بات سمجھانے کے لیے آپ اسی واقعے کی مثال لے لیں ۔۔۔
یہ واقعہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ضلع تحصیل پسرور میں پیش آیا، یہاں شادی پور کا رہائشی سائیں صابر پیشے کے لحاظ سے بھکاری ہے، جس کا کام ہی روز صبح منہ اندھیرے اٹھ کر اللہ کے نام پہ مانگنے کو نکل کھڑا ہوناہے اور اسی طرح وہ اپنے گھر کی تانگہ گاڑ ی کھینچ تان کر چلارہا تھا ۔۔۔
مگر اس دن سائیں صابر نے کمال کر دکھایا، ایک ذرا مختلف اندازمیں اپنے کاروبار کا آغاز کردیا، یہ آئیڈیا واقعی انوکھا تھا :
آپ ذرا خبر ملاحظہ کیجیئے :
"پسرور( نیوز ڈیسک) "اللہ کے نام پر دو گو نواز گو"کی صدا بلند کرنے والے فقیر کو آدھے گھنٹے میں4100 روپے خیرات مل گئی۔ تحصیل پسرور کے قصبہ کنگرہ میں گزشتہ روزسائیں صابر سکنہ شادی پور انوکھے انداز میں خیرات مانگ رہا تھا اور بلند آواز میں پکار رہا تھا: '' اللہ کے نام پر دو گونواز گو'' دکانداروں' نوجوانوں اور خواتین نے نہ صرف فقیر کے ساتھ مل کر گو نواز گو کے نعرے لگائے بلکہ اسے 100 '100 روپے خیرات دینا شروع کردی' فقیر کو محض آدھے گھنٹے میں4100 روپے مل گئے۔"
آپ یہ سطور پڑھ کر مسکرا رہے ہوں گے ۔۔۔۔
سچ تو یہ ہے کہ یہ خبر جب میں نے ٹی وی پر سنی اور پھر اخبار میں پڑھی تو بے اختیار میں بھی ہنس پڑا تھا ۔
صرف یہی نہیں، بلکہ میں آپ کو مزید کچھ یاد دلانا چاہتا ہوں، میاں نواز شریف 24 ستمبر کو لندن پہنچے تو پاکستان تحریک انصاف کے کارکن '' گو نواز گو'' کے پلے کارڈ زلے کر پارک لین میں کھڑے تھے، یہ گو نواز گو کے نعرے لگا رہے تھے،پھر میاں صاحب 26 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے لیے نیو یارک آئے تو اسی طرح کے پاکستانی یو این ہیڈ کوارٹر کے سامنے بھی موجود تھے' یہ وہاں کئی گھنٹے گو نواز گو کے نعرے لگاتے رہے، اسی طرح گزشتہ دنوں میاں شہباز شریف کو سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں جاناتھا، مگر وہ اپنی مصروفیات کے سبب جا نہ سکے،جس پرمتاثرین مشتعل ہو گئے اوربڑی دیر تک یہ بے گھر و بے آسرا ننگ دھڑنگ لوگ "گو نواز گو "کے نعرے لگاتے رہے،بالکل اسی طرح 28 ستمبرکو کراچی سے لاہور جانے والی قومی ایئر لائن کی پرواز کو صبح ساڑھے 8 بجےروانہ ہونا تھا تاہم 8 گھنٹے گزر جانے کےباوجود اور پی آئی اے انتظامیہ کی جانب سے مسلسل نیا وقت دینے کے بعد پرواز کے مسافروں نے احتجاج کرتے ہوئے ایئرپورٹ پر ہی ''گو نواز گو'' کے نعرے لگانا شروع کردیئے، اسی طرح آپ کو یہ بھی یاد ہوگا کہ 27 ستمبرکو پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما حمزہ شہبازکو سیاحت سے متعلق ایک تقریب میں تقریر کے دوران توپوں کا رخ عمران خان اور تحریک انصاف کی جانب موڑ نا مہنگا پڑگیا تھا، جس پر حاضرین خصوصاًلڑکیاںسراپااحتجاج بن گئی تھیں اور "گونواز گو" کے نعروں کی گونج نے حمزہ شہباز کو چور دروازے سے بھاگنے پہ مجبور کردیا تھا،29 ستمبر کو پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے اجلاس میں سلمان رفیق کے خطاب کے دوران گو نواز گو کے نعرے لگ گئے ،جس پہ نعرہ لگانے والے ڈاکٹر سہیل کےمنہ پر ساتھی ڈاکٹروں نے ہاتھ بھی رکھا مگر وہ باز نہ آئے ،جس پر انہیں شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا،ابھی 28 ستمبرہی کو وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کی لاہور آمد کے موقع پر"گو نواز گو "کے نعروں نے ان کا استقبال کیا تھا، نیویارک کے دورے کے موقع پر ملک کی خاتونِ اول کلثوم نواز وہاں کے ایک سپر اسٹور میں کسی برانڈڈآؤٹ لیٹس سے کچھ خریداری کررہی تھیں کہ کچھ لوگوں نے ان کو دیکھا اور وہیں "گو نواز گو"کے نعرے سے پوری مارکیٹ گونج اٹھی۔ اس رویہ نے احسن اقبال جیسے سلجھے ہوئے سیاستدان تک کو محفوظ نہیں رکھا اور ان کی تقریب میں بھی لوگوں نے انہی کے سامنے" گو نواز گو"کے نعرے لگائے، ایک ہی جیسی خبروں کی اس بھیڑ میں ایک مزے کی خبر یہ بھی پڑھتے جائیے کہ ملک بھر میں قربانی کے سلسلے میں جانوروں کی خرید و فروخت کے ساتھ ساتھ ان جانوروں کو گھمانے ، سجانے اور دکھاوے کا سیزن بھی عروج پر ہے، اس دوران گزشتہ دنوں یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ بچے قربانی کے انہی جانوروں کو بھگاتے ہوئے "گو نواز گو"کا نعرہ لگاتے رہے ۔
اب ذرا صورتحال پہ نظر ڈال لیجیے! 14 اگست 2014 سےتبدیلی و انقلاب کے نام پر جوشاہراہِ دستور میں جو ٹھمکے لگائےجارہے ہیں،ان کے اثرات ملک کے گوشے گوشے میں دکھائی دئیے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان دھرنوں نے پورے ملک کے ہر شعبہ ہائے زندگی کو متاثر کیا۔آپ کسی کے حامی یا مخالف ہوں، آپ اس بات سے اتفا ق کریں گے کہ یہ تین الفاظ پر مشتمل "گونواز گو"صرف ایک نعرے تک محدود نہیں رہا،بلکہ آج اس نے ایک تحریک کی شکل اختیار کرلی ہے۔ ہر جگہ اس نعرے کو اتنا فروغ مل رہا ہے کہ یہ کہنا کسی حد تک درست لگتا ہے کہ اب یہ نعرہ زبانوں کی سرحد عبور کر کے ذہنوں پر چھانے لگا ہے،آپ اس آواز ِ خلق کو نقارۂ خدا کہہ سکتے ہیں۔ میں اس تحریک کی کامیابی کی وجہ میاں نواز شریف کی نااہلی ، کرپشن اور اسٹیٹس کو کلچرکو سمجھتا ہوں اور اس میں بھی شک نہیں کہ یہ عوامی فرسٹریشن ہے، جس کا لاوا بڑے عرصے سے پھٹنے کا منتظر ہے۔
لیکن اس سارے منظر نامے سے جو سوالات اٹھتے ہیں،وہ یہ ہے کہ اس طرح کا عمومی مزاج ہمیں کس سمت کو لے جا رہا ہے؟ ہماری سوچ، ہماری فکر اور ہمارے تصورات کس معیار کے ہیں؟کیا یہ نعرہ اخلاقی پستی کی اتاہ گہرائیوں سے ہمارا رشتہ ثابت نہیں کررہا۔۔۔؟ کیا یہ درست ہے کہ ریاست کی موجودگی میں ہم آئین، قانون اور ضابطے سے ماورأکوئی ایسا دستور تشکیل دے بیٹھیں کہ جو مرضی چاہے،من مانی کربیٹھیں؟اختلافات اپنی جگہ ،مگرکیا آپ نے سوچا کہ اس سے ہماری کیا شناخت رہ جائے گی اور اس کا معاشرے اور اس کے لوگوں کے ذہنوں پرکیا منفی اثر پڑے گا؟
مجھے کہنے دیجیے کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان دھرنوں، نعروں اور اخلاقیات سے گرے احتجاج کے معیار نے اس حکومت کا تیاپانچا کردیا ہے۔۔۔مگر یہ تووقت بتائے گا کہ ان سے کس کوکتنا فائدہ اور کس کوکیا نقصان ہوا؟
مگر رکیے! کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ مزاج کسی نئے پاکستان کی بنیاد یا انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوگا ؟
نہیں! ہرگز نہیں! بلکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ملکی وقارکے ستیاناس ہونے کا باعث اور قومی اقدار کا جنازہ نکلنے کا سبب ہے ۔۔۔
کیا ایسا نہیں ہے۔۔۔آپ بھی ذرا سوچئے گا ضرور۔۔۔!!