چیونٹی کا بچہ
عام لوگ اب وہ سوال کرنے لگے ہیں جسکا تصور کچھ عرصہ پہلے نہیں کیا جا سکتا تھا۔
کمال یہ ہے کہ نقصان کا اندازہ کسی کو نہیں ہو رہا! ملک کہاں سے کہاں پہنچ چکا ہے کسی کو فکر نہیں! ہر بیان اور عملی تجربہ صرف اور صرف اپنی ذات کے فائدہ کے حوالے سے! باقی اٹھارہ بیس کروڑ لوگ تو محض کیڑے مکوڑے ہیں! دلیل کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے صورتحال کا تجزیہ اب کسی طرف بھی نظر نہیں آ رہا! یقیناً انسان خسارے میں ہے! عام لوگوں کی حالت زار ہر حوالے سے جانوروں سے بد تر ہے! وہی گھسی پٹی باتیں، آسیب زدہ نظام اور وہی طرز حکمرانی! ہر صاحب حیثیت اب تک کسی نہ کسی مہذب ملک کی شہریت لے چکا ہے یا اس راہ پر گامزن ہے۔ مگر صاحبان زیست! عام لوگ کہاں جائینگے! ان کا والی وارث کون ہو گا؟ کسی حکمران کو قطعاً فکر نہیں! عام لوگ تو اب روز نیا زخم کھا کر سوتے ہیں اور صبح پھر اس عقوبت خانے میں سانس لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔
حضرت حسان بن ثابتؓ کا شعر ہے
لَو' یَدِبُّ الحَوَلَّ مِن' وَلَدِ الذَّ رِ ّ
عَلیھَا لَاَ ندَبَتَھَا الکُلُو'مُ
"اگر چیونٹی کا چھوٹا بچہ بھی ان پر چلے تو اس سے بھی ان پر زخموں کے نشان بن جائیں"
کراچی اور کوئٹہ میں ایک ہفتہ گزار کر آج رات لاہور پہنچا ہوں۔ ایسی ایسی چیزیں اور حیرت انگیز واقعات دیکھنے اور سننے میں آئے کہ ضبطِ قلم کرنا مشکل نظر آتا ہے۔ میں پہلے بھی لکھتا رہا ہوں کہ تحریک انصاف کے جلسوں اور دھرنوں سے آپ لاکھ اختلاف کریں، یہ آپکا بنیادی حق ہے۔ مگر اس کا ایک بہت بڑا سماجی اثر آنکھوں کے سامنے آن کھڑا ہوا ہے۔ عام لوگوں میں ایک ایسے شعور کی آمد ہوئی ہے جو کم از کم میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔
لاہور سے P.I.A کا کراچی کا جہاز توقع کے عین مطابق ایک گھنٹہ تاخیر سے روانہ ہوا۔ بیس منٹ انتظار کے بعد میری سیٹ کے ساتھ ایک بزرگ نے ائیر ہوسٹس کو بلایا۔ بڑی تمیز سے تاخیر کی وجہ دریافت کی۔ فضائی میزبان نے لجاجت سے بتایا کہ کمپیوٹر خراب ہونے کی بدولت کاغذی کارروائی اب ہاتھ سے لکھ کر مکمل کی جا رہی ہے۔ یہ تاخیر کی اصل وجہ ہے! وہ بزرگ مسافر نے دس منٹ بعد اس ائیر ہوسٹس کو دوبارہ بلا کر پوچھا کہ جہاز کسی اہم شخصیت کے آنے کا انتظار تو نہیں کر رہا؟ جہاز کے اسٹاف نے انتہائی ذمے داری سے بتانے کی دوبارہ کوشش کی کہ ایسی ہرگز کوئی بات نہیں، محض کاغذی کارروائی مکمل ہونے کا انتظار ہو رہا ہے۔
بزرگ کہنے لگے کہ اگر کسی سیاسی شخصیت کا انتظار ہو رہا ہے تو وہ اسکو جہاز میں آنے کی قطعاً اجازت نہیں دینگے۔ میرے لیے یہ تبدیلی اور اَمر بہت حیرت کا باعث تھا۔ میں سارا سال متعدد بار ملکی اور غیر ملکی سفر کرتا رہتا ہوں۔ مگر میں نے یہ کیفیت آج تک نہیں دیکھی۔ عام لوگ اب وہ سوال کرنے لگے ہیں جسکا تصور کچھ عرصہ پہلے نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ہمارے مقتدر حلقے کو اس تبدیلی کا احساس شائد اس سنجیدگی سے نہیں ہو پایا، جو جوہری طور پر ہونا چاہیے۔
یہ لمحہ فکریہ ہے کیونکہ لوگوں کے ذہن کو محسوس کر کے اسے حکومتی پالیسی میں ڈھالنا ہی کامیاب سیاست کا اصل امتحان ہے! مگر مجھے دور دور تک اس طرح کی فکر و حکمت نظر نہیں آ رہی! میں اس کی اصل وجہ سمجھنے سے قاصر ہو چکا ہوں! میرا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں مگر سماجی تبدیلی کو محسوس کرنے کے بعد بیان نہ کرنا قلم کی حرمت کے خلاف ہے۔
کراچی میں زندگی کی لہر سیل رواں کی طرح جاری ہے۔ وہاں کے اکثر مقامات پر جا کر یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ شہر کتنے مہیب آسیب میں مبتلا ہے۔ شہر کے لوگوں نے خوف کے بادل کے نیچے زندگی گزارنے کا مشکل فن اپنا لیا ہے۔ہر مارکیٹ خریداروں سے بھری ہوئی اور ہر بازار اشیاء سے لبریز! کراچی میں لا اینڈ آرڈر کو معمول کی سطح پر لانے میں رینجرز کا کلیدی کردار ہے۔ رینجرز کی ہائی کمان پولیس کو مکمل سہارا دے رہی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر ایک دو سال کے بعد حکومتی پالیسی تبدیل ہوتی ہے اور رینجرز کو لا اینڈ آرڈر کو برقرار رکھنے کا کردار نہیں دیا جاتا تو پھر کیا ہو گا؟ جواب کراچی میں کسی بھی ذمے دار سطح پر موجود نہیں تھا۔
جہاں تک تحریک طالبان کے دہشت گردوں کا تعلق ہے، ان کے خلاف نمایاں کامیابی حاصل کی گئی ہے۔ دہشت گرد یا تو آپریشن میں مارے جا چکے ہیں یا وہ اب اپنی سرگرمیاں جاری نہیں رکھ سکتے۔ ضرب عضب کی بھر پور کامیابی کا اندازہ آپکو کراچی جا کر ہوتا ہے۔ ہمارے اکثر دانشور اور اہل قلم انٹیلی جینس ایجنسیوں کے منفی رویوں کے متعلق بات کرتے رہتے ہیں۔ ان کی کئی باتیں درست بھی ہیں۔ مگر کراچی میں ان خفیہ اداروں نے شدید محنت کی ہے اور دہشت گردی کو طاقتور طریقے سے کم کرنے میں ان اداروں کا کردار قابل تحسین ہے۔
سندھ کی سیاسی حکومت کے بارے میں جتنی کم بات کی جائے اتنا ہی بہتر ہے۔ جو کام پہلے وفاقی سطح پر ہو رہا تھا۔ وہ بغیر کسی رکاوٹ کے صوبائی سطح پر جاری و ساری ہے۔ کرپشن کی ایسی ایسی داستانیں ہیں کہ دل دہل جاتا ہے۔ مجھے ایک انتہائی ذمے دار سرکاری افسر نے بتایا کہ قیمت وصول کر کے ٹرانسفر آرڈر کر دیے جاتے ہیں۔ اس کے بعد جس افسر کا تبادلہ ہو رہا ہوتا ہے، اسکو علیحدہ بلا کر حساب کتاب کیا جاتا ہے۔ اچھے دام طے ہو جائیں تو اس افسر سے بھی پیسے وصول کر لیے جاتے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ بے ایمانی کے کاروبار میں بھی ایمانداری روا نہیں رکھی جاتی۔ دونوں فریقین سے سودے بازی معمول بن چکی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو جیسے بڑے لیڈر کی پارٹی اب صرف ایک صوبہ کے دیہی علاقوں میں سانس لے رہی ہے۔ آنے والے انتخابات اس پارٹی کے لیے مزید مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔ واقعی جمہوریت عام آدمی کے مفادات کے خلاف بہترین انتقام ہے۔
کوئٹہ جا کر ایک خوشگوار حیرت ہوئی۔ جس دن کوئٹہ پہنچا، اس دن شہر میں تین چار دھماکے ہوئے تھے۔ ٹی وی دیکھ کر لگتا تھا کہ شائد شہر برباد ہو چکا ہے۔ زندگی معطل ہو چکی ہے اور ہر طرف دہشت گردوں کا راج ہے۔ میں 8 بجے شام کو سرینا ہوٹل سے نکل کر پورا شہر پھرتا رہا۔ زندگی اپنے معمول کے مطابق جاری تھی۔ پولیس کے سینئر اہلکاروں نے بتایا کہ دو جگہ دھماکے کرنے والے گرفتار ہو چکے ہیں۔ اور ان سے تحقیقات جاری ہیں۔ کراچی کی طرح بلوچستان میں بھیF.C بھر پور طریقے سے دہشت گردی کے خلاف مصروف کار ہے۔ بلوچستان پولیس کا جذبہ قابل قدر ہے۔ دہشت گردی سے لڑتے ہوئے پولیس کے دو سو کے قریب افسر اور اہلکار شہید ہو چکے ہیں۔ مگر میرے لیے یہ بات بے حد باعث اطیمنان تھی کہ اتنی شہادتوں کے باوجود پولیس کے اندر خوف کا ایک ذرہ بھی موجود نہیں تھا۔
ایک انتہائی اہم نکتہ جو ہم مسلسل نظر انداز کر رہے ہیں۔ اور جسکے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں، وہ بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ہندوستان اور افغانستان کے خفیہ اداروں کی پشت پناہی ہے۔ میں انتہائی ذمے داری سے گزارش کر رہا ہوں کہ بیشتر وارداتوں میں ان ممالک کی ایجنسیاں مالی اور فنی امداد دینے میں مصروف ہیں۔ ان کا طریق کار انتہائی سادہ ہے۔ وہ ایک جگہ پر بم نصب کرنے کے لیے پچیس ہزار روپے دیتے ہیں۔ موٹر سائیکل پر چلتے چلتے گرینڈ پھینکنے والے کو پانچ ہزار روپے دیے جاتے ہیں۔ جب بھی ہماری ملکی قیادت ان ملکوں سے مذاکرات کرے تو بلوچستان میں ان کے منفی کردار کو بھر پور اور موثر طریقے سے اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔
تجارتی تعلقات کی بہتری اپنی جگہ مگر دہشت گردی کے معاملات تجارتی مراسم سے زیادہ توجہ طلب ہیں۔ کوئٹہ میں ایک منظم سازش کے تحت پنجابی اور ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔ اس سازش کی ڈور کہاں سے ہلتی ہے، یہ حقیقت تمام ذمے دار حلقوں کے علم میں ہے۔ کمی ہے، تو صرف قومی سطح پر اس جرات کی، جسکے اظہار کے بغیر معاملات مکمل طور پر ٹھیک نہیں کیے جا سکتے۔
پاکستان، خصوصاً سوات اور صوبہ بلوچستان میں، ایک سے دو ٹریلین ڈالر کے معدنی ذخائر موجود ہیں۔ Geological Survey of Pakistan کے مطابق اگر ہم ایک موثر قومی معدنی پالیسی اپنائیں تو صرف دو سال کی قلیل مدت میں اپنے تمام اندرونی اور بیرونی قرضے ادا کر سکتے ہیں۔مگر افسوس یہ ہے! کہ کسی بھی حکومتی سربراہ کی نظر ہمارے قومی معدنی ذخائر اور ان سے ملک کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کی طرف نہیں گئی۔ چینی ادارے اب تک بلوچستان کے ذخائر سے پانچ ارب ڈالر کما چکے ہیں۔ اور ہماری حکومت کو خیرات کی صورت میں محض چند ملین ڈالر عطا کیے گئے ہیں۔
معلوم نہیں کہ ہم کیوں گہری نیند میں ہیں اور اپنے مفادات کا تحفظ کرنا کب سیکھیں گے مگر صاحبان زیست! ہمارے عام لوگ اب زخم اٹھا اٹھا کر بد حال ہو چکے ہیں۔ حکومتی چرکوں سے ان پر غربت، مہنگائی، بیروزگاری، کرپشن اور دہشت گردی کے گہرے گھاؤ لگائے گئے ہیں۔ اب تو ان کا اصل جسم تک نظر نہیں آتا! وہ مزید تکلیف برداشت نہیں کر سکتے! مقتدر حلقوں کو جاننا چاہیے کہ اب وہ مزید زخم بھی سہنے کے لیے تیار نہیں! اگر کسی نے چیونٹی کے بچے کے برابر بھی زخم لگانے کی کوشش کی تو لوگوں کا رد عمل توقع سے بڑھ کر خوفناک ہو سکتا ہے! یہ اٹھارہ کروڑ کیڑے مکوڑے ناجائز دولت کے جنگل کو لمحوں میں ریت کے صحرا میں تبدیل کرنے کی طاقت رکھتے ہیں!
حضرت حسان بن ثابتؓ کا شعر ہے
لَو' یَدِبُّ الحَوَلَّ مِن' وَلَدِ الذَّ رِ ّ
عَلیھَا لَاَ ندَبَتَھَا الکُلُو'مُ
"اگر چیونٹی کا چھوٹا بچہ بھی ان پر چلے تو اس سے بھی ان پر زخموں کے نشان بن جائیں"
کراچی اور کوئٹہ میں ایک ہفتہ گزار کر آج رات لاہور پہنچا ہوں۔ ایسی ایسی چیزیں اور حیرت انگیز واقعات دیکھنے اور سننے میں آئے کہ ضبطِ قلم کرنا مشکل نظر آتا ہے۔ میں پہلے بھی لکھتا رہا ہوں کہ تحریک انصاف کے جلسوں اور دھرنوں سے آپ لاکھ اختلاف کریں، یہ آپکا بنیادی حق ہے۔ مگر اس کا ایک بہت بڑا سماجی اثر آنکھوں کے سامنے آن کھڑا ہوا ہے۔ عام لوگوں میں ایک ایسے شعور کی آمد ہوئی ہے جو کم از کم میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔
لاہور سے P.I.A کا کراچی کا جہاز توقع کے عین مطابق ایک گھنٹہ تاخیر سے روانہ ہوا۔ بیس منٹ انتظار کے بعد میری سیٹ کے ساتھ ایک بزرگ نے ائیر ہوسٹس کو بلایا۔ بڑی تمیز سے تاخیر کی وجہ دریافت کی۔ فضائی میزبان نے لجاجت سے بتایا کہ کمپیوٹر خراب ہونے کی بدولت کاغذی کارروائی اب ہاتھ سے لکھ کر مکمل کی جا رہی ہے۔ یہ تاخیر کی اصل وجہ ہے! وہ بزرگ مسافر نے دس منٹ بعد اس ائیر ہوسٹس کو دوبارہ بلا کر پوچھا کہ جہاز کسی اہم شخصیت کے آنے کا انتظار تو نہیں کر رہا؟ جہاز کے اسٹاف نے انتہائی ذمے داری سے بتانے کی دوبارہ کوشش کی کہ ایسی ہرگز کوئی بات نہیں، محض کاغذی کارروائی مکمل ہونے کا انتظار ہو رہا ہے۔
بزرگ کہنے لگے کہ اگر کسی سیاسی شخصیت کا انتظار ہو رہا ہے تو وہ اسکو جہاز میں آنے کی قطعاً اجازت نہیں دینگے۔ میرے لیے یہ تبدیلی اور اَمر بہت حیرت کا باعث تھا۔ میں سارا سال متعدد بار ملکی اور غیر ملکی سفر کرتا رہتا ہوں۔ مگر میں نے یہ کیفیت آج تک نہیں دیکھی۔ عام لوگ اب وہ سوال کرنے لگے ہیں جسکا تصور کچھ عرصہ پہلے نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ہمارے مقتدر حلقے کو اس تبدیلی کا احساس شائد اس سنجیدگی سے نہیں ہو پایا، جو جوہری طور پر ہونا چاہیے۔
یہ لمحہ فکریہ ہے کیونکہ لوگوں کے ذہن کو محسوس کر کے اسے حکومتی پالیسی میں ڈھالنا ہی کامیاب سیاست کا اصل امتحان ہے! مگر مجھے دور دور تک اس طرح کی فکر و حکمت نظر نہیں آ رہی! میں اس کی اصل وجہ سمجھنے سے قاصر ہو چکا ہوں! میرا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں مگر سماجی تبدیلی کو محسوس کرنے کے بعد بیان نہ کرنا قلم کی حرمت کے خلاف ہے۔
کراچی میں زندگی کی لہر سیل رواں کی طرح جاری ہے۔ وہاں کے اکثر مقامات پر جا کر یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ شہر کتنے مہیب آسیب میں مبتلا ہے۔ شہر کے لوگوں نے خوف کے بادل کے نیچے زندگی گزارنے کا مشکل فن اپنا لیا ہے۔ہر مارکیٹ خریداروں سے بھری ہوئی اور ہر بازار اشیاء سے لبریز! کراچی میں لا اینڈ آرڈر کو معمول کی سطح پر لانے میں رینجرز کا کلیدی کردار ہے۔ رینجرز کی ہائی کمان پولیس کو مکمل سہارا دے رہی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر ایک دو سال کے بعد حکومتی پالیسی تبدیل ہوتی ہے اور رینجرز کو لا اینڈ آرڈر کو برقرار رکھنے کا کردار نہیں دیا جاتا تو پھر کیا ہو گا؟ جواب کراچی میں کسی بھی ذمے دار سطح پر موجود نہیں تھا۔
جہاں تک تحریک طالبان کے دہشت گردوں کا تعلق ہے، ان کے خلاف نمایاں کامیابی حاصل کی گئی ہے۔ دہشت گرد یا تو آپریشن میں مارے جا چکے ہیں یا وہ اب اپنی سرگرمیاں جاری نہیں رکھ سکتے۔ ضرب عضب کی بھر پور کامیابی کا اندازہ آپکو کراچی جا کر ہوتا ہے۔ ہمارے اکثر دانشور اور اہل قلم انٹیلی جینس ایجنسیوں کے منفی رویوں کے متعلق بات کرتے رہتے ہیں۔ ان کی کئی باتیں درست بھی ہیں۔ مگر کراچی میں ان خفیہ اداروں نے شدید محنت کی ہے اور دہشت گردی کو طاقتور طریقے سے کم کرنے میں ان اداروں کا کردار قابل تحسین ہے۔
سندھ کی سیاسی حکومت کے بارے میں جتنی کم بات کی جائے اتنا ہی بہتر ہے۔ جو کام پہلے وفاقی سطح پر ہو رہا تھا۔ وہ بغیر کسی رکاوٹ کے صوبائی سطح پر جاری و ساری ہے۔ کرپشن کی ایسی ایسی داستانیں ہیں کہ دل دہل جاتا ہے۔ مجھے ایک انتہائی ذمے دار سرکاری افسر نے بتایا کہ قیمت وصول کر کے ٹرانسفر آرڈر کر دیے جاتے ہیں۔ اس کے بعد جس افسر کا تبادلہ ہو رہا ہوتا ہے، اسکو علیحدہ بلا کر حساب کتاب کیا جاتا ہے۔ اچھے دام طے ہو جائیں تو اس افسر سے بھی پیسے وصول کر لیے جاتے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ بے ایمانی کے کاروبار میں بھی ایمانداری روا نہیں رکھی جاتی۔ دونوں فریقین سے سودے بازی معمول بن چکی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو جیسے بڑے لیڈر کی پارٹی اب صرف ایک صوبہ کے دیہی علاقوں میں سانس لے رہی ہے۔ آنے والے انتخابات اس پارٹی کے لیے مزید مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔ واقعی جمہوریت عام آدمی کے مفادات کے خلاف بہترین انتقام ہے۔
کوئٹہ جا کر ایک خوشگوار حیرت ہوئی۔ جس دن کوئٹہ پہنچا، اس دن شہر میں تین چار دھماکے ہوئے تھے۔ ٹی وی دیکھ کر لگتا تھا کہ شائد شہر برباد ہو چکا ہے۔ زندگی معطل ہو چکی ہے اور ہر طرف دہشت گردوں کا راج ہے۔ میں 8 بجے شام کو سرینا ہوٹل سے نکل کر پورا شہر پھرتا رہا۔ زندگی اپنے معمول کے مطابق جاری تھی۔ پولیس کے سینئر اہلکاروں نے بتایا کہ دو جگہ دھماکے کرنے والے گرفتار ہو چکے ہیں۔ اور ان سے تحقیقات جاری ہیں۔ کراچی کی طرح بلوچستان میں بھیF.C بھر پور طریقے سے دہشت گردی کے خلاف مصروف کار ہے۔ بلوچستان پولیس کا جذبہ قابل قدر ہے۔ دہشت گردی سے لڑتے ہوئے پولیس کے دو سو کے قریب افسر اور اہلکار شہید ہو چکے ہیں۔ مگر میرے لیے یہ بات بے حد باعث اطیمنان تھی کہ اتنی شہادتوں کے باوجود پولیس کے اندر خوف کا ایک ذرہ بھی موجود نہیں تھا۔
ایک انتہائی اہم نکتہ جو ہم مسلسل نظر انداز کر رہے ہیں۔ اور جسکے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں، وہ بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ہندوستان اور افغانستان کے خفیہ اداروں کی پشت پناہی ہے۔ میں انتہائی ذمے داری سے گزارش کر رہا ہوں کہ بیشتر وارداتوں میں ان ممالک کی ایجنسیاں مالی اور فنی امداد دینے میں مصروف ہیں۔ ان کا طریق کار انتہائی سادہ ہے۔ وہ ایک جگہ پر بم نصب کرنے کے لیے پچیس ہزار روپے دیتے ہیں۔ موٹر سائیکل پر چلتے چلتے گرینڈ پھینکنے والے کو پانچ ہزار روپے دیے جاتے ہیں۔ جب بھی ہماری ملکی قیادت ان ملکوں سے مذاکرات کرے تو بلوچستان میں ان کے منفی کردار کو بھر پور اور موثر طریقے سے اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔
تجارتی تعلقات کی بہتری اپنی جگہ مگر دہشت گردی کے معاملات تجارتی مراسم سے زیادہ توجہ طلب ہیں۔ کوئٹہ میں ایک منظم سازش کے تحت پنجابی اور ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔ اس سازش کی ڈور کہاں سے ہلتی ہے، یہ حقیقت تمام ذمے دار حلقوں کے علم میں ہے۔ کمی ہے، تو صرف قومی سطح پر اس جرات کی، جسکے اظہار کے بغیر معاملات مکمل طور پر ٹھیک نہیں کیے جا سکتے۔
پاکستان، خصوصاً سوات اور صوبہ بلوچستان میں، ایک سے دو ٹریلین ڈالر کے معدنی ذخائر موجود ہیں۔ Geological Survey of Pakistan کے مطابق اگر ہم ایک موثر قومی معدنی پالیسی اپنائیں تو صرف دو سال کی قلیل مدت میں اپنے تمام اندرونی اور بیرونی قرضے ادا کر سکتے ہیں۔مگر افسوس یہ ہے! کہ کسی بھی حکومتی سربراہ کی نظر ہمارے قومی معدنی ذخائر اور ان سے ملک کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کی طرف نہیں گئی۔ چینی ادارے اب تک بلوچستان کے ذخائر سے پانچ ارب ڈالر کما چکے ہیں۔ اور ہماری حکومت کو خیرات کی صورت میں محض چند ملین ڈالر عطا کیے گئے ہیں۔
معلوم نہیں کہ ہم کیوں گہری نیند میں ہیں اور اپنے مفادات کا تحفظ کرنا کب سیکھیں گے مگر صاحبان زیست! ہمارے عام لوگ اب زخم اٹھا اٹھا کر بد حال ہو چکے ہیں۔ حکومتی چرکوں سے ان پر غربت، مہنگائی، بیروزگاری، کرپشن اور دہشت گردی کے گہرے گھاؤ لگائے گئے ہیں۔ اب تو ان کا اصل جسم تک نظر نہیں آتا! وہ مزید تکلیف برداشت نہیں کر سکتے! مقتدر حلقوں کو جاننا چاہیے کہ اب وہ مزید زخم بھی سہنے کے لیے تیار نہیں! اگر کسی نے چیونٹی کے بچے کے برابر بھی زخم لگانے کی کوشش کی تو لوگوں کا رد عمل توقع سے بڑھ کر خوفناک ہو سکتا ہے! یہ اٹھارہ کروڑ کیڑے مکوڑے ناجائز دولت کے جنگل کو لمحوں میں ریت کے صحرا میں تبدیل کرنے کی طاقت رکھتے ہیں!