نئی افغان حکومت کو امن قائم کرنے کیلئے رٹ قائم کرنا ہوگی

افغانستان میں شراکت اقتدار کے نئے فارمولے کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں مختلف تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال


اجمل ستار ملک October 03, 2014
افغانستان میں شراکت اقتدار کے نئے فارمولے کے حوالے سے منعقدہ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں مختلف تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال۔ فوٹو: ایکسپریس

پاکستان سمیت دنیا بھر نے افغانستان میں کئی ماہ سے جاری سیاسی بحران کے خاتمے اور شراکت اقتدار کا معاہدہ پر امن طور پر طے پانے کا خیر مقدم کیا ہے۔

معاہدے کے مطابق اشرف غنی صدر جبکہ عبداللہ عبداللہ کو چیف ایگزیکٹیو کا عہدہ دیا گیا ہے۔ دونوں اپنے اپنے عہدے کا حلف اٹھا چکے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ نے دونوں فریقین کو شراکت اقتدار پر راضی کیا۔ کیونکہ حامد کرزئی نے امریکہ کے ساتھ سکیورٹی کا معاہدہ کرنے سے انکار کردیا تھا چنانچہ امریکہ نے ان دونوں فریقین کو اس شرط پر شراکت اقتدار کا فارمولا پیش کیا کہ وہ امریکہ کے ساتھ سکیورٹی کا معاہدہ کریں گے چنانچہ اس منصوبے کے تحت اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ نے حلف لینے کے اگلے روز امریکہ کے ساتھ سکیورٹی کا معاہدہ کرلیا۔

نئی افغان حکومت سے پورے خطے کی امیدیں وابستہ ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ افغان حکومت کس طرح خطے میں امن لائے گی اور افغانستان کوترقی کی راہ پر گامزن کرے گی۔ اسی حوالے سے گذشتہ دنوں ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا انعقاد کیا گیا جس میںہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔



ڈاکٹر اعجاز بٹ (سیاسی تجزیہ نگار)

افغانستان میں شراکت اقتدار کا نیا فارمولا ایک مثبت تبدیلی ہے۔نو منتخب حکومت کے دونوں عہدیداروں کا تعلق مختلف قبائل سے ہے۔ اشرف غنی پشتون قبیلے کی نمائندگی کر تے ہیں جو افغانستان کی آبادی کا قریباً 45 فیصد ہے جبکہ عبداللہ عبداللہ افغانستان کے دوسرے بڑے قبیلے تاجک کی نمائندگی کر تے ہیں جو افغانستان کی آبادی کا قریباََ 24 فیصد ہے۔ الیکشن کے حوالے سے ان کے درمیان جو تنازعہ چل رہا تھا اس سے بظاہر یہ لگتا تھا کہ افغانستان ایک مرتبہ پھر نسلی فساد میں مبتلا ہوجائے گا مگر یہ خطرہ ٹل گیا اور دونوں فریقین کے درمیان اشتراک اقتدار پرباہم اتفاق ہو گیا جس کا سہرا امریکا کے سر ہے۔

کرزئی کے دور حکومت میں امریکا کی یہ کو شش تھی کہ سکیورٹی معاہدے پر دستخط ہوجائیں مگر ایسا نہیں ہوا اور کرزئی نے امریکا کو اس بات پر قائل کر لیا کہ امریکا آئندہ آنے والی حکومت کے ساتھ معاہدہ کر لے۔ اشرف غنی اورعبداللہ عبداللہ امریکا سے معاہدہ کرنے کے لیے تیار تھے لہٰذا امریکا نے انہیں مشترکہ حکومت پر راضی کر لیا تاکہ سکیورٹی معاہدے پر جلد از جلد دستخط ہو سکیں۔ یہاں اشتراک اقتدار کے فارمولے پر بات کریں تو عبداللہ عبداللہ کو دیا گیا چیف ایگزیکٹیو کا عہدہ افغانستان کے آئین میں نہیں ہے جس کے لیے آئین میں ترمیم کی جائے گی۔

اب اگر اختیارات کی بات کی جائے تو بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ چیف ایگزیکٹو صدر کو جوابدہ ہوگا کیونکہ آئین کے مطابق صدر مرکزی کردار ہے اور تمام اختیارات صدر کے عہدے میں مرتکز ہیں۔ابھی انہوں نے اگلے ایک دو سال میں چیف ایگزیکٹو کے عہدے کو وزیر اعظم کے عہدے میں تبدیل کرنا ہے اور پھراختیارات کی تقسیم بھی کرنی ہے کہ صدر اور وزیراعظم کے پاس کیا کیا اختیارات ہوں گے۔ موجودہ صورتحال میں جو اختیارات صدر چیف ایگزیکٹو کو دیں گے وہ انہیں استعمال کریں گے جبکہ اصل اقتدارصدرہی کے پاس ہوگا۔ بہر حال یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ شراکت اقتدار کا یہ فارمولا کس حد تک کارگر ثابت ہوگا۔

اگر پاک افغان تعلقات کی بات کریں تو اشرف غنی پشتون ہیں اور پاکستان کو ہمیشہ پشتون کی حمایت حاصل رہی ہے جبکہ عبداللہ عبداللہ پرو انڈین ہیں اور انڈیا کے مفادکے لیے کام کرتے رہے ہیں۔پاکستان نے اس مشترکہ حکومت کا خیر مقدم کیا ہے اوردونوں ملکوں کے درمیان اچھے تعلقات کی امید بھی ظاہر کی ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں بھی تبدیلی آئی ہے اور ہم نے اپنی وہ پالیسی چھوڑ دی ہے کہ جس کا مقصد افغانستان میں موجود کسی ایک ایلیمنٹ کا ساتھ دینا تھا۔ لہٰذا اب پاکستان یہ کہتا ہے کہ ہم افغانستان کے عوامی نمائندوں کا احترام کرتے ہیں اورکوئی بھی گروپ ہمارا پسندیدہ نہیں ہے۔

ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ماضی کے حوالے سے نادرن الائنسز کے ذہن میں جو تلخی ہے اسے دور کیا جائے اور یہ پیغام دیا جائے کہ ہم افغانستان کے کسی ایک گروپ کے ساتھ نہیں ہیں۔ اگر انڈیا کی بات کریں تو افغانستان کے اندر انڈیا کا کردار بہت واضح ہے اور اب وہ وہاں انوسٹمنٹ بھی کر رہا ہے اس لیے انڈیا کو دونوںحکومتی عہدیداروں کی حمایت حاصل ہوجائے گی۔ امریکا بھی افغانستان میں انڈیا کے کردار کواہم سمجھتا ہے چاہے وہ افغان فورسز کی تربیت ہو یا پھر افغانستان کے انفراسٹرکچر کی تعمیر ہو۔

انڈیا کا افغانستان میں کو ئی بھی کردار ہو وہ ہمیشہ پاکستان کے مفادات کے خلاف ہوتا ہے۔ جب تک انڈیا کا رول افغانستان میں رہے گا تب تک وہاں پاکستان کے لیے مسائل بھی رہیں گے۔نو منتخب حکومت کو افغانستان میں بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا جن میں سب سے بڑا چیلنج افغانستان کی سیکیورٹی ہے ۔آگے چل کر اگر تاجک اور پشتون قبائل میں معاہدہ ہو جاتا ہے تو پھران طالبان کا کیا ہوگا جو ان دونوں کو نہیں مانتے۔ انہوں نے عام انتخابات، اس کے نتائج ،اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کی قیادت کو ماننے سے انکار کر دیا ہے۔



اب طالبان کس حد تک اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔لہٰذا اب ایک اور بڑامسئلہ افغانستان میں حکومتی رٹ قائم کرنا ہے ۔ افغانستان کے مختلف علاقوں میں قبائلی سرداروں کا قبضہ ہے جن کے پاس بے پناہ اسلحہ ہے،جن کی اپنی فورسز اور اپنا قانون ہے ۔ان کو حکومتی رٹ پر آمادہ کرنا بہت بڑا چیلنج ہو گا اور جب تک افغانستان کے ہر علاقے میںحکومتی رٹ قائم نہیں ہو جاتی تب تک کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ حکومت افغانستان میں بہتری لاسکے گی یا نہیں۔اس وقت افغان فورسز کی یہ بنیادی ذمہ داری ہونی چاہیے کہ وہ پورے افغانستان میں حکومتی رٹ قائم کریں۔

حالیہ رپورٹ کے مطابق افغان فورسز اتنی اہل نہیں اور نہ ہی ان کی تربیت ایسی ہوئی ہے کہ وہ طالبان اور قبائلی سرداروں سے حکومتی رٹ تسلیم کروا سکیں ۔لہٰذا اب اہم مسئلہ افغان فورسز کی تربیت ہے جس کے لیے انہیں بیرونی مالی امداد کی ضرورت پڑے گی۔یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ کیا امریکا نیٹو فورسزکے انخلاء کے بعد بھی افغانستان کو امداد جاری رکھے گا ؟بہر حال افغان فورسز کی تربیت اور انفراسٹرکچر کی تعمیر نئی حکومت کیلئے بہت بڑا چیلنج ہوگا۔

ان چیلنجز سے نمٹنے کیلئے افغان حکومت کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔اب ان کا سارا انحصار بیرونی امداد پر ہے لہٰذا امریکہ،یورپی یونین ،بھارت یا جو بھی ملک ان کو امداد دے گا وہ پہلے اپنے مقاصد سامنے رکھے گا اور پھران پر اپنا تسلط قائم کرنے کی کوشش کرے گا ۔کرزئی کے دور حکومت میں افغانستان کو کھربوں ڈالر کی بیرونی امدادملی جو کرپشن کی نظر ہو گئی اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ایک ڈالر بھی خرچ نہ کیا گیا لہٰذا اب نئی حکومت پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہو تی ہے کہ جو بھی بیرونی امدادملے اسے شفاف طریقے سے افغانستان کے انفراسٹرکچر کی بہتری کے لیے استعمال کرے۔

اگر افغانستان میں طالبان اور شدت پسندی کی سوچ ختم کرنی ہے تو پھر ہنگامی بنیادوں پہ انفراسٹرکچر میں تبدیلی کرنی ہوگی،پل تعمیر کرنے ہوں گے،اسپتال بنانے ہوں گے،نئے تعلیمی اداروں کی بنیاد رکھنی ہوگی اور لوگوں میں تعلیم کو عام کرنا ہوگا۔ افغان حکومت کے لیے منشیات کے کاروبار کی روک تھام بھی ایک بڑا چیلنج ہے جو کہ طالبان کے ذریعہ معاش کا ایک بڑا حصہ ہے ۔ وہ علاقے جہاں منشیات کی کاشتکاری ہوتی ہے مکمل طور پر طالبان کے قبضے میں ہیں۔اس پرقابو پانا بہت ضروری ہے ورنہ وہ اس کاروبار سے مزید اسلحہ خریدکر حکومتی رٹ کے لیے چیلنج بنے رہیں گے۔

افغانستان میں جتنے بھی جنگجو ہیں ان کا ذریعہ معاش ختم کرنا ہوگا مگر یہ کیسے کیا جائے گا اس کا جواب ابھی کسی کے پاس بھی نہیں ہے ۔ پاکستان میں جاری ضرب عضب کی وجہ سے طالبان کی ایک بہت بڑی تعداد افغانستان چلی گئی مگر کرزئی نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی اور خاموشی اختیار کر لی۔پاکستان ملا فضل اللہ کے بارے میں بھی مطالبہ کرتا رہا کہ اسے ہمارے حوالے کیا جائے مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نئی حکومت ان کے بارے میں کیا حکمت عملی تیار کرے گی اور ان سے کیسے نمٹا جائے گا۔ اگر تو نئی حکومت افغانستان میں بہتری لانا چاہتی ہے تو پھر اسے افغانستان میں موجود شدت پسند عناصر کا قلع قمع کرکے حکومتی رٹ قائم کرنی پڑے گی۔

افغانستان کی ترقی سے پورے خطے کے حالات بہتر ہوں گے اور ہماری سنٹرل ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارت میں بہتری آئے گی۔ اگر خطے کے حالات بہتر نہ ہوئے تو بیرونی طاقتیں افغانستان میں اپنا تسلط قائم کرنے کی کوشش کریں گی جس سے خطے میں بدامنی پیدا ہو سکتی ہے۔ لہٰذا اب دیکھنا یہ ہوگا کہ نئی حکومت کس طرح ان چیلنجز کا مقابلہ کر کے افغانستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرے گی۔

بریگیڈیئر (ر) فاروق حمید (دفاعی تجزیہ نگار)

رواں سال افغانستان میں ڈویلپمنٹ ہو رہی ہے جن میں سے پہلی ڈویلپمنٹ اشتراک اقتدار کا معاہدہ ہے اورایسا معاہدہ افغانستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہو رہا ہے ۔دوسری ڈویلپمنٹ اس سال کے آخر میں ہو گی جو کہ نیٹو فورسز کا انخلاء ہے جس کا اثر نہ صرف افغانستان بلکہ اس پورے خطے کی سیکیورٹی پر ہوگا۔نو منتخب حکومت کو افغان طالبان نے مسترد کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چونکہ یہ حکومت امریکا نے بنائی ہے اور وہ اسے اپنے مفادات کے لیے استعمال کرے گا لہٰذا ہم اس حکومت کو نہیں مانتے۔اگر یہ بات درست ہے تو افغانستان مشکل حالات کی طرف جا رہا ہے۔

اگر افغان حکومت افغانستان میں حکومتی رٹ قائم کرنے میں کامیاب نہ ہوئی اور افغان فورسز ملک کی سیکیورٹی بہتر نہ بنا سکیں تو پھریہ ہو سکتا ہے کہ افغان طالبان کابل کی طرف بڑھنا شروع کردیں لہٰذا افغان آرمی کو چاہیے کہ وہ ان حالات پر قابو پانے کی کوشش کرے افغان امریکا سیکیورٹی معاہدے کے بارے میں یہ بات سامنے آرہی ہے کہ اشرف غنی اس معاہدے پر دستخط کر دیں گے جس کے تحت امریکا کی دس ہزار فوج افغان فورسز کی تربیت، سیکیورٹی کی بہتری اور القاعدہ کی باقیات کے خلاف آپریشن کے لیے افغانستان میں رہے گی۔

پاکستان نے اس نئی حکومت کا خیر مقدم کیا ہے اور پاکستان کی یہ کوشش ہوگی کہ اس نو منتخب حکومت کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کیے جائیں اور کرزئی کے دور حکومت میں جو عدم اعتماد کی فضا تھی اسے ختم کیا جائے ۔افغانستان میں جو بھی حالات ہوں گے ان کا براہ راست اثر پاکستان پر ہوگا۔ جب وہاں حالات بہتر ہوں گے تو خیبر پختون خواہ اور فاٹا میں بھی حالات معمول پر آجائیں گے۔اگر افغانستان پر امن ہوگا تو سنٹرل ایشیاء کے ساتھ ہمارے معاملات اور تجارت میں بہتری آئے گی اور گوادر پورٹ کا بھی بھر پور فائدہ اٹھایا جائے گا۔



ترکمانستان کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبہ اور تاجکستان کے ساتھ ہزار میگاواٹ بجلی کے پراجیکٹ کا انحصاربھی افغانستان کی اندرونی صورتحال پر ہے لہٰذاافغانستان میں امن کا قائم ہونا پاکستان کے استحکام کے لیے انتہائی اہم ہے۔ اگر پاک افغان حکومتوں کے درمیان دوستانہ تعلقات قائم ہوجائیں تو پاک افغان بارڈر کی صوتحال بہتر ہو جائے گی جو پاکستان کے مفاد میں ہے ۔دونوں حکومتوں کو چاہیے کہ اس بات کا تہیہ کریں کہ ہم اپنی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں ہو نے دیں گے۔

پاکستان کوچاہیے کے فاٹا میں موجود شدت پسند عناصر کو افغانستان میں کارروائی کرنے سے روکے اور افغانستان کو جذبہ خیر سگالی کے طور پر افغانستان میں مقیم طالبان کو پاکستان میں کارروائی کرنے سے روکناچاہیے اور پاکستان کے مطالبے کے مطابق ملا فضل اللہ کو پاکستان کے حوالے کر دینا چاہیے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس وقت جب افغانستان سے نیٹو فورسز جارہی ہیں اور نئی حکومت بھی بن گئی ہے تو ہمارا مفاد یہ ہونا چاہیے کہ ہم افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کریں لہٰذا پاکستان،ایران،چین اور روس کو چاہیے کہ افغانستان کو پر امن بنانے کے لیے تعاون کریں۔

افغان حکومت کو بھی چاہیے کہ افغانستان میں پاکستان کے خلاف انڈیا کے رول کو کم کریں تاہم افغانستان کی بہتری کیلئے انڈیا کا جو بھی کردار ہوگا پاکستان کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا اورنئی افغان حکومت کو انڈیا کو اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہیے کہ وہ افغانستان کی سر زمین کو فاٹااور بلوچستان میں کارروائیوں کے لیے استعمال کرے۔

اس وقت مڈل ایسٹ میں داعش کے خلاف انٹرنیشنل آپریشن جاری ہے لہٰذا ہمیں محتاط رہنا ہوگا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ داعش اور طالبان کی باقیات آپس میں مل جائیں اور دہشت گردی کی ایک نئی مثال قائم کردیں۔لہٰذا خطے میں امن و استحکام کیلئے پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔صرف اسی صورت میں ہی خطے میں امن قائم ہوسکے گا اور یہ دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔

سلمان عابد (سیاسی تجزیہ نگار)

افغانستان کی تاریخ کا ایک بہت اہم انتخاب اس خطے میں ہوا جس کی حیثیت متنازعہ انتخابات کی صورت میں سامنے آئی اور کسی بھی فریق نے اس کے نتائج پر اطمینان کا اظہار نہیں کیا۔افغانستان کے عوام نے بھی اس انتخاب پر شکوک ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات تو پہلے ہی طے ہو چکی تھی۔لہٰذا جو لوگ افغانستان میں جمہوری حکومت چاہتے ہیں انہیں یہ فیصلہ کسی بھی طور قابل قبول نہ ہوگا کیونکہ یہ حکومت ووٹ سے نہیں بلکہ امریکی دست شفقت سے آئی ہے ۔اشرف غنی نے امریکی دباؤ کی وجہ سے یہ معاہدہ قبول کیا اورعبداللہ عبداللہ کو چیف ایگزیکٹوکا عہدہ دینے پر راضی ہوگئے۔

میرے نزدیک جب یہ معاہدہ آگے چلے گا تو دونوں عہدیداروں کے درمیان بہت سخت اختلافات پیدا ہوں گے۔ دونوںعہدیداروں کا تعلق مختلف لسانی گروپوں سے ہے اور وہ اپنے اپنے قبیلے کے لوگ حکومت میں لانا چاہیں گے جس سے لسانی بنیادوں پر اختیارات کیلئے کھینچا تانی ہوگی جو افغانستان کے لیے اچھا نہیں ہوگا ۔یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ یہ فارمولا ڈرائنگ روم میں بنا ہے اور عوام کی خواہشات کے مطابق نہیں ہے لہٰذا جیسے جیسے معاملات آگے بڑھیں گے پیچیدگیاں پیدا ہوتی جائیں گی۔

طالبان نے اس انتخابات کے عمل اور شراکت اقتدار کو ماننے سے انکار کر دیا ہے لہٰذاآگے چل کر طالبان سے مذاکرات کے معاملے میں بھی ان میں اختلاف سامنے آسکتا ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ امریکا نے اطمینان کا اظہار کیا ہے کہ اب امریکا افغان سکیورٹی معاہدہ ہو سکے گا اور یہ دونوں حضرات معاہدے پر دستخط کرنے پر راضی ہو جائیں گے۔اس وقت تمام ممالک امریکی فوج کے انخلاء کو خوش آئند قرار دے رہے ہیں کہ اب خطے کے حالات بہتر ہوجائیں گے۔ مگرمیرے نزدیک دس ہزارامریکی فوج جو یہاں رہے گی اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

امریکا کی یہ دس ہزار فوج اورپھر افغانستان کے اندرونی معاملات میں امریکا اور انڈیا کا کردار افغانستان کی مستقبل کی سیاست پراثر انداز ہوگا۔اسی تناظر میں دیکھا جائے تو طالبان اور افغان حکومت کے درمیان فاصلہ بھی بڑھے گا جو کسی بھی طور افغانستان کے حق میں نہیں ہے۔ ایک اور اہم بات یہ کہ بھارت افغانستان میں بہت بڑی سرمایہ کاری کر رہا ہے لہٰذا دونوں حکومتی فریقین پر دباؤ ہوگا کہ وہ بھارت کے مفادات کا احترام کریں۔بھارت خطے کے سیاسی حالات کی بہتری میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔بھارت نہیں چاہتا کہ خطے میں کچھ ایسا ہو کہ سب کو برابری کی سطح پر آکر جواب دینا پڑے۔



