اساطیر کم نما
پچھلے برس ستمبر 2013 میں صابر ظفر کی ایک اور طویل غزل پر مشتمل کتاب آئی ۔۔۔
عرصہ ہوا صابرظفر ایک ہی قافیے ردیف کی لمبی لمبی غزلیں لکھ رہا ہے، اب اس کا یہ کام بھی بہت زیادہ ہوچکا ہے اور اب میرا دھیان بھی اس کی طویل الغزلی کی طرف نہیں جاتا، لیکن ایک ہی قافیے ردیف میں پابند رہ کر طویل اور وہ بھی کسی خاص موضوع پر غزلیں لکھنا خاصا جان جوکھم کا کام ہوتا ہے، مگر کمال مہارت سے صابر ظفر نے اس مشکل کو زیر کرلیا ہے اور اب میں بھی اس کے مختلف شعری مجموعوں کے موضوعات پر ہی نظر رکھتا ہوا گزرتا ہوں۔
بظاہر سیدھا اور حد درجہ سادہ نظر آنے والا شاعر صابر ظفر اپنے اندر اونچے اونچے بھانبڑ (شعلے) لیے پھرتا ہے اور یہ بھی اپنی جگہ عجب تماشہ ہے، اس کی کتاب ''گردش مرثیہ'' بلوچستان پر مسلسل جاری ظلم کے خلاف احتجاج ہے، جس کا آہنگ بھی بلند نظر آتا ہے، میرے خیال میں اگر کتاب کا نام ''گردش مرثیہ'' نہ ہوتا تو صابر ظفر کتاب کا نام مجموعے میں شامل اس مصرع پر رکھتا ''جل رہا ہے مرا بلوچستان'' یہ مجموعہ بھی ایک طویل غزل پر مشتمل ہے اور شاعر نے اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے ہوئے صوبہ بلوچستان کی تاریخ جغرافیہ، ثقافت، عشق کی لوک داستانیں سب کچھ اسی زبان اور تراکیب کے حسن میں خوبصورتی سے بیان کیا ہے، پھر اس کی کتاب ''سربازار می رقصم'' یہ بھی طویل غزل ہے اور یہاں رقص کو شاعر نے موضوع بنایا ہے رقص کی مختلف شکلیں، تالیں، رقص کے رنگ ڈھنگ، صابر ظفر نے سب کچھ کھنگال کے کتاب بنائی ہے۔ ''سربازار می رقصم'' پڑھ کر ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شاعر نے رقص کے بارے میں کتنا مطالعہ کیا ہوگا۔
پچھلے برس ستمبر 2013 میں صابر ظفر کی ایک اور طویل غزل پر مشتمل کتاب آئی ''رانجھا تخت ہزارے کا'' پنجاب کی سدا بہار عشق کی داستان جسے وارث شاہ نے لکھ کر دنیا بھر کو ایک عظیم تحفہ دیا ہے، جسے کبھی بھلایا نہ جاسکے گا۔ سیکڑوں سال گزرنے پر بھی ''ہیر وارث شاہ'' آج بھی یوں شایع ہوتی ہے جیسے پہلی بار منظر عام پر آئی ہو، اس لازوال داستان کو وارث شاہ جیسے پنجابی زبان کے بہت بڑے شاعر کے کارنامے سے صابر ظفر نے اردو زبان میں ڈھالا ہے اور خصوصیت یہ ہے کہ وارث شاہ کی بحر کو شاعر نے اختیار کیا ہے، ''رانجھا تخت ہزارے کا'' میں شاعر نے پنجاب کے سارے رنگ جوں کے توں بھردیے ہیں اور اردو کا دامن اتنا بڑا ہے کہ صابر ظفر کے دیے گئے پنجابی الفاظ اور تراکیب کو ''دامن اردو'' نے سمیٹ کر اپنا لیا ہے۔
اب صابر ظفر نے چوتھی بار طویل غزل لکھی ہے اور کتاب کا نام ''اساطیر کم نما'' رکھا ہے شاعری کی اس کتاب کو بھی پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ صابر ظفر تاریخ انسانی کے مطالعے کے دوران کن کن ادوار سے گزرے اور پھر ان ادوار کو شخصیتوں سمیت شاعری بنادیا۔ ہمیشہ سے انسان کا یہ خاص موضوع رہا ہے، کائنات کیا ہے؟ ارتقائی منازل اور اپنے اپنے دور کے اچھے برے کردار، بنتی، بگڑتی تہذیبیں، مذاہب و عقائد بہت سے لوگ اس کھوج میں ،جستجومیں بہت دور دور تک بھی نکل گئے ''اساطیر کم نما'' پڑھ کر بھی یہ احساس جاگتا ہے کہ کیا کیا لوگ اس دنیا میں آئے، ایک جہان فتح کیا، دل جیتے انسانوں کو اپنے سامنے جھکایا اور خداوند کہلائے اور آخر خاک ہوگئے، ان کی خدائی قہر مانی، سب کچھ دھرا کا دھرا رہ گیا، مٹی کے بنے ہوؤں کو آخر مٹی ہی کھا گئی، در اصل یہ مٹی سب سے زیادہ طاقت والی چیز ہے، یہی مٹی اناج دیتی ہے، سبزہ دیتی ہے، انسان بناتی ہے، پہاڑ بناتی ہے، دریا بہاتی ہے اور پھر یہی دھرتی ماں سب کو اپنی آغوش میں لے لیتی ہے، قبر جب کھودی جاتی ہے تو در اصل وہ آغوش مادر ہوتی ہے اور انسان کو سپرد کیا جاتا ہے۔ خواہ کوئی جتنا بلند و بالا بھی ہو، اسے بھی زمین سمیٹ لیتی ہے۔
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
''اساطیر کم نما'' پڑھ کر بھی یہ بات سامنے آتی ہے کہ شاعر نے کتاب لکھنے سے پہلے تاریخ انسانی کا حد درجہ مطالعہ کیا ہے اور دنیا میں مختلف خطوں میں جنم لینے والے عقائد و مذاہب، ان کے پیشوا، ان کی تعلیمات، یہ بہت ضخیم موضوع ہے جس پر لکھی کتابوں سے دنیا بھر کے کتب خانے بھرے پڑے ہیں، میں پھر صابر ظفر کے بارے میں ابتدائی سطور میں لکھے فقرے کو دہراؤںگا۔ ''بظاہر سیدھا اور حد درجہ سادہ نظر آنے والا شاعر صابر ظفر اپنے اندر اونچے اونچے بھانبڑ (شعلے) لیے پھرتا ہے''
''اساطیر کم نما'' سے چند اشعار نذر قارئین کرتا ہوں اور دیکھیں کہ اس کائنات نے کیا کیا رنگ دیکھے۔
عصا چلے تو ثمر ور ہوں رحم دیویوں کے
جنم دیں شام و سحر پھر بطون ان کے نہ کیوں!
( شام اور سحر افزائش نسل کے دیوتا نہ تھے، مگر کنعانیوں نے ان کو افزائش کے دوسرے دیوتاؤں پر فوقیت دی)
گواہی دی تری، پہلے پہل بحیرا نے
مرا نصیب بھی چمکے، جو میں یقین کروں
(بحیرا ایک بہت بڑا عیسائی راہب، جس نے آنحضرت کو لڑکپن میں دیکھا، جب وہ اپنے چچا کے ساتھ بغرض تجارت شام جا رہے تھے، انجیل کی پیشن گوئیوں کے مطابق ان کے پیغمبر آخر الزماں ہونے کی گواہی دی تھی)
سوائے بوجھ کے گومست میں نہ تھا کچھ بھی
کسی کو یاد اگر ہے، سنائے میں بھی سنوں
(گومست مجوسیوں کے پیغمبر کی کتاب کا نام جسے ستر اونٹ اٹھاتے تھے)
میں شاہ وقت کے تابوت پر دعائیں لکھوں
تو عاقبت کے لیے اس کو نذر خاک کروں
(کتاب اموات'' مصری دعاؤں کا مجموعہ ہے، یہ دعائیں امرائے سلطنت کے تابوتوں پر لکھی جاتی تھیں)
کیا گیا تھا تہہ تیغ جس طرح اکوان
عجب نہیں مرا دشمن اگر ہلاک ہو یوں
(اکوان شاہنامہ کے ایک دیو کا نام جسے رستم نے ہلاک کیا تھا)
