وزیراعلیٰ بلوچستان کا خواب
ایک یاس اور خوف کا عالم طاری تھا سندھ پر، کیونکہ سب لیڈران موقع پرست تھے ۔۔۔
خواب دیکھنے میں کوئی حرج نہیں، اکثر لوگ خواب اور امیدوں کے سہارے غربت کے دن کاٹ دیتے ہیں مگر خواب وہی شخص دیکھتا ہے جو جہد مسلسل پر یقین رکھتا ہے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ پاکستان میں ایک ایسا شخص وزیر اعلیٰ بنا جو نہ سرمایہ دار ہے، نہ سردار، نہ نواب، نہ وڈیرہ، تعلیم کے زیور سے مالا مال، ادب اور سیاست پڑھنے اور کرنے کا شوق، دیکھیں انھیں یہ خواب اور خواہش کہاں تک لے جاتی ہے۔ بلوچ طلبہ سیاست اور پھر عملی سیاست بعض معروضی حالات نے ان کو ملاپ کی سیاست کرنے کے سبب وزیر اعلیٰ کی کرسی پر بٹھا دیا، مگر انھیں معلوم ہے کہ 'کس کی بنی ہے اس عالم ناپائیدار میں' اس لیے وہ ملاپ کی سیاست سے دور رہ کر اپنی سیاست کرنا چاہتے ہیں اور بلوچستان سے ملحقہ صوبہ سندھ میں انھوں نے اپنے دست و بازو مضبوط کرنے کا عزم کر رکھا ہے اور پھر اس شہر کا رخ کیا جس کا رخ کبھی میاں افتخار الدین اور سردار شوکت حیات نے کیا تھا بلکہ وہ اسی شہر کا حصہ تھے۔
یہ بات 1951-52ء کی ہے جب میاں افتخار الدین، لیاقت علی خان صاحب کی حکومت میں وزیر آبادکاری مہاجرین تھے اور مسلم لیگ کی بعض پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہوئے انھوں نے بائیں بازو کی پارٹی ''آزاد پاکستان پارٹی'' کی تنظیم نو شروع کر دی، بعد ازاں ایک نئی پارٹی جس کا نام نیشنل پارٹی رکھا گیا اس پارٹی کے کنوینر نورالعارفین تھے جن کے معتمد خاص قاضی عثمان تھے۔ یہ بات بھی عجیب تھی کہ اس کارروائی کا مرکزی محل وقوع لیاری اور لائٹ ہاؤس کے گرد و نواح تھے، یہ زمین سیاسی پنیریاں لگانے کے لیے بڑی سازگار تھی، علم و ادب کا گہوارہ جسے ستم ظریفوں نے لہولہان کر دیا ہے، لیاری ہی وہی سرزمین تھی جہاں مشاعرے اور ادبی محفلیں ہوتی تھیں، وہ دن جب یاد آتے ہیں نگاہیں دارالسلطنت کراچی کو یاد کرتی ہیں جہاں تحریکوں کی آبیاری، اختلاف رائے سر آنکھوں پر، اسی ماحول میں میاں افتخار الدین اپنے ہم نواؤں طفیل احمد خان ایڈیٹر امروز بھی تھے۔
خلیل احمد ترمذی، کاوش رضوی، کامل القادری، مرزا ابراہیم بعدازاں یہی نیشنل پارٹی بنگال کے دوستوں کی حمایت سے خصوصاً مولانا بھاشانی اور دیگر قوم پرستوں اور دہقان دستوں کی وجہ سے نیشنل عوامی پارٹی بنی۔ حیدرآباد سازش کیس جو بھٹو صاحب کے دور میں چلایا گیا اس کی پاداش میں یہ پارٹی غیر قانونی قرار دی گئی مگر یہی وہ پارٹی تھی جس کے بلند پایہ شعرا، احبا، دانشور، سیاسی کارکن پاکستان میں اپنا لوہا منوا چکے تھے، فیض احمد فیض، سید سبط حسن، حبیب جالب، پروفیسر مجتبیٰ حسن، سید محمد تقی، پروفیسر کرار حسین، سیاستدانوں میں غوث بخش بزنجو، اجمل خٹک، مزدور لیڈروں میں مرزا ابراہیم، اسٹوڈنٹس محاذ پر نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن، سندھ ہاری کمیٹی حیدر بخش جتوئی، شہید حسن ناصر، نازش امروہوی جن کے نعروں کو پیپلز پارٹی نے لے کر ماضی کی تحریک کو اپنا ہتھیار بنایا اور اقتدار کی سیج پر قابض ہونے میں کامیاب ہو گئی۔
تاریخ کی اس لازوال قربانی دینے والوں میں بے شمار طلبا، مزدور اور کسان شامل تھے اب جب کہ نیشنل عوامی پارٹی کے کئی وارث کہلاتے ہیں، نیشنل عوامی پارٹی کے وارث عوامی نیشنل پارٹی اور نیشنل پارٹی دونوں ایک لحاظ سے ہیں مگر نیشنل پارٹی نے قومیت کے مسئلے پر سبقت لے لی۔ 27 ستمبر کو کراچی شہر میں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے ان ساتھیوں کو اس میٹنگ میں مدعو کیا جن کو دور ہوئے 45/40 برس ہو گئے تھے، وہ جو کبھی جوان چہرے جن کے سیاہ گھنے بال، کسا جسم مزاحمت کا مژدہ سناتے تھے کمزور پڑ چکے تھے مگر 5 گھنٹے چلنے والی میٹنگ میں وہ آج بھی تروتازہ تھے اور جب ان کو اپنے ہم نواؤں کی آواز سنائی دی تو وہ اور توانا ہو گئے۔ داؤد چورنگی پر 1970ء میں ہونے والے مزدوروں کے بڑے جلسوں کی یاد جن کو پیپلز پارٹی نے کیش کیا اور جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تو حیدرآباد میں اس روز نہ کوئی لاٹھی چارج ہوا اور نہ کوئی خونریزی ہوئی۔
ایک یاس اور خوف کا عالم طاری تھا سندھ پر، کیونکہ سب لیڈران موقع پرست تھے، پہلے عام لوگوں اور پھر اپنی پارٹی کو دھوکا دیا اور یہ عمل آج تک جاری ہے۔ 5 گھنٹے کی طویل میٹنگ میں صرف یک طرفہ گفتگو نہ تھی بلکہ کھلے عام بحث کا میدان تھا کہ پارٹی کی قوم پرست تحریک پر قوم پرستوں نے کہا کہ بلوچ قوم پرستوں کے نقش پارٹی میں زیادہ ہونے چاہئیں کیونکہ جب آج کے حالات میں ہر پارٹی قوم پرستی کے نعرے پر چل رہی ہے جب کہ دوسری جانب سے یہ آواز اٹھی کہ اردو بولنے والے دانشوروں کا نیشنل پارٹی میں بھی عمل دخل تھا لہٰذا اس پارٹی کو عوامی اور روشن خیال نظریات کی حامل ہونے کی ضرورت ہے۔
گزشتہ ساڑھے چھ برسوں میں وہ کچھ ہوا جو کبھی نہ ہوا تھا، پاکستان میں آئے دن بڑھتے ہوئے اجناس کے نرخ، بجلی، گیس اور پٹرول پر شب خون اور (ن) لیگ سے پیپلز پارٹی کے تعاون نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ سیاسی پارٹی نہیں ہے بلکہ بزنس پارٹنر ہیں، اسی وجہ سے جیالوں میں مایوسی اور اس مسئلے سے توجہ ہٹانے کے لیے مرسوں مرسوں کی آواز اس کے برعکس نیشنل پارٹی کے کراچی کنونشن میں ایسی آوازیں آ رہی تھیں کہ جیسے پاکستان نیا بنا ہے اور یہ 1952ء کا زمانہ ہے جس میں پارٹی کی تشکیل نو ہو رہی ہے۔ گوکہ وہ سب ہمارے معمار آخری وقت تک آزادی، انصاف اور مساوات کا نعرہ لگاتے ہوئے آغوش زمیں ہو گئے مگر نہ بدلا پاکستان، ہر فرد آئی ایم ایف کا مقروض۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سادہ سا لباس زیب تن سرخ ٹوپی جو عام طور پر اسپورٹس مین استعمال کرتے ہیں جونہی وہ کلام کرنے آئے ان کا زبردست تالیوں سے استقبال کیا گیا۔
ڈاکٹر مالک نے بے تکلفی سے گفتگو اور پارٹی کے مقاصد واضح کیے نیشنل پارٹی کی پنجاب میں ممبر شپ خصوصاً پنجاب کے ان علاقوں میں جو شیرشاہ سوری کی بنائی ہوئی Grand Trunk Road کے دونوں جانب آباد ہیں، سرائیکی علاقوں میں خصوصی رکنیت کی گئی اب کراچی کی باری ہے جو منی پاکستان ہے۔ انھوں نے واشگاف انداز میں فرمایا کہ نیشنل پارٹی زبان کی بنیاد پر تقسیم اور تفریق نہیں کرے گی، انھوں نے صحت اور تعلیم کو خصوصی اہمیت دی ہے، اس لیے اپنے بجٹ کا ایک بڑا حصہ صحت اور تعلیم کی مد میں رکھ دیا ہے اور جو مسلسل استعمال ہو رہا ہے، مگر یہ حکومت مشکلات سے دوچار ہے، غائب لوگوں کا ہنوز سراغ نہ مل سکا، جو ان کی حکومت کے لیے بڑا چیلنج ہے کیونکہ یہ مسئلہ ان لوگوں سے مذاکرات میں مشکلات پیدا کر رہا ہے جو بندوق اٹھائے ہوئے ہیں۔ اگر مسنگ پرسن Missing Person کا مسئلہ حل ہو تو پھر بلوچستان کی بدامنی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر عبدالمالک نے مزید کہا کہ ہزارہ قوم کے لوگوں کی مشکلات انھوں نے کم کی ہیں، کوئٹہ شہر کے حالات پہلے سے بہتر ہیں۔ مگر اب دیکھنا یہ ہے کہ ڈاکٹر عبدالمالک کی موجودہ رکنیت سازی کی مہم کیا اس زور و شور سے جاری رہتی جیسا کہ آزاد پاکستان پارٹی کے خاتمے اور نیشنل عوامی پارٹی کی مہم، بظاہر اتنی بڑی لیڈر شپ اور اس پایہ کے کارکن تو کم ہیں کیونکہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سیاست میں کرپشن داخل ہو چکی ہے کیونکہ اخلاقیات کا خاتمہ اور روپے کی اہمیت نے زبردست مقام حاصل کر لیا ہے خصوصاً تیسری دنیا کے لوگ جو حکومت پر قابض ہوئے انھیں کرپشن کا خمار لے ڈوبا اور تعلیمی نصاب نے پیسہ کمانے کے ایک اور جوہر کو نصاب میں شامل کر دیا جس کو1960ء میں داخل کیا گیا وہ کامرس اور مارکیٹنگ کا شعبہ ہے، جس نے پوری طرح سے انسان کی اخلاقی قدروں کی تطہیر کر دی ہے کہ کس طرح پیسہ کمایا جائے اور دوسرے کی جیب سے رقم بغیر ہاتھ لگائے نکال لی جائے۔
پاکستان خصوصیت کے ساتھ اس مہلک مرض میں مبتلا ہو چکا ہے، اس لیے معاشی ناہمواری کی ناؤ جس پر ہم بیٹھے ہیں اگر ہمارے کھلے سمندروں میں اور دریاؤں میں یوں ہی چلتی رہی تو ڈوب جائے گی، معاشرہ فساد زدہ ہوتا جائے گا۔ لیاری جو کبھی کرتا تھا پرورش علم و ہنر، آخر کار حکمرانوں کی بدنظری کا شکار ہوا اور اپنی سیاست کا جادو جگانے کے لیے وہاں کے امن کو تباہ کیا گیا وہاں کے لوگوں کے ہنر، جرأت کو لیڈروں نے اپنا آلہ کار بنانے کے لیے نسل پرستی کا عفریت ان کی جھولی میں ڈال دیا۔ ایک بات جو قابل غور ہے کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے بلائے گئے اس خصوصی کنونشن میں آج بھی ایک چوتھائی لوگ لیاری کے تھے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ شعور کی بڑھتی ہوئی دنیا میں بلوچستان کے رہنماؤں کی آواز پر کتنے لوگ لبیک کہتے ہیں۔ اور لیاری سے ایک نئے دور کا آغاز کب ہوتا ہے۔ مگر ڈاکٹر عبدالمالک صاحب پرامید ہیں کہ ان کا خواب جلد پورا ہوگا۔
یہ بات 1951-52ء کی ہے جب میاں افتخار الدین، لیاقت علی خان صاحب کی حکومت میں وزیر آبادکاری مہاجرین تھے اور مسلم لیگ کی بعض پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہوئے انھوں نے بائیں بازو کی پارٹی ''آزاد پاکستان پارٹی'' کی تنظیم نو شروع کر دی، بعد ازاں ایک نئی پارٹی جس کا نام نیشنل پارٹی رکھا گیا اس پارٹی کے کنوینر نورالعارفین تھے جن کے معتمد خاص قاضی عثمان تھے۔ یہ بات بھی عجیب تھی کہ اس کارروائی کا مرکزی محل وقوع لیاری اور لائٹ ہاؤس کے گرد و نواح تھے، یہ زمین سیاسی پنیریاں لگانے کے لیے بڑی سازگار تھی، علم و ادب کا گہوارہ جسے ستم ظریفوں نے لہولہان کر دیا ہے، لیاری ہی وہی سرزمین تھی جہاں مشاعرے اور ادبی محفلیں ہوتی تھیں، وہ دن جب یاد آتے ہیں نگاہیں دارالسلطنت کراچی کو یاد کرتی ہیں جہاں تحریکوں کی آبیاری، اختلاف رائے سر آنکھوں پر، اسی ماحول میں میاں افتخار الدین اپنے ہم نواؤں طفیل احمد خان ایڈیٹر امروز بھی تھے۔
خلیل احمد ترمذی، کاوش رضوی، کامل القادری، مرزا ابراہیم بعدازاں یہی نیشنل پارٹی بنگال کے دوستوں کی حمایت سے خصوصاً مولانا بھاشانی اور دیگر قوم پرستوں اور دہقان دستوں کی وجہ سے نیشنل عوامی پارٹی بنی۔ حیدرآباد سازش کیس جو بھٹو صاحب کے دور میں چلایا گیا اس کی پاداش میں یہ پارٹی غیر قانونی قرار دی گئی مگر یہی وہ پارٹی تھی جس کے بلند پایہ شعرا، احبا، دانشور، سیاسی کارکن پاکستان میں اپنا لوہا منوا چکے تھے، فیض احمد فیض، سید سبط حسن، حبیب جالب، پروفیسر مجتبیٰ حسن، سید محمد تقی، پروفیسر کرار حسین، سیاستدانوں میں غوث بخش بزنجو، اجمل خٹک، مزدور لیڈروں میں مرزا ابراہیم، اسٹوڈنٹس محاذ پر نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن، سندھ ہاری کمیٹی حیدر بخش جتوئی، شہید حسن ناصر، نازش امروہوی جن کے نعروں کو پیپلز پارٹی نے لے کر ماضی کی تحریک کو اپنا ہتھیار بنایا اور اقتدار کی سیج پر قابض ہونے میں کامیاب ہو گئی۔
تاریخ کی اس لازوال قربانی دینے والوں میں بے شمار طلبا، مزدور اور کسان شامل تھے اب جب کہ نیشنل عوامی پارٹی کے کئی وارث کہلاتے ہیں، نیشنل عوامی پارٹی کے وارث عوامی نیشنل پارٹی اور نیشنل پارٹی دونوں ایک لحاظ سے ہیں مگر نیشنل پارٹی نے قومیت کے مسئلے پر سبقت لے لی۔ 27 ستمبر کو کراچی شہر میں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے ان ساتھیوں کو اس میٹنگ میں مدعو کیا جن کو دور ہوئے 45/40 برس ہو گئے تھے، وہ جو کبھی جوان چہرے جن کے سیاہ گھنے بال، کسا جسم مزاحمت کا مژدہ سناتے تھے کمزور پڑ چکے تھے مگر 5 گھنٹے چلنے والی میٹنگ میں وہ آج بھی تروتازہ تھے اور جب ان کو اپنے ہم نواؤں کی آواز سنائی دی تو وہ اور توانا ہو گئے۔ داؤد چورنگی پر 1970ء میں ہونے والے مزدوروں کے بڑے جلسوں کی یاد جن کو پیپلز پارٹی نے کیش کیا اور جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تو حیدرآباد میں اس روز نہ کوئی لاٹھی چارج ہوا اور نہ کوئی خونریزی ہوئی۔
ایک یاس اور خوف کا عالم طاری تھا سندھ پر، کیونکہ سب لیڈران موقع پرست تھے، پہلے عام لوگوں اور پھر اپنی پارٹی کو دھوکا دیا اور یہ عمل آج تک جاری ہے۔ 5 گھنٹے کی طویل میٹنگ میں صرف یک طرفہ گفتگو نہ تھی بلکہ کھلے عام بحث کا میدان تھا کہ پارٹی کی قوم پرست تحریک پر قوم پرستوں نے کہا کہ بلوچ قوم پرستوں کے نقش پارٹی میں زیادہ ہونے چاہئیں کیونکہ جب آج کے حالات میں ہر پارٹی قوم پرستی کے نعرے پر چل رہی ہے جب کہ دوسری جانب سے یہ آواز اٹھی کہ اردو بولنے والے دانشوروں کا نیشنل پارٹی میں بھی عمل دخل تھا لہٰذا اس پارٹی کو عوامی اور روشن خیال نظریات کی حامل ہونے کی ضرورت ہے۔
گزشتہ ساڑھے چھ برسوں میں وہ کچھ ہوا جو کبھی نہ ہوا تھا، پاکستان میں آئے دن بڑھتے ہوئے اجناس کے نرخ، بجلی، گیس اور پٹرول پر شب خون اور (ن) لیگ سے پیپلز پارٹی کے تعاون نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ سیاسی پارٹی نہیں ہے بلکہ بزنس پارٹنر ہیں، اسی وجہ سے جیالوں میں مایوسی اور اس مسئلے سے توجہ ہٹانے کے لیے مرسوں مرسوں کی آواز اس کے برعکس نیشنل پارٹی کے کراچی کنونشن میں ایسی آوازیں آ رہی تھیں کہ جیسے پاکستان نیا بنا ہے اور یہ 1952ء کا زمانہ ہے جس میں پارٹی کی تشکیل نو ہو رہی ہے۔ گوکہ وہ سب ہمارے معمار آخری وقت تک آزادی، انصاف اور مساوات کا نعرہ لگاتے ہوئے آغوش زمیں ہو گئے مگر نہ بدلا پاکستان، ہر فرد آئی ایم ایف کا مقروض۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سادہ سا لباس زیب تن سرخ ٹوپی جو عام طور پر اسپورٹس مین استعمال کرتے ہیں جونہی وہ کلام کرنے آئے ان کا زبردست تالیوں سے استقبال کیا گیا۔
ڈاکٹر مالک نے بے تکلفی سے گفتگو اور پارٹی کے مقاصد واضح کیے نیشنل پارٹی کی پنجاب میں ممبر شپ خصوصاً پنجاب کے ان علاقوں میں جو شیرشاہ سوری کی بنائی ہوئی Grand Trunk Road کے دونوں جانب آباد ہیں، سرائیکی علاقوں میں خصوصی رکنیت کی گئی اب کراچی کی باری ہے جو منی پاکستان ہے۔ انھوں نے واشگاف انداز میں فرمایا کہ نیشنل پارٹی زبان کی بنیاد پر تقسیم اور تفریق نہیں کرے گی، انھوں نے صحت اور تعلیم کو خصوصی اہمیت دی ہے، اس لیے اپنے بجٹ کا ایک بڑا حصہ صحت اور تعلیم کی مد میں رکھ دیا ہے اور جو مسلسل استعمال ہو رہا ہے، مگر یہ حکومت مشکلات سے دوچار ہے، غائب لوگوں کا ہنوز سراغ نہ مل سکا، جو ان کی حکومت کے لیے بڑا چیلنج ہے کیونکہ یہ مسئلہ ان لوگوں سے مذاکرات میں مشکلات پیدا کر رہا ہے جو بندوق اٹھائے ہوئے ہیں۔ اگر مسنگ پرسن Missing Person کا مسئلہ حل ہو تو پھر بلوچستان کی بدامنی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر عبدالمالک نے مزید کہا کہ ہزارہ قوم کے لوگوں کی مشکلات انھوں نے کم کی ہیں، کوئٹہ شہر کے حالات پہلے سے بہتر ہیں۔ مگر اب دیکھنا یہ ہے کہ ڈاکٹر عبدالمالک کی موجودہ رکنیت سازی کی مہم کیا اس زور و شور سے جاری رہتی جیسا کہ آزاد پاکستان پارٹی کے خاتمے اور نیشنل عوامی پارٹی کی مہم، بظاہر اتنی بڑی لیڈر شپ اور اس پایہ کے کارکن تو کم ہیں کیونکہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سیاست میں کرپشن داخل ہو چکی ہے کیونکہ اخلاقیات کا خاتمہ اور روپے کی اہمیت نے زبردست مقام حاصل کر لیا ہے خصوصاً تیسری دنیا کے لوگ جو حکومت پر قابض ہوئے انھیں کرپشن کا خمار لے ڈوبا اور تعلیمی نصاب نے پیسہ کمانے کے ایک اور جوہر کو نصاب میں شامل کر دیا جس کو1960ء میں داخل کیا گیا وہ کامرس اور مارکیٹنگ کا شعبہ ہے، جس نے پوری طرح سے انسان کی اخلاقی قدروں کی تطہیر کر دی ہے کہ کس طرح پیسہ کمایا جائے اور دوسرے کی جیب سے رقم بغیر ہاتھ لگائے نکال لی جائے۔
پاکستان خصوصیت کے ساتھ اس مہلک مرض میں مبتلا ہو چکا ہے، اس لیے معاشی ناہمواری کی ناؤ جس پر ہم بیٹھے ہیں اگر ہمارے کھلے سمندروں میں اور دریاؤں میں یوں ہی چلتی رہی تو ڈوب جائے گی، معاشرہ فساد زدہ ہوتا جائے گا۔ لیاری جو کبھی کرتا تھا پرورش علم و ہنر، آخر کار حکمرانوں کی بدنظری کا شکار ہوا اور اپنی سیاست کا جادو جگانے کے لیے وہاں کے امن کو تباہ کیا گیا وہاں کے لوگوں کے ہنر، جرأت کو لیڈروں نے اپنا آلہ کار بنانے کے لیے نسل پرستی کا عفریت ان کی جھولی میں ڈال دیا۔ ایک بات جو قابل غور ہے کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے بلائے گئے اس خصوصی کنونشن میں آج بھی ایک چوتھائی لوگ لیاری کے تھے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ شعور کی بڑھتی ہوئی دنیا میں بلوچستان کے رہنماؤں کی آواز پر کتنے لوگ لبیک کہتے ہیں۔ اور لیاری سے ایک نئے دور کا آغاز کب ہوتا ہے۔ مگر ڈاکٹر عبدالمالک صاحب پرامید ہیں کہ ان کا خواب جلد پورا ہوگا۔