاتا، قتل ہونے، تشدد سے معذور ہونے اور لاپتہ افراد کا ذکر تک اخبارات میں نہ آتا۔ کمیونزم رخصت ہوا تو اب یہی انداز اسلام اور اسلامی دنیا کے بارے میں اپنایا گیا ہے۔ گزشتہ بیس سالوں سے جو مضامین اور سازشی تھیوریاں لکھی گئی ہیں ان سے اسلام اور مسلمان نکال کر کمیونزم اور کمیونسٹ شدت پسند لکھ دیا جائے تو نفسِ مضمون پر کوئی فرق نہ پڑے گا۔ یہ تھیوریاں خود خفیہ ایجنسیاں اپنے مخصوص لکھنے والوں کے ذریعے بھی پھیلاتی ہیں تا کہ لوگوں پر ان کا خوف اور دبدبہ قائم رہے۔
لیکن موجودہ تاریخ کے دو مواقع ایسے ہیں جب یہ سب کے سب ناکام ہوئے۔ پہلا انقلابِ ایران تھا۔ اپریل1978ء میں اٹھارہ خفیہ ایجنسیوں نے امریکی صدر جمی کار ٹر کو یہ رپورٹ دی کہ ایران میں انقلاب کا دور دور تک کوئی خطرہ نہیں۔ لیکن اسی ماہ تہران یونیورسٹی سے چند سو طلبہ کے مظاہروں کا آغاز ہو گیا۔ ایک سال بعد جب ایرانی انقلاب آیا تو حیرت میں گم میڈیا کے پاس اور کوئی راستہ نہ تھا کہ ان انقلابیوں کو خونخوار بنا کر پیش کیا جائے۔
امریکی سفارت خانے کے محاصرے سے لے کر انقلابی عدالتوں کے تخت روزانہ قتل، '' تودہ'' پارٹی اور مجاہدین خلق کو منافقین کہہ کر قتل کر نا ، اقلیتی فرقے بہائیوں کی نسل کشی اور ملک سے فرار، ایسے کتنے قصے تھے جو بڑھا چڑھا کر اخباروں کی زینت بنائے گئے۔ اس زمانے کے تجزیہ نگار ایک اور تھیوری بھی پیش کرتے کہ آیت اللہ خمینی کو دراصل امریکا کی پشت پناہی حاصل ہے تا کہ ایران کو یورپی گروپ سے الگ کیا جائے اور ممکنہ مشرق وسطی کے تصادم کے دوران وقت آنے پر استعمال کیا جائے۔ لیکن وقت نے اس سارے افسانے کو اس لیے گرد میں دبا دیا کہ ریاست مستحکم ہو گئی۔
ایسی ہی کیفیت عراق اور شام میں ابھرنے والی قوت داعش اور قائم ہونے والی دولت اسلامیہ کی ہے۔ صدر اوباما بالکل صدر جمی کارٹر کی طرح اس گروہ کے بارے میں لاعلم تھا۔ گزشتہ ہفتے اس نے ایک ہفتہ وار ریڈیو انٹرویو میں کہا کہ ہماری کسی بھی خفیہ ایجنسی کو اندازہ تک نہ تھا کہ یہ گروہ اس قدر کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔ اوباما نے قومی انٹیلی جنس سروس کے سربراہ جیمز آر کلیپر جونیئر (James R Clapper Jr.) کے اس اعتراف کا ذکر کیا کہ امریکا کی کسی بھی خفیہ ایجنسی کو یہ ادراک تک نہ تھا کہ داعش اسقدر کامیابی حاصل کر لے گا اور دوسری حیرت یہ کہ اربوں ڈالروں سے تیار کردہ عراقی فوج اسقدر خوفزدہ اور کمزور ثابت ہو گی۔
اس کے بعد الزامات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے جاش ارنسٹ (Josh Earnest)، ریڈیوCBS کے ''ساٹھ منٹ'' پروگرام میں غصے سے بول اٹھا، یہ تو سیاسی قیادت کی ناکامی ہے جو جنوری 2014ء میں جب داعش نے شام کے شہر رقاء پر قبضہ کیا تو عراق میں نوری المالکی کو کہتی رہی کہ اپنی حکومت میں سینّوں کو شامل کرو تا کہ داعش کے خطرے کا سدباب کیا جا سکے۔ لیکن نہ اوباما کو سنبھلنے کا موقع ملا اور نہ ہی نوری المالکی کو۔ دونوں کا اتحاد اس وقت حیران رہ گیا جب جنوری2014ء ہی میں داعش نے فلوجہ، رمادی کے علاوہ ترکی کی سرحد کے قریب چند شہروں پر بھی قبضہ کر لیا۔ ابھی تک امریکا اور عراق اسے معمول کی دہشت گردی سمجھ رہے تھے اور اسے ایسا گروہ تصور کرتے تھے جو دھماکے کر کے پناہ گاہوں میں چھپ جاتے ہیں۔ لیکن جون 2014ء میں جب موصل میں عراق کی عالمی معیار کی ایلیٹ فوج اپنی وردیاں اتار کر میدان سے بھاگی تو ایک دم پوری دنیا کے کان کھڑے ہو گئے۔
سب سے پہلے قوم پرست کردوں کی تنظیم '' پیش مرگا'' کو ان کے خلاف اٹھایا گیا اور ان کے شہر کر کوک کو ان کے لیے یروشلم بنا کر پیش کیا گیا۔ داعش کو روکنے کے لیے قوم پرست افواج آگے بڑھیں تو دونوں جانب سے قتل و غارت کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس دوران داعش کی قتل و غارت اخبارات کی شہہ سرخیاں بن گئی۔ لیکن23 اگست 2014ء کو ''پیش مرگا'' کا25 عرب اور ترک باشندوں کو قطار میں کھڑے کر کے گولیاں مارنے کے واقعے کو نظر انداز کر دیا گیا۔ ابھی تو صرف الزمات چل رہے ہیں۔ دنیا کے ہر بڑے اخبار میں روز کوئی نہ کوئی مضمون اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ غلطی کہاں ہوئی۔ کوئی کہتا ہے کہ بقا کے قید خانے میں جب سنی اور شیعہ تقسیم کی بنیاد پر قیدیوں سے علیحدہ سلوک روا رکھا گیا تو یہ گروہ پیدا ہو گیا۔ کوئی نورالمالکی کی اقلیت کُش پالیسیوں کو اس کا ذمے دار ٹھہراتا ہے۔ لیکن میڈیا کا سب سے زیادہ زور دنیا کو خوفزدہ کرنے پر ہے۔ قتل و غارت، سر کاٹنے اور اقلیتوں پر ظلم کی داستانیں بیان ہو رہی ہیں۔
دوسری جانب ان کے ٹھکانوں پر حملے شروع کر دیے گئے ہیں۔ خطرہ زیادہ ہے اس لیے کہ ایران کا انقلاب تو عالمی سرحدوں کو قبول کرتا تھا، لیکن یہ گروہ تو ان سرحدوں کو پامال کر چکا۔ تمام سازشی تھیوریاں اپنے جوبن پر ہیں۔ کوئی کہتا ہے یہ اسرائیلی موساد کے ایجنٹ ہیں، امریکا نے انھیں بنایا ہے، القاعدہ کے توڑ کے طور پر بنایا گیا ہے۔ لیکن خوف بہت شدید ہے۔ مغرب، امریکا، عرب ریاستیں اور ایران سب مشترک ہیں اس خوف میں۔ سب مشترک ہیں انھیں ختم کرنے کے لیے۔ اس خوف کے دو نتائج ہی نکلتے ہیں یا تو ایسے گروہ کی ریاست کامیاب ہو جاتی ہے جیسے ایران یا پھر یہ لوگ ایک مستقل دہشت گرد گروہ میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور دنیا اگلی کئی دہائیاں ان کو بھگتتی رہتی ہے۔
دوسری بات یہ کہ دنیا میں کہیں پر بھی کوئی تحریک چلے، گروہ آپس میں لڑیں، جنگ چھڑ جائے، فساد برپا ہو، ان کی رپورٹنگ کرتے ہوئے ایک سازشی تھیوری کے عنصر کو نمایاں کیا جائے۔ جسے عرف عام میں (Conspiracy) کہتے ہیں۔ اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اگر کہیں عوام کی خواہشات سے کوئی تحریک جنم لیتی اور کامیاب بھی ہو جاتی ہے تو لوگوں کے اندر یہ اعتماد کبھی بھی پیدا نہیں ہوتا کہ انھوں نے حالات کا رخ خود بدل دیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جہاں کہیں بھی فساد برپا ہوتا ہے، تو لوگ اس کو ختم کرنے کے لیے اس لیے کوشاں نہیں ہوتے کہ وہ ہمت ہار چکے ہوئے ہیں۔ انھیں سازشی عناصر کی ریشہ دوانیوں کا درس اسقدر پڑھا یا جاتا ہے کہ وہ یقین کر لیتے ہیں کہ اس میں لڑنے والوں کا تو کوئی قصور ہیں نہیں، یہ تو امریکا، برطانیہ یا ایجنسیاں پوری منصوبہ بندی سے لڑوا رہی ہیں۔
تیسری گائڈ لائن یہ ہے کہ کسی بھی ملک میں اگر کوئی ایسی قیادت ابھرے جسے لوگ پسند کرنے لگیں، اسے قبولیت کی سند حاصل ہو جائے تو اس کے کر دار کو مشکوک کر دو۔ اسے کبھی کسی بیرونی طاقت کا ایجنٹ قرار دو یا کسی لابی کا پروردہ۔ اس کی اخلاقیات کے بارے میں معمولی سی بات بھی ملے تو اچھا لو۔ اگر کوئی گروہ ایسا ہو جو عوام میں پذیرائی حاصل کر رہا ہو تو اس کے بارے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور قتل و غارت کے افسانوں کو شہرت دو۔ جب کہ چوتھی بات یہ کہ خواہ فیشن ہو یا فلم و ڈرامہ، بڑے بڑے لوگوں کی کہانیاں ہوں یا سوشل لائف کے قصے ان سب میں جنس کو نمایاں کرو۔ جنسی بھوک اور ہیجان ایسی چیز ہے جو سیاسی، معاشرتی اور اخلاقی سوچ کی جانب راغب نہیں ہونے دیتی۔
یہ چاروں اصول آپ کو دنیا کے اکثر میڈیا ہاؤسز میں پیش کیے جانے والے پروگراموں میں نظر آئیں گے۔ آج کے چوبیس گھنٹے چلنے والے الیکٹرانک اور اخبارات کے کالم نگاروں نے لوگوں کے دلوں میں یہ بات اتاری ہی نہیں بلکہ دماغوں میں ٹھونس دی ہے کہ اس ملک میں جتنی بھی تحریکیں چلتی ہیں، جتنے فساد ہوتے ہیں، جو بھی قتل و غارت ہے وہ اوّل تو عالمی سازش کا حصہ ہیں یا پھر مقامی ادارے ان میں ملوث ہوتے ہیں۔ یہ قصہ صرف میرے ملک کا نہیں دنیا میں جہاں کہیں بھی میڈیا کی گرفت میں آئے ہوئے انسان جاگنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ان کے ہاں کسی رہنما کے روپ میں امید انگڑائی لینے لگتی ہے تو عظیم دانشوروں، تجزیہ نگاروں اور سیاسی پنڈتوں کی فوج ظفر موج ایسے شاندار طریقے سے کہانی کے اسکرپٹ بیان کرتی ہے کہ یوں لگتا ہے کہ گلی میں ناراض ہو کر ٹائر جلانے والا شخص بھی براہِ راست امریکی سی آئی اے سے ہدایات لے رہا تھا۔ ایک زمانے میں کارپوریٹ دنیا کا چکا چوند چہرہ، یہی میڈیا جب کمیونسٹ دنیا کے ساتھ سرد جنگ لڑ رہا تھا تو ہر ملک میں جہاں کہیں ایسا لیڈر جنم لیتا جسے عوامی پذیرائی حاصل ہوتی تو اس کے ڈانڈے سی آئی اے اور امریکا سے ملا دیے جاتے۔ جہاں ایسی آزادی یا آمریت کے خلاف تحریکیں چل رہی ہوتیں ان کے گوریلوں کی انسانیت سوز مظالم کی داستانیں اس قدر خوفناک بنا کر پیش کی جاتیں کہ پورے مغرب کے عوام سہم کر رہ جاتے۔
لیکن ان کے مقابلے میں ریاستی مظالم پر پردہ ڈالا جاتا، قتل ہونے، تشدد سے معذور ہونے اور لاپتہ افراد کا ذکر تک اخبارات میں نہ آتا۔ کمیونزم رخصت ہوا تو اب یہی انداز اسلام اور اسلامی دنیا کے بارے میں اپنایا گیا ہے۔ گزشتہ بیس سالوں سے جو مضامین اور سازشی تھیوریاں لکھی گئی ہیں ان سے اسلام اور مسلمان نکال کر کمیونزم اور کمیونسٹ شدت پسند لکھ دیا جائے تو نفسِ مضمون پر کوئی فرق نہ پڑے گا۔ یہ تھیوریاں خود خفیہ ایجنسیاں اپنے مخصوص لکھنے والوں کے ذریعے بھی پھیلاتی ہیں تا کہ لوگوں پر ان کا خوف اور دبدبہ قائم رہے۔
لیکن موجودہ تاریخ کے دو مواقع ایسے ہیں جب یہ سب کے سب ناکام ہوئے۔ پہلا انقلابِ ایران تھا۔ اپریل1978ء میں اٹھارہ خفیہ ایجنسیوں نے امریکی صدر جمی کار ٹر کو یہ رپورٹ دی کہ ایران میں انقلاب کا دور دور تک کوئی خطرہ نہیں۔ لیکن اسی ماہ تہران یونیورسٹی سے چند سو طلبہ کے مظاہروں کا آغاز ہو گیا۔ ایک سال بعد جب ایرانی انقلاب آیا تو حیرت میں گم میڈیا کے پاس اور کوئی راستہ نہ تھا کہ ان انقلابیوں کو خونخوار بنا کر پیش کیا جائے۔
امریکی سفارت خانے کے محاصرے سے لے کر انقلابی عدالتوں کے تخت روزانہ قتل، '' تودہ'' پارٹی اور مجاہدین خلق کو منافقین کہہ کر قتل کر نا ، اقلیتی فرقے بہائیوں کی نسل کشی اور ملک سے فرار، ایسے کتنے قصے تھے جو بڑھا چڑھا کر اخباروں کی زینت بنائے گئے۔ اس زمانے کے تجزیہ نگار ایک اور تھیوری بھی پیش کرتے کہ آیت اللہ خمینی کو دراصل امریکا کی پشت پناہی حاصل ہے تا کہ ایران کو یورپی گروپ سے الگ کیا جائے اور ممکنہ مشرق وسطی کے تصادم کے دوران وقت آنے پر استعمال کیا جائے۔ لیکن وقت نے اس سارے افسانے کو اس لیے گرد میں دبا دیا کہ ریاست مستحکم ہو گئی۔
ایسی ہی کیفیت عراق اور شام میں ابھرنے والی قوت داعش اور قائم ہونے والی دولت اسلامیہ کی ہے۔ صدر اوباما بالکل صدر جمی کارٹر کی طرح اس گروہ کے بارے میں لاعلم تھا۔ گزشتہ ہفتے اس نے ایک ہفتہ وار ریڈیو انٹرویو میں کہا کہ ہماری کسی بھی خفیہ ایجنسی کو اندازہ تک نہ تھا کہ یہ گروہ اس قدر کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔ اوباما نے قومی انٹیلی جنس سروس کے سربراہ جیمز آر کلیپر جونیئر (James R Clapper Jr.) کے اس اعتراف کا ذکر کیا کہ امریکا کی کسی بھی خفیہ ایجنسی کو یہ ادراک تک نہ تھا کہ داعش اسقدر کامیابی حاصل کر لے گا اور دوسری حیرت یہ کہ اربوں ڈالروں سے تیار کردہ عراقی فوج اسقدر خوفزدہ اور کمزور ثابت ہو گی۔
اس کے بعد الزامات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے جاش ارنسٹ (Josh Earnest)، ریڈیوCBS کے ''ساٹھ منٹ'' پروگرام میں غصے سے بول اٹھا، یہ تو سیاسی قیادت کی ناکامی ہے جو جنوری 2014ء میں جب داعش نے شام کے شہر رقاء پر قبضہ کیا تو عراق میں نوری المالکی کو کہتی رہی کہ اپنی حکومت میں سینّوں کو شامل کرو تا کہ داعش کے خطرے کا سدباب کیا جا سکے۔ لیکن نہ اوباما کو سنبھلنے کا موقع ملا اور نہ ہی نوری المالکی کو۔ دونوں کا اتحاد اس وقت حیران رہ گیا جب جنوری2014ء ہی میں داعش نے فلوجہ، رمادی کے علاوہ ترکی کی سرحد کے قریب چند شہروں پر بھی قبضہ کر لیا۔ ابھی تک امریکا اور عراق اسے معمول کی دہشت گردی سمجھ رہے تھے اور اسے ایسا گروہ تصور کرتے تھے جو دھماکے کر کے پناہ گاہوں میں چھپ جاتے ہیں۔ لیکن جون 2014ء میں جب موصل میں عراق کی عالمی معیار کی ایلیٹ فوج اپنی وردیاں اتار کر میدان سے بھاگی تو ایک دم پوری دنیا کے کان کھڑے ہو گئے۔
سب سے پہلے قوم پرست کردوں کی تنظیم '' پیش مرگا'' کو ان کے خلاف اٹھایا گیا اور ان کے شہر کر کوک کو ان کے لیے یروشلم بنا کر پیش کیا گیا۔ داعش کو روکنے کے لیے قوم پرست افواج آگے بڑھیں تو دونوں جانب سے قتل و غارت کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس دوران داعش کی قتل و غارت اخبارات کی شہہ سرخیاں بن گئی۔ لیکن23 اگست 2014ء کو ''پیش مرگا'' کا25 عرب اور ترک باشندوں کو قطار میں کھڑے کر کے گولیاں مارنے کے واقعے کو نظر انداز کر دیا گیا۔ ابھی تو صرف الزمات چل رہے ہیں۔ دنیا کے ہر بڑے اخبار میں روز کوئی نہ کوئی مضمون اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ غلطی کہاں ہوئی۔ کوئی کہتا ہے کہ بقا کے قید خانے میں جب سنی اور شیعہ تقسیم کی بنیاد پر قیدیوں سے علیحدہ سلوک روا رکھا گیا تو یہ گروہ پیدا ہو گیا۔ کوئی نورالمالکی کی اقلیت کُش پالیسیوں کو اس کا ذمے دار ٹھہراتا ہے۔ لیکن میڈیا کا سب سے زیادہ زور دنیا کو خوفزدہ کرنے پر ہے۔ قتل و غارت، سر کاٹنے اور اقلیتوں پر ظلم کی داستانیں بیان ہو رہی ہیں۔
دوسری جانب ان کے ٹھکانوں پر حملے شروع کر دیے گئے ہیں۔ خطرہ زیادہ ہے اس لیے کہ ایران کا انقلاب تو عالمی سرحدوں کو قبول کرتا تھا، لیکن یہ گروہ تو ان سرحدوں کو پامال کر چکا۔ تمام سازشی تھیوریاں اپنے جوبن پر ہیں۔ کوئی کہتا ہے یہ اسرائیلی موساد کے ایجنٹ ہیں، امریکا نے انھیں بنایا ہے، القاعدہ کے توڑ کے طور پر بنایا گیا ہے۔ لیکن خوف بہت شدید ہے۔ مغرب، امریکا، عرب ریاستیں اور ایران سب مشترک ہیں اس خوف میں۔ سب مشترک ہیں انھیں ختم کرنے کے لیے۔ اس خوف کے دو نتائج ہی نکلتے ہیں یا تو ایسے گروہ کی ریاست کامیاب ہو جاتی ہے جیسے ایران یا پھر یہ لوگ ایک مستقل دہشت گرد گروہ میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور دنیا اگلی کئی دہائیاں ان کو بھگتتی رہتی ہے۔