میرا کسان حاجی
یہ حج کے دن ہیں اور مسلمانوں کی دنیا میں حج کے سوا اور کوئی بات نہیں ہو رہی۔
دنیا بھر کے مسلمان اور ان میں سے جس کو خدا نے توفیق دی ہے وہ ان دنوں مناسک حج ادا کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے۔ یہ اسلامی تاریخ کا ایک ہزار چار سو ستائیسواں حج ہے اور فریضہ حج کے اسی طویل سلسلے کے ایک حج کے موقع پر گاؤں کا ایک غریب کاشتکار بھی حجاج میں شامل تھا۔ میں اس کا ذکر پہلے بھی کبھی کر چکا ہوں لیکن ہر حج کے موقع پر یہ کسان میرے سامنے آکھڑا ہوتا ہے اور مجھے اپنے سامنے جھکنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
یہ کسان حج کے موقع پر طواف کعبہ کرتے ہوئے کسی طرح غلاف کعبہ کو تھامنے میں کامیاب ہو گیا یہ انتہائی غریب کسان بھی دنیا کے کسی بھی امیر ترین مسلمان حاجی کی طرح احرام میں تھا ہر حاجی کے اس یکساں لباس میں ورنہ ایک غریب حاجی کو یہاں داخل ہی نہ ہونے دیا جاتا لیکن اللہ تعالیٰ کے رجسٹر میں اشرافیہ صرف وہ ہے جس کے اعمال شریف ہیں نہ وہ جس کا حسب نسب اعلیٰ ہے اور جس کے پاس سرمایہ بہت ہے۔
حج کے عالمی اسلامی اجتماع میں ہر حاجی ایک طرح کے لباس میں ایک طرح کے کلمات ادا کر رہا ہوتا ہے۔ لبیک الھم لبیک...! ہمارا یہ مفلس حاجی بھی حاجیوں میں برابر کا شریک تھا اور غلاف کعبہ تھام کر اللہ تعالیٰ کے حضور عرض پرداز تھا کہ ''یا اللہ جب سے میں نے کچھ کام کرنا شروع کیا ہے تب سے میں پائی پائی جوڑ رہا ہوں اپنی کمائی میں جتنی بچت ممکن ہوتی تھی وہ کرتا رہا ہوں اب زندگی بھر کی اس بچت سے اتنے پیسے جمع ہو گئے ہیں کہ میں آج اپنی کمائی پر یہاں تمہارے حضور میں حاضر ہو گیا ہوں۔ یا اللہ میں تو صرف یہی کچھ کر سکتا تھا جو کر دیا۔ اب اس سے آگے جو بھی کرنا ہے وہ تم نے کرنا ہے میری ہمت تو بس اتنی ہی تھی اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کر سکتا''۔
میری عقل میں اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں آتا جو اس ان پڑھ کسان کی سمجھ میں موجود تھا۔ سادگی عاجزی اور دعا اس سے زیادہ کیا ہو سکتی ہے۔ میرے بارانی علاقے کا یہ مفلس کسان علم و فضل کے دریا بہا گیا۔ حج سے واپسی پر جب اس سے کسی نے پوچھا کہ حج کیسا ہوا تو اس نے اپنی زبان میں حج کی تفصیلات بیان کیں اور ان میں بڑی سادگی اور تصنع کے بغیر اپنی یہ دعا بھی بتا گیا جو سننے والے کو حیرت زدہ کر گئی اور دل نے یہ فتویٰ دیا کہ چاچا تمہارا حج تو قبول ہوا اور بڑے ہی اعزاز کے ساتھ۔ کسی اور حاجی نے ایسی کیا بات کہی ہو گی جو خدا نے تمہاری زبان پر جاری کر دی تھی۔ جاؤ رزق حلال کے لیے اپنے کھیتوں میں کام شروع کر دو جو حج کی وجہ سے رہ گیا تھا۔ یہ بات سن کر ایک صاحب دل نے کہا کہ اس کی فصل تو جنت کے کسی کھیت میں کاشت ہو چکی ہے۔
یہ حج کے دن ہیں اور مسلمانوں کی دنیا میں حج کے سوا اور کوئی بات نہیں ہو رہی۔ میں تو ابھی ابھی ٹی وی پر غلاف کعبہ کی تبدیلی کا منظر دیکھ رہا تھا اور ان حجاج کرام کو جو حالت احرام میں اللہ کے حضور میں فریاد کناں ہیں۔ میں بھی ایک حاجی ہوں اگرچہ یہ حج سعودی حکومت کی میزبانی میں کیا گیا تھا۔ اس کسان کی طرح اپنی کمائی پر نہیں۔ اس کسان کا مرتبہ کس کو مل سکتا ہے۔ بہر کیف میں جس ہوٹل نما ہوسٹل میں مقیم تھا اس میں عالمی شہرت کے باکسر محمد علی بھی حج پر سعودی حکومت کے مہمان تھے اس وقت انڈونیشیا کے صدر سہارتو بھی لیکن میں محمد علی کو دیکھ رہا تھا جن کے بازؤں میں لرزہ تھا' یہ مرض اس عظیم شخص کے جسم کے اس حصے میں آیا جس سے اس نے دنیا کو پچھاڑ دیا تھا۔
کنکریاں مارتے وقت محمد علی اپنا ہاتھ نہیں اٹھا سکتا تھا اور یہ کام اس کا معاون کرتا تھا وہ اس کا بازو اٹھاتا اور پھر محمد علی میں اتنی طاقت آ جاتی کہ وہ کنکریاں مارنی شروع کر دیتا۔ میں بھی اس کے بالکل قریب تھا۔ میں نے ان کے معاون سے عرض کیا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک آدھ بار میں یہ بازو اوپر اٹھاؤں۔ محمد علی بھی میری بات سن رہا تھا اور میرے شوق کو بھی دیکھ رہا تھا۔ اس کے پوچھنے پر میں نے بتایا کہ میں پاکستانی ہوں وہ اس پر خوش ہوا اور کندھا میری طرف جھکا دیا کہ میں اس کا بازو پکڑ کر اسے اٹھا دوں۔ میں نے کانپتے ہاتھوں سے یہ تاریخی بازو پکڑا اور کچھ دیر پکڑے رکھا اور پھر اسے بوسہ دے کر اوپر اٹھا دیا۔ اس عظیم انسان نے میری طرف پیار سے دیکھا اور پھر کنکریاں مارنے کے باقی ماندہ عمل کو پورا کرنے کے لیے آگے بڑھ گیا۔ یوں تاریخ کا ایک کونا میرے پاس بھی رہ گیا۔ قریب کا ہر حاجی محمد علی کو دیکھ رہا تھا اور جب میری حرکت دیکھی تو مجھے بھی تحسین کی نظروں سے دیکھا گیا۔
اس ضمن میں ایک لطیفہ بھی ہو گیا۔ ہم ایک ہی جگہ پر مقیم تھے۔ محمد علی سے سامنا ہوا تو وہ مجھے پہچان گیا اور مسکرا کر ایک کندھا میری طرف جھکا دیا۔ میں ان کی اس حس مزاح پر چکر کھا گیا اور یاد نہیں کہ کیسے شکریہ ادا کیا۔ اسلام کے اس رشتے نے زندگی میں کئی دوسرے نمونے بھی دکھائے مگر اب ان کے ذکر کی گنجائش کہاں۔
یہاں پاکستان میں تو ہم اکثر دکانوں پر کسی حاجی صاحب کا نام دیکھتے ہیں جن میں گراں فروشی اور جعل سازی بھی دکھائی دیتی ہے لیکن میں اب جہاں رہتا ہوں یہاں ایک بڑا اسٹور ایسا ہے جو اتوار کو نہیں جمعے کو بند رہتا ہے جو کریڈٹ کارڈ نہیں لیتا کہ اس میں سود ہے جو ہر سامان خالص رکھتا ہے اور قیمت جو مناسب ہو سکتی ہے لیکن اس اسٹور پر باری نہیں آتی۔
یہ اپنی حد تک مسلمانوں کی روایت کی پابندی کرتا ہے۔ بہر حال اس وقت تو جو ہوا چل رہی ہے وہ ہم سب کے سامنے ہے اور ہم سب اسی میں سانس لے رہے ہیں۔ کوئی مسلمان قرآن کے ان واضح الفاظ کو یاد نہیں رکھتا کہ سود خدا و رسولؐ کے خلاف جنگ ہے۔ میں نے اپنے کسان کے حج کو یاد کر کے ثواب کما لیا ہے اسے کوئی الحاج نہیں کہے گا اور اب تو اسے کوئی حاجی صاحب بھی نہیں کہتا کہ ہمارے ہاں حاجیوں کا شمار نہیں رہا۔
یہ کسان حج کے موقع پر طواف کعبہ کرتے ہوئے کسی طرح غلاف کعبہ کو تھامنے میں کامیاب ہو گیا یہ انتہائی غریب کسان بھی دنیا کے کسی بھی امیر ترین مسلمان حاجی کی طرح احرام میں تھا ہر حاجی کے اس یکساں لباس میں ورنہ ایک غریب حاجی کو یہاں داخل ہی نہ ہونے دیا جاتا لیکن اللہ تعالیٰ کے رجسٹر میں اشرافیہ صرف وہ ہے جس کے اعمال شریف ہیں نہ وہ جس کا حسب نسب اعلیٰ ہے اور جس کے پاس سرمایہ بہت ہے۔
حج کے عالمی اسلامی اجتماع میں ہر حاجی ایک طرح کے لباس میں ایک طرح کے کلمات ادا کر رہا ہوتا ہے۔ لبیک الھم لبیک...! ہمارا یہ مفلس حاجی بھی حاجیوں میں برابر کا شریک تھا اور غلاف کعبہ تھام کر اللہ تعالیٰ کے حضور عرض پرداز تھا کہ ''یا اللہ جب سے میں نے کچھ کام کرنا شروع کیا ہے تب سے میں پائی پائی جوڑ رہا ہوں اپنی کمائی میں جتنی بچت ممکن ہوتی تھی وہ کرتا رہا ہوں اب زندگی بھر کی اس بچت سے اتنے پیسے جمع ہو گئے ہیں کہ میں آج اپنی کمائی پر یہاں تمہارے حضور میں حاضر ہو گیا ہوں۔ یا اللہ میں تو صرف یہی کچھ کر سکتا تھا جو کر دیا۔ اب اس سے آگے جو بھی کرنا ہے وہ تم نے کرنا ہے میری ہمت تو بس اتنی ہی تھی اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کر سکتا''۔
میری عقل میں اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں آتا جو اس ان پڑھ کسان کی سمجھ میں موجود تھا۔ سادگی عاجزی اور دعا اس سے زیادہ کیا ہو سکتی ہے۔ میرے بارانی علاقے کا یہ مفلس کسان علم و فضل کے دریا بہا گیا۔ حج سے واپسی پر جب اس سے کسی نے پوچھا کہ حج کیسا ہوا تو اس نے اپنی زبان میں حج کی تفصیلات بیان کیں اور ان میں بڑی سادگی اور تصنع کے بغیر اپنی یہ دعا بھی بتا گیا جو سننے والے کو حیرت زدہ کر گئی اور دل نے یہ فتویٰ دیا کہ چاچا تمہارا حج تو قبول ہوا اور بڑے ہی اعزاز کے ساتھ۔ کسی اور حاجی نے ایسی کیا بات کہی ہو گی جو خدا نے تمہاری زبان پر جاری کر دی تھی۔ جاؤ رزق حلال کے لیے اپنے کھیتوں میں کام شروع کر دو جو حج کی وجہ سے رہ گیا تھا۔ یہ بات سن کر ایک صاحب دل نے کہا کہ اس کی فصل تو جنت کے کسی کھیت میں کاشت ہو چکی ہے۔
یہ حج کے دن ہیں اور مسلمانوں کی دنیا میں حج کے سوا اور کوئی بات نہیں ہو رہی۔ میں تو ابھی ابھی ٹی وی پر غلاف کعبہ کی تبدیلی کا منظر دیکھ رہا تھا اور ان حجاج کرام کو جو حالت احرام میں اللہ کے حضور میں فریاد کناں ہیں۔ میں بھی ایک حاجی ہوں اگرچہ یہ حج سعودی حکومت کی میزبانی میں کیا گیا تھا۔ اس کسان کی طرح اپنی کمائی پر نہیں۔ اس کسان کا مرتبہ کس کو مل سکتا ہے۔ بہر کیف میں جس ہوٹل نما ہوسٹل میں مقیم تھا اس میں عالمی شہرت کے باکسر محمد علی بھی حج پر سعودی حکومت کے مہمان تھے اس وقت انڈونیشیا کے صدر سہارتو بھی لیکن میں محمد علی کو دیکھ رہا تھا جن کے بازؤں میں لرزہ تھا' یہ مرض اس عظیم شخص کے جسم کے اس حصے میں آیا جس سے اس نے دنیا کو پچھاڑ دیا تھا۔
کنکریاں مارتے وقت محمد علی اپنا ہاتھ نہیں اٹھا سکتا تھا اور یہ کام اس کا معاون کرتا تھا وہ اس کا بازو اٹھاتا اور پھر محمد علی میں اتنی طاقت آ جاتی کہ وہ کنکریاں مارنی شروع کر دیتا۔ میں بھی اس کے بالکل قریب تھا۔ میں نے ان کے معاون سے عرض کیا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک آدھ بار میں یہ بازو اوپر اٹھاؤں۔ محمد علی بھی میری بات سن رہا تھا اور میرے شوق کو بھی دیکھ رہا تھا۔ اس کے پوچھنے پر میں نے بتایا کہ میں پاکستانی ہوں وہ اس پر خوش ہوا اور کندھا میری طرف جھکا دیا کہ میں اس کا بازو پکڑ کر اسے اٹھا دوں۔ میں نے کانپتے ہاتھوں سے یہ تاریخی بازو پکڑا اور کچھ دیر پکڑے رکھا اور پھر اسے بوسہ دے کر اوپر اٹھا دیا۔ اس عظیم انسان نے میری طرف پیار سے دیکھا اور پھر کنکریاں مارنے کے باقی ماندہ عمل کو پورا کرنے کے لیے آگے بڑھ گیا۔ یوں تاریخ کا ایک کونا میرے پاس بھی رہ گیا۔ قریب کا ہر حاجی محمد علی کو دیکھ رہا تھا اور جب میری حرکت دیکھی تو مجھے بھی تحسین کی نظروں سے دیکھا گیا۔
اس ضمن میں ایک لطیفہ بھی ہو گیا۔ ہم ایک ہی جگہ پر مقیم تھے۔ محمد علی سے سامنا ہوا تو وہ مجھے پہچان گیا اور مسکرا کر ایک کندھا میری طرف جھکا دیا۔ میں ان کی اس حس مزاح پر چکر کھا گیا اور یاد نہیں کہ کیسے شکریہ ادا کیا۔ اسلام کے اس رشتے نے زندگی میں کئی دوسرے نمونے بھی دکھائے مگر اب ان کے ذکر کی گنجائش کہاں۔
یہاں پاکستان میں تو ہم اکثر دکانوں پر کسی حاجی صاحب کا نام دیکھتے ہیں جن میں گراں فروشی اور جعل سازی بھی دکھائی دیتی ہے لیکن میں اب جہاں رہتا ہوں یہاں ایک بڑا اسٹور ایسا ہے جو اتوار کو نہیں جمعے کو بند رہتا ہے جو کریڈٹ کارڈ نہیں لیتا کہ اس میں سود ہے جو ہر سامان خالص رکھتا ہے اور قیمت جو مناسب ہو سکتی ہے لیکن اس اسٹور پر باری نہیں آتی۔
یہ اپنی حد تک مسلمانوں کی روایت کی پابندی کرتا ہے۔ بہر حال اس وقت تو جو ہوا چل رہی ہے وہ ہم سب کے سامنے ہے اور ہم سب اسی میں سانس لے رہے ہیں۔ کوئی مسلمان قرآن کے ان واضح الفاظ کو یاد نہیں رکھتا کہ سود خدا و رسولؐ کے خلاف جنگ ہے۔ میں نے اپنے کسان کے حج کو یاد کر کے ثواب کما لیا ہے اسے کوئی الحاج نہیں کہے گا اور اب تو اسے کوئی حاجی صاحب بھی نہیں کہتا کہ ہمارے ہاں حاجیوں کا شمار نہیں رہا۔