پاکستان پولیو کیسز میں سر فہرست
انسدادی ٹیموں کو سب سے زیادہ مشکل ان قبائلی علاقوں میں پیش آتی ہے جو افغان سرحد سے متصل ہیں اور جہاں مبینہ طور پر۔۔۔
پاکستان میں پولیو وائرس شدت اختیار کر گیا ہے۔ رواں سال کے دوران ملک بھر میں پولیو وائرس کا شکار ہونے والے مزید 7 بچوں کے بعد پولیو زدہ بچوں کی مجموعی تعداد 194 ہو گئی ہے اور اگر یہ تعداد 200 کا ہندسہ عبور کر لیتی ہے تو پاکستان اپنا ہی ریکارڈ توڑ دے گا۔
یاد رہے کہ 2000ء میں پاکستان میں 199 پولیو وائرس کے کیس رپورٹ ہوئے تھے۔ سب سے زیادہ پولیو کیسوں کی تصدیق قبائلی علاقوں میں کی گئی جہاں 130 بچے پولیو وائرس کا شکار ہو گئے جب کہ خیبرپختوانخوا، سندھ، پنجاب اور بلوچستان میں بھی متعدد کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔ عالمی اداروں کے ماہرین کا کہنا ہے کہ 2014ء میں پاکستان میں سب سے زیادہ پولیوکیسوں کی تصدیق کی گئی ہے جن کی تعداد اس سال کے آخر تک 200 سے تجاوز کر نے کا خدشہ ہے۔ پاکستان اس وقت دنیا کے ان تین ممالک میں شامل ہے جہاں پولیو ایک وبا کی صورت میں موجود ہے۔ اور یہاں اس مہلک بیماری پر قابو نہ پائے جانے کی بڑی وجہ انسداد پولیو ٹیموں پر دہشت گردوں کے حملے ہیں۔ ملک کے دور دراز کے علاقوں تک تو پولیو ٹیموں کی پہنچ ہی ممکن نہیں ہو رہی۔
ادھر لندن میں پولیو بورڈ میں پاکستان نے 2015ء تک ملک سے پولیو وائرس کے خاتمے کا ہدف دیا ہے۔ انسدادی ٹیموں کو سب سے زیادہ مشکل ان قبائلی علاقوں میں پیش آتی ہے جو افغان سرحد سے متصل ہیں اور جہاں مبینہ طور پر شدت پسندوں نے اپنی پناہ گاہیں بنا رکھی ہیں۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ گوجرانوالہ میں 40 خاندانوں نے بچوں کو قطرے پلانے سے انکار کر دیا اور یہ انکار مسلکی بنیادوں پر کیا گیا ہے جب کہ سیالکوٹ سے 16 خاندانوں نے اپنے بچوں کو قطرے پلانے سے انکار کر دیا۔ کراچی میں 17 کیسز سامنے آنے سے شہر میں پولیو کا دس سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے ذرایع کا کہنا ہے کہ پاکستان سے پولیو وائرس کے افغان صوبوں میں منتقل ہونے کا خطرہ بھی خارج از امکان نہیں ہے۔
2005ء میں پاکستان میں پولیو کے صرف 28 کیس منظر عام پر آئے تھے لیکن 2011ء میں ان کی تعداد 198 تک پہنچ گئی۔2012ء میں یہ تعداد کم ہو کر 58 رہ گئی اور 2013ء میں یہ تعداد قدرے اضافے کے بعد 72 ہو گئی۔ پاکستان میں پولیو کیسز کا ایک نقصان یہ بھی ہوا ہے کہ اب بیرون ملک جانے والے تمام مسافروں کو، خواہ ان کی عمر کتنی ہی ہو ایئر پورٹ پر پولیو قطرے پی کر تصدیقی سرٹیفکیٹ حاصل کرنا پڑتا ہے ورنہ انھیں روانگی کی اجازت نہیں ملتی۔ یہاں یہ المیہ بھی قابل ذکر ہے کہ وطن عزیز میں 64 پولیو ورکرز ہلاک اور 47 شدید زخمی کیے جا چکے ہیں دنیا بھر میں ایسی اور کوئی مثال نہیں ہے۔ حکومت پاکستان کو اس حوالے سے ایک مربوط حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے تا کہ وطن عزیز سے اس مہلک مرض کا خاتمہ ہو سکے اور ملک دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو سکے۔
یاد رہے کہ 2000ء میں پاکستان میں 199 پولیو وائرس کے کیس رپورٹ ہوئے تھے۔ سب سے زیادہ پولیو کیسوں کی تصدیق قبائلی علاقوں میں کی گئی جہاں 130 بچے پولیو وائرس کا شکار ہو گئے جب کہ خیبرپختوانخوا، سندھ، پنجاب اور بلوچستان میں بھی متعدد کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔ عالمی اداروں کے ماہرین کا کہنا ہے کہ 2014ء میں پاکستان میں سب سے زیادہ پولیوکیسوں کی تصدیق کی گئی ہے جن کی تعداد اس سال کے آخر تک 200 سے تجاوز کر نے کا خدشہ ہے۔ پاکستان اس وقت دنیا کے ان تین ممالک میں شامل ہے جہاں پولیو ایک وبا کی صورت میں موجود ہے۔ اور یہاں اس مہلک بیماری پر قابو نہ پائے جانے کی بڑی وجہ انسداد پولیو ٹیموں پر دہشت گردوں کے حملے ہیں۔ ملک کے دور دراز کے علاقوں تک تو پولیو ٹیموں کی پہنچ ہی ممکن نہیں ہو رہی۔
ادھر لندن میں پولیو بورڈ میں پاکستان نے 2015ء تک ملک سے پولیو وائرس کے خاتمے کا ہدف دیا ہے۔ انسدادی ٹیموں کو سب سے زیادہ مشکل ان قبائلی علاقوں میں پیش آتی ہے جو افغان سرحد سے متصل ہیں اور جہاں مبینہ طور پر شدت پسندوں نے اپنی پناہ گاہیں بنا رکھی ہیں۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ گوجرانوالہ میں 40 خاندانوں نے بچوں کو قطرے پلانے سے انکار کر دیا اور یہ انکار مسلکی بنیادوں پر کیا گیا ہے جب کہ سیالکوٹ سے 16 خاندانوں نے اپنے بچوں کو قطرے پلانے سے انکار کر دیا۔ کراچی میں 17 کیسز سامنے آنے سے شہر میں پولیو کا دس سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے ذرایع کا کہنا ہے کہ پاکستان سے پولیو وائرس کے افغان صوبوں میں منتقل ہونے کا خطرہ بھی خارج از امکان نہیں ہے۔
2005ء میں پاکستان میں پولیو کے صرف 28 کیس منظر عام پر آئے تھے لیکن 2011ء میں ان کی تعداد 198 تک پہنچ گئی۔2012ء میں یہ تعداد کم ہو کر 58 رہ گئی اور 2013ء میں یہ تعداد قدرے اضافے کے بعد 72 ہو گئی۔ پاکستان میں پولیو کیسز کا ایک نقصان یہ بھی ہوا ہے کہ اب بیرون ملک جانے والے تمام مسافروں کو، خواہ ان کی عمر کتنی ہی ہو ایئر پورٹ پر پولیو قطرے پی کر تصدیقی سرٹیفکیٹ حاصل کرنا پڑتا ہے ورنہ انھیں روانگی کی اجازت نہیں ملتی۔ یہاں یہ المیہ بھی قابل ذکر ہے کہ وطن عزیز میں 64 پولیو ورکرز ہلاک اور 47 شدید زخمی کیے جا چکے ہیں دنیا بھر میں ایسی اور کوئی مثال نہیں ہے۔ حکومت پاکستان کو اس حوالے سے ایک مربوط حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے تا کہ وطن عزیز سے اس مہلک مرض کا خاتمہ ہو سکے اور ملک دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو سکے۔