پھر اس کے بعد کوئی بازغہ نہیں دیکھی
پھر اس کے بعد نجانے ہوا ہے ایسا کیوں
(قوم عاد کی ایک حسینہ جمیلہ عورت جو حضرت یوسف کی ہدایت سے معرفت کے درجے پر پہنچی)
دل اجالا رکھتاہوں آئینہ سکندر سا
دکھائی دور سے دے، یار جب بھی موڑے منہ
(سکندر اعظم نے جب شہر سکندریہ فتح کیا تو بحیرہ روم کے کنارے ایک بڑا اونچا مینار بناکر اس پر بہت بڑا آئینہ اس کے وزیر حکیم ارسطو نے لگادیا تھا، جس کے ذریعے اہل یورپ کے حملے اور آمد کا حال معلوم ہوجاتا تھا)
وہ تھا عقیدۂ تخلیق کا نیا افسوں
کہا جو اس نے، میں رب عظیم مردک ہوں
(مردک شہر بابل کا قدیم دیوتا)
بپا وہ جشن سدہ ہو کہ جشن نیلوفر
میں تیرہ بخت کہ ان میں شریک ہو نہ سکوں
(پارسیوں کا ایک جشن جو ماہ بہمن کی دسویں تاریخ کو ہوتا ہے، سدہ کے معنی بھڑکتی ہوئی آگ کے ہیں یہ جشن نہایت قدیم ہے اور اس کی بنیاد اس طرح پڑی کہ ہوشک بن سیامک نے ایک بڑے کالے سانپ کو اپنی طرف آتا دیکھ کر پتھر مارا، پتھر بجائے سانپ کے دوسرے پتھر پر لگا اور اس سے آگ پیدا ہوکر ارد گرد پھیل گئی اور سانپ جل گیا، بس اسی وقت سے آگ کی پرستش شروع ہوگئی) (پارسیوں کا ایک اور جشن جو ماہ خراداد کی ساتویں تاریخ کو ہوتا ہے)
سنبھالے کوہ ارادات نوح کشتی کو
کبھی فرات کی صورت وہاں سے میں نکلوں
(یہ وہی پہاڑ ہے جس پر روایت کے مطابق سیلاب کے بعد حضرت نوح ؑ کی کشتی جا ٹھہری تھی اور یہیں سے دریائے فرات نکلتا ہے۔
قدیم عہد میں جاکر اسے تلاش کرو
خیال ہی میں سہی ہاکڑا کے ساتھ بہوں
(ہاکڑا ایک دریا جو کبھی ملتان کے قریب بہتا تھا)
سوال یہ ہے کہ جس نے جنا تھا وہ باسُک
بجائے زہر اگلنے کے، بانٹتا تھا سکوں
(ہندو دیومالا کے مطابق پاتال کا وہ سانپ جس کے پھن پر دنیا قائم ہے)
خیال خام رہا تھا خدائے واحد کا
اگرچہ رونا تو روتا رہا تھا احنا طوں
(مصر کے ایک فرعون احناطوں (1358-1375 ق م) نے وحدانیت کا سکہ بٹھانے کی کوشش کی تھی لیکن یہ وحدانیت بھی سورج دیوتا اطون کی تھی اور پروہتوں نے اس کوشش کو بھی ناکام بنادیا تھا)
مجھے عزیزازل سے نواح افرنجہ
ہے یاں بھی جلوہ ٔ حسن قدیم کا افسوں
(دریائے نیل کے کنارے نوشیرواں کے آباد کیے گئے ایک شہر کا نام عذرا معشوقہ وامق اسی شہر کی رہنے والی تھی)
حسد کی آگ تھی یا رعب حسن اقلیما
ہوا تھا کس لیے ہابیل قتل، کیا سمجھوں
(اقلیما، ہابیل کی بہن)
صابر ظفر کا پیش نظر شعری مجموعہ ''اساطیر کم نما'' کائنات میں جنم لینے والی تہذیبوں کا ذکر ہے یہ کتاب اپنے موضوع کے حوالے سے تاریخ انسانی سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے بڑی اہمیت کی حامل ہے، صابر ظفر نے موضوع کو خاصا سمیٹا ہے مگر مکمل احاطہ نہ ہوسکا، کتاب کا آخری شعر ہے:
میں چاہتا ہوں اساطیر کو لکھیں وہ بھی
سو دوسروں کے لیے چھوڑتا ہوں کچھ مضموں