مجرمانہ غفلت کا شکار صحت کا شعبہ
آپ جب بھی گلی کوچوں اور بازاروں سے گزرتے ہیں تو طرح طرح کی دواؤں کے اشتہار آپ کو دیواروں پر تحریر کیے ہوئے نظر آتے ہیں
SEOUL:
وطن عزیز میں پولیوکی یلغار میں کمی آنے کے بجائے مزید شدت اور اضافے کا تشویشناک سلسلہ بدستور جاری ہے، اس کالم کو سپرد قلم کرتے وقت نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کی پولیو وائرولوجی لیبارٹری کی جانب سے اس خبر کی تصدیق کی جاچکی ہے کہ پولیو کے مزید 10 تازہ ترین کیس رجسٹرڈ کیے گئے ہیں جس کے بعد سال رواں کے دوران پولیو کا شکار ہونے والے بد نصیبوں کی تعداد 184 ہوگئی ہے۔
وزیراعظم کے مانیٹرنگ اینڈ کو آرڈینیشن سیل برائے پولیو کی فراہم کردہ اطلاعات کے مطابق فاٹا سے پولیو کے6 نئے کیس رپورٹ ہوئے ہیں جب کہ خیبر پختونخوا اور صوبہ سندھ سے پولیو کے دو نئے مریضوں کی اطلاع موصول ہوئی ہیں، بنوں کے سرحدی علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک گاؤں میں 10 ماہ کی عمر کا ایک لڑکا اور ایک اور گاؤں سے چھ ماہ کی ایک لڑکی کے پولیو کے مرض کا شکار ہونے کی خبریں بھی موصول ہوئی ہیں، اس کے علاوہ شمالی علاقہ جات کے دیگر گاؤں دیہاتوں سے بھی پولیو کے کیسز کی اطلاعات موصول ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔
صوبہ سندھ میں پولیو میں مبتلا ہونے کے دونوں کیسزکا تعلق کراچی کے علاقے گڈاپ سے ہے، فاٹا میں انسداد پولیو مہم کی ناکامی کا سب سے بڑا سبب وہ پابندی بتائی جاتی ہے جو طالبان کی جانب سے جون 2012 میں عائد کی گئی تھی، اس پابندی کے نتیجے میں پولیو کے مرض کی روک تھام کی کوششوں کو بڑا زبردست دھچکا پہنچا ہے۔ ایک جانب فرسودہ خیالات کے لوگوں کی اچھی خاصی تعداد کی سوچ پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں جب کہ دوسری جانب انسداد پولیو کی مہم کی انتہائی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔ خیبر پختونخوا کے سولہ ہزار سے زائد بچوں کے والدین نے پولیو کے قطرے پلوانے سے انکار کردیا۔
دواؤں میں ملاوٹ کا کاروبار سالہا سال سے مسلسل ترقی کررہاہے جس کی پشت پناہی میں ہمارے ارباب بست و کشا بھی شامل ہیں۔دواؤں میں ملاوٹ اور جعلی دوائیں فروخت کرنے کے خلاف آج تک کسی نے کوئی احتجاجی مہم نہیں چلائی۔ ادھر ہربل دواؤں کا کاروبار بھی عروج پر ہے جس کی اشتہاری مہمات پر بے دریغ روپیہ پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔ معصوم لوگ دواؤں کے اشتہاروں پر اعتقاد اور اعتماد کرکے اپنے خون پسینے کی کمائی خرچ کر دیتے ہیں اور دھوکا بازی کا نشانہ بن کر نہ صرف مالی نقصان اٹھاتے ہیں بلکہ اپنی صحت و تندرستی کو بھی تباہ و برباد کرتے ہیں اور کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہوتا۔ رہی بات شکایت اور داد رسی کی تو اصل صورت حال یہ ہے کہ بقول شاعر:
ہم نے سوچا تھا کہ حاکم سے کریں گے فریاد
وہ بھی کمبخت تیرا چاہنے والا نکلا
رہی بات ہمارے عدالتی نظام کی تو وہ انتہائی مہنگا بھی ہے اور دشوار بھی۔ عام آدمی کے بس کی بات ہی نہیں ہے کہ وہ عدالت کا رخ کرسکے اور اپنی کمائی لٹاتا اور اپنی جوتیاں گھساتا ہوا پھرے۔ ویسے بھی Justice Delayed is Justice Denied عدالتوں میں شریف آدمی کو کتنے دھکے کھانے پڑتے ہیں یہ حقیقت بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔
آپ جب بھی گلی کوچوں اور بازاروں سے گزرتے ہیں تو طرح طرح کی دواؤں کے اشتہار آپ کو دیواروں پر تحریر کیے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کیا محکمہ صحت کے کرتا دھرتا اندھے ہیں کہ انھیں یہ سب کچھ نظر نہیں آتا یا پھر ان کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے۔ اس سے بھی برا حال اشتہاری ڈاکٹروں اور حکیموں کا ہے۔ جو نیم حکیم خطرۂ جان کے مصداق بھولے بھالے عوام کی جان و مال کے ساتھ کھیل رہے ہیں اور کوئی ان سے باز پرس کرنے والا نہیں ہے، غریبوں کی آبادیاں اور بستیاں جنھیں Slum Areas کہا جاتا ہے۔ اتائی ڈاکٹروں اور حکیموں کی جنت ہیں۔ ان ظالم اتائیوں کے زیادہ تر کلینکس اور مطب ان ہی بستیوں میں پھیل پھول رہے ہیں۔
بڑے بڑے پرکشش سائن بورڈز لگا کر یہ دھوکہ باز بھولے بھالے عوام کو بڑے دھڑلے کے ساتھ دن رات لوٹ رہے ہیں اور کسی قانون نافذ کرنے والے ادارے یا اس کے اہل کار کی مجال نہیں کہ ان پر ہاتھ ڈال سکے۔ صاف ظاہر ہے کہ لوٹ مار کا یہ مذموم اور گھناؤنا کاروبار پولیس کی غفلت یا چشم پوشی کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتا۔ محکمہ صحت کی ملی بھگت کا اس میں شامل ہونا بھی شرط اول ہے، کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ اتائیوں کے خلاف باقاعدہ مہم چلائی جاتی ہے جس کی بڑے پیمانے پر تشہیر بھی کی جاتی ہے اور تھوڑی بہت پکڑ دھکڑ بھی کی جاتی ہے جس کا مقصد دنیا دکھاوے بلکہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے سوائے اور کچھ نہیں ہوتا۔ انجام کار اس طرح کی مہم کا حشر بھی انسداد گداگری یا ہفتہ ٹریک جیسی نمائشی مہموں جیسا ہوتا ہے۔
اتائی حکیموں اور ڈاکٹروں میں سب سے بڑے لٹیرے وہ ہیں جو پوشیدہ بیماریوں کے شرطیہ علاج کے پر زور اور بلند و بانگ دعوے کرکے معصوم اور بھولے افراد کو نہایت عیاری اور لوٹریانہ مکاری کے ساتھ اپنے چنگل میں پھنساکر ان کی جیبوں پر ڈاکے ڈالتے ہیں اور نہ صرف ان کی صحت اور زندگیوں سے بلکہ ان کی نیک نامی سے بھی کھیلتے ہیں۔ مختلف ناموں سے کھلے ہوئے ان کے نام نہاد کلینکس در حقیقت ان کی کمین گاہیں ہیں جن میں لٹکے ہوئے پردوں کی آڑ میں چھپ کر اشتہاری عاملوں اور جوتشیوں کی طرح اپنے بھولے بھالے مجبور لوگوں کا شکار کھیلتے ہیں، گلی کوچوں اور بازاروں کی دیواریں ان کے جھوٹے اور پر فریب اشتہاروں کے لیے گویا وقف ہیں جس کے خلاف کوئی ایکشن لیتے ہوئے ہم نے انتظامیہ کے کسی ادارے کو آج تک نہیں دیکھا۔ ان کے کرائے کے لوگوں کو پبلک ٹرانسپورٹ میں بے دھڑک پوسٹرز، ہینڈبلز اور دیگر تشہیری لٹریچر تقسیم کرتے ہوئے ہماری طرح آپ نے بھی اکثر دیکھا ہوگا۔
ان میں سے بعض اشتہاروں کی زبان تو فحاشی تک کے زمرے میں آتی ہے۔ طرفہ تماشہ یہ کہ اس قسم کے ہینڈ بلز اور اشتہار تقسیم کرنے والے کرائے کے ٹٹو بسوں، ویگنوں اور کوچوں کے اندر لیڈیز کمپارٹمنٹ میں بیٹھی ہوئی خواتین کی شرم و حیا کا بھی کوئی لحاظ نہیں کرتے۔ یوں تو ہمارے ملک میں ہر شعبے کا ہی حال برا ہے لیکن شعبہ تعلیم اور شعبہ صحت کا حال اس قدر ابتر ہے کہ ان پر فارسی کی مشہور کہاوت ''تن ہمہ داغ داغ شد پنبہ کجا کجا نہم'' حرف بہ حرف صادق آتی ہے۔
یہ وہ اونٹ ہیں جن کی کوئی کل بھی سیدھی نہیں ہے، اسے مجرمانہ حکومتی غفلت کے سوائے اور کچھ نہیں کہا جاسکتا، اصل تو جو فنڈز ان شعبوں کے لیے مختص کیے جاتے ہیں ان کی مقدار اونٹ کے منہ میں زیرہ سے زیادہ نہیں ہے جس میں نہ صرف موجودہ بلکہ ماضی کی وفاقی اور صوبائی دونوں ہی حکومتیں شامل ہیں، دوسری جانب یہ انتہائی محدود فنڈز بھی اس بد عنوانی اور کرپشن کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں جو ہمارے اداروں کو سرطان کی موذی بیماری کی طرح بری طرح لاحق ہے۔
اس حوالے سے یہ دو خبریں تازہ ہوا کے جھونکوں کی طرح انتہائی خوشگوار ہیں کہ گزشتہ پیر کے روز یعنی 29 ستمبر کو صوبہ بلوچستان کے 30 میں سے 27 اضلاع میں انسداد پولیو کی مہم کا پرجوش آغاز ہوا۔ دوسری اچھی خبر یہ کہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک نے انکشاف کیا ہے کہ کرپشن کے 300 معاملات کی تفتیش کا آغاز کردیاگیا ہے۔
دوسری جانب یہ خبر بھی قابل ذکر اور خوش آیند ہے کہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے پر زور مطالبہ کیا کہ ملک میں تعلیم و صحت کی بہتری کے لیے بھرپور اور موثر اقدامات کیے جائیں اس کے ساتھ ہی ساتھ انھوں نے حزب اختلاف کی تمام سیاسی قوتوں سے بھی اس نیک کام میں اپنا اپنا حصہ ڈالنے اور حکومت وقت کا ہاتھ بٹانے کی بھی اپیل کی ہے تاکہ ہماری موجودہ اور آنے والی نسلیں ترقی اور خوش حالی کے ثمرات سے فیض یاب ہوسکیں۔