سوائے درد کوئی ہم سفر بھی ہے کہ نہیں ’’ کام والی ‘‘ شہزادی
بہت بے حس ہیں لوگ۔ وہ سب کو ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں، ان کی نظر میں ہر کام کرنے والی عورت بدکردار ہوتی ہے
LONDON:
اس کا دن اندھیرے سے شروع ہوکر اندھیرے پر ختم ہوتا ہے اور نہ جانے ہوتا بھی ہے کہ نہیں۔ تھکن، بوریت اور طبیعت کی خرابی اس کی لغت میں نہیں ہے۔
اس نے نہ جانے کیسے کیسے خواب دیکھے تھے ہر لڑکی کی طرح خوب صورت اور سہانے خواب۔ لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ ہر خواب کی تعبیر بھی خواہش کے مطابق ہو۔ زندگی اس کے لیے بھاری پتھر بن گئی ہے، خواب عذاب ہوگئے ہیں۔ لیکن اب اسے اپنی نہیں، اپنے چار معصوم بچوں کی زندگی سنوارنی ہے۔
خواب دیکھنا اس نے اب بھی نہیں چھوڑا، لیکن ان خوابوں کی دنیا بدل گئی ہے اب وہ اپنے معصوم، پیارے اور سہمے ہوئے بچوں کے سہانے مستقبل کے خواب دیکھتی ہے اس کے لیے اب راستے کی کوئی رکاوٹ مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ تو صرف ایک ہی ہے اپنے بچوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیرنا، انھیں شرارت کرتے دیکھنا اور خوشی و سرمستی میں ان کے قہقہے سننا۔ وقت و حالات نے اس کے بچوں سے معصومیت، بچپن، شرارتیں، فرمائشیں اور ضد چھین لی ہے اور انھیں ڈر، خوف اور طعنے دیے ہیں۔ بلا کی صابر ماں اور اس سے زیادہ صبر کرنے والے معصوم بچے! اب وہ کسی کا اترن پہن کر خاموش ہوجاتے ہیں۔ بچا ہوا کھانا کھاکر صبر کرتے ہیں اور ماں کی غیرموجودگی میں پورا گھر سنبھالتے ہیں۔
ضد کیا ہوتی ہے؟ وہ یہ سب کچھ بھول گئے ہیں۔ اس کے یہ سیاہ دن کب ختم ہوں گے؟ اتنی صابر ماں کو سماج نے کیا دیا ہے؟ طعنے اور کیا دے سکتا تھا یہ سماج؟ بعض بے حسوں نے اس کے کردار پر حرف زنی کی اور اس نے سب کچھ برداشت کیا۔
مجھے اس کے متعلق بہت کچھ معلوم تھا لیکن میں اس کی زبانی یہ سب سننا چاہتا تھا۔ وہ راضی نہیں تھی، وہ کیوں اپنی بپتا مجھے سناتی؟ کیوں مجھ پر اعتماد کرتی؟ آخر کیوں؟ کیا میں اس سماج سے الگ کوئی فرد تھا؟ اور پھر سچی بات تو یہ ہے کہ کسی اخبار نویس پر کم ہی لوگ اعتبار کرتے ہیں۔ ہم نے خود اپنا اعتبار کھودیا ہے۔ کیا ہم اسے بحال کرا سکیں گے؟ ابھی کچھ دن پہلے ہی وہ ایک مشہور ٹی وی آرٹسٹ کی کرایہ دار تھی۔
جب وہ دو ماہ کا کرایہ نہ دے سکی تو اسے '' کیا ہم نے سارے غریبوں کا ٹھیکا اٹھایا ہوا ہے، بچوں کو یتیم خانے میں جمع کراؤ اور خود اپنا ٹھکانا ڈھونڈو، ہمارا مکان خالی کرو'' سننے کو ملا۔ پھر اس نے ایک کچی بستی میں چھوٹا سا کھنڈر کرائے پر حاصل کیا اور وہاں رہنے لگی۔ اس کے کھنڈر، جی ہاں اسے مکان کہنا غلط ہوگا، کے ٹوٹے ہوئے دروازے پر جب میں نے دستک دی تو ایک معصوم بچی نے دروازہ کھولا اور پھر اس نے اپنی آپ بیتی شروع کی۔ آپ میں ہمت ہے تو سنیے۔ سعود عثمانی نے کہا تھا:
نظام شام و سحر سے مفر بھی ہے کہ نہیں
فصیل درد مسلسل میں در بھی ہے کہ نہیں
سواد شام سے نور سحر کی منزل تک
سوائے درد کوئی ہم سفر بھی ہے کہ نہیں
بھائی جان! آپ تو پریشان ہوگئے۔ کیا کہانی سناؤں؟ سب قسمت کی باتیں ہیں، نصیب کا لکھا ہے اور نصیبوں کا لکھا کون مٹا سکتا ہے؟ انسان خود تو اپنی تقدیر لکھتا نہیں ہے۔ لکھنے والا لکھتا ہے وہ جیسی چاہے لکھ دے۔ اپنی طرف سے ہر آدمی اچھا سوچتا ہے، اچھا پروگرام بناتا ہے۔ کیا یہ ضروری بھی ہے کہ آدمی جو پروگرام بنائے وہی اچھا بھی ہو۔ اوپر والا تو اپنا پروگرام بناتا ہے۔ کس سے گلہ کریں؟ اﷲ سے ہی کرتی ہوں اور دعا مانگتی ہوں کہ اب مجھے اتنی ہمت بھی دے کہ یہ جو تو نے میرے نصیب میں لکھا ہے اسے صبر سے برداشت کروں، ان ننھی جانوں کو پال پوس لوں۔
میرے سات بھائی ہیں اور میں ان کی اکلوتی بہن ہوں۔ مجھے سب گھر والے پیار سے ''شہزادی'' کہتے تھے۔ کہتے تو اب بھی ہیں لیکن بھائی! اب میں کہاں کی شہزادی رہ گئی ہوں۔ ہمارے ماں باپ کا گذر بسر اچھا تھا۔ بھائی تو کچھ پڑھ پڑھا گئے، اپنے اپنے کام سے لگ گئے۔ مجھے ماں باپ نے نہیں پڑھایا۔ ویسے بھی ہمارے ہاں لڑکیوں کو نہیں پڑھاتے۔ وہ کہتے ہیں کیوں پڑھائیں؟ کیا ہم نے اس سے نوکری کرانی ہے؟ لیکن بھائی اب مجھے پتہ چلا کہ لڑکیوں کو تو پڑھانا زیادہ ضروری ہے۔
اس سے اونچ نیچ کا پتہ چلتا ہے۔ لڑکی کو ساری زندگی تو ماں باپ کے پاس رہنا نہیں ہوتا کہ لاڈ پیار سے رکھیں، دوسرے گھر جانا ہوتا ہے اسے وہاں کیا دیکھنے کو ملے؟ کسے کیا معلوم؟ ماں باپ کے گھر دن اچھے گزرے۔ پھر میری شادی ہوگئی۔ ہمارے ایک عزیز سیال کوٹ میں رہتے ہیں، انہوں نے رشتہ بھیجا، لڑکا اچھا کماتا کھاتا تھا۔ اس طرح میری شادی ہوگئی اور میں سیالکوٹ چلی گئی۔ میرا شوہر کام کرتا تھا، کام کیا کرتا تھا؟ ابھی بتاتی ہوں۔ شروع کے دن بہت اچھے گزرے۔
وہ صبح جاتا اور شام کو واپس آجاتا میں پوچھتی کیا کام کرتے ہو تو کہتا مزدوری کرتا ہوں، تمہیں خرچے سے مطلب ہے، اپنا خرچہ لو اور کیا پولیس والوں کی طرح پوچھ گچھ کرتی رہتی ہو؟ میں خاموش ہوجاتی اور پھر ہمارے ادھر کا ماحول بھی ایسا ہے کہ شوہر سے بیوی پوچھنے کی جرأت نہیں کرسکتی کہ وہ کیا کرتا ہے؟ پیسے پورے ملتے تھے، ساس سسر ساتھ تھے، گزارا اچھا ہو رہا تھا۔ مجھے اﷲ نے دو بیٹیاں اور دو بیٹے دیے۔ یہ آپ کے سامنے ہیں۔
ایک دن پولیس والے ہمارے گھر آئے اور میرے سسر سے کہا،''تمہارا بیٹا حوالات میں ہے، اس سے مل لو'' میں بہت پریشان ہوئی لیکن سسر صاحب آرام سے بیٹھے رہے۔ میں نے کہا کیا ہوا؟ تو انہوں نے کہا،''آرام سے بیٹھ جا، تیرے کو کیا مصیبت ہے؟ ہم خود سنبھال لیں گے۔'' میں نے کھوج لگائی تو پتا چلا کہ میرا شوہر شراب بیچتا تھا اور پکڑا گیا ہے۔ میں تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہی تھی۔ میں سوچتی تھی وہ اچھا آدمی ہے، نوکری کرتا ہے، مزدوری کرتا ہے، ہمارا خیال رکھتا ہے۔
مجھے کیا پتا تھا کہ وہ ہم سب کو حرام کھلا رہا ہے۔ اﷲ میاں سے آج تک معافی مانگتی ہوں کہ ہمیں معاف کردے۔ اس کے گناہوں کی سزا مجھے اور میرے معصوم بچوں کو نہ دے۔ بھائی! پھر یہ ہوا کہ اسے سزا ہوگئی۔ مقدمہ بازی ہوتی رہی۔ دو سال بعد وہ جیل سے رہا ہوکر گھر آگیا۔ گھر کا سب کچھ ختم ہوگیا تھا۔ برے کام کا برا انجام ہوتا ہے۔ حرام کے مال میں برکت نہیں ہوتی اور میں تو سوچتی ہوں اچھا ہی ہوا کہ وہ پکڑا گیا۔ اگر نہیں پکڑا جاتا تو ہم ساری زندگی حرام ہی کھارہے ہوتے۔
جیل سے رہا ہوکر وہ گھر آیا تو کم زور ہوگیا تھا۔ سگریٹ تو وہ شروع سے پیتا تھا۔ ایک دن میں چھت پر گئی تو میں نے دیکھا کہ وہ سفید سا پوڈر سگریٹ میں ڈال رہا ہے۔ میں نے پوچھا یہ کیا کررہے ہو؟ تو کہنے لگا تم جاؤ دفع ہوجاؤ، میں کچھ بھی کر رہا ہوں تمہیں اس سے کیا؟ پھر جو اس نے مجھے مارنا شروع کیا تو بتا نہیں سکتی۔
ساس سسر تو قریب بھی نہیں آئے۔ مار پٹائی کے دوران اس کی جیب سے ایک پڑیا گرگئی جو میں نے اٹھالی۔ دوسرے دن میں نے اپنے پڑوسی سے پوچھا کہ یہ کیا ہے تو اس نے بتایا کہ یہ ہیروئن ہے۔ بس بھائی! جب سے میری زندگی برباد ہوگئی۔ جیل میں اسے کسی نے یہ لت لگادی تھی۔ میں نے اپنے ماں باپ کو لکھا تو انہوں نے کہا،''ہم نے تمہاری شادی کرادی ہے۔ وہ اب جیسا بھی ہے تمہارا شوہر ہے۔ اس کے ساتھ گزارا کرو، تم اب اکیلی جان تو ہو نہیں، تمہارے چار بچے ہیں۔ صبر کرو۔''
تو بھائی میں کیا کرتی، صبر کرلیا۔ سارا زیور، سارا سامان ایک ایک کرکے بک گیا، کچھ پلے نہ رہا۔ سسر کا انتقال ہوگیا، عزیز رشتے دار آئے، میرا شوہر تو ملنگ بن گیا تھا۔ وہ آج بھی لاہور کے ایک مزار پر موجود ہے، بھیک مانگتا ہے اور ہیروئن پیتا ہے۔ اسے تو سب کچھ وہاں مل جاتا ہے، میں عورت ذات کیا کرتی؟ ایک رشتے دار سے کچھ پیسے لیے اور کراچی آگئی۔ مجھے روزانہ میری ساس کہتی تھی، اب یہاں کیا رکھا ہے جو تو یہاں بیٹھی ہے۔ جا اپنے بچوں کو لے کر ماں باپ کے پاس۔
میں ماں باپ کے پاس کراچی پہنچی۔ کچھ دن یہاں رہی تو بھابھی کا رویہ اچھا نہیں تھا۔ ماں باپ بھی اتنے ساہو کار نہیں ہیں کہ میرا خرچ برداشت کرتے۔ میں نے سوچا کب تک ان پر بوجھ بنوں گی۔ میں نے کام کی تلاش شروع کی۔ محلے کی ایک عورت نے ایک مکان کرائے پر دلا دیا۔ مجھے بعد میں پتا چلا کہ یہ تو اداکارہ کا مکان ہے۔ میں وہاں کام کرنے لگی۔ برتن دھونا، پونچھا لگانا۔ شروع میں تو مجھے بہت رونا آیا اور سچی بات یہ ہے کہ میں نے اپنی آنکھیں لال کرلیں۔ پھر یہ ہونے لگا کہ میں روتی تو بچے بھی رونے لگتے۔ میں نے سوچا یہ رونے دھونے سے کام نہیں چلے گا۔ پھر بچوں نے کیا قصور کیا ہے کہ یہ روئیں۔ بس بھائی میں نے رونا دھونا ختم کیا اور ہمت کرکے خود میدان میں آگئی۔
آپ لوگوں کے رویوں کا پوچھ رہے ہیں، تو یہ نہ پوچھیں۔ بہت بے حس ہیں لوگ۔ وہ سب کو ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں، ان کی نظر میں ہر کام کرنے والی عورت بدکردار ہوتی ہے۔ یہاں پر بے سہارا عورت پر ہر ایک نظر رکھتا ہے۔ ہر ایک ہم دردی کے روپ میں اسے گم راہ کرنے کی کوشش کرتا ہے اور جب کوئی گم راہ ہوجائے تو اسے زندہ در گور کردیتے ہیں۔ اس کی نسلیں بھی اس کی گم راہی کے چرچے سنتی ہیں اور خود کیا ہیں یہ شریف لوگ؟ سب جانتے ہیں۔ لیکن کہتے ہیں کہ پیسہ آپ کی برائی بھی اچھائی بنا دیتا ہے۔
میں کچھ کہنا نہیں چاہتی لوگوں کے بارے میں۔ لوگ ایسے ایسے روپ میں ملے ہیں کہ آپ نہ ہی پوچھیں۔ کیا فائدہ ہے گندگی میں تنکے مارنے کا۔ اس سے بدبو کے سوا کیا مل سکتا ہے؟ یہاں پر زندہ رہنا بہت مشکل ہے۔ میں تو کہوں گی کہ عورت اس وقت تک زندہ رہتی ہے جب تک اس کا کردار سلامت اور ضمیر زندہ رہتا ہے۔ کردار اور ضمیر کے بغیر تو زندہ عورت بھی مردہ ہوتی ہے اور مردہ کو کیا ہے؟ آپ جو چاہیں سمجھ لیں، جو چاہیں کہہ لیں، جیسا چاہیں سلوک کریں۔
دن گزرتے گئے، کام اتنا تھا نہیں، مجھ پر دو ماہ کا کرایہ چڑھ گیا، ایک دن اس اداکارہ نے کہا،''کیا ہم نے سارے غریبوں کا ٹھیکا اٹھایا ہوا ہے۔ بچوں کو یتیم خانے میں داخل کراؤ اور خود اپنا ٹھکانا ڈھونڈو۔ ہمارا مکان خالی کردو۔'' مجھے اتنا افسوس ہوا جو میرا دل دکھا وہ خدا ہی جانتا ہے۔ میں نے کوشش کی، ہمت کی اور یہ مکان کرائے پر لیا۔ پیسے تھے نہیں ادھار لیے۔ یہاں کام بھی مل گیا ہے، صبح منہ اندھیرے گھر سے نکلتی ہوں۔ ایک اسکول کی صفائی کرتی ہوں۔ پھر اسکول کے قریب کے تین گھروں میں برتن دھونا، صفائی ستھرائی، پونچھا لگاتی ہوں، دوپہر میں چار گھروں کے کپڑے دھونا ہوتے ہیں، کبھی زیادہ کبھی کم، محلے میں کسی کے گھر کوئی تقریب ہو تو وہاں کام کے لیے چلی جاتی ہوں۔
اب میں یہاں ''کام والی'' مشہور ہوگئی ہوں۔ کام ایمان داری سے کرتی ہوں اس لیے لوگ مجھ پر بھروسا کرتے ہیں۔ اگر کبھی وقت مل جائے تو سلائی کرلیتی ہوں۔ کام سے جی نہیں چراتی، محنت کرتی ہوں اﷲ دیتا بھی ہے۔ سارے برے نہیں ہوتے، کچھ اچھے بھی ہوتے ہیں۔ وہ اپنا بچا ہوا کھانا دے دیتے ہیں تو گھر لے آتی ہوں۔ بچے اور میں کھاکر گزارا کرتے ہیں۔ اسی طرح کپڑے مل جاتے ہیں جب میں اپنے بچوں کو اترن کے کپڑے پہناتی ہوں تو دل میں ہوک اٹھتی ہے، آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔ خود پہنوں تو کچھ محسوس نہیں ہوتا۔ خرچ زیادہ ہے، دکھ بیماری ہے، ابھی بچیوں کو اسکول میں داخل کرایا ہے۔ وہاں بچے تنگ کرتے ہیں۔ معلوم نہیں اسکول کے بچوں کو کس نے بتا دیا ہے۔ کہتے ہیں تمہارا باپ ہیروئنچی ہے، فقیر ہے، تو وہ بہت دکھی ہوتے ہیں۔ اب تو میں نے کہہ دیا کہ سب کو کہہ دو ہمارا باپ مرگیا ہے، ہمارا صرف اﷲ ہے۔ ماں باپ میری کیا مدد کریں گے؟ وہ اپنا گزارا کرلیں تو اچھا ہے۔
پچھلے مہینے میں اپنی بھابھی کے گھر گئی تو اس نے کہا تم اپنی بچیوں کے لیے میرے بیٹوں پر نظر نہ رکھو، ہم کسی اچھی جگہ ان کا رشتہ کریں گے۔ یہ تو حال ہے بھائی رشتے داروں کا۔ آپ کہہ رہے ہیں بھائیوں کی مدد کا۔ ایک بھائی کے گھر ولادت ہوئی تو اس نے کہا ہمارے گھر کا کام بھی کردیا کرو۔ میں نے کردیا تو اس نے پانچ سو روپے دیے اور کہا روزانہ کردیا کرو اور مہینے کے پانچ سو لے لیا کرو۔ آپ معلوم نہیں کون سی دنیا میں رہتے ہیں؟ یہاں کوئی عزیز، کوئی رشتہ نہیں ہے۔ سب مطلبی ہیں۔
آپ کے پاس دھن دولت ہے تو سب رشتے دار ہیں، نہیں ہے تو کوئی بھی نہیں ہے بلکہ وہ آپ سے کنی کتراتے ہیں کہ ہم سے کچھ نہ مانگ لیں۔ ہم محنت بھی کرتے ہیں اور لوگ ہم پر احسان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ہم نے تمہیں ترس کھاکر کام پر رکھا ہے، اگر نہیں کرو گی تو بھوک سے مرجاؤ گی۔ یہاں تو سب خدا بن گئے ہیں۔ کوئی بندہ بننے کو تیار ہی نہیں ہے۔ جس کے پاس پیسا ہے وہ سمجھتا ہے ساری دنیا اس کی غلام ہے اور وہ ان سب کو روزی، رزق دیتا ہے۔
میرے بچے بہت اچھے ہیں، کوئی ضد نہیں کرتے، جو کچھ دوں لے لیتے ہیں، جو پہناؤ پہن لیتے ہیں، لیکن محلے کے بچوں نے ان کا جینا حرام کر رکھا ہے اس لیے اب میں انھیں باہر نہیں نکلنے دیتی۔ ویسے بھی زمانہ بہت خراب ہے۔ میں نے انھیں کہا ہے کہ اسکول سے آکر دروازہ اندر سے بند کرلیا کرو۔ وہ اسی طرح کرتے ہیں۔ ابھی تھوڑے دن پہلے چھوٹے والے نے کہا امی عید پر مجھے ہوائی جہاز دلانا، میں نے کہا اچھا بیٹا اﷲ سے دعا کرو کہ وہ جہاز دے گا۔ محنت کروں گی اور اپنے بچوں کے لیے نئے کپڑے بناؤں گی۔ انہیں عید پر اترن نہیں پہناؤں گی۔ اس کے لیے میں نے کچھ پیسے جمع بھی کرلیے ہیں۔
ایک مرتبہ ایک پولیس والا میرا ہم درد بن کر آگیا۔ وہ ہمارے محلے میں ہی رہتا ہے، کہنے لگا آؤ تمہیں کسی بنگلے پر کام دلا دیتا ہوں، وہاں تمہیں بہت پیسے ملیں گے، یہ غریب لوگ ہیں بہت کم پیسے دیتے ہیں۔ میں نے کہا نہیں بھائی مجھے زیادہ پیسے نہیں چاہئیں، اپنی عزت چاہیے۔
اس نے بہت اصرار کیا مگر میرے انکار پر چلا گیا۔ جب میں شروع میں یہاں آئی اور کام کے لیے صبح سویرے جانے لگی تو محلے کی عورتوں نے کہا یہ اچھی عورت نہیں ہے۔ نہ جانے کہاں جاتی ہے اور پھر رات کو آتی ہے، میری جیسی عورت کو یہی سننے کو ملتا ہے۔ کسی سے کیا گلہ کروں۔ ابتدا میں مجھے بہت برا لگتا تھا، میرا خون کھولتا تھا، مگر اب میں عادی ہوگئی ہوں۔ مجھے اﷲ جانتا ہے، بس یہ بہت ہے میں کیوں سارے لوگوں کو صفائی پیش کرتی پھروں۔
آپ کہہ رہے تھے، اتنا کام کرکے تھکن ہوجاتی ہے تو بھائی میں بھی انسان ہوں، بہت تھک جاتی ہوں۔ کبھی دل بھی نہیں چاہتا مگر میں نے خود کو مار لیا ہے اور فیصلہ کرلیا ہے کہ ساری زندگی محنت کروں گی۔ اﷲ اس کا صلہ دے گا، میرے بچے پڑھ لکھ جائیں گے۔ اﷲ سُکھ کے دن بھی دکھائے گا۔ یہ میرا ایمان ہے۔
انسان پر ایسے دن بھی آتے ہیں۔ اسے ہمت سے برداشت سے صبر سے کام لینا چاہیے اور اپنی محنت کرنی چاہیے۔ میرا خواب یہ ہے کہ میرے بچے کسی قابل ہوجائیں۔ وہ پڑھ لکھ جائیں اور خدا نے چاہا تو ایسا ضرور ہوگا۔ میں ان کی صرف ماں نہیں ہوں، باپ بھی ہوں، میں انہیں اچھا انسان بناؤں گی، اﷲ میری مدد کرے گا، بس یہ ہے میری کہانی اور کیا ہے؟ میں کسی کو یہ نہیں سناتی اس لیے کہ لوگ سن کر اور مذاق اڑاتے ہیں۔ یہ وہ زمانہ تو ہے نہیں کوئی سن کر آپ کی ہمت بڑھائے گا، حوصلہ دے گا بلکہ الٹا زمانہ ہے جو غریب ہے اسے ستاؤ، اتنا ستاؤ کہ وہ زندگی سے بے زار آجائے!
اس کا دن اندھیرے سے شروع ہوکر اندھیرے پر ختم ہوتا ہے اور نہ جانے ہوتا بھی ہے کہ نہیں۔ تھکن، بوریت اور طبیعت کی خرابی اس کی لغت میں نہیں ہے۔
اس نے نہ جانے کیسے کیسے خواب دیکھے تھے ہر لڑکی کی طرح خوب صورت اور سہانے خواب۔ لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ ہر خواب کی تعبیر بھی خواہش کے مطابق ہو۔ زندگی اس کے لیے بھاری پتھر بن گئی ہے، خواب عذاب ہوگئے ہیں۔ لیکن اب اسے اپنی نہیں، اپنے چار معصوم بچوں کی زندگی سنوارنی ہے۔
خواب دیکھنا اس نے اب بھی نہیں چھوڑا، لیکن ان خوابوں کی دنیا بدل گئی ہے اب وہ اپنے معصوم، پیارے اور سہمے ہوئے بچوں کے سہانے مستقبل کے خواب دیکھتی ہے اس کے لیے اب راستے کی کوئی رکاوٹ مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ تو صرف ایک ہی ہے اپنے بچوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیرنا، انھیں شرارت کرتے دیکھنا اور خوشی و سرمستی میں ان کے قہقہے سننا۔ وقت و حالات نے اس کے بچوں سے معصومیت، بچپن، شرارتیں، فرمائشیں اور ضد چھین لی ہے اور انھیں ڈر، خوف اور طعنے دیے ہیں۔ بلا کی صابر ماں اور اس سے زیادہ صبر کرنے والے معصوم بچے! اب وہ کسی کا اترن پہن کر خاموش ہوجاتے ہیں۔ بچا ہوا کھانا کھاکر صبر کرتے ہیں اور ماں کی غیرموجودگی میں پورا گھر سنبھالتے ہیں۔
ضد کیا ہوتی ہے؟ وہ یہ سب کچھ بھول گئے ہیں۔ اس کے یہ سیاہ دن کب ختم ہوں گے؟ اتنی صابر ماں کو سماج نے کیا دیا ہے؟ طعنے اور کیا دے سکتا تھا یہ سماج؟ بعض بے حسوں نے اس کے کردار پر حرف زنی کی اور اس نے سب کچھ برداشت کیا۔
مجھے اس کے متعلق بہت کچھ معلوم تھا لیکن میں اس کی زبانی یہ سب سننا چاہتا تھا۔ وہ راضی نہیں تھی، وہ کیوں اپنی بپتا مجھے سناتی؟ کیوں مجھ پر اعتماد کرتی؟ آخر کیوں؟ کیا میں اس سماج سے الگ کوئی فرد تھا؟ اور پھر سچی بات تو یہ ہے کہ کسی اخبار نویس پر کم ہی لوگ اعتبار کرتے ہیں۔ ہم نے خود اپنا اعتبار کھودیا ہے۔ کیا ہم اسے بحال کرا سکیں گے؟ ابھی کچھ دن پہلے ہی وہ ایک مشہور ٹی وی آرٹسٹ کی کرایہ دار تھی۔
جب وہ دو ماہ کا کرایہ نہ دے سکی تو اسے '' کیا ہم نے سارے غریبوں کا ٹھیکا اٹھایا ہوا ہے، بچوں کو یتیم خانے میں جمع کراؤ اور خود اپنا ٹھکانا ڈھونڈو، ہمارا مکان خالی کرو'' سننے کو ملا۔ پھر اس نے ایک کچی بستی میں چھوٹا سا کھنڈر کرائے پر حاصل کیا اور وہاں رہنے لگی۔ اس کے کھنڈر، جی ہاں اسے مکان کہنا غلط ہوگا، کے ٹوٹے ہوئے دروازے پر جب میں نے دستک دی تو ایک معصوم بچی نے دروازہ کھولا اور پھر اس نے اپنی آپ بیتی شروع کی۔ آپ میں ہمت ہے تو سنیے۔ سعود عثمانی نے کہا تھا:
نظام شام و سحر سے مفر بھی ہے کہ نہیں
فصیل درد مسلسل میں در بھی ہے کہ نہیں
سواد شام سے نور سحر کی منزل تک
سوائے درد کوئی ہم سفر بھی ہے کہ نہیں
بھائی جان! آپ تو پریشان ہوگئے۔ کیا کہانی سناؤں؟ سب قسمت کی باتیں ہیں، نصیب کا لکھا ہے اور نصیبوں کا لکھا کون مٹا سکتا ہے؟ انسان خود تو اپنی تقدیر لکھتا نہیں ہے۔ لکھنے والا لکھتا ہے وہ جیسی چاہے لکھ دے۔ اپنی طرف سے ہر آدمی اچھا سوچتا ہے، اچھا پروگرام بناتا ہے۔ کیا یہ ضروری بھی ہے کہ آدمی جو پروگرام بنائے وہی اچھا بھی ہو۔ اوپر والا تو اپنا پروگرام بناتا ہے۔ کس سے گلہ کریں؟ اﷲ سے ہی کرتی ہوں اور دعا مانگتی ہوں کہ اب مجھے اتنی ہمت بھی دے کہ یہ جو تو نے میرے نصیب میں لکھا ہے اسے صبر سے برداشت کروں، ان ننھی جانوں کو پال پوس لوں۔
میرے سات بھائی ہیں اور میں ان کی اکلوتی بہن ہوں۔ مجھے سب گھر والے پیار سے ''شہزادی'' کہتے تھے۔ کہتے تو اب بھی ہیں لیکن بھائی! اب میں کہاں کی شہزادی رہ گئی ہوں۔ ہمارے ماں باپ کا گذر بسر اچھا تھا۔ بھائی تو کچھ پڑھ پڑھا گئے، اپنے اپنے کام سے لگ گئے۔ مجھے ماں باپ نے نہیں پڑھایا۔ ویسے بھی ہمارے ہاں لڑکیوں کو نہیں پڑھاتے۔ وہ کہتے ہیں کیوں پڑھائیں؟ کیا ہم نے اس سے نوکری کرانی ہے؟ لیکن بھائی اب مجھے پتہ چلا کہ لڑکیوں کو تو پڑھانا زیادہ ضروری ہے۔
اس سے اونچ نیچ کا پتہ چلتا ہے۔ لڑکی کو ساری زندگی تو ماں باپ کے پاس رہنا نہیں ہوتا کہ لاڈ پیار سے رکھیں، دوسرے گھر جانا ہوتا ہے اسے وہاں کیا دیکھنے کو ملے؟ کسے کیا معلوم؟ ماں باپ کے گھر دن اچھے گزرے۔ پھر میری شادی ہوگئی۔ ہمارے ایک عزیز سیال کوٹ میں رہتے ہیں، انہوں نے رشتہ بھیجا، لڑکا اچھا کماتا کھاتا تھا۔ اس طرح میری شادی ہوگئی اور میں سیالکوٹ چلی گئی۔ میرا شوہر کام کرتا تھا، کام کیا کرتا تھا؟ ابھی بتاتی ہوں۔ شروع کے دن بہت اچھے گزرے۔
وہ صبح جاتا اور شام کو واپس آجاتا میں پوچھتی کیا کام کرتے ہو تو کہتا مزدوری کرتا ہوں، تمہیں خرچے سے مطلب ہے، اپنا خرچہ لو اور کیا پولیس والوں کی طرح پوچھ گچھ کرتی رہتی ہو؟ میں خاموش ہوجاتی اور پھر ہمارے ادھر کا ماحول بھی ایسا ہے کہ شوہر سے بیوی پوچھنے کی جرأت نہیں کرسکتی کہ وہ کیا کرتا ہے؟ پیسے پورے ملتے تھے، ساس سسر ساتھ تھے، گزارا اچھا ہو رہا تھا۔ مجھے اﷲ نے دو بیٹیاں اور دو بیٹے دیے۔ یہ آپ کے سامنے ہیں۔
ایک دن پولیس والے ہمارے گھر آئے اور میرے سسر سے کہا،''تمہارا بیٹا حوالات میں ہے، اس سے مل لو'' میں بہت پریشان ہوئی لیکن سسر صاحب آرام سے بیٹھے رہے۔ میں نے کہا کیا ہوا؟ تو انہوں نے کہا،''آرام سے بیٹھ جا، تیرے کو کیا مصیبت ہے؟ ہم خود سنبھال لیں گے۔'' میں نے کھوج لگائی تو پتا چلا کہ میرا شوہر شراب بیچتا تھا اور پکڑا گیا ہے۔ میں تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہی تھی۔ میں سوچتی تھی وہ اچھا آدمی ہے، نوکری کرتا ہے، مزدوری کرتا ہے، ہمارا خیال رکھتا ہے۔
مجھے کیا پتا تھا کہ وہ ہم سب کو حرام کھلا رہا ہے۔ اﷲ میاں سے آج تک معافی مانگتی ہوں کہ ہمیں معاف کردے۔ اس کے گناہوں کی سزا مجھے اور میرے معصوم بچوں کو نہ دے۔ بھائی! پھر یہ ہوا کہ اسے سزا ہوگئی۔ مقدمہ بازی ہوتی رہی۔ دو سال بعد وہ جیل سے رہا ہوکر گھر آگیا۔ گھر کا سب کچھ ختم ہوگیا تھا۔ برے کام کا برا انجام ہوتا ہے۔ حرام کے مال میں برکت نہیں ہوتی اور میں تو سوچتی ہوں اچھا ہی ہوا کہ وہ پکڑا گیا۔ اگر نہیں پکڑا جاتا تو ہم ساری زندگی حرام ہی کھارہے ہوتے۔
جیل سے رہا ہوکر وہ گھر آیا تو کم زور ہوگیا تھا۔ سگریٹ تو وہ شروع سے پیتا تھا۔ ایک دن میں چھت پر گئی تو میں نے دیکھا کہ وہ سفید سا پوڈر سگریٹ میں ڈال رہا ہے۔ میں نے پوچھا یہ کیا کررہے ہو؟ تو کہنے لگا تم جاؤ دفع ہوجاؤ، میں کچھ بھی کر رہا ہوں تمہیں اس سے کیا؟ پھر جو اس نے مجھے مارنا شروع کیا تو بتا نہیں سکتی۔
ساس سسر تو قریب بھی نہیں آئے۔ مار پٹائی کے دوران اس کی جیب سے ایک پڑیا گرگئی جو میں نے اٹھالی۔ دوسرے دن میں نے اپنے پڑوسی سے پوچھا کہ یہ کیا ہے تو اس نے بتایا کہ یہ ہیروئن ہے۔ بس بھائی! جب سے میری زندگی برباد ہوگئی۔ جیل میں اسے کسی نے یہ لت لگادی تھی۔ میں نے اپنے ماں باپ کو لکھا تو انہوں نے کہا،''ہم نے تمہاری شادی کرادی ہے۔ وہ اب جیسا بھی ہے تمہارا شوہر ہے۔ اس کے ساتھ گزارا کرو، تم اب اکیلی جان تو ہو نہیں، تمہارے چار بچے ہیں۔ صبر کرو۔''
تو بھائی میں کیا کرتی، صبر کرلیا۔ سارا زیور، سارا سامان ایک ایک کرکے بک گیا، کچھ پلے نہ رہا۔ سسر کا انتقال ہوگیا، عزیز رشتے دار آئے، میرا شوہر تو ملنگ بن گیا تھا۔ وہ آج بھی لاہور کے ایک مزار پر موجود ہے، بھیک مانگتا ہے اور ہیروئن پیتا ہے۔ اسے تو سب کچھ وہاں مل جاتا ہے، میں عورت ذات کیا کرتی؟ ایک رشتے دار سے کچھ پیسے لیے اور کراچی آگئی۔ مجھے روزانہ میری ساس کہتی تھی، اب یہاں کیا رکھا ہے جو تو یہاں بیٹھی ہے۔ جا اپنے بچوں کو لے کر ماں باپ کے پاس۔
میں ماں باپ کے پاس کراچی پہنچی۔ کچھ دن یہاں رہی تو بھابھی کا رویہ اچھا نہیں تھا۔ ماں باپ بھی اتنے ساہو کار نہیں ہیں کہ میرا خرچ برداشت کرتے۔ میں نے سوچا کب تک ان پر بوجھ بنوں گی۔ میں نے کام کی تلاش شروع کی۔ محلے کی ایک عورت نے ایک مکان کرائے پر دلا دیا۔ مجھے بعد میں پتا چلا کہ یہ تو اداکارہ کا مکان ہے۔ میں وہاں کام کرنے لگی۔ برتن دھونا، پونچھا لگانا۔ شروع میں تو مجھے بہت رونا آیا اور سچی بات یہ ہے کہ میں نے اپنی آنکھیں لال کرلیں۔ پھر یہ ہونے لگا کہ میں روتی تو بچے بھی رونے لگتے۔ میں نے سوچا یہ رونے دھونے سے کام نہیں چلے گا۔ پھر بچوں نے کیا قصور کیا ہے کہ یہ روئیں۔ بس بھائی میں نے رونا دھونا ختم کیا اور ہمت کرکے خود میدان میں آگئی۔
آپ لوگوں کے رویوں کا پوچھ رہے ہیں، تو یہ نہ پوچھیں۔ بہت بے حس ہیں لوگ۔ وہ سب کو ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں، ان کی نظر میں ہر کام کرنے والی عورت بدکردار ہوتی ہے۔ یہاں پر بے سہارا عورت پر ہر ایک نظر رکھتا ہے۔ ہر ایک ہم دردی کے روپ میں اسے گم راہ کرنے کی کوشش کرتا ہے اور جب کوئی گم راہ ہوجائے تو اسے زندہ در گور کردیتے ہیں۔ اس کی نسلیں بھی اس کی گم راہی کے چرچے سنتی ہیں اور خود کیا ہیں یہ شریف لوگ؟ سب جانتے ہیں۔ لیکن کہتے ہیں کہ پیسہ آپ کی برائی بھی اچھائی بنا دیتا ہے۔
میں کچھ کہنا نہیں چاہتی لوگوں کے بارے میں۔ لوگ ایسے ایسے روپ میں ملے ہیں کہ آپ نہ ہی پوچھیں۔ کیا فائدہ ہے گندگی میں تنکے مارنے کا۔ اس سے بدبو کے سوا کیا مل سکتا ہے؟ یہاں پر زندہ رہنا بہت مشکل ہے۔ میں تو کہوں گی کہ عورت اس وقت تک زندہ رہتی ہے جب تک اس کا کردار سلامت اور ضمیر زندہ رہتا ہے۔ کردار اور ضمیر کے بغیر تو زندہ عورت بھی مردہ ہوتی ہے اور مردہ کو کیا ہے؟ آپ جو چاہیں سمجھ لیں، جو چاہیں کہہ لیں، جیسا چاہیں سلوک کریں۔
دن گزرتے گئے، کام اتنا تھا نہیں، مجھ پر دو ماہ کا کرایہ چڑھ گیا، ایک دن اس اداکارہ نے کہا،''کیا ہم نے سارے غریبوں کا ٹھیکا اٹھایا ہوا ہے۔ بچوں کو یتیم خانے میں داخل کراؤ اور خود اپنا ٹھکانا ڈھونڈو۔ ہمارا مکان خالی کردو۔'' مجھے اتنا افسوس ہوا جو میرا دل دکھا وہ خدا ہی جانتا ہے۔ میں نے کوشش کی، ہمت کی اور یہ مکان کرائے پر لیا۔ پیسے تھے نہیں ادھار لیے۔ یہاں کام بھی مل گیا ہے، صبح منہ اندھیرے گھر سے نکلتی ہوں۔ ایک اسکول کی صفائی کرتی ہوں۔ پھر اسکول کے قریب کے تین گھروں میں برتن دھونا، صفائی ستھرائی، پونچھا لگاتی ہوں، دوپہر میں چار گھروں کے کپڑے دھونا ہوتے ہیں، کبھی زیادہ کبھی کم، محلے میں کسی کے گھر کوئی تقریب ہو تو وہاں کام کے لیے چلی جاتی ہوں۔
اب میں یہاں ''کام والی'' مشہور ہوگئی ہوں۔ کام ایمان داری سے کرتی ہوں اس لیے لوگ مجھ پر بھروسا کرتے ہیں۔ اگر کبھی وقت مل جائے تو سلائی کرلیتی ہوں۔ کام سے جی نہیں چراتی، محنت کرتی ہوں اﷲ دیتا بھی ہے۔ سارے برے نہیں ہوتے، کچھ اچھے بھی ہوتے ہیں۔ وہ اپنا بچا ہوا کھانا دے دیتے ہیں تو گھر لے آتی ہوں۔ بچے اور میں کھاکر گزارا کرتے ہیں۔ اسی طرح کپڑے مل جاتے ہیں جب میں اپنے بچوں کو اترن کے کپڑے پہناتی ہوں تو دل میں ہوک اٹھتی ہے، آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔ خود پہنوں تو کچھ محسوس نہیں ہوتا۔ خرچ زیادہ ہے، دکھ بیماری ہے، ابھی بچیوں کو اسکول میں داخل کرایا ہے۔ وہاں بچے تنگ کرتے ہیں۔ معلوم نہیں اسکول کے بچوں کو کس نے بتا دیا ہے۔ کہتے ہیں تمہارا باپ ہیروئنچی ہے، فقیر ہے، تو وہ بہت دکھی ہوتے ہیں۔ اب تو میں نے کہہ دیا کہ سب کو کہہ دو ہمارا باپ مرگیا ہے، ہمارا صرف اﷲ ہے۔ ماں باپ میری کیا مدد کریں گے؟ وہ اپنا گزارا کرلیں تو اچھا ہے۔
پچھلے مہینے میں اپنی بھابھی کے گھر گئی تو اس نے کہا تم اپنی بچیوں کے لیے میرے بیٹوں پر نظر نہ رکھو، ہم کسی اچھی جگہ ان کا رشتہ کریں گے۔ یہ تو حال ہے بھائی رشتے داروں کا۔ آپ کہہ رہے ہیں بھائیوں کی مدد کا۔ ایک بھائی کے گھر ولادت ہوئی تو اس نے کہا ہمارے گھر کا کام بھی کردیا کرو۔ میں نے کردیا تو اس نے پانچ سو روپے دیے اور کہا روزانہ کردیا کرو اور مہینے کے پانچ سو لے لیا کرو۔ آپ معلوم نہیں کون سی دنیا میں رہتے ہیں؟ یہاں کوئی عزیز، کوئی رشتہ نہیں ہے۔ سب مطلبی ہیں۔
آپ کے پاس دھن دولت ہے تو سب رشتے دار ہیں، نہیں ہے تو کوئی بھی نہیں ہے بلکہ وہ آپ سے کنی کتراتے ہیں کہ ہم سے کچھ نہ مانگ لیں۔ ہم محنت بھی کرتے ہیں اور لوگ ہم پر احسان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ہم نے تمہیں ترس کھاکر کام پر رکھا ہے، اگر نہیں کرو گی تو بھوک سے مرجاؤ گی۔ یہاں تو سب خدا بن گئے ہیں۔ کوئی بندہ بننے کو تیار ہی نہیں ہے۔ جس کے پاس پیسا ہے وہ سمجھتا ہے ساری دنیا اس کی غلام ہے اور وہ ان سب کو روزی، رزق دیتا ہے۔
میرے بچے بہت اچھے ہیں، کوئی ضد نہیں کرتے، جو کچھ دوں لے لیتے ہیں، جو پہناؤ پہن لیتے ہیں، لیکن محلے کے بچوں نے ان کا جینا حرام کر رکھا ہے اس لیے اب میں انھیں باہر نہیں نکلنے دیتی۔ ویسے بھی زمانہ بہت خراب ہے۔ میں نے انھیں کہا ہے کہ اسکول سے آکر دروازہ اندر سے بند کرلیا کرو۔ وہ اسی طرح کرتے ہیں۔ ابھی تھوڑے دن پہلے چھوٹے والے نے کہا امی عید پر مجھے ہوائی جہاز دلانا، میں نے کہا اچھا بیٹا اﷲ سے دعا کرو کہ وہ جہاز دے گا۔ محنت کروں گی اور اپنے بچوں کے لیے نئے کپڑے بناؤں گی۔ انہیں عید پر اترن نہیں پہناؤں گی۔ اس کے لیے میں نے کچھ پیسے جمع بھی کرلیے ہیں۔
ایک مرتبہ ایک پولیس والا میرا ہم درد بن کر آگیا۔ وہ ہمارے محلے میں ہی رہتا ہے، کہنے لگا آؤ تمہیں کسی بنگلے پر کام دلا دیتا ہوں، وہاں تمہیں بہت پیسے ملیں گے، یہ غریب لوگ ہیں بہت کم پیسے دیتے ہیں۔ میں نے کہا نہیں بھائی مجھے زیادہ پیسے نہیں چاہئیں، اپنی عزت چاہیے۔
اس نے بہت اصرار کیا مگر میرے انکار پر چلا گیا۔ جب میں شروع میں یہاں آئی اور کام کے لیے صبح سویرے جانے لگی تو محلے کی عورتوں نے کہا یہ اچھی عورت نہیں ہے۔ نہ جانے کہاں جاتی ہے اور پھر رات کو آتی ہے، میری جیسی عورت کو یہی سننے کو ملتا ہے۔ کسی سے کیا گلہ کروں۔ ابتدا میں مجھے بہت برا لگتا تھا، میرا خون کھولتا تھا، مگر اب میں عادی ہوگئی ہوں۔ مجھے اﷲ جانتا ہے، بس یہ بہت ہے میں کیوں سارے لوگوں کو صفائی پیش کرتی پھروں۔
آپ کہہ رہے تھے، اتنا کام کرکے تھکن ہوجاتی ہے تو بھائی میں بھی انسان ہوں، بہت تھک جاتی ہوں۔ کبھی دل بھی نہیں چاہتا مگر میں نے خود کو مار لیا ہے اور فیصلہ کرلیا ہے کہ ساری زندگی محنت کروں گی۔ اﷲ اس کا صلہ دے گا، میرے بچے پڑھ لکھ جائیں گے۔ اﷲ سُکھ کے دن بھی دکھائے گا۔ یہ میرا ایمان ہے۔
انسان پر ایسے دن بھی آتے ہیں۔ اسے ہمت سے برداشت سے صبر سے کام لینا چاہیے اور اپنی محنت کرنی چاہیے۔ میرا خواب یہ ہے کہ میرے بچے کسی قابل ہوجائیں۔ وہ پڑھ لکھ جائیں اور خدا نے چاہا تو ایسا ضرور ہوگا۔ میں ان کی صرف ماں نہیں ہوں، باپ بھی ہوں، میں انہیں اچھا انسان بناؤں گی، اﷲ میری مدد کرے گا، بس یہ ہے میری کہانی اور کیا ہے؟ میں کسی کو یہ نہیں سناتی اس لیے کہ لوگ سن کر اور مذاق اڑاتے ہیں۔ یہ وہ زمانہ تو ہے نہیں کوئی سن کر آپ کی ہمت بڑھائے گا، حوصلہ دے گا بلکہ الٹا زمانہ ہے جو غریب ہے اسے ستاؤ، اتنا ستاؤ کہ وہ زندگی سے بے زار آجائے!