وہ جنت نگاہ پر فردوس گوش ہے

کبھی کبھی تو خود پر غصہ بھی آ جاتا ہے کہ اس دنیا میں کیا کیا کچھ بھرا ہوا تھا اور ہم ان سب سے بے خبر تھے محروم تھے


Saad Ulllah Jaan Baraq October 04, 2014
[email protected]

ٹی وی والوں سے تو ہم ہمیشہ سے خوش چلے آرہے ہیں لیکن آج کل اخبارات سے بھی ہم بے حد خوش ہیں کیونکہ ایسی ایسی صورتیں بھی ان کی مساعی جمیلہ سے دیکھنے کو مل جاتی ہیں جنھیں دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں تھیں اور ہمیں پتہ ہی نہیں تھا کہ وے صورتیں الٰہی کس دیس بستیاں ہیں مثلاً ابھی ابھی جو تصویر ہمارے سامنے پڑی ہے اسے دیکھ دیکھ کے دل ہی دل میں تالیاں بجانے کو جی چاہنے لگتا ہے اسے آپ تصویر کم اور جگنو میاں کی دم زیادہ سمجھ لیجیے

جگنو میاں کی دم جو چمکتی ہے رات کو
سب دیکھ دیکھ اس کو بجاتے ہیں تالیاں

تصویر کے نیچے ''نثر'' میں جو شعر لکھا ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان عوامی تحریک کی ایک خاتون خطاب سن رہی ہیں ہمیں خطاب سے کوئی غرض نہیں خطاب تو چلتے رہتے ہیں لیکن آں محترمہ جو ''سن'' رہی ہے بے اختیار منہ سے نکل جاتا ہے کہ واہ کیا سن رہی ہے اتنا کمال کا سن رہی ہے کہ دیکھ کر انسان ھمہ تن ''گوشت'' ہو جائے بخدا اس سے پہلے ہم نے بہت سارے لوگوں کو بہت سارے خطابات سنتے ہوئے دیکھا ہے لیکن یہ ''سننا'' ۔۔۔ وہ ''سنے'' اور ''دیکھا'' کرے کوئی ۔۔۔ یقین مانئے اس محترمہ کو ''خطاب'' سنتے دیکھ کر ایسا لگا جیسے ہم بھی وہ خطاب ''بگوش خود'' سننے لگے ہوں بلکہ اگر ''بگوش خود'' سننا کہئے تو ''بچشم خود'' تو سن ہی رہے تھے اس محترمہ کو اتنے زیادہ انہماک سے خطاب سنتے دیکھ کر ہمارے ہوش ایسے گئے کہ سننے پر دیکھنے اور دیکھنے پر سننے کا گماں ہونے لگا

موج خرام ساقی و ذوق صدائے چنگ
وہ جنت نگاہ یہ فردوس گوش ہے

ہم اس وقت بہت دور یہاں پشاور کے ایک دور افتادہ خراب آباد میں تھے لیکن ایسا لگا جیسے اسلام آباد پہنچ گئے ہوں اور ہواؤں میں اڑ رہے ہوں، چشم و گوش دونوں کا کشکول لیے ہوئے چاروں طرف رنگ ہی رنگ، جلترنگ ہی جلترنگ اور آہنگ ہی آہنگ بکھرے ہوئے تھے

یاشب کو دیکھتے تھے کہ ہر گوشہ بساط
دامان باغباں و کف گل فروش ہے

اس سے پہلے ہمیں ان اخبار والوں سے بڑی شکایات تھیں خاص طور پر تصاویر کے سلسلے میں تو ان کے ذوق پر سر پیٹنے کو جی چاہنے لگتا تھا خدا کے بندو ۔۔۔ ٹھیک ناپسندیدہ چہروں کے بیانات دینا تو تمہاری مجبوری ہے لیکن کیا ضروری ہے کہ اس کے ساتھ بیان دینے والے کا انتہائی کریہہ المنظر تھوبڑا بھی چھاپو، غلطی تو اخباروں میں عام طور پر ہوتی ہے۔

خدا ان کیمرہ مینوں کی آخرت سنوار دے جو ہماری زندگی سنوارنے کے لیے اتنی انہماک سے اتنی محنت کر رہے ہیں جو دھرنوں میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر انہماک سے خطابات سننے والے چہرے نکالتے ہیں آپ یقین کریں کہ اخبار کی خبروں، بیانوں، دھرنوں اور ناپسندیدہ چہروں کو دیکھنے سے جو ذہنی تھکان اور کوفت حاصل ہوتی ہے وہ صرف ایک ہی انہماک والا چہرہ دیکھ کر دور ہو جاتی ہے اور انسان کی طبیعت میں فرحت اور بشاشت بھر جاتی ہے

چہار چیز ز دل غم برد، کدام چہار
شراب و سبزہ و آب رواں و روئے نگار

ان چار چیزوں میں اگر کوئی ایک یعنی مثلاً ''پیالی'' نہ بھی ہو تو اس کی جگہ چائے کا پیالہ بھی کام دے جاتا ہے اور باقی تین تو ایسی ہر تصویر میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہوتی ہیں کیوں کہ وہ صرف تصویر نہیں ہوتی بلکہ ایک بے حد و بے کنار تصوراتی دنیا کی ''ونڈو'' بھی ہوتی ہے، آپ یقین کریں ہماری آنکھیں تو پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں کیا دنیا میں ایسے چہرے بھی ہوتے ہیں؟ اتنا انہماک بھی ہوتا ہے اور ایسے خطابات بھی ہوتے ہیں؟ کبھی کبھی تو خود پر غصہ بھی آ جاتا ہے کہ اس دنیا میں کیا کیا کچھ بھرا ہوا تھا اور ہم ان سب سے بے خبر تھے محروم تھے اور خدا مارے تھے اس ''دھرنے'' کا نام سن کر ہمیں گاندھی اور انا ہزارے کے سوکھے ساکھے ستیہ گرے اور ان شن یاد آ جاتے تھے لیکن یہاں تو معاملہ بہت ہی دل چسپ ہو چکا ہے

تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ ''دھرنوں'' میں علاج تنگی داماں بھی تھا

اور اس دن تو ہم ''دھنیہ'' ہو گئے جی چاہا کہ اڑ کر جائیں اور اس اخبار والے اور اس کے ساتھ کیمرہ میں بلکہ کاپی جوڑنے والے کی بھی بلائیں لے لیں جنہوں نے ہماری یادوں کے ایک خشک سوکھے ساکے چشمے کو دوبارہ ہرا بھرا کر دیا اور ہم نہ جانے کس جہاں بلکہ کن جہانوں میں پہنچ گئے

آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول
عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو

ایک مشہور و معروف فنکارہ و گلوکارہ جو ایک زمانے میں سرحد کا کوئی پرندہ بھی کہلاتی تھی اچانک آنکھوں کے سامنے تھی حالانکہ وہ ہمارے جہان سے نہ جانے کہاں چلی گئی تھی اور ہم ۔۔۔ تم نہ جانے کس جہاں میں کھو گئے ۔۔۔ کا نوحہ پڑھتے پڑھتے رہ گئے اور وہ جلوہ گل نہ رہا، دل جو کبھی جنت نگاہ اور فردوش گوش تھا

دل تا جگر کہ ساحل دریائے خوں ہے اب
اس رہگزر میں ''جلوہ گل'' آگے گرد تھا

خبر اور تصویر دونوں میں یہ مژدہ جاں فزا تھا کہ آں محترمہ بھی جا کر دھرنے میں تشریف فرما ہوں گی اور یہی وہ لمحہ تھا جب ہم پر پرنس سدارتھ کی طرح ''نروان'' کی بارش ہو گئی اور جان گئے کہ دنیا میں اگر کوئی کام کی چیز ہے کوئی مبرم حقیقت ہے کوئی آفاقی سچ ہے اور کوئی نعمت عظیم ہے تو وہ ''دھرنا'' ہے فوراً دونوں کانوں کو ہاتھ لگایا بلکہ باقاعدہ کھینچنے لگے کہ آخر اتنی خوب صورت چیز دھرنے کے بارے میں ہم کیا برے برے خیال رکھتے تھے اور وہ چیز کیا نکلی؟ وہ چیز بری ہو ہی نہیں سکتی جس میں ایسے ایسے لوگ شمولیت رکھتے ہوں

یہ کس بہشت شمائل کی آمد آمد ہے
سوائے جلوہ گل رہگزر میں خاک نہیں

بہت پچھتائے کاش کاش ہم بھی عازم دھرنا ہوتے لیکن اب کیا ہو سکتا ہے اب اگر گئے بھی تو کس منہ سے جائیں گے اور کیا پتہ ہمارے جاتے جاتے وہ چہرے رہے ہوں یا نہ ہوں اور ہم خالی میدان میں روتے پھریں کہ

اس اجنبی کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو
اشک رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو

لیکن کوئی بات نہیں خدا ان اخبار والوں، ان کے فوٹو گرافروں کو اور اہل ذوق کو بیش از بیش جزائے خیر دے کہ ان کی برکت سے ہمارے سوکھے دھانوں میں کبھی کبھی پانی پڑ جاتا ہے، دھرنا زندہ باد، خطاب پایندہ باد اور ''انہماک آیندہ باد''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں