او آئی سی کی ناکامیاں
یہی نہیں کہ اس بین الاقوامی تنظیم کے ہوتے ہوئے صرف لبنان میں فلسطینی مہاجرین کے ۔۔۔۔
فلسطینیوں کی تاریخ میں ستمبر کے اہم واقعات میں سے ایک مسلمان ممالک کی تنظیم او آئی سی کا قیام اور دوسرا صابرہ و شتیلا کے فلسطینی پناہ گزین کیمپوں میں فلسطینیوں کا قتل عام تھے۔25ستمبر 1969 کو مراکش کے دارالحکومت میں جب آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس کی تشکیل ہوئی تو امت اسلامی کو یہ اطمینان ہوا تھا کہ اب فلسطین کی آزادی کوئی ایسا خواب نہیں رہے گی کہ جو شرمندہ تعبیر نہ ہو ، لیکن افسوس کہ اس تنظیم کے ہوتے ہوئے 16ستمبر 1982 کو لبنان پر حملہ آور صہیونی افواج کی سرپرستی میں صابرہ و شتیلا کے فلسطینی کیمپوں میں گھس کر فلسطینیوں کا قتل عام کیا گیا۔
یہی نہیں کہ اس بین الاقوامی تنظیم کے ہوتے ہوئے صرف لبنان میں فلسطینی مہاجرین کے صابرہ و شتیلا کیمپوں میں ہی فلسطینیوں کا قتل عام نہیں کیا گیا بلکہ مقبوضہ فلسطین پر کئی مرتبہ جارحیت بھی کی گئی اور لبنان پر بھی جنگیں مسلط کی گئیں۔آج بھی اس تنظیم کے 10سالہ پروگرام آف ایکشن کے ایک حصے میں لکھا گیا ہے کہ یہ تنظیم ہر کوشش کرے گی تاکہ فلسطین اور دیگر عرب ممالک بشمول شام اور لبنان پر اسرائیلی قبضہ ختم کرایا جائے۔شام کے علاقے جولان سے اسرائیلی انخلاء، اقوام متحدہ کے آرٹیکل 425 کے تحت لبنان سے مکمل اسرائیلی انخلاء ، اور فلسطین کی آزادی اور مشرقی یروشلم یعنی بیت المقدس اس آزاد فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہو۔مذکورہ بالا اہداف کے حصول کے لیے ہر کوشش کرنے کا عزم رکھنے والی اس تنظیم کی قیادت کے زبانی جمع خرچ پر اس بندر کا لطیفہ صادق آتا ہے جو ایک دن جنگل کا شیر بنا اور اس کے پاس ایک چھوٹا جانور شکایت لایا کہ اس کے بچے کو لومڑی نے پکڑ لیا ہے اور وہ اسے مارکھائے گی۔ بندر فوراً شاخیں پکڑ پکڑ کرایک درخت سے دوسرے درخت پر چھلانگیں لگانے لگا۔
جانورتھوڑی دیر بعد دوبارہ آیا تو بندر پھر وہی چھلانگیں لگاتا ہوا تھوڑا دور چلا گیا،کئی مرتبہ اس نے یہ عمل کیا اور آخری مرتبہ جانور روتا ہوا واپس آیا کہ لومڑی اس کے بچے کو مارکر کھا چکی ہے تو بندر نے کہا کہ تم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ میں نے تمہارے بچے کوبچانے کی پوری کوشش کی لیکن کیا کریں قسمت ہی ایسی تھی۔اگر او آئی سی بھی بندر کی طرح ہر ممکن کوشش کرچکی تو اب کچھ انسانی عمل بھی کرکے دکھائے ۔او آئی سی کی ناکامیوں کے باوجود جنوبی لبنان سے اسرائیل کا انخلاء ہوا۔ جی ہاں، یہ او آئی سی کی وجہ سے نہیں بلکہ لبنان کی مزاحمتی و مقاومتی تنظیم حزب اللہ کی عملی جدوجہد کی برکت سے ممکن ہوا۔
