فلسفۂ حج

زیارت بیت اللہ شریف محبت، امن اور مساوات کا ایک ایسا درس جو اپنی مثال آپ ہے


زیارت بیت اللہ شریف محبت، امن اور مساوات کا ایک ایسا درس جو اپنی مثال آپ ہے۔ فوٹو: فائل

اﷲ تعالیٰ کی طرف سے صاحب استطاعت لوگوں پر حج فرض ہے۔ یہ حکم حج 9 ہجری میں نازل ہوا۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ کی طرح یہ بھی ارکان اسلام میں سے ایک رکن ہے۔ اس اہم رکن دین کی اہمیت حضور سید عالم ﷺکے ارشاد سے ظاہر ہے: ''جسے تم میں سے حج کرنے کی استطاعت تھی اور نہ کیا، مجھے اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ وہ یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہوکر۔''

اس عنوان پر کچھ عرض کرنے سے پہلے یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ اگرچہ اسلامی احکام و ارکان کے فوائد و حکمتیں واضح ہیں اور اس عنوان پر بہت سے متقدمین نے بہت کچھ لکھا ہے، مگر فرائض کا کوئی فلسفہ سمجھ میں آئے یا نہ آئے، حکم خداوندی جان کر اس حکم کو بجا لانا ضروری ہے۔

مومن کے لیے تو اتنا ہی کا فی ہے کہ اس کے خالق و مالک نے اسے حکم دیا ہے جس کا بجا لانا اس پر لازم ہے، تاہم اسلام کا ہر عنوان بے شمار حکمتوں سے بھرا نظر آتا ہے۔ فریضۂ حج کی ادائیگی میں متعدد حکمتیں دکھائی دیتی ہیں۔

٭پہلی حکمت: دنیاوی مشاغل مال، اولاد، کاروبار، یہ سبھی امور ایسے ہیں جو انسان کو اس کے رب سے دور رکھتے ہیں۔ حج کی ادائیگی کے لیے ان سبھی کو ایک عرصہ معین تک چھوڑ کر بارگاہ قدوس میں حاضر ہونے کا موقعہ ملتا ہے۔

٭دوسری حکمت: اسلام میں ایثار و قربانی قرب الٰہی کا بہترین ذریعہ ہیں۔ تمام عبادات میں مالی قربانی ہے یا جسمانی اور حج ایسا فریضہ ہے جو مالی اور بدنی قربانیاں چاہتا ہے۔ ظاہر ہے جب بندہ دو قربانیاں پیش کرنے پر راضی ہوجاتا ہے تو قرب خدا وندی کے دروازے بھی اسی حیثیت سے اس پرکھلیں گے۔

٭تیسری حکمت: حج ہی ایسا فریضہ ہے جس کے ذریعہ دنیا بھر کے اہل ایمان ایک مقام پر جمع ہوکر ملت اسلامیہ کے دکھ درد کا علاج سوچ سکتے ہیں اور ایک دوسرے سے قریب ہوسکتے ہیں۔

٭چوتھی حکمت: اسلام میں مساوات کے مسئلہ کو جس انداز میں واضح کیا گیا ہے، وہ کسی سے مخفی نہیں۔ فریضہ حج میں اسلامی مساوات کا نقشہ جس حسین انداز میں پیش کیا گیا ہے، دنیا بھر کے ادیان مذاہب اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ امیروفقیر، شاہ و گدا ایک ہی لباس میں بارگاہ الٰہی میں حاضر نظر آتے ہیں۔ مختلف زبانیں بولنے والوں کو حاضری کے لیے ایک ہی صدا اور ایک ہی نعرہ بلند کرنے کا حکم دیا گیا ہے:''لبیک اللھم لبیک۔''

٭پانچویں حکمت: حج ایسا فریضہ ہے جس میں زمین کی سیر کرو کے ارشاد پر عمل بھی ہے اور گستاخ قوموں کی تباہی اور بربادی کے مناظر دیکھ کر عبرت بھی حاصل ہو تی ہے۔

٭چھٹی حکمت: کسی عبادت میں کسی خاص لباس میں حاضری نہیں، مگر حج میں ایک خاص لباس پہن کر حاضری ہو تی ہے۔ یہ لباس ظاہری شکل وشباہت میں کفن جیسا ہے، تاکہ حاجی موت کو یاد کرے اور توبہ و استغفار کرے۔

٭ساتویں حکمت: اسلام کی روح، احکام وفرائض کی جان اور شریعت کی پابندی کی روح اﷲ تعالیٰ اور حضور سید عالم ﷺسے عشق ومحبت ہے۔ تمام عبادات میں عقل کو دخل ہے، غلبہ ہے مگر حج ایسا فریضہ ہے جس میں عشق کو فوقیت حاصل ہے۔ احرام کا لباس، بیت اﷲ شریف کا طواف، صفا مروہ کی سعی، منیٰ، عرفات مزدلفہ کی وادیوں میں گھومنا، رمی جمار، قربانی، یہ سبھی امور عشق و محبت کے مظہر ہیں، خصوصاً دوران طواف رمل پر کندھے ہلا ہلا کر چلنا ہی کسی عظیم محبت کے پہلو کو نمایاں کرتا ہے۔

٭فرضیت حج: حج 9ھ میں فرض ہو ا، جب کہ کعبہ کفروشرک اور ظلمتوں سے پاک ہو کر عبادات ِ ابراہیمی کا مرکز قرار پاتا ہے۔ حج عمر بھر میں ایک بار مال دار مسلمان پر فرض ہے۔ اس کے لیے مہینہ اور تاریخیں مقرر ہیں۔

٭ارکان حج: حج میں تین فرض اور پانچ واجب ہیں:

احرام باندھنا، عرفات میں ٹھہرنا اور طواف زیارت کرنا فرض ہیں جب کہ واجبات یہ ہیں:

مزدلفہ میں ٹھہرنا، صفا و مروہ کی سعی کرنا ، جمروں پر کنکریاں مارنا، طواف وداع کرنا اورسر منڈوانا۔ یوں سمجھیے کہ رب کے بتائے ہو ئے طریقے سے اس کے گھر کی زیارت کرنے کا دوسرا نام حج ہے۔ زیارت بیت اﷲ شریف محبت، امن اور مساوات کا ایک ایسا درس ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں