جیوری کا فیصلہ پہلا حصہ

موت کے بھی مختلف انداز ہیں۔ ایک مُردہ ہزار سائے رکھتا ہے۔ اَن گنت چھلاوے اُس سے وابستہ ہوتے ہیں۔


تشنہ بریلوی October 04, 2014
[email protected]

نیندکے مزے لے ' اے ننّھی پَری اور اے رشک ِ حُورخاتون اپنی تھکن اُتار۔

رات کے دو بج چُکے ہیں۔ اندھیرے اور سنّاٹے کا راج ہے۔ اس کمرے میں' اِس بیڈروم میں بھی خاموشی ہے' رُوح فرسا ' وحشت ناک سکوت' تابوت اور مُردہ خانے کی خاموشی۔

'' لیکن اِس خواب گاہ میں ایسا آسیب زدہ ماحول کیوں؟ یہاں تو بہارِ حیات رقصاں ہونی چاہیے اِس لیے کہ زندگی کے دو خوبصورت نمونے یہاں موجود ہیں' بستر پر محوِ خواب ۔''

بیشک' مگر پھر بھی یہ کمرہ موت ہی کا ماحول پیش کررہا ہے کیونکہ زندگی کے اِن دو دل آویز مرقعّوں کے ساتھ یہاں ایک لاش بھی موجود ہے 'ایک بھوت' جو اس نفیس شبستاں کو مقبرے میں تبدیل کررہا ہے اور یہ لاش اِس ننّھی بچی کے باپ اور اِس نوجوان عورت کے شوہر کی ہے۔

خواب گاہ کے ایک تاریک گوشے میں، مَیں کرسی پر بیٹھا ہوا ہوں' سر جھکائے اور بمشکل سانس لیتے ہوئے۔ میں خودکو زندہ لوگوں میں شمار نہیں کرتا۔میں تو مُردوں سے بدتر ہوں چونکہ میرا دل مر چکا ہے ' میری رُوح مرچکی ہے'میرا ذہن ودماغ 'شعور'لاشعور سب کچھ مرچکا ہے ۔ میں سانس ضرور لے رہا ہوں لیکن میری سانس سے بدبوکے بھپکے پھوٹ رہے ہیں ' ایک سڑتے گلتے جسم کی طرح۔

''اگر ایسا ہے تو پھر تم اِس کمرے میں کیوں بیٹھے ہو۔ تمہیں تو زمین کے اندر ہونا چاہیے !''

موت کے بھی مختلف انداز ہیں۔ ایک مُردہ ہزار سائے رکھتا ہے۔ اَن گنت چھلاوے اُس سے وابستہ ہوتے ہیں۔ لیکن ذرا توقف کیجیے ۔ جواب جلد ہی مل جائے گا۔ فی الفور میں صرف یہ بتانا چاہوںگا کہ ننھّی بچی جو بستر پر سو رہی ہے میری اپنی بیٹی ہے اور یہ عورت میری بیوی ہے۔

دنیا کے کسی بھی انسان کو لیجیے ۔ مرد یا عورت ' امیر یا غریب ' تعلیم یافتہ یا اَن پڑھ ۔ وہ عزیزوں دوستوں کے درمیان زندگی گذارتا ہے (یا گذارتی ہے)۔ محنت اور محبت سے اپنے ماحول کو خوشگوار بناتا ہے ۔ جب یہ انسان ' یہ فرد ' قدرت کے مقرر کردہ وقت پر اِس دنیا سے رخصت ہوتا ہے ( یا ہوتی ہے) تو اِسے ''مُردہ'' نہ کہا جائے اور محفلِ زندگی سے اِس مرد یا عورت کی ''روانگی'' کو ''موت''ہرگز نہ سمجھا جائے اِس لیے کہ ''موت'' تو ایک شیطانی لفظ ہے۔ لیکن میں یعنی اِس دلکش خاتون کا شوہر اور اس پری تمثال بچّی کا باپ یقینا ''مُردوں'' میں شمار ہوتا ہوں' میں قہرِ الٰہی کا عبرت انگیز نمونہ ہوں۔مگرشاید میرے اندر بھی ابھی زندگی کی رمق باقی ہے جو آنسوؤں کی اِس آبشار کی شکل میں میرے قلبِ مُردہ کے کسی قدیم آتش فشاں سے لاوا بن کر اُبل رہی ہے۔

مزید برآں میں تو ایک مجرم ہوں ۔ ایک عدالت میں میرا جُرم ثابت ہوچکا ہے۔ مجھے پھانسی کی سزا مل چکی ہے اور اس سزا پر عمل بھی ہوچکا ہے۔ پھانسی کا پھندا میرے گلے میں پڑچکا ہے ۔ میرے ہاتھ پاؤں باندھے جاچکے ہیں۔ تختۂ دار پیروں تلے سے ہٹایا جاچکا ہے یعنی ''دھڑن تختہ '' ہوچکا ہے۔ انگریزی حرف (ایل) کی طرح ایک ٹکٹکی سے بندھے ہوئے پھندے میں جھولتا ہوا میںاپنی ٹوٹی اور مُڑی ہوئی گردن کے ساتھ کُرّۂ ارض کے گرد چکّر پہ چکّر لگا رہا ہوں۔عرض البلد اور طول البلدکی لکیروں کی طرح۔ہر برّاعظم سے گذرتا ہوا ' عظیم سمندروں کے پانیوں سے چھچھلتا ہوا ۔تپتے صحراؤں کی چٹختی ہوئی زمین کو چھوتا ہُوا ۔ یخ بستہ پہاڑوں کی چٹانوں سے پھسلتا ہوا ۔گھنے جنگلوں کو پھلانگتا ہوا ۔ لُڑھکتا ہوا اور سطحِ ارض سے ٹکراتا ہوا میں گردش میں ہوں ' بیحد تیز رفتاری کے ساتھ ' اس لیے کہ بقول جرمن شاعر بورگر ''مرنے والے بہت تیز سفر کرتے ہیں۔''

DENN DIE TODTEN REITEN SCHNELL

جس عدالت نے مجھے سزا دی وہ لڑکیوں پر مشتمل تھی۔ منصف ' وکیل ِ استغاثہ اور عدالتی عہدیدار سب لڑکیاں ہی تھیں لیکن جیوری میں چند حیران وپریشان خواتین اور اشک بار مرد بھی موجود تھے۔

'' می لیڈی اور ممبرانِ جیوری'' وکیل ِ استغاثہ نے اپنے خطاب کا آغاز کیا:''آج یہاں کٹہرے میںآپ انسانیت کے سب سے بڑے دشمن کو دیکھ رہے ہیں جو کروڑوں بچّیوں' لڑکیوں اور عورتوں پر ظلم ڈھا چکا ہے ۔اُنہیں موت کے گھاٹ اُتار چکا ہے۔اِس کے جرائم کا خلاصہ یہاں ایک رجسٹر میں موجود ہے ۔ اِسے پڑھیے ' نرمی یا رحم کا ہرگز مظاہرہ نہ کریں اِس لیے کہ یہ عبرتناک سزا کا مستحق ہے ۔ یعنی پھانسی اور صرف پھانسی۔ یہ بدنام ِ زمانہ کردار ایک بچّی کا سنگدل باپ ہے جی ہاں لڑکی کا باپ۔

''می لیڈی ۔ ہر بچّہ' ہر نفسِ نوزائیدہ' (لڑکا ہو یا لڑکی) جو اِس دنیا میں وارد ہوتا ہے وہ خُدائے مہربان کی طرف سے ایک تحفہ ہے ایک قیمتی امانت اور والدین پر لازم ہے کہ وہ اپنی آغوش اس کے لیے وا کریں ۔ یاد رکھیں کہ خُدا نے ماں اور باپ ''دونوں'' کے ذریعے اس بچے کو دنیا میں بھیجا ہے۔اِس لیے لڑکی کی پیدائش پر ماں پر ''الزام '' کسی صورت میں درست نہیں ہے۔ ماں تو محبت کا سر چشمہ ہے وہ دل وجان سے ننھے وجود پر واری و صدقے ہوتی ہے ۔ لیکن یہ ملزم یعنی نووارد کا باپ بچی کی پیدائش پر بیحد اُداس ہوجاتا ہے اور غصّہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی بیوی کو ''خطا وار '' قرار دیتا ہے جب کہ اس''خطا'' میں وہ خود بھی شریک ہے ۔اپنے شوہر کے اِس افسوس ناک رویے کی وجہ سے بچّی کی ماں بھی خود کو ''مجرم'' سمجھنے لگتی ہے اور اِس انسانیت سوز سازش میں مجبوراً شامل ہوجاتی ہے۔

''مزید برآں' می لیڈی'' وکیلِ استغاثہ نے ایک گھونٹ پانی پی کر بیان جاری رکھا''اور اگر بچی کا باپ دل پر جبر کرکے اسے قبول بھی کرلیتا ہے تو بھی عموماً اُس بچی کی زندگی موت سے بد تر ہوتی ہے ' دُکھوں اور ذلتوں سے بھری ہوئی ۔ اور اِس بات کا قوی امکان ہوتا ہے کہ وہ کسی دن ''غیرت '' کے نام پر قتل کردی جائے گی اپنے باپ کے ہاتھوں ' یا باپ کی رضا مندی سے چچا کے ہاتھوں۔اِن الفاظ کے ساتھ می لیڈی 'میں انسانیت کے نام پر ' آپ سے ایک تاریخی فیصلے کی درخواست کرتی ہوں ۔ لیکن پہلے میں کچھ نمونے ' کچھ جھلکیاں ' بطورِ ثبوت پیش کرنا چاہوں گی ۔ یعنی اُن لڑکیوں اور عورتوں کی تصاویر ' جو اِس بدنام زمانہ مجرم کے ہیبت ناک مظالم کا شکار ہوئی ہیں۔''

(جاری ہے۔)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں