موقف کیوں بدل رہے ہیں
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھیں تیزی سے اٹھنے اور پھیلنے والے اس طوفان کا اندازہ ہو گیا ہے ۔۔۔
تحریک انصاف نے طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک کے اشتراک سے 14 اگست کو جو تحریک شروع کی تھی وہ اسلام آباد کے ڈی چوک کے دھرنوں میں بدل گئی، دھرنوں کی یہ تحریک اگرچہ اب آٹھ ہفتوں میں داخل ہو رہی ہے لیکن اب تک اپنا بنیادی مطالبہ نواز شریف کا استعفیٰ نہیں منوا سکی۔
اس کی دو وجوہات نظر آتی ہیں۔ ایک یہ کہ ملک کی اہم 11 جماعتوں نے نواز شریف کی غیر مشروط حمایت کا بیڑا اٹھا لیا اور وہ نواز شریف کی ہمت بندھا رہے تھے کہ وہ کسی قیمت پر استعفیٰ نہ دیں۔ اور یہ 11 جماعتیں نواز شریف کی حمایت کو جمہوری نظام کی حمایت کا نام دے رہی تھیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان دو جماعتوں کے دھرنوں نے اس ملک کی سیاسی اشرافیہ کو اس قدر خوف زدہ کر دیا ہے کہ وہ اپنے طبقاتی مفادات خاص طور پر لوٹ مار کی آزادی کے لیے بہت بڑا خطرہ محسوس کر رہی ہیں اور ہر قیمت پر ان مفادات کا تحفظ کرنا چاہ رہی ہیں۔
اس حوالے سے دوسری وجہ یہ نظر آ رہی ہے کہ عمران اور طاہر القادری نے اپنی تحریک کی نہ کوئی بہتر منصوبہ بندی کی، نہ کوئی ایسی موثر حکمت عملی بنائی جو تحریک کے نتائج کو جلد سامنے لا سکے۔ یہ دو ایسی بڑی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے عمران اور قادری اپنے مطلوبہ نتائج اب تک حاصل نہ کر سکے۔ اس کمزوری نے حکومت کو اس قدر طاقتور بنا دیا کہ حکومت اور حکومتی اکابرین دھرنوں کا مذاق اڑانے لگے اور ان میں یہ اعتماد یا غلط فہمی پیدا ہو گئی کہ عوام عمران اور قادری کے ساتھ نہیں، لہٰذا اب ان سے حکومت کو کوئی خطرہ نہیں۔
ہر وزیر، ہر مشیر اسی اعتماد کی وجہ سے اس قدر شیر ہو گئے کہ عمران، قادری اور ان کے دھرنوں کی تذلیل پر اتر آئے اور اس مہم میں ان کی حمایتی وہ مڈل کلاس بن گئی جو موتیوں کے لیے ہمیشہ اپنا منہ کھلا رکھتی ہے۔ حکومت کے اس اعتماد نے حکومت کو جارحانہ پالیسی اپنانے کی طرف مائل کر دیا اور اس صورت حال سے ایک عمومی مایوسی کی فضا بھی پیدا ہو گئی۔
اس صورت حال نے غالباً عمران اور قادری کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ وہ دھرنوں کی محدود تحریک سے کیسے باہر آئیں اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اب اس تحریک کو پورے ملک میں پھیلانے کی ضرورت ہے۔ وہ اپنی تحریک کے دوسرے مرحلے میں داخل ہونا چاہتے تھے سو کراچی کا جلسہ عام ان کے دوسرے تحریکی مرحلے کا آغاز تھا اور کراچی کے سیلابی جلسے نے ایک بار پھر صورت حال میں جوہری تبدیلی پیدا کر دی۔
عمران خان اور قادری کو کراچی کے جلسے نے جہاں دوبارہ جوان بنا دیا وہیں حکمران طبقات اور اس کی حمایتی اپوزیشن کی صفوں میں کھلبلی مچا دی اور انھیں ایک بار پھر مایوسی کے دلدل میں دھکیل دیا۔ اس پر ستم یہ کہ لاہور کا توقع سے بہت زیادہ کامیاب جلسہ حکومت اور اتحادیوں میں صف ماتم بچھا گیا۔ ہماری پارلیمانی حزب اختلاف کے سربراہ جو کل تک نواز شریف کو کسی قیمت پر استعفیٰ نہ دینے کا مشورہ دے رہے تھے آج میاں صاحب کو یہ مشورہ دیتے نظر آ رہے ہیں کہ وہ رضاکارانہ استعفیٰ دے کر مڈ ٹرم الیکشن کرانے کا اعلان کر دیں یوں عزت بھی بچ جائے گی اور جمہوریت بھی بچ جائے گی۔ ان دو جلسوں کی تاریخی کامیابی کی وجہ سے حکمرانوں کا یہ فلسفہ غلط ہو گیا کہ عوام عمران خان کے ساتھ نہیں۔ بلکہ ان دو حیرت انگیز جلسوں نے یہ ثابت کر دیا کہ عوام کی بڑی تعداد تبدیلی چاہتی ہے۔
ڈی چوک کے دھرنے اگرچہ بہت محدود افادیت کے حامل تھے لیکن یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی کہ عوام ذہنی اور جذباتی طور پر ان دھرنوں کے ساتھ ہیں۔ عوام کی یہ حمایت محض عمران خان یا قادری کی حمایت نہیں تھی بلکہ ان کے اس موقف اور مطالبات کی حمایت تھی جس کا اظہار یہ دونوں حضرات ہر روز دھرنوں سے خطاب کی شکل میں کر رہے تھے۔ پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کے لیڈر خورشید شاہ نے نواز شریف کو از خود مستعفی ہونے کا جو مشورہ دیا ہے۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھیں تیزی سے اٹھنے اور پھیلنے والے اس طوفان کا اندازہ ہو گیا ہے جسے فوری طور پر روکنے کی سبیل نہ کی گئی تو یہ طوفان کاخ امرا کے در و دیوار صرف ہلائے گا ہی نہیں بلکہ ڈھا دے گا۔ لگتا ہے اب بازی حکمرانوں کے اور ان کے اتحادیوں کے ہاتھ سے نکل گئی ہے۔ وہ موسمی پرندے جو ''پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ'' کے فارمولے پر عمل پیرا رہتے ہیں اب موسم کی تبدیلی کی وجہ سے اپنے روایتی گھونسلوں سے نکل کر ان نئی پر امید سمتوں کی طرف پرواز کرنے لگیں گے جن سمتوں میں انھیں اپنا مستقبل تابندہ نظر آ رہا ہو گا اور یہ گھونسلا بدلی کا عمل حکمرانوں کے لیے پریشانی کا باعث ہو گا۔
خورشید شاہ ایک پرانے دانا، بینا، گرم و سرد چشیدہ سیاست دان ہیں، موصوف اب تک پارلیمنٹ کے فلور پر میاں صاحب کا حوصلہ بڑھاتے رہے ہیں، وزیر اعظم کو کسی قیمت پر استعفیٰ نہ دینے کا مشورہ دینے والی آوازوں میں خورشید شاہ کی آواز سب سے زیادہ بلند بھی تھی اور اہم بھی۔ سوال یہ ہے کہ خورشید شاہ اچانک وزیر اعظم کو رضاکارانہ استعفیٰ دینے اور مڈ ٹرم الیکشن کرانے کا مشورہ کیوں دے رہے ہیں؟ خورشید شاہ اب یہ بات اچھی طرح سمجھ رہے ہیں کہ اب بات صرف فرد واحد نواز شریف کے استعفیٰ پر ختم نہیں ہو گی جب کہ پوری اشرافیہ کی سیاست سے بے دخلی اور جان و مال کی سلامتی تک پہنچ جائے گی۔ کیونکہ اب یہ سیاسی کھیل آہستہ آہستہ طبقاتی کھیل میں بدل رہا ہے اور لوگ جگہ جگہ وی آئی پیز کی تذلیل کر رہے ہیں ۔
اب ''گو نواز گو'' ایک نعرہ نہیں بلکہ ایک تحریک بن رہا ہے اور عوام اس حقیقت کو بھی سمجھ رہے ہیں کہ 67 سال سے ان پر جو مظالم ڈھائے جا رہے ہیں اس کی ذمے داری ایک یا دو افراد پر نہیں بلکہ اس پوری کلاس پر آتی ہے جسے اشرافیہ کہا جاتا ہے۔ یہ بڑی خطرناک تبدیلی ہے جسے فوری نہ روکا گیا تو یہ تبدیلی انقلاب فرانس کی طرف جا سکتی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ غالباً خورشید شاہ کو اس خطرے کا احساس ہو گیا ہے۔ خورشید شاہ کو خطرے کے احساس کا مطلب زرداری کو خطرے کا احساس ہونا ہے اور یہ بہت بڑی تبدیلی ہے۔
حکومت کو تیسری قوت کی غیر جانبداری کی یقین دہانی نے جو قوت عطا کی تھی اب وہ قوت ایک ایسی کمزوری میں بدل سکتی ہے جو حکومت کے لیے کوئی آپشن نہیں چھوڑے گی۔ کیا ہمارے وزیر اعظم اپنے دوست اور مربی خورشید شاہ کے مشورے پر عمل کریں گے یا میں نہ مانوں کی گردان کرتے رہیں گے؟ عمران خان لاہور کے بعد ملک کے دوسرے تمام بڑے شہروں کا رخ کریں گے اور ہر جگہ عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ان کا منتظر ہو گا۔ ایسی صورت میں رضاکارانہ استعفیٰ اور مڈٹرم الیکشن کی گنجائش بھی شاید باقی نہ رہے۔
تبدیلی کی شکل جو بھی ہو اہل سیاست کو خاص طور پر عمران خان کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ عوام اس پورے گلے سڑے استحصالی نظام کو بدلنے کے لیے گھروں سے باہر آ رہے ہیں۔ وہ محض کسی کو وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹانے کے لیے اور کسی کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز کرنے کے لیے گھروں سے باہر نہیں آ رہے ہیں اگر عوام کی یہ خواہش پوری نہ ہوئی تو وہ کسی کو بھی معاف نہیں کریں گے۔
اس کی دو وجوہات نظر آتی ہیں۔ ایک یہ کہ ملک کی اہم 11 جماعتوں نے نواز شریف کی غیر مشروط حمایت کا بیڑا اٹھا لیا اور وہ نواز شریف کی ہمت بندھا رہے تھے کہ وہ کسی قیمت پر استعفیٰ نہ دیں۔ اور یہ 11 جماعتیں نواز شریف کی حمایت کو جمہوری نظام کی حمایت کا نام دے رہی تھیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان دو جماعتوں کے دھرنوں نے اس ملک کی سیاسی اشرافیہ کو اس قدر خوف زدہ کر دیا ہے کہ وہ اپنے طبقاتی مفادات خاص طور پر لوٹ مار کی آزادی کے لیے بہت بڑا خطرہ محسوس کر رہی ہیں اور ہر قیمت پر ان مفادات کا تحفظ کرنا چاہ رہی ہیں۔
اس حوالے سے دوسری وجہ یہ نظر آ رہی ہے کہ عمران اور طاہر القادری نے اپنی تحریک کی نہ کوئی بہتر منصوبہ بندی کی، نہ کوئی ایسی موثر حکمت عملی بنائی جو تحریک کے نتائج کو جلد سامنے لا سکے۔ یہ دو ایسی بڑی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے عمران اور قادری اپنے مطلوبہ نتائج اب تک حاصل نہ کر سکے۔ اس کمزوری نے حکومت کو اس قدر طاقتور بنا دیا کہ حکومت اور حکومتی اکابرین دھرنوں کا مذاق اڑانے لگے اور ان میں یہ اعتماد یا غلط فہمی پیدا ہو گئی کہ عوام عمران اور قادری کے ساتھ نہیں، لہٰذا اب ان سے حکومت کو کوئی خطرہ نہیں۔
ہر وزیر، ہر مشیر اسی اعتماد کی وجہ سے اس قدر شیر ہو گئے کہ عمران، قادری اور ان کے دھرنوں کی تذلیل پر اتر آئے اور اس مہم میں ان کی حمایتی وہ مڈل کلاس بن گئی جو موتیوں کے لیے ہمیشہ اپنا منہ کھلا رکھتی ہے۔ حکومت کے اس اعتماد نے حکومت کو جارحانہ پالیسی اپنانے کی طرف مائل کر دیا اور اس صورت حال سے ایک عمومی مایوسی کی فضا بھی پیدا ہو گئی۔
اس صورت حال نے غالباً عمران اور قادری کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ وہ دھرنوں کی محدود تحریک سے کیسے باہر آئیں اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اب اس تحریک کو پورے ملک میں پھیلانے کی ضرورت ہے۔ وہ اپنی تحریک کے دوسرے مرحلے میں داخل ہونا چاہتے تھے سو کراچی کا جلسہ عام ان کے دوسرے تحریکی مرحلے کا آغاز تھا اور کراچی کے سیلابی جلسے نے ایک بار پھر صورت حال میں جوہری تبدیلی پیدا کر دی۔
عمران خان اور قادری کو کراچی کے جلسے نے جہاں دوبارہ جوان بنا دیا وہیں حکمران طبقات اور اس کی حمایتی اپوزیشن کی صفوں میں کھلبلی مچا دی اور انھیں ایک بار پھر مایوسی کے دلدل میں دھکیل دیا۔ اس پر ستم یہ کہ لاہور کا توقع سے بہت زیادہ کامیاب جلسہ حکومت اور اتحادیوں میں صف ماتم بچھا گیا۔ ہماری پارلیمانی حزب اختلاف کے سربراہ جو کل تک نواز شریف کو کسی قیمت پر استعفیٰ نہ دینے کا مشورہ دے رہے تھے آج میاں صاحب کو یہ مشورہ دیتے نظر آ رہے ہیں کہ وہ رضاکارانہ استعفیٰ دے کر مڈ ٹرم الیکشن کرانے کا اعلان کر دیں یوں عزت بھی بچ جائے گی اور جمہوریت بھی بچ جائے گی۔ ان دو جلسوں کی تاریخی کامیابی کی وجہ سے حکمرانوں کا یہ فلسفہ غلط ہو گیا کہ عوام عمران خان کے ساتھ نہیں۔ بلکہ ان دو حیرت انگیز جلسوں نے یہ ثابت کر دیا کہ عوام کی بڑی تعداد تبدیلی چاہتی ہے۔
ڈی چوک کے دھرنے اگرچہ بہت محدود افادیت کے حامل تھے لیکن یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی کہ عوام ذہنی اور جذباتی طور پر ان دھرنوں کے ساتھ ہیں۔ عوام کی یہ حمایت محض عمران خان یا قادری کی حمایت نہیں تھی بلکہ ان کے اس موقف اور مطالبات کی حمایت تھی جس کا اظہار یہ دونوں حضرات ہر روز دھرنوں سے خطاب کی شکل میں کر رہے تھے۔ پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کے لیڈر خورشید شاہ نے نواز شریف کو از خود مستعفی ہونے کا جو مشورہ دیا ہے۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھیں تیزی سے اٹھنے اور پھیلنے والے اس طوفان کا اندازہ ہو گیا ہے جسے فوری طور پر روکنے کی سبیل نہ کی گئی تو یہ طوفان کاخ امرا کے در و دیوار صرف ہلائے گا ہی نہیں بلکہ ڈھا دے گا۔ لگتا ہے اب بازی حکمرانوں کے اور ان کے اتحادیوں کے ہاتھ سے نکل گئی ہے۔ وہ موسمی پرندے جو ''پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ'' کے فارمولے پر عمل پیرا رہتے ہیں اب موسم کی تبدیلی کی وجہ سے اپنے روایتی گھونسلوں سے نکل کر ان نئی پر امید سمتوں کی طرف پرواز کرنے لگیں گے جن سمتوں میں انھیں اپنا مستقبل تابندہ نظر آ رہا ہو گا اور یہ گھونسلا بدلی کا عمل حکمرانوں کے لیے پریشانی کا باعث ہو گا۔
خورشید شاہ ایک پرانے دانا، بینا، گرم و سرد چشیدہ سیاست دان ہیں، موصوف اب تک پارلیمنٹ کے فلور پر میاں صاحب کا حوصلہ بڑھاتے رہے ہیں، وزیر اعظم کو کسی قیمت پر استعفیٰ نہ دینے کا مشورہ دینے والی آوازوں میں خورشید شاہ کی آواز سب سے زیادہ بلند بھی تھی اور اہم بھی۔ سوال یہ ہے کہ خورشید شاہ اچانک وزیر اعظم کو رضاکارانہ استعفیٰ دینے اور مڈ ٹرم الیکشن کرانے کا مشورہ کیوں دے رہے ہیں؟ خورشید شاہ اب یہ بات اچھی طرح سمجھ رہے ہیں کہ اب بات صرف فرد واحد نواز شریف کے استعفیٰ پر ختم نہیں ہو گی جب کہ پوری اشرافیہ کی سیاست سے بے دخلی اور جان و مال کی سلامتی تک پہنچ جائے گی۔ کیونکہ اب یہ سیاسی کھیل آہستہ آہستہ طبقاتی کھیل میں بدل رہا ہے اور لوگ جگہ جگہ وی آئی پیز کی تذلیل کر رہے ہیں ۔
اب ''گو نواز گو'' ایک نعرہ نہیں بلکہ ایک تحریک بن رہا ہے اور عوام اس حقیقت کو بھی سمجھ رہے ہیں کہ 67 سال سے ان پر جو مظالم ڈھائے جا رہے ہیں اس کی ذمے داری ایک یا دو افراد پر نہیں بلکہ اس پوری کلاس پر آتی ہے جسے اشرافیہ کہا جاتا ہے۔ یہ بڑی خطرناک تبدیلی ہے جسے فوری نہ روکا گیا تو یہ تبدیلی انقلاب فرانس کی طرف جا سکتی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ غالباً خورشید شاہ کو اس خطرے کا احساس ہو گیا ہے۔ خورشید شاہ کو خطرے کے احساس کا مطلب زرداری کو خطرے کا احساس ہونا ہے اور یہ بہت بڑی تبدیلی ہے۔
حکومت کو تیسری قوت کی غیر جانبداری کی یقین دہانی نے جو قوت عطا کی تھی اب وہ قوت ایک ایسی کمزوری میں بدل سکتی ہے جو حکومت کے لیے کوئی آپشن نہیں چھوڑے گی۔ کیا ہمارے وزیر اعظم اپنے دوست اور مربی خورشید شاہ کے مشورے پر عمل کریں گے یا میں نہ مانوں کی گردان کرتے رہیں گے؟ عمران خان لاہور کے بعد ملک کے دوسرے تمام بڑے شہروں کا رخ کریں گے اور ہر جگہ عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ان کا منتظر ہو گا۔ ایسی صورت میں رضاکارانہ استعفیٰ اور مڈٹرم الیکشن کی گنجائش بھی شاید باقی نہ رہے۔
تبدیلی کی شکل جو بھی ہو اہل سیاست کو خاص طور پر عمران خان کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ عوام اس پورے گلے سڑے استحصالی نظام کو بدلنے کے لیے گھروں سے باہر آ رہے ہیں۔ وہ محض کسی کو وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹانے کے لیے اور کسی کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز کرنے کے لیے گھروں سے باہر نہیں آ رہے ہیں اگر عوام کی یہ خواہش پوری نہ ہوئی تو وہ کسی کو بھی معاف نہیں کریں گے۔