خطے کی ایسی حالت سے بین الاقوامی قوتیں بہت فائدہ اٹھاتی ہیںکیونکہ خطے میں سیاسی صورتحال بہتر ہونے سے بین الاقوامی قوتوں کا اثر کم ہو جاتا ہے جو ان کے مفاد میں نہیں ہے۔لہٰذا پاکستان،افغانستان اور خاص طور پر بھارت کو خطے کی سیاسی صورتحال کی بہتری کیلئے مل کر کام کرنا چاہیے۔ یہاں جب تک یہ تاثر ختم نہیں ہو جاتا کہ افغانستان کی موجودہ حالت میں پاکستان کا کوئی کردار ہے تب تک تعلقات میں بہتری نہیں آسکتی ،چاہے کوئی بھی حکومت ہو۔اس لئے جب تک اس تاثر کی نفی نہیں ہو گی تب تک اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے ساتھ تعلقات بھی بہتر نہیں ہوسکیں گے۔

حال ہی میں پنجابی طالبان نے پاکستان میں اپنی کارروائیاں بند کرنے کا اعلان کیا اور ہتھیار ڈال دیے مگر ساتھ ہی انہوں نے افغانستان میں اپنی کارروائیاں شروع کرنے کا اعلان بھی کیا۔پاکستان کوان کی حوصلہ شکنی کر نی چاہیے اور انہیں روکنا چاہیے تاکہ پاکستان کی سر زمین افغانستان کے خلاف استعمال نہ ہوسکے۔دوسری طرف کابل سے جو لوگ پاکستان میں کارروائیاں کرتے ہیں ،افغانستان کو بھی چاہیے کہ ان کے لیے لائحہ عمل تیار کرے اورپاکستان میں ان کی کارروائیاں نہ ہونے دے۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ امریکا افغان سکیورٹی معاہدہ پر حکومتی عہدیدار تو تیار ہیں مگر ان کے لویہ جرگہ کو اس پر تحفظات ہیں جبکہ اس معاملے میں افغانستان کی لوکل اشرافیہ بھی کافی سنجیدہ نظر آتی ہے۔ان کا خیال ہے کہ اگر یہ معاہدہ ہو گیا تو امریکا افغانستان پر مزید اثر انداز ہو جائے گا۔

افغانستان میں شراکت اقتدار کا مزید جائزہ لیں تویہ پہلو نظر آتا ہے کہ یہ فارمولا کسی بھی قسم کے فساد سے بچنے کیلئے تیار کیا گیا ہے اور بظاہر یہ بہت اچھا فیصلہ لگ رہا ہے مگر نچلی اور اندرونی سطح پر معاملات بہت گھمبیر ہیں جو کسی بھی وقت خطے کے امن اور افغانستان کے استحکام کیلئے مسئلہ بن سکتے ہیں ۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ افغان امریکا سکیورٹی معاہدے پر حکومت اور طالبان میں ٹکراؤ ہو سکتا ہے اور امریکی مداخلت کی وجہ سے حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔

احسان وائیں (مرکزی رہنما اے این پی)

یہ افغانستان کی تاریخ کا پہلا انتخاب ہے جس کے بعد پر امن انتقا ل اقتدار ہو رہا ہے اس سے پہلے ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس لیے ہمارے سیاستدانوں، دانشوروں، لوگوں اور حکومت نے ان سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ کرلی ہیں کہ افغانستان میں انتقال اقتدار کے نتیجے میں امن قائم ہو جائے گا لیکن اس بات کو نظر انداز کر دیا ہے کہ افغانستان دہشت کردی کے نتیجے میں بالکل تباہ ہو چکا ہے ۔افغانستان میں معیشت نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے اوران کا سارا انحصار بیرونی امداد پر ہے۔

مجھے افسوس ہے کہ افغانستان اور پاکستان کی موجودہ حالت کا ذمہ دار پاکستان ہے اور پاکستان کاوہ ادارہ ہے جسے پاکستان کی فارن پالیسی بنانے کا اختیارتو نہیں تھا مگر اس کی بنائی ہوئی پالیسی کے نتیجے میں ہمیں نقصان اٹھانا پڑا۔ہم افغانستان کواپناحصہ بنانے کی کوشش کرتے رہے جس کے بدلے میں اپنی معیشت تباہ کر لی، ساتھ ہی دہشت گردی بھی لے آئے، کلاشنکوف کلچر متعارف کروایا، یہاں ڈرگ مافیا بنا دیااور اپنے ملکی حالات خراب کرلیے۔ اس وقت طالبان نے افغانستان کی نو منتخب حکومت کی مخالفت کر دی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ یہ سارا کھیل امریکا اور بیرونی طاقتوں کا ہے اس لیے ہم انہیں نہیں مانتے۔طالبان حکومت کی طرف سے کسی بھی ممکنہ کارروائی کے مقابلے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔

یہ بات بالکل واضح ہے کہ افغان نیشنل آرمی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔لہٰذا وہاںان لوگوں کے درمیان اقتدار کیلئے جنگ ہوگی۔اس کے بعد ایک اور جنگ بھی ہو گی جس کیلئے ہمیں ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے وہ یہ کہ جب امریکا افغانستان سے اپنی فوج نکالے گا تو پھر وہاں پر پرو بھارت حکومت کی کوشش ہو گی،پرو امریکا کوشش ہوگی،پرو پاکستان کوشش ہوگی،پرو ایران کوشش ہوگی،وہاں پر بین الاقوامی کوششیں بھی ہوں گی کہ ہمارے مطلب کی حکومت آئے اورپھر وہاں طالبان بھی اپنی حکومت بنانے کی کوشش کریں گے جس کے نتیجے میں وہاں خون خرابہ ہوگا۔



اس سے پہلے 1978ء میں بھی لاکھوں افغان اقتدار کیلئے ہونے والی جنگ میں قتل ہو چکے ہیں۔ کہیں پھر اقتدار کیلئے دوبارہ وہی معاملہ نہ ہوجائے۔ پاکستان کی فوج اس وقت بڑی قربانی دے رہی ہے۔ ضرب عضب بھی کامیابی سے جاری ہے مگرہم سے دہشت گردوں کے خلاف اس آپریشن کے آغاز میں تاخیر ہوئی ہے۔ امریکا کے افغانستان سے نکلنے سے پہلے پہلے پاک فوج کو ان دہشت گردوں کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ اگر یہ امریکا کے جانے سے پہلے دہشت گردی ختم نہیں کریں گے تو اس کے نتیجے میں افغانستان اور پاکستان میں موجودطالبان مل کر دہشت گردی پھیلائیں گے اور دونوں ملکوں میں قیامت برپا کر دیں گے۔

اب اگر افغانستان تباہ ہوگا تو اس کے نتیجے میں پاکستان بھی نہیں بچے گا۔ ہم نے شروع ہی سے افغانستان میں پرو پاکستان حکومت کی کوشش کی ہے اور اس کے نتیجے میں دہشت گردی خریدی ہے۔ اب ہم بڑی مصیبت میں ہیں اس لیے ہمیں ماضی سے سبق سیکھ کراپنی فارن پالیسی میں تبدیلی کر لینی چاہیے۔

یہاں ایک اہم بات یہ ہے کہ حکومتی عہدیداروں میں سے ایک تاجک ہے جسے ازبک اور ہزارہ کے لوگوں کی حمایت حاصل ہے جبکہ دوسرا پختون ہے۔اب پاکستان کی حکومت کو بہت زیادہ محتاط رہنا ہوگا کہ وہاں کسی بھی صورت میں نسل اور زبان کی بنیاد پر جھگڑا نہ ہو۔ کیونکہ ہمارا صوبہ خیبر پختون خواہ اور آدھا بلوچستان بھی پختونوں کا ہے لہٰذا اگر وہاں پر نسل یا زبان کی بنیاد پر فساد ہوا تو اسکے نتیجہ میں پاکستان میں بھی نسل اور زبان کی بنیاد پر فساد برپا ہوجائے گا اور یہ پاکستان کی سالمیت کے لیے خطرہ ہے۔

حافظ سلمان بٹ (مرکزی رہنما جماعت اسلامی)

افغانستان دنیا کے ایسے ملکوں میں سے ہے جو کبھی کسی کے غلام نہیں رہے۔ افغان قوم نے آج تک کسی بیرونی طاقت کی حکمرانی تسلیم نہیں کی۔ اگر ان پر کسی ملک نے قبضہ بھی کیا تو اسے شکست کھانی پڑی اور وہاں دنیا کی بڑی طاقتوں کی شکست کی مثال آپکے سامنے ہیں۔ 90ء کی دہائی میں پاکستان اور امریکا نے وہاں موجود مجاہدین پر اپنی مرضی عائد کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں وہاں خانہ جنگی شروع ہوگئی اور خون خرابہ ہوا۔ آج بھی اگر امریکا افغانستان پر اپنا تسلط قائم کرنے کی کوشش کرے گا تو وہاں کے عوام اسے قبول نہیں کریں گے۔

اس کا بہترین حل یہ ہے کہ بیرونی طاقتیں پیچھے ہٹ جائیں اور افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کریںاوروہاں کے عوام کو خود اپنے معاملات طے کرنے دیں۔ صرف اسی صورت میں افغانستان کے لوگ پر امن ہوں گے جس کے نتیجے میں خطے میں امن قائم ہوجائیگا۔ میرے نزدیک امریکی مک مکا کی حکومت سے کسی کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔ اس کا فائدہ صرف امریکا کو ہے کہ اسے وہاں سے نکلنے کا ایک آسان راستہ مل جائے گا اور پھر وہ دنیا سے کہتا پھرے گا کہ ہم وہاں جمہوریت قائم کر کے نکلنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔



افغانستان اور خطے میں امن کیلئے ضروری ہے کہ افغان مل بیٹھیں اور لویہ جرگہ کے ذریعے اپنے معاملات خود طے کریں ۔ان کا لویہ جرگہ ایک ایسا سسٹم ہے کہ جس میں وہ مذاکرات کرتے ہیں اور بات چیت کے ذریعے بالآخر اپنے اتفاقات پر پہنچ جاتے ہیں۔ کوئی بھی بڑی طاقت چاہے اس کے ساتھ ہمسایہ ممالک ہی شامل کیوں نہ ہوں وہ ان کے معاملات طے نہیں کر سکتی۔افغان خود اپنے معاملات طے کر لیں گے اور اگران سے معاملات طے کرنے میں تاخیر بھی ہوئی تو اس کا حل دیر پا ہوگا۔نو منتخب افغان حکومت امریکا کی مرہون منت ہے۔ اشرف غنی کو صدر بنانے کے پیچھے بھی امریکا کے اپنے مفادات چھپے ہوئے ہیں۔

اشرف غنی کا تعلق پشتون قبیلے سے ہے اور وہ وہاں مضبوط پوزیشن میں ہیں ۔لہٰذا وہ پشتون جنگجو،طالبان اور حقانی نیٹ ورک سے مذاکرات کرکے معاملات حل کرنے کی کوشش کریں گے۔ ریاست پاکستان کو ان کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے ۔وہ ہمارے بھائی ہیں، ان کے ساتھ ہمارا دین اور خون کا رشتہ ہے اوروہ سب ہمارے لیے برابر ہیں لہٰذا ہمیں انہیں اپنا کام کرنے دینا چاہیے اور اپنی مرضی کا کوئی بھی سسٹم بنانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ شراکت اقتدار کی اگر بات کی جائے تو اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ امریکا کے کہنے پر اکٹھے ہوئے ہیں اوریہ دونوں امریکا ہی کے نظام کا حصہ رہے ہیں۔

ان کے پاس اپنی کوئی پالیسی نہیں ہے لہٰذاانہیں امریکا جوکہے گا انہیں ماننا پڑے گا اوریہ اس کے بغیرنہیں چل سکتے ۔پاکستان میں بھی یہی ہو رہا ہے کہ جو امریکا کہتا ہے ہم وہی کرتے ہیں اسی طرح جو وہ ان کو کہے گا وہ بھی کریں گے۔ امریکا کی پالیسی یہ ہے کہ جس حکومت کا اثر و رسوخ کم ہوجاتا ہے امریکا اس کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے اور ایسی نئی حکومت پر دست شفقت رکھتا ہے جو پہلے سے ہی ہاتھ میں کشکول لیے ہوئے کھڑی ہوتی ہے ۔ حامد کرزئی نے امریکا کے ساتھ معاہدہ کرنے سے انکار کر دیا تھا اس لیے امریکا نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کرزئی کو چھوڑ کر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کا انتخاب کرلیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں