ہم تہی دامن ہوجائیں گے

ایوب خان کا دور آیا تو پاکستان میں بھی اسٹیٹ ٹیلی ویژن نے اپنا دسترخوان بچھایا


Anis Baqar September 28, 2012
[email protected]

مجھے معلوم ہے کہ اس موضوع پر قلم اٹھانا آسان نہیں کیونکہ اس سے بعض حلقوں میں اضطراب، بعض حلقوں میں اشتعال پیدا ہو گا اور یہ بعض لوگوں میں ایک نئے مباحثے کو جنم دے گا۔

یہ بات تو تمام لوگوں کو معلوم ہے کہ قیام پاکستان اور اس کے قیام کے بعد صرف پرنٹ میڈیا ہی تھا جس نے شعور کی قندیلیں جلائیں اور وطنِ عزیز کی رہنمائی کی، لیڈروں پر تنقید، علم و ادب کو پروان چڑھانے اور قارئین کی رہنمائی میں مدد کی۔

یہ پرنٹ میڈیا ہی تھا جس نے صاحبانِ علم کے لیے نانِ شبینہ کی اور مزدوروں، کسانوں، دانشوروں کے قافلے کے لیے زمین ہموار کی۔ قیامِ پاکستان کے بعد جو نسل پیدا ہوئی، اس میں شعور و آگہی اور جرأت پیدا کی۔

اس میں بڑے بڑے نام شامل تھے، فیض احمد فیض، شوکت تھانوی، ابراہیم جلیس کے علاوہ طنز و مزاح کی تحریریں وغیرہ۔ اس دور میں کتابیں پڑھی جاتی تھیں اور لکھنے والے بھی اس سے مستفید ہوتے تھے، پاک و ہند مشاعرے اور برصغیر کے نامی گرامی شعراء علم و فنون سے معاشرے کو حرارت اور جولانی دیتے تھے۔

پھر ایوب خان کا دور آیا تو پاکستان میں بھی اسٹیٹ ٹیلی ویژن نے اپنا دسترخوان بچھایا اور قطع نظر اس سے کہ سیاسی منظرنامہ کیا تھا، مگر علم و ادب، شعر و سخن اور فنونِ لطیفہ کی محفلیں سجی رہتی تھیں۔ اس سے قبل زیڈ اے بخاری کی قیادت میں ریڈیو پاکستان کا قافلہ قابلِ ذکر تھا جہاں پر طلباء سے لے کر بندو خان جیسے پکے راگ گانے والوں کے پرستاروں کو بھی نظرانداز نہیں کیا گیا۔

صدا کاری اور آواز کا جادو جگایا گیا۔ بے سری آواز بے ہنگم گفتگو کو خارج از امکان سمجھا گیا ۔ اس ملک نے بڑے بڑے آرٹسٹ پیدا کیے اور کچھ ہنوز اپنے فن کا لوہا منوا رہے ہیں۔ ریڈیو پاکستان ملک کی درس و تدریس اور دیگر علوم کا گہوارہ بن گیا۔ 1965 کی جنگ میں ریڈیو پاکستان نے جو کردار ادا کیا جو قومی نغمے تخلیق کیے۔

وہ ہماری ثقافت اور جذبات کا آئینہ دار تھے، شکیل احمد کی خبروں کا انداز قابل ذکر تھا، یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ بی بی سی اردو سروس ریڈیو پاکستان سے متاثر ہو کر ہی بنائی گئی۔ طلباء کی غیر نصابی سرگرمیوں کو فروغ دینے میں ریڈیو پاکستان کا کردار ناقابلِ فراموش ہے، مگر اس میں ریڈیو پاکستان محض قابل ذکر نہیں بلکہ ریڈیو کی قیادت علم و ادب کے زیو رسے لیس تھی۔

اس دبستان میں ملک کے نامی گرامی ادیب اور دانشوروں کی تحریریں تھیں جو روح کو گرما دیتی تھیں اور ہمارا معاشرہ متوازن تھا، کیونکہ ریڈیو کا نمک دان اس قدر ذائقہ رکھتا تھا کہ ہر صاحبِ ذوق کی نہ صرف تسکین ہوتی تھی بلکہ نت نئے موضوعات پر ڈرامے بھی پیش کیے جاتے تھے۔ جن میں غیر ملکی ادبا اور شعرا کی تحریروں کے تراجم بھی شامل تھے۔

دراصل اگر کسی قوم کو ترقی کی منزل پر لے جانا ہے تو میڈیا کا کردار ناقابلِ فراموش ہے۔ اگر تخلیق کا معیار مثبت ہو اور بلند ہو تو پھر قوم کا معیار بھی بلند ہوگا اور اگر قوم کو پستی کی جانب دھکیلنا مقصود ہو تو پھر پروگراموں میں سے پر مغز مواد خارج کر کے صرف لچر، غیر معیاری ادب تخلیق کیا جائے گا۔

پاکستان میں بدقسمتی سے یہی ہوا۔ ادیب و شاعر، دانشور و محقق حضرات کو ایک کونے میں بٹھادیا گیا اور صاحبِ ثروت لوگ خود ہی ڈرامہ رائٹر، خود ہی پروڈیوسر اور ہدایت کار بن بیٹھے۔ پاکستان میں جوں جوں کمرشلائزیشن کا دور دورہ ہوا تو پھر اس عمل نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، لہٰذا فنونِ لطیفہ محض لطیفہ بن کر رہ گئے۔ پاکستان کی فلم انڈسٹری اس کی واضح مثال ہے۔

بعض طالع آزمائوں نے غور و فکر کر کے کچھ مووی فلمیں عالمی پس منظر میں بنانے کی مثال قائم کی مگر ان کا اصل مقصد بیرونی آقائوں کو خوش کرنا ہوتا تھا جب کہ بھارتی فلم انڈسٹری اور ٹی وی انڈسٹری کے پس پشت کہنہ مشق ادبا، شعرا، محققین کا ہاتھ ہے، وہاں جہاں ایک طرف کمرشل فلمیں بنتی ہیں تو دوسری طرف مقصدیت اور آگہی کی فلمیں بھی تیار ہوتی ہیں۔

آرٹ مووی کا ایک مختصر دور چلا مگر عامر خان نے مقصدیت اور آرٹ مووی کے درمیان ایک راہ بنائی جب کہ اس کے پیچھے بھی ایک ٹیم ہے، اسی لیے پاکستان کے اداکار اور صداکار بھاگ بھاگ کر بھارت جاتے ہیں اور نام کے علاوہ زرِ کثیر بھی کماتے ہیں اور ہم ابھی بھی اپنی اصلاح کے بجائے ان کے ٹیلی ویژن اسٹیشنوں پر پابندی کی مشق کرنے میں مصروفِ عمل ہیں مگر اب دنیا جام جم بن گئی ہے۔

ایک پیالے میں پوری دنیا دیکھی جا رہی ہے۔ یہ مشق رائیگاں کے علاوہ کچھ نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے حکمراں اور یہاں کے بزنس ایمپائر اس حقیقت سے شاید آشنا نہیں ہیں کہ اگر اپنے ملک کے ان جواہرات کی حفاظت نہیں کریں گے جن کو ہم علم و ادب اور فنونِ لطیفہ کے اساتذہ کہتے ہیں تو ہم اور تہی دامن ہوتے جائیں گے۔ آرٹ، سائنس اور فکشن سب ایک دوسرے کے بھائی بند ہیں۔

دماغ کا تالا انھی چابیوں سے کھلتا ہے۔ یہ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ ایک شخص کھڑے ہو کر یہ کہہ دیتا ہے کہ ہم پانی سے کار چلائیں گے تو کئی کئی دن اس پر مباحثہ کیا جاتا ہے۔ یہ نادانی اور کم علمی کے علاوہ اور کیا ہے کہ تھرموڈائنامکس Thermodynamics کے بنیادی اصولوں سے ناواقف لوگ ٹی وی پر کئی کئی دن بحث کرتے ہیں۔ اگر کچھ سمجھ میں ان لوگوں کے نہیں آتا تو اتنا سمجھ لیں کہ پہلے ریل کوئلے سے چلتی تھی اور بھاپ بنا کر چلایا جاتا تھا، جس کو عرفِ عام میں اسٹیم انجن کہتے تھے۔

اگر یہ شوشہ اتنا ہی آسان ہوتا تو دنیا میں تیل کی جنگ کیونکر ہوتی، گلف ممالک اور عرب خطہ عالمی توجہ کا مرکز کیونکر بنا ہوتا۔بات صرف یہ ہے کہ ایسے پروگرام پیش کیے جائیں جو چٹ پٹے ہوں، سنسنی پھیلے، خواہ اس کے نتائج ناظرین کے اعصاب پر کیسے ہی کیوں مرتب نہ ہوں۔ غور تو فرمائیں ذائقہ خواہ پنیر کا ہو یا پان کا، تمباکو کا ہو یا ادب کا، راگ و رنگ کا ہو یا کھیل کا یہ پیدا کرنا ہوتا ہے، اتنے بڑے اولمپکس گیمز میں پاکستان کا کیا مقام تھا۔

پنجاب جو ہمیشہ سے پہلوانوں کی سرزمین تھی، یہاں یہ فن کیوں دم توڑ رہا ہے۔ اس قسم کی تفریحات کو دیکھنا اور دِکھانا کسرِ شان سمجھا جاتا ہے، اس لیے یہ پہلو عوام سے دور ہیں، اس کو دیہاتی کلچر کہہ کر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔

جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ ذائقہ یا مزاج پروان چڑھانا پڑتا ہے۔ تو پھر وہ پروان چڑھتا ہے مثلاً پنیر اگر کسی کو بچپن میں نہ کھلایا گیا ہو تو وہ بڑے ہو کر خریدے گا اور اس کے ذائقے اور فائدے کا لطف اٹھائے گا، کیونکہ مزاج کی تخلیق کا عمل ادب کے پاس ہے۔

ڈرامے، کہانیاں، تحریریں، نظمیں، دماغ کے قلابے کھولنے کے لیے اکسیر ہیں، بقول پاکستان کے مشہور سائنس داں سلیم الزماں صدیقی کے جو اشعار کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا اور اس کی باریک بینی سے ناواقف ہے، وہ کائنات کے راز فاش نہیں کر سکتا۔ اب ذرا غور کیجیے اپنے مذاکروں اور مباحثوں پر۔

سندھ میں ایک علاقائی کشتی ہے جس میں ایک پہلوان دوسرے پہلوان کی کمر میں بانھیں ڈال کر گرانے کی کوشش کرتا ہے اور زور لگاتا ہے، اس کو ملاکھڑا کہتے ہیں۔ ہمارے لیڈران مذاکرے کے بجائے ملاکھڑا کرتے ہیں۔ شور، بدتمیزی، بے ہنگم آوازیں، سب سے بے ہودگی کا اظہار ہوتا ہے اور اینکر پرسن ریفری کے کام میں مصروف ہوتا ہے۔

آخر نئی نسل کس مذاکرے کی تربیت پا رہی ہے۔ غیر ملکی چینلز آپ کے سامنے ہیں۔ Hard Talks (سخت باتیں)! کیا وہاں یہی ہوتا ہے۔ اینکر پرسن ایک سیاسی اور ادبی ہیرو کا درجہ اختیار کر بیٹھا ہے۔ علم و ادب کا فقدان، ملک کے نامور گلوکار اساتذہ کی نئی نسلیں حلوائی کی دکانوں میں جھاڑو لگا رہی ہیں۔

کیا ایسا معاشرہ ترقی کر سکتا ہے۔ کھیلوں کی ہیڈ لائن آتی ہے مگر مشاعرہ، ادبی محفل، علمی مذاکرے سب کچھ ہماری محفل سے کوچ کر چکے ہیں۔ ان کے لیے ہمارے الیکٹرانک میڈیا کے پاس وقت ہونا چاہیے۔

ظاہر ہے ایسا معاشرہ کیونکر زمانے کی رفتار کا مقابلہ کر سکتا ہے جب کہ فنکار، صاحبانِ علم، زیرک حکما، ہماری نئی نسل کے روبرو نہیں آتے، ان کا فن اور علم ان کی روح، مایوسی کے اندھیرے میں ڈوبی ہوئی اپنے جسم میں قید ہے۔ لہٰذا ان فارمولا پروگراموں سے ہٹ کر نئی راہ تلاش کی جائے اور عوام کی بگڑتی ہوئی ذہنی سوچ، انتشار کی روک تھام کے لیے علوم و فنون کی نمایندگی ضروری ہے، ورنہ پوری قوم ذہنی مریض اور دماغی بانجھ پن کا شکار ہو جائے گی۔ محض تشدد کا پرچار اور نمایش معاشرہ کو کچھ نہ دے سکے گی۔ لوگ اس یکسانیت سے اکتا چکے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