افسوس کہ او آئی سی نے اقوام متحدہ کے فورم پر اور اس ادارے سے باہرکسی بھی فورم پر تعمیری سفارتکاری نہیں کی جس کی وجہ سے 2006 کی لبنان اسرائیل جنگ کو ختم کروانے کے لیے جو قرارداد منظور کی گئی اس میں حزب اللہ کے خلاف موقف اختیار کیا گیااور او آئی سی کے رکن بہت سے ممالک نے اس کے حق میں ووٹ ڈالا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کم ازکم سفارتکاری کے میدان میں حزب اللہ کو کامیاب کرتے اور خدا کا شکر اداکرتے کہ حزب اللہ نے او آئی سے کے اہداف میں سے ایک ہدف حاصل کرلیا۔دوسری جانب فلسطین کی مقاومتی تنظیموں نے ناجائز و غاصب نسل پرست یہودی ریاست کو سبق سکھانے کے لیے مسلح جدوجہد کا راستہ اختیارکیا۔تواو آئی سی کے بعض سرکردہ ممالک نے ان کی مدد کرنے کے بجائے انھیں امریکی ایجنڈے پر قربان کرنے کی ٹھان لی۔سابق امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزارائس نے انکشاف کیا کہ بعض عرب حکمران امریکی حکومت سے کہتے تھے کہ وہ امریکی ایجنڈٖے کے حامی ہیں لیکن علی الاعلان اس معاملے میں خاموش رہیں گے۔
اگر فلسطینیوں نے 2006 میںمسلح مقاومتی تنظیم حماس کو الیکشن میں منتخب کرلیا تھا تو اوآئی سی کے طاقتور ممالک اسے خود بھی تسلیم کرتے اور امریکا اور اقوام متحدہ پر بھی دباؤ ڈالتے کہ اسے تسلیم کریں۔لیکن افسوس کہ انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ معاہدہ مکہ کیوں ناکام ہوا؟ او آئی سی کے میزبان ملک سعودی عرب کی حکومت کو اس سلسلے میں امت اسلامی کے سامنے تفصیلات بیان کرنا چاہئیں۔کیا وہ امریکا و سرائیل کی طرح حماس کو اس کا ذمے دار سمجھتے ہیں۔ یا وہ خود امریکی صہیونی سازش کا حصہ بن چکے تھے۔خیر یہ تو ہوا ماضی، لیکن لمحہ موجود کی اس حقیقت کو دیکھیے کہ اب حماس اورمغربی کنارے کی حکمران فلسطینی انتظامیہ اور الفتح نے حماس سے شراکت اقتدار فارمولا کے تحت معاہدہ کرلیا ہے۔ اب یہ دونوں اتحادی ہیں۔ اس کے باوجود ناجائز وغاصب صہیونی ریاست نے غزہ پر جارحیت کی ہے۔او آئی سی نے جارح کی مرمت نہیں کرنی اور صرف مذمت کرنی ہے تو یہ کام تو غیر مسلموں کے نرغے میں امریکا میں قائم اقوام متحدہ بھی بخوبی کررہی ہے۔او آئی سی خواب غفلت سے بیدار ہو۔
یا اپنے خاتمے کا اعلان کرے تاکہ امت اسلامی کوئی نیا پلیٹ فارم قائم کرسکیں اور اگر او آئی سی نے ہی برقرار رہنا ہے تو اس میں اصلاحات کی جائیں اور اسے متحرک و فعال کیا جائے۔مسلمان حکومتوں کی نمائندگی کے لیے قائم او آئی سی اورغیرمسلم حکومتوں کی اکثریت رکھنے والی اقوام متحدہ میں کوئی تو فرق ہونا چاہیے۔او آئی سی کی قیادت یا تو آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس کا نام تبدیل کرکے تنظیم امت اسلامی بنادے اور کو فعال بنانے کے لیے اس کی تنظیم نو بھی کرے یا اسے ختم کردے ۔مسلمان حکومتوں سے گذارش ہے کہ ماضی کی غلط روش سے سبق سیکھا جائے۔یہ تنظیم مسلمان ممالک کے درمیان اختلافات ختم کرنے کے لیے کردار اداکرے نہ کہ اختلافات پیدا کرے یا اختلافات کو ہوا دے جیسا کہ اس کے اہم رکن ممالک کے بادشاہوںنے شام اور عراق میں کیا ہے۔او آئی سی ہر حال میں اس بات کو یاد رکھے کہ مسجد اقصیٰ کی آتشزدگی کے رد عمل نے اسے جنم دیا ہے۔
اس تنظیم نے اپنا عارضی صدر دفتر سعودی عرب میں قائم کیا ہے لیکن مستقل صدر دفتر بیت المقدس میں قائم ہونا ہے۔اگر حزب اللہ اور حماس و جہاد اسلامی جیسے نان اسٹیٹ ایکٹرز کامیابی سے غاصب و ناجائز وجود کی طاقت کا بھرم خاک میں ملاسکتے ہیں اور غزہ کے بے بس و مجبور و مظلوم و محصور فلسطینی سر اٹھاکر ثابت قدمی سے حالات کا مقابلہ کررہے ہیں تو او آئی سی کے مقاومت مخالف رکن ممالک بھی یہ روش اپنا کر ماضی کی غلطیوں کے داغ دھو سکتے ہیں۔او آئی سی کو امت اسلامی کا ترجمان بننا چاہیے اور عملی طور پر ان اہداف کے حصول کی سمت قدم بڑھانا چاہیے جو ستمبر 1969 میں بانی رکن ممالک نے طے کیے تھے۔
یہی نہیں کہ اس بین الاقوامی تنظیم کے ہوتے ہوئے صرف لبنان میں فلسطینی مہاجرین کے صابرہ و شتیلا کیمپوں میں ہی فلسطینیوں کا قتل عام نہیں کیا گیا بلکہ مقبوضہ فلسطین پر کئی مرتبہ جارحیت بھی کی گئی اور لبنان پر بھی جنگیں مسلط کی گئیں۔آج بھی اس تنظیم کے 10سالہ پروگرام آف ایکشن کے ایک حصے میں لکھا گیا ہے کہ یہ تنظیم ہر کوشش کرے گی تاکہ فلسطین اور دیگر عرب ممالک بشمول شام اور لبنان پر اسرائیلی قبضہ ختم کرایا جائے۔شام کے علاقے جولان سے اسرائیلی انخلاء، اقوام متحدہ کے آرٹیکل 425 کے تحت لبنان سے مکمل اسرائیلی انخلاء ، اور فلسطین کی آزادی اور مشرقی یروشلم یعنی بیت المقدس اس آزاد فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہو۔مذکورہ بالا اہداف کے حصول کے لیے ہر کوشش کرنے کا عزم رکھنے والی اس تنظیم کی قیادت کے زبانی جمع خرچ پر اس بندر کا لطیفہ صادق آتا ہے جو ایک دن جنگل کا شیر بنا اور اس کے پاس ایک چھوٹا جانور شکایت لایا کہ اس کے بچے کو لومڑی نے پکڑ لیا ہے اور وہ اسے مارکھائے گی۔ بندر فوراً شاخیں پکڑ پکڑ کرایک درخت سے دوسرے درخت پر چھلانگیں لگانے لگا۔
جانورتھوڑی دیر بعد دوبارہ آیا تو بندر پھر وہی چھلانگیں لگاتا ہوا تھوڑا دور چلا گیا،کئی مرتبہ اس نے یہ عمل کیا اور آخری مرتبہ جانور روتا ہوا واپس آیا کہ لومڑی اس کے بچے کو مارکر کھا چکی ہے تو بندر نے کہا کہ تم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ میں نے تمہارے بچے کوبچانے کی پوری کوشش کی لیکن کیا کریں قسمت ہی ایسی تھی۔اگر او آئی سی بھی بندر کی طرح ہر ممکن کوشش کرچکی تو اب کچھ انسانی عمل بھی کرکے دکھائے ۔او آئی سی کی ناکامیوں کے باوجود جنوبی لبنان سے اسرائیل کا انخلاء ہوا۔ جی ہاں، یہ او آئی سی کی وجہ سے نہیں بلکہ لبنان کی مزاحمتی و مقاومتی تنظیم حزب اللہ کی عملی جدوجہد کی برکت سے ممکن ہوا۔
افسوس کہ او آئی سی نے اقوام متحدہ کے فورم پر اور اس ادارے سے باہرکسی بھی فورم پر تعمیری سفارتکاری نہیں کی جس کی وجہ سے 2006 کی لبنان اسرائیل جنگ کو ختم کروانے کے لیے جو قرارداد منظور کی گئی اس میں حزب اللہ کے خلاف موقف اختیار کیا گیااور او آئی سی کے رکن بہت سے ممالک نے اس کے حق میں ووٹ ڈالا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کم ازکم سفارتکاری کے میدان میں حزب اللہ کو کامیاب کرتے اور خدا کا شکر اداکرتے کہ حزب اللہ نے او آئی سے کے اہداف میں سے ایک ہدف حاصل کرلیا۔دوسری جانب فلسطین کی مقاومتی تنظیموں نے ناجائز و غاصب نسل پرست یہودی ریاست کو سبق سکھانے کے لیے مسلح جدوجہد کا راستہ اختیارکیا۔تواو آئی سی کے بعض سرکردہ ممالک نے ان کی مدد کرنے کے بجائے انھیں امریکی ایجنڈے پر قربان کرنے کی ٹھان لی۔سابق امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزارائس نے انکشاف کیا کہ بعض عرب حکمران امریکی حکومت سے کہتے تھے کہ وہ امریکی ایجنڈٖے کے حامی ہیں لیکن علی الاعلان اس معاملے میں خاموش رہیں گے۔
اگر فلسطینیوں نے 2006 میںمسلح مقاومتی تنظیم حماس کو الیکشن میں منتخب کرلیا تھا تو اوآئی سی کے طاقتور ممالک اسے خود بھی تسلیم کرتے اور امریکا اور اقوام متحدہ پر بھی دباؤ ڈالتے کہ اسے تسلیم کریں۔لیکن افسوس کہ انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ معاہدہ مکہ کیوں ناکام ہوا؟ او آئی سی کے میزبان ملک سعودی عرب کی حکومت کو اس سلسلے میں امت اسلامی کے سامنے تفصیلات بیان کرنا چاہئیں۔کیا وہ امریکا و سرائیل کی طرح حماس کو اس کا ذمے دار سمجھتے ہیں۔ یا وہ خود امریکی صہیونی سازش کا حصہ بن چکے تھے۔خیر یہ تو ہوا ماضی، لیکن لمحہ موجود کی اس حقیقت کو دیکھیے کہ اب حماس اورمغربی کنارے کی حکمران فلسطینی انتظامیہ اور الفتح نے حماس سے شراکت اقتدار فارمولا کے تحت معاہدہ کرلیا ہے۔ اب یہ دونوں اتحادی ہیں۔ اس کے باوجود ناجائز وغاصب صہیونی ریاست نے غزہ پر جارحیت کی ہے۔او آئی سی نے جارح کی مرمت نہیں کرنی اور صرف مذمت کرنی ہے تو یہ کام تو غیر مسلموں کے نرغے میں امریکا میں قائم اقوام متحدہ بھی بخوبی کررہی ہے۔او آئی سی خواب غفلت سے بیدار ہو۔
یا اپنے خاتمے کا اعلان کرے تاکہ امت اسلامی کوئی نیا پلیٹ فارم قائم کرسکیں اور اگر او آئی سی نے ہی برقرار رہنا ہے تو اس میں اصلاحات کی جائیں اور اسے متحرک و فعال کیا جائے۔مسلمان حکومتوں کی نمائندگی کے لیے قائم او آئی سی اورغیرمسلم حکومتوں کی اکثریت رکھنے والی اقوام متحدہ میں کوئی تو فرق ہونا چاہیے۔او آئی سی کی قیادت یا تو آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس کا نام تبدیل کرکے تنظیم امت اسلامی بنادے اور کو فعال بنانے کے لیے اس کی تنظیم نو بھی کرے یا اسے ختم کردے ۔مسلمان حکومتوں سے گذارش ہے کہ ماضی کی غلط روش سے سبق سیکھا جائے۔یہ تنظیم مسلمان ممالک کے درمیان اختلافات ختم کرنے کے لیے کردار اداکرے نہ کہ اختلافات پیدا کرے یا اختلافات کو ہوا دے جیسا کہ اس کے اہم رکن ممالک کے بادشاہوںنے شام اور عراق میں کیا ہے۔او آئی سی ہر حال میں اس بات کو یاد رکھے کہ مسجد اقصیٰ کی آتشزدگی کے رد عمل نے اسے جنم دیا ہے۔
اس تنظیم نے اپنا عارضی صدر دفتر سعودی عرب میں قائم کیا ہے لیکن مستقل صدر دفتر بیت المقدس میں قائم ہونا ہے۔اگر حزب اللہ اور حماس و جہاد اسلامی جیسے نان اسٹیٹ ایکٹرز کامیابی سے غاصب و ناجائز وجود کی طاقت کا بھرم خاک میں ملاسکتے ہیں اور غزہ کے بے بس و مجبور و مظلوم و محصور فلسطینی سر اٹھاکر ثابت قدمی سے حالات کا مقابلہ کررہے ہیں تو او آئی سی کے مقاومت مخالف رکن ممالک بھی یہ روش اپنا کر ماضی کی غلطیوں کے داغ دھو سکتے ہیں۔او آئی سی کو امت اسلامی کا ترجمان بننا چاہیے اور عملی طور پر ان اہداف کے حصول کی سمت قدم بڑھانا چاہیے جو ستمبر 1969 میں بانی رکن ممالک نے طے کیے تھے۔