پاکستان ایک نظر میں میاں صاحب کیا آپ قوم کو جواب دیں گے

آپ نے ’جنرل اسمبلی سے خطاب‘ نامی ڈرامے کے لئے قومی خزانے سے بھاری رقم ضائع کی، کیا آپ اسکا جواب دینگے؟


عبیداللہ صدیقی October 03, 2014
میاں صاحب آپ نے اقوام متحدہ میں خطاب کرکے وہ کیا کچھ پالیا جو یہاں پاکستان میں رہ کر نہیں پا سکتے تھے؟سوائے اِس کے کہ قومی خزانے سے بھاری رقم ضائع ہوئی یعنی کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارانے۔ فوٹو: ایکسپریس

لاہور: اسلامی جمہوریہ پاکستان کے جمہوری وزیراعظم صاحب 25 ستمبر کو نیویارک پہنچے تاکہ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی سے خطاب کریں اور کچھ ملاقاتوں، چائے کی دعوتوں اور مصاحفوں کے ذریعے سے ملک پاکستان کو یہ دورہ مبارک ثابت ہو۔

اسی دورے کے دوران کچھ غیرجمہوری لوگ جنرل اسبملی کے باہر نواز حکومت اور آئینی وزیراعظم کے خلاف احتجاج کرنے کی ضد پر تھے اور ان غیرجمہوری لوگوں کو بہت سمجھایا گیا کہ بھائی ذرا احتجاج میں نرمی رکھنا کیوں کہ میاں صاحب آخرکار پاکستان کی ہی نمائندگی کر رہے ہیں لیکن غیرجمہوری لوگ باز نہ آئے اور بھرپور احتجاج کرڈالا مگر ہمارے با ہمت اور باحوصلہ وزیر اعظم نے بھی تقریرکرنے کی ٹھان رکھی تھی۔

محترم وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان میاں محمد نوازشریف صاحب جب تقریر کرنے کے لئے جنرل اسمبلی کے مائک کی طرف رواں دواں تھے تو صاحب نے کیا زبردست سوٹ اور بہترین ٹائی پہن رکھی تھی، حضرت دوڑے دوڑے مائک پر پہنچے اورپاکستان کی قومی زبان 'انگریزی' میں اپنا خطاب شروع کیا۔ میاں وزیراعظم نے انگریزی زبان میں آفت زدہ سیلاب کا ذکر کیا تو سیلاب متاثرین کو ہی کچھ سمجھ نہ آیا۔۔۔ لیکن کیا معلوم اِس انگریزی سیلاب کے بعد امداد ملنے کے امکان بڑھ گئے ہوں۔ ایسی بات نہیں کہ وزیراعظم صاحب امداد لینے ہی جنرل اسمبلی گئے ہیں مگر اگرامداد مل جائے تو کسی کا کیا بگڑتا ہے۔

میرے وزیراعظم نے جب اپنی پرجوش تقریر میں مسئلہ کشمیر کا ذکر کیا تو لگا کہ بس 26 ستمبر کی نوازشریف تقریر کے بعد 27 ستمبر یعنی اگلے ہی دن فوراً کشمیر آزاد ہوجائیگا، مگر پھر کشمیر کمیٹی کے چیئرمین حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی یاد آئی، حضرت جو کہ عرصہ دراز سے کشمیرکوآزاد کرانے کی نام نہاد جدوجہد کررہے ہیں، انکی خدمات کو یاد کرکے قوم نے صرف آہ بھری اور یوں میاں صاحب کی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے تقریر کا جنازہ خود نکل گیا۔

میاں صاحب جنرل اسمبلی میں شاندار تقریر اورنائب امریکی صدر سے بے معنی ملاقات کے بعد واپس پاکستان کے لئے روانہ ہوئے، میاں صاحب کی تقریر اور اس ملاقات میں وہ سب تھا جو ہم ہر دوسرے دن عام گفتگو، تقاریر اور پریس کانفرنس میں سنتے ہیں کہ 'کشمیریوں کو انکا حق ملنا چاہیئے'، 'ہم بھارت اور دیگر پڑوسی ممالک سے بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں' وغیرہ وغیرہ۔ نوازشریف صاحب آپ یہ باتیں یہیں پاکستان میں ہی کرلیتے جناب، آپ نے بیکار زحمت کی امریکہ جانے کی لیکن اگر آپ برا نہ مانیں تو آپ کے عزیز دوست نریندرمودی صاحب، وہی جنکی والدہ کو آپ نے ساڑھی کا تحفہ بھیجا تھا، ارے وہی مودی جن کی تقریب حلف برداری میں آپ شریک ہوئے تھے اور پھر آپ کے آم کے تحفے کو کیسے بھول سکتے ہیں ہم۔۔۔

خیر، وہی نریندرمودی جب جنرل اسمبلی پہنچے تو روایتی لباس اور اپنی زبان میں بات کی، یقیناً یہ بھارت کے لوگوں کے لئے قابل فخر بات تھی کہ انکا وزیراعظم انکی اپنی زبان میں بات کر رہا تھا، مگر میاں صاحب آپ نے ہمیں اس قابل فخر لمحے سے بھی محروم رکھا، چلیں اس بات کو جانے دیتے ہیں۔۔۔ مودی صاحب نے آپ کی طرح بے مقصد دورہ نہیں کیا بلکہ امریکی صدر سے ملاقات بھی کی اور امریکی تاجروں اور سرمایہ کاروں سے بھی کامیاب ملاقاتیں کیں اوراس طرح انکا دورہ بھارت کے لئے فائدہ مند رہا میاں صاحب۔۔۔ مگر آپ نے جو قومی خزانے سے بے معنی دورہ کیا، اسکا حساب کون دے گا؟؟

آپ نے 'جنرل اسمبلی سے خطاب' نامی ڈرامے کے لئے قومی خزانے سے بھاری رقم ضائع کی، بے ایمانی اور بددیانتی سے قوم کا پیسہ خرچ کر کے کٹ سوٹ میں انتہائی بے مقصد تقریر کی، کیا آپ اسکا جواب دینگے؟ پیسے کا حساب دیں یا پھر کارکردگی دکھائیں میاں صاحب؟ کیونکہ یہ قوم آپ کے ایسے دوروں، آپ کی حفاظت کے لئے شاہی اخراجات کے لئے ٹیکس نہیں دیتی۔۔۔ یہ قوم آپ سے جواب چاہتی ہے اور اب آپ جیسے اشرافیہ کے خلاف اٹھ چکی ہے اور اب یہ آپ کے ظلم کے خلاف صبر نہیں کرنے والے۔

اللہ آپکا حامی و ناصر ہو۔۔۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں