معاشرتی بگاڑ…ادب سے دوری

آج تعلیم حاصل کرنے کا مطلب صرف اپنے نصابی مضامین پر توجہ دے کر اعلیٰ گریڈ حاصل کرنا رہ گیا ہے


نجمہ عالم October 04, 2014
[email protected]

لاہور: اردو ناول کے پس منظرکو پڑھاتے ہوئے طلبا کوکچھ اردو نثر کے ارتقا کے بارے میں بتایا جاتا ہے تاکہ وہ اس ادبی پس منظر سے واقف رہیں جس میں ناول نگاری کا آغاز ہوا یعنی ناول داستانوں کی ارتقائی شکل ہے۔ جب انسان کے پاس وقت تھا اس کا مصرف بھی کوئی خاص نہ تھا تو فرصت کے باعث اپنے وقت کا استعمال کسی صورت توکرنا تھا (کیونکہ نہ اتنے چینلز تھے نہ کمپیوٹر نہ تفریح کے خاص ذرایع) لہٰذا طویل داستانیں سننا اور سنانا کوئی مسئلہ ہی نہ تھا۔

مگر وقت کے ساتھ ساتھ جب انسان کی مصروفیات میں اضافہ ہوتا گیا تو اب وہ اپنے ادبی ذوق کی آبیاری کے لیے کسی مختصر ادبی پارے کی طرف متوجہ ہوا، ''ضرورت ایجاد (تخلیق) کی ماں'' کے تحت ناول کی صورت گری ممکن ہوئی اور ناول تشنگان ادب کی سیرابی کا سبب بنے اگرچہ ڈپٹی نذیر احمد کو پہلا ناول نگار کہا جاتا ہے مگر ناول کی صورت گری اردو نثر میں اس سے قبل بھی کہیں کہیں نظر آتی ہے (آج کل تو نذیر احمد کے ناولوں کو ناول تسلیم ہی نہیں کیا جا رہا کیونکہ جو ناول ہمارے پاس انگریزی ادب سے ہوتا ہوا آیا ہے ان کے ناول ان اصولوں پر پورے نہیں اترتے(بہرحال یہ الگ موضوع اور الگ بحث ہے) وقت کا پہیہ گھومتا رہا اور انسانی مصروفیات میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا گیا۔ عدیم الفرصتی انسانی معاشرے کا المیہ بنتی گئی۔ مگر ادبی ذوق بالکل ہی ختم نہیں ہوگیا ادب کے شائق اور متلاشی ہر دور ہر زمانے میں موجود رہے لہٰذا باذوق افراد کے لیے کم وقت میں ذوق کی تکمیل کا ذریعہ افسانے اور پھر مختصر افسانے نے لے لی۔ مگر نظام تعلیم نے طلبا کو کتاب سے دور اور ادب سے بیگانہ کردیا۔

آج تعلیم حاصل کرنے کا مطلب صرف اپنے نصابی مضامین پر توجہ دے کر اعلیٰ گریڈ حاصل کرنا رہ گیا ہے رہی سہی کسر نجی تعلیمی اداروں نے (سب نے نہیں مگر اکثریت نے) پوری کردی ہے جہاں غیر نصابی سرگرمیاں محض رقص و موسیقی تک محدود ہوگئی ہیں۔ کوئی ادبی یا معلوماتی مذاکرہ، مباحثہ، بیت بازی یا مقابلہ شعر گوئی ان سرگرمیوں میں شامل ہی نہیں رہا، اب تو نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ اگر کسی ادارے میں کسی موضوع پر مباحثہ منعقد بھی کیا جائے تو خود منتظمین اس کے قواعد و ضوابط سے پوری طرح آگاہ نہیں ہوتے۔ غرض یہ کہ آج جو ادب (اردو یا انگریزی) کے طالب علم ہیں وہ بھی سوائے شامل نصاب ادبا و شعرا کے اور کسی سے واقف نہیں ہیں۔

قصور اس میں صرف طلبا کا نہیں ان اساتذہ کا بھی جو نصاب مکمل کرانے کے علاوہ اپنی کوئی ذمے داری محسوس ہی نہیں کرتے اور ان کے طلبا کو برسوں پرانے نوٹس حرف بہ حرف لکھواتے رہتے ہیں وہ خود بھی ادب کی موجودہ رفتار سے ناواقف ہیں۔ اچھے پڑھے لکھے افراد کو یہ کہتے سنا ہے کہ آج دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی سائنسی ترقی کے اس شاندار دور میں بھلا گل بلبل، لب و رخسار سے مزین شاعری یا ادب پڑھنے کا کیا جواز؟ سن کر حیرت ہوتی ہے کہ سائنسی ترقی نے کیا انسان کو بھی مشین بنادیا ہے۔

کیا آج کے انسان کے پاس دل و دماغ نہیں؟ کیونکہ اگر دماغ ہے تو کوئی نہ کوئی خیال اس کے ذہن میں رہے گا وہ خواب دیکھے گا اور ان خوابوں کو تعبیر بھی دینے کی کوشش کرے گا۔ اور صاحب دل ہے تو ہر طرح کے احساسات، جذبات اور محسوسات میں گھرا رہے گا۔ انسان ہے اور جیتا جاگتا انسان ہے تو وہ محبت بھی کرے گا نفرت بھی، وہ خوش بھی ہوگا اور غمزدہ بھی، وہ کسی کو پسند کرے گا اور ناپسند بھی۔ یعنی خواب دیکھنا اور اپنے احساسات و جذبات کا اظہار کرنا زندگی کی علامت ہیں اس صورتحال کو انتہائی فصاحت و بلاغت کے ساتھ ڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے اس طرح پیش کیا ہے کہ:

میں ایسے شخص کو زندوں میں کیا شمار کروں
جو سوچتا بھی نہیں خواب دیکھتا بھی نہیں

ذکر تھا سائنسی ترقی کے دور میں ادب پڑھنے یا ادب سے دلچسپی رکھنے کی ضرورت کا۔ تو کیا آج کے انسان کے جسم میں گرم خون نہیں پٹرول یا تیل رواں دواں ہے کیا آج کا انسان ہر طرح کے احساسات و جذبات سے عاری ہوگیا ہے۔ تو جب وہ سوچ بھی رہا ہے نفرت، محبت، تعصب، موافقت ومخالفت میں اپنا خاص نقطہ نظر رکھتا ہے تو پھر تو ادب تخلیق بھی ہوتا رہے گا اور انسان سے اس کا تعلق بھی برقرار رہے گا۔ کیونکہ ادب انسانی جذبات، احساسات، محسوسات اور مشاہدات کا ہی تو آئینہ دار ہے۔

ترقی کے نام پر جب انسان کو ادب سے دور کردیا جاتا ہے تو پھر وہ انسان نہیں محض ایک چلتی پھرتی مشین یا روبوٹ رہ جاتا ہے۔ وہ بھی اپنے جیسے انسانوں کے جذبات خوشی و غمی آسودگی اور پریشانی سے بے خبر ہوکر نہ ان کی خوشی میں خوش اور نہ دکھ پر غمزدہ ہوتا ہے بلکہ انسان اس کی نظر میں سب سے بے وقت شے ہوکر رہ جاتا ہے۔

آج ہمارا معاشرہ جس ڈگر پر چل رہا ہے وہ اس صورتحال کی مکمل عکاسی کر رہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ادب کو زندگی خاص کر تعلیمی اداروں میں اس کا اصل مقام دیا جائے جس کے لیے ضروری ہے کہ استاد کسی بھی مضمون کا ہو اس کا ادبی ذوق بلند اور مطالعہ وسیع ہو۔ اگر سائنسی مضامین بھی ادب کے ذریعے انسانی رویوں اور حالات کے ذریعے سمجھائے جائیں تو نتائج زیادہ بہتر برآمد ہوں گے۔ سائنس کی ترقی بھی سائنس فکشن ہی کے باعث ممکن ہوئی طوالت میں نہ جاتے ہوئے صرف ایک اشارہ کافی ہے کہ اڑن طشتری کا ذکر برسوں پہلے کے ادب میں ملتا ہے جس کی حقیقی شکل ہوائی جہاز ہی نہیں بلکہ خلائی راکٹ نے اختیار کی۔ غالب کے زمانے میں تو انسان نے خلا میں قدم نہیں رکھا تھا، طبی سائنس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی کہ اعضا کی پیوندکاری ہونے لگے مگر انھوں نے اپنے تخیل سے ہی ایسے اشعار ہمیں دیے:

ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب
میں نے دشت امکاں کو ایک نقش پا جانا
یا
تم شہر میں ہو' تو ہمیں کیا غم جب اٹھیں گے
لے آئیں گے بازار سے جاکر دل و جاں اور

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان اگر ادبی ذوق کا حاصل ہوگا تو وہ دوسروں کے جذبات و احساسات کو جلد محسوس کرکے اس کے تحت اپنے رویے کا تعین کرے گا ہم کسی کے دکھ، پریشانی، خوشی اور ترقی کا اندازہ کرکے اگر اپنے تعلقات استوار کریں تو معاشرتی تعلقات میں بہتری کا رجحان نہ صرف غالب رہے گا بلکہ معاشرہ غیر انسانی طرز عمل سے بڑی حد تک پاک ہوجائے گا۔ اگر انسان چاہتا ہے کہ اس کی عزت کی جائے اس کے جذبات کا خیال رکھا جائے باالفاظ دیگر ہر انسان کو انسان سمجھا جائے اور برابری کا درجہ دیا جائے تو وہ خود بھی دوسروں کے ساتھ عزت و احترام کے ساتھ پیش آئے۔ معاشرہ انسان ہی بناتا ہے اور انسان ہی بگاڑتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں