عقابی روح
مذہبی انتہا پرستی ہے اور مغرب کی ساری ایجادیں استعمال کرتے ہوئے بھی وہ مغرب سے نفرت کرتے ہیں۔
FAISALABAD:
آج کل ہمارے فرزند ارجمند عمران خان کی وکالت کرتے پھر رہے ہیں۔ مجھے دکھ بھی ہوا اور خوشی بھی کہ ہمارے بیٹے نے کم ازکم سیاست پر سوچ وبچار تو شروع کیا۔ ایک دن ضرور وہ اس لائق بھی ہوجائیں گے کہ وہ حقیقتوں کا ادراک اور بہتر انداز میں کر پائیں گے اور اس طرح ستاروں سے آگے جہاں اور پائیں گے۔
یوں کہیے کہ یہ سہرا خان صاحب کو جاتا ہے کہ وہ نوجوانوں کو خصوصاً اربن نوجوانوں کو، جو کبھی سیاست کی طرف مائل بہ کرم نہیں ہوئے تھے اور بہت ہی غیر سیاسی رویے رکھتے تھے آج کل اس کے برعکس وہی نوجوان سیاست میں پنچایتی و روایتی یا موروثی سیاست کا کچھ زیادہ شکار ہے جب کہ شہری نوجوان نہیں۔ ایک طرف یہ ہے تو دوسری طرف موروثی سیاست کرنے والوں نے بھی اب اپنے نوجوانوں کو آگے کردیا ہے کہ کہیں خان صاحب کے لیے خالی میدان نہ رہ جائے۔ ایک طرف بلاول بھٹو ہیں جو اب ٹوئیٹر سے نکل کر فرش پر اتر آئے ہیں ، دوسری طرف مریم ہیں تو حمزہ شریف ہیں۔
بلاول کے لیے لہو گرم رکھنے کے لیے کوئی واضح منظر نہیں جو ان کی اماں کے لیے تھا۔ ایک طرف آمر تھا تو دوسری طرف کال کوٹھڑی میں سزائے موت کا انتظار کرتے ہوئے ان کے نانا تھے۔ خود نانا بھی جنرل ایوب سے سب ناتے توڑ کر سیاست میں آئے اور نئی پارٹی بنائی اور آمریت کے خلاف وہ جھنڈے گاڑے کہ اس سے پہلے اس بات کی روایت نہ تھی۔ اس کے برعکس بلاول ہوں یا حمزہ ہوں دونوں صاحب اقتدار حلقوں میں ہیں اور اقتدار بری حکمرانی کے نئے ریکارڈ قائم کر رہا ہے۔
بجلی کی لوڈشیڈنگ ہو یا اس کے بل ہوں۔ یا پھر سندھ میں اسکولوں پر لگے تالے ہوں۔ خصوصاً پاکستان پیپلزپارٹی ایک نئے موڑ پر آئی ہے۔ پنجاب سے ان کی چھٹی ہوئی، بلوچستان میں وہ تھے ہی نہیں، خیبرپختونخوا میں ملے جلے رجحان کے ساتھ کہیں موجود ہوں، لیکن سندھ اور سرائیکی بیلٹ میں پارٹی اب بھی بھرپور طریقے سے وجود رکھتی ہے، ایک لحاظ سے یہ پارٹی اربن سندھ کی بھی مقبول پارٹی نہیں۔ باقی رورل سندھ کے اندر جو مڈل کلاس ہے یہ پارٹی ان میں بھی مقبول نہیں۔ اور بھی اگر غور سے دیکھا جائے تو رورل سندھ میں مڈل کلاس اتنے مضبوط بھی نہیں یا خود وہ سندھی جو شہروں میں رہتے ہیں کہ ان کی نمایندہ جماعتیں اسمبلیوں تک ایک سیٹ لے کے بھی نہیں پہنچیں۔ نہ اب وہ جیالا رہا جو بے نظیر بھٹو کے زمانے تک پایا جاتا تھا۔
اب یہ پارٹی بدنصیبی سے پنچایتی سیاست کرنے والی پارٹی ہے لیکن ہے یہ جمہوریت پرست اور یہ بھی حقیقت ہے کہ خود ان کی کارکردگی کی وجہ سے خود جمہوریت پر دوبارہ سوال اٹھ گئے ہیں، جس بحران کو عمران خان آج کل ان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ پنجاب میں جو نوجوان بلاول بھٹو سے متاثر ہونے تھے ان پر خان صاحب ڈاکہ ڈال چکے۔ ڈاکہ اس لیے کہ نوجوانوں کو خان صاحب شب خوں کے خلاف حساس نہ کرسکے۔
کل جس طرح میں مغربی جمہوریت سے اپنے زمانے میں نالاں تھا، لیکن میری جوانی کے زمانوں میں ایک واضح نظریہ تھا سائنسی طور طریقوں سے حقائق کا ادراک کا طریقہ مجھے سرخوں نے سکھایا تھا۔ ابھی اٹھارہ برس کی عمر تھی جب سیاست کی طرف راغب ہوا۔ میرے پاس ابا کی چھوڑی ہوئی ایک خوبصورت کتابوں کی لائبریری تھی ۔ ادھر سندھ کے دہقانوں کی تحریک تھی اور اس ملک میں پسی ہوئی مظلوم قوموں کی تحریک ۔ لیکن آج میرے بیٹے کے پاس اور اس جیسی سوچ رکھتے ہوئے اربن نوجوان یا دیہی نوجوان کے پاس یہ کچھ نہیں ۔ ان کے پاس آج کل آئے ہوئے ٹاک شوز ہیں۔
مذہبی انتہا پرستی ہے اور مغرب کی ساری ایجادیں استعمال کرتے ہوئے بھی وہ مغرب سے نفرت کرتے ہیں۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ آج عربوں کے اندر سال ہا سال سے رہتی ہوئی آمریتوں نے ان کے سماج میں کتنے تضادات پیدا کردیے ۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ آج ہانگ کانگ کے نوجوان ہانگ کانگ کے اندر جمہوریت کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں جس کے اثرات خود چین کے اندر جائیں گے ۔ وہ امرتا سین کو نہیں پڑھتے، وہ یہ نہیں جانتے کہ جمہوریت اور ترقی ایک سکے کے دو پہلو ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں ۔
ان سارے حقائق سے ایک دن میرا بیٹا یقیناً واقف ہوگا۔ ہاں وہ سیاست کی طرف راغب تو ہوا، اس کے لیے میں عمران خان کا بے حد ممنون ہوں کہ اس کی کرکٹ کی کوکھ سے نکلتی ہے سیاست کے لیے شناسائی اور عورتوں کے لیے قدرتی آزاد فضا۔
لیکن بلاول پھر بھی سوچ سب سے بہتر انداز میں رکھتے ہیں۔ اس کے پاس ایک طرف ٹھیک ہے کہ موروثی سیاست کی تاریخ پڑی ہے لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے کہ اس کے پلڑے میں شہادتوں کی روایت بھی پڑی ہے ۔ ان کے بڑوں نے آمریتوں کے خلاف جدوجہد کی ہے۔ لیکن وہ پھر بھی جاگیرداری رسموں سے بھی جڑے ہوئے رہے ہیں ۔ اب یہ سوال سماج کی ارتقا سے زیادہ منسلک ہے ۔
جب یہی سماج انھیں موروثی سیاست کی اجازت دیتا ہے اور اب بھی سماج میں جہالت کے ڈیرے ہیں تو ان میں ان کا قصور نہیں لوگوں کا قصور ہے ۔ جب سماج انھیں بری حکمرانی کے باوجود بھی ووٹ دیتا ہے تو یہ سوال ارتقا کا سوال ہے ۔ میاں صاحب ہوں یا زرداری یا عمران خان، یا جماعت اسلامی یا مولانا فضل الرحمٰن یا متحدہ ۔ ان سب کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اگر آپ پاکستان کے دوست ہیں تو پھر یہ بات مان لیں کہ پاکستان میں طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں نہ کہ بازوئے شمشیر ۔ اب جو لوگ شب خوں کی طرف دیکھ رہے ہیں وہ اس ملک سے کسی بھی لحاظ سے مخلص نہیں ۔
جمہوریت نہ مشرقی ہوتی ہے نہ مغربی ۔ بس یہ ہوتی ہے اور آج ہر ریاست کے لیے اشد ضروری ہے۔ آج یہ عقابی روح نوجوانوں میں بیدار ہوچکی ہے ۔ آج کل اس کو جھپکنے کے لیے میاں صاحب لیپ ٹاپ کا لارا دے کر تو بلاول ''بی بی کا بیٹا آئے گا روزگار لائے گا'' کا نعرہ دے کر ان کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
لیکن عمران خان یہ بازی ہار گئے ۔ اس کا ''تبدیلی'' والا نعرہ ان کو بہا لے گیا۔ کیونکہ نوجوانی کے اصولی معنی یہ ہیں کہ وہ روایتوں کے خلاف ہوتا ہے اور عمران خان ان کو اس جھانسے سے اپنے جال میں پھنسا لے گئے۔ Ideas کبھی ہارتے نہیں ۔ وہ صرف وقت لیتے ہیں پختہ ہونے میں ۔ یہ نوجوان یقیناً اس پاکستان کو اس اشرافیہ والے پاکستان سے آزاد کرائیں گے ۔وقت تو آنے دیں ۔
بلاول کا یہ کہنا کہ جو لوگ ان کی طرف راغب نہیں ہوتے وہ چاہے بائیں بازو کی سیاست کی طرف راغب ہوں انھیں کوئی اعتراض نہیں یہ بتاتا ہے کہ بلاول کا جھکاؤ کس طرف ہے ۔ بلاول کا جھکاؤ مستقبل کی طرف ہے ۔ وہ پاکستان کے لیے سیکولر خیال رکھتے ہیں اپنی ماں کی طرح۔ لیکن ہندوستان دشمنی کے خیال میں وہ اپنی ماں سے رہبری نہیں لیتے ۔ بلکہ اپنے نانا سے رہبری لیتے ہیں ۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ اس خطے کے امن کا کتنا گہرا تعلق ہے غربت کے خاتمے سے۔ بلاول کو ابھی ڈھیر ساری تاریخ پڑھنی ہے اپنی پارٹی کے روایتی شکنجوں سے اپنے آپ کو آزاد کروانا ہوگا۔ اسے Peter the Great کو پڑھنا ہوگا ۔
اسے اکبر اعظم کو پڑھنا ہوگا کہ کس طرح ایک نے جدید روس کی بنیاد رکھی اور دوسرے نے جدید ہندوستان کی ۔ اور وہ بھی بلاول کی طرح موروثی تاریخ رکھتے تھے ۔ اب وہ کلاسیکل بائیں بازو کی سیاست کے زمانے بھی گئے جب ہم سرخے ہوا کرتے تھے ۔ چی گویرا سے ہمیں رومانس ہوا کرتا تھا اور ''دنیا کے مزدورو! ایک ہوجاؤ'' کے نعرے لگایا کرتے تھے ۔ اب بھی دنیا میں وہ 'نوجوان' زندہ ہے لیکن اب ہم اس ظلم کے خلاف کچھ اور انداز میں لڑیں گے۔ آج پاکستان کے نوجوان کے لیے صرف یہی التجا ہے کہ وہ غریب نوجوانوں کے بند اسکولوں کو ذرا کھلوا دیں ان کی رکھوالی کریں تاکہ وہ غریب نوجوان اپنے خاندان کو غربت سے آزاد کرا سکے۔
آج کل ہمارے فرزند ارجمند عمران خان کی وکالت کرتے پھر رہے ہیں۔ مجھے دکھ بھی ہوا اور خوشی بھی کہ ہمارے بیٹے نے کم ازکم سیاست پر سوچ وبچار تو شروع کیا۔ ایک دن ضرور وہ اس لائق بھی ہوجائیں گے کہ وہ حقیقتوں کا ادراک اور بہتر انداز میں کر پائیں گے اور اس طرح ستاروں سے آگے جہاں اور پائیں گے۔
یوں کہیے کہ یہ سہرا خان صاحب کو جاتا ہے کہ وہ نوجوانوں کو خصوصاً اربن نوجوانوں کو، جو کبھی سیاست کی طرف مائل بہ کرم نہیں ہوئے تھے اور بہت ہی غیر سیاسی رویے رکھتے تھے آج کل اس کے برعکس وہی نوجوان سیاست میں پنچایتی و روایتی یا موروثی سیاست کا کچھ زیادہ شکار ہے جب کہ شہری نوجوان نہیں۔ ایک طرف یہ ہے تو دوسری طرف موروثی سیاست کرنے والوں نے بھی اب اپنے نوجوانوں کو آگے کردیا ہے کہ کہیں خان صاحب کے لیے خالی میدان نہ رہ جائے۔ ایک طرف بلاول بھٹو ہیں جو اب ٹوئیٹر سے نکل کر فرش پر اتر آئے ہیں ، دوسری طرف مریم ہیں تو حمزہ شریف ہیں۔
بلاول کے لیے لہو گرم رکھنے کے لیے کوئی واضح منظر نہیں جو ان کی اماں کے لیے تھا۔ ایک طرف آمر تھا تو دوسری طرف کال کوٹھڑی میں سزائے موت کا انتظار کرتے ہوئے ان کے نانا تھے۔ خود نانا بھی جنرل ایوب سے سب ناتے توڑ کر سیاست میں آئے اور نئی پارٹی بنائی اور آمریت کے خلاف وہ جھنڈے گاڑے کہ اس سے پہلے اس بات کی روایت نہ تھی۔ اس کے برعکس بلاول ہوں یا حمزہ ہوں دونوں صاحب اقتدار حلقوں میں ہیں اور اقتدار بری حکمرانی کے نئے ریکارڈ قائم کر رہا ہے۔
بجلی کی لوڈشیڈنگ ہو یا اس کے بل ہوں۔ یا پھر سندھ میں اسکولوں پر لگے تالے ہوں۔ خصوصاً پاکستان پیپلزپارٹی ایک نئے موڑ پر آئی ہے۔ پنجاب سے ان کی چھٹی ہوئی، بلوچستان میں وہ تھے ہی نہیں، خیبرپختونخوا میں ملے جلے رجحان کے ساتھ کہیں موجود ہوں، لیکن سندھ اور سرائیکی بیلٹ میں پارٹی اب بھی بھرپور طریقے سے وجود رکھتی ہے، ایک لحاظ سے یہ پارٹی اربن سندھ کی بھی مقبول پارٹی نہیں۔ باقی رورل سندھ کے اندر جو مڈل کلاس ہے یہ پارٹی ان میں بھی مقبول نہیں۔ اور بھی اگر غور سے دیکھا جائے تو رورل سندھ میں مڈل کلاس اتنے مضبوط بھی نہیں یا خود وہ سندھی جو شہروں میں رہتے ہیں کہ ان کی نمایندہ جماعتیں اسمبلیوں تک ایک سیٹ لے کے بھی نہیں پہنچیں۔ نہ اب وہ جیالا رہا جو بے نظیر بھٹو کے زمانے تک پایا جاتا تھا۔
اب یہ پارٹی بدنصیبی سے پنچایتی سیاست کرنے والی پارٹی ہے لیکن ہے یہ جمہوریت پرست اور یہ بھی حقیقت ہے کہ خود ان کی کارکردگی کی وجہ سے خود جمہوریت پر دوبارہ سوال اٹھ گئے ہیں، جس بحران کو عمران خان آج کل ان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ پنجاب میں جو نوجوان بلاول بھٹو سے متاثر ہونے تھے ان پر خان صاحب ڈاکہ ڈال چکے۔ ڈاکہ اس لیے کہ نوجوانوں کو خان صاحب شب خوں کے خلاف حساس نہ کرسکے۔
کل جس طرح میں مغربی جمہوریت سے اپنے زمانے میں نالاں تھا، لیکن میری جوانی کے زمانوں میں ایک واضح نظریہ تھا سائنسی طور طریقوں سے حقائق کا ادراک کا طریقہ مجھے سرخوں نے سکھایا تھا۔ ابھی اٹھارہ برس کی عمر تھی جب سیاست کی طرف راغب ہوا۔ میرے پاس ابا کی چھوڑی ہوئی ایک خوبصورت کتابوں کی لائبریری تھی ۔ ادھر سندھ کے دہقانوں کی تحریک تھی اور اس ملک میں پسی ہوئی مظلوم قوموں کی تحریک ۔ لیکن آج میرے بیٹے کے پاس اور اس جیسی سوچ رکھتے ہوئے اربن نوجوان یا دیہی نوجوان کے پاس یہ کچھ نہیں ۔ ان کے پاس آج کل آئے ہوئے ٹاک شوز ہیں۔
مذہبی انتہا پرستی ہے اور مغرب کی ساری ایجادیں استعمال کرتے ہوئے بھی وہ مغرب سے نفرت کرتے ہیں۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ آج عربوں کے اندر سال ہا سال سے رہتی ہوئی آمریتوں نے ان کے سماج میں کتنے تضادات پیدا کردیے ۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ آج ہانگ کانگ کے نوجوان ہانگ کانگ کے اندر جمہوریت کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں جس کے اثرات خود چین کے اندر جائیں گے ۔ وہ امرتا سین کو نہیں پڑھتے، وہ یہ نہیں جانتے کہ جمہوریت اور ترقی ایک سکے کے دو پہلو ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں ۔
ان سارے حقائق سے ایک دن میرا بیٹا یقیناً واقف ہوگا۔ ہاں وہ سیاست کی طرف راغب تو ہوا، اس کے لیے میں عمران خان کا بے حد ممنون ہوں کہ اس کی کرکٹ کی کوکھ سے نکلتی ہے سیاست کے لیے شناسائی اور عورتوں کے لیے قدرتی آزاد فضا۔
لیکن بلاول پھر بھی سوچ سب سے بہتر انداز میں رکھتے ہیں۔ اس کے پاس ایک طرف ٹھیک ہے کہ موروثی سیاست کی تاریخ پڑی ہے لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے کہ اس کے پلڑے میں شہادتوں کی روایت بھی پڑی ہے ۔ ان کے بڑوں نے آمریتوں کے خلاف جدوجہد کی ہے۔ لیکن وہ پھر بھی جاگیرداری رسموں سے بھی جڑے ہوئے رہے ہیں ۔ اب یہ سوال سماج کی ارتقا سے زیادہ منسلک ہے ۔
جب یہی سماج انھیں موروثی سیاست کی اجازت دیتا ہے اور اب بھی سماج میں جہالت کے ڈیرے ہیں تو ان میں ان کا قصور نہیں لوگوں کا قصور ہے ۔ جب سماج انھیں بری حکمرانی کے باوجود بھی ووٹ دیتا ہے تو یہ سوال ارتقا کا سوال ہے ۔ میاں صاحب ہوں یا زرداری یا عمران خان، یا جماعت اسلامی یا مولانا فضل الرحمٰن یا متحدہ ۔ ان سب کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اگر آپ پاکستان کے دوست ہیں تو پھر یہ بات مان لیں کہ پاکستان میں طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں نہ کہ بازوئے شمشیر ۔ اب جو لوگ شب خوں کی طرف دیکھ رہے ہیں وہ اس ملک سے کسی بھی لحاظ سے مخلص نہیں ۔
جمہوریت نہ مشرقی ہوتی ہے نہ مغربی ۔ بس یہ ہوتی ہے اور آج ہر ریاست کے لیے اشد ضروری ہے۔ آج یہ عقابی روح نوجوانوں میں بیدار ہوچکی ہے ۔ آج کل اس کو جھپکنے کے لیے میاں صاحب لیپ ٹاپ کا لارا دے کر تو بلاول ''بی بی کا بیٹا آئے گا روزگار لائے گا'' کا نعرہ دے کر ان کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
لیکن عمران خان یہ بازی ہار گئے ۔ اس کا ''تبدیلی'' والا نعرہ ان کو بہا لے گیا۔ کیونکہ نوجوانی کے اصولی معنی یہ ہیں کہ وہ روایتوں کے خلاف ہوتا ہے اور عمران خان ان کو اس جھانسے سے اپنے جال میں پھنسا لے گئے۔ Ideas کبھی ہارتے نہیں ۔ وہ صرف وقت لیتے ہیں پختہ ہونے میں ۔ یہ نوجوان یقیناً اس پاکستان کو اس اشرافیہ والے پاکستان سے آزاد کرائیں گے ۔وقت تو آنے دیں ۔
بلاول کا یہ کہنا کہ جو لوگ ان کی طرف راغب نہیں ہوتے وہ چاہے بائیں بازو کی سیاست کی طرف راغب ہوں انھیں کوئی اعتراض نہیں یہ بتاتا ہے کہ بلاول کا جھکاؤ کس طرف ہے ۔ بلاول کا جھکاؤ مستقبل کی طرف ہے ۔ وہ پاکستان کے لیے سیکولر خیال رکھتے ہیں اپنی ماں کی طرح۔ لیکن ہندوستان دشمنی کے خیال میں وہ اپنی ماں سے رہبری نہیں لیتے ۔ بلکہ اپنے نانا سے رہبری لیتے ہیں ۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ اس خطے کے امن کا کتنا گہرا تعلق ہے غربت کے خاتمے سے۔ بلاول کو ابھی ڈھیر ساری تاریخ پڑھنی ہے اپنی پارٹی کے روایتی شکنجوں سے اپنے آپ کو آزاد کروانا ہوگا۔ اسے Peter the Great کو پڑھنا ہوگا ۔
اسے اکبر اعظم کو پڑھنا ہوگا کہ کس طرح ایک نے جدید روس کی بنیاد رکھی اور دوسرے نے جدید ہندوستان کی ۔ اور وہ بھی بلاول کی طرح موروثی تاریخ رکھتے تھے ۔ اب وہ کلاسیکل بائیں بازو کی سیاست کے زمانے بھی گئے جب ہم سرخے ہوا کرتے تھے ۔ چی گویرا سے ہمیں رومانس ہوا کرتا تھا اور ''دنیا کے مزدورو! ایک ہوجاؤ'' کے نعرے لگایا کرتے تھے ۔ اب بھی دنیا میں وہ 'نوجوان' زندہ ہے لیکن اب ہم اس ظلم کے خلاف کچھ اور انداز میں لڑیں گے۔ آج پاکستان کے نوجوان کے لیے صرف یہی التجا ہے کہ وہ غریب نوجوانوں کے بند اسکولوں کو ذرا کھلوا دیں ان کی رکھوالی کریں تاکہ وہ غریب نوجوان اپنے خاندان کو غربت سے آزاد کرا سکے